اردو-سنسکرت ہند-پاک کا مشترکہ کلچر اور روح ہے

 Literature's are without boundaries let language be your wings to the world, language is the main source of communication and expression of ideas and thoughts of the people and literature is the most effective tool to disclose a person's emotions and feelings that represents, at large the environment and society around the persons. I wish to develop and enlarge language ability in the students and to promote literary interest in creating and expressing their feelings and emotions in their writings.
Urdu language and literature has a long and colorful history that is inextricably tied to the development of that very language, Urdu, in which it is written. While it tends to be heavily dominated by poetry, the range of expression achieved in the voluminous library of a few major verse forms, especially the Ghazal and Nazm (poetry), has led to its continued development and expansion into other styles of writing, including that of the short story, or Afsana.
Urdu literature is principally popular in India and Pakistan. Additionally, it enjoys substantial popularity among South Asian immigrants in North America, Europe and Middle East and usually around the world. It is widely understood in Afghanistan. Urdu is finding interest in North American, European and South Pacific Asian countries primarily through South Asian immigrants.

کسی ملک کی تاریخ میں تہذیب سے ہی اس کی شناخت ہوتی ہے۔دیکھا جاتا ہے کہ تہذیب کی اساس کیاتھی ،کس حد تک اس میں اخذ وقبول کی صلاحیت تھی اور کس حد تک دوسرے تہذیبی دھاروں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی سکت یا قوت تھی۔ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے مختلف تہذیبی دھاروں سے اپنی شناخت یا پہچان بنائی ہے اورہزاروں برس کی اقوام عالم کی تاریخ میں اگر آج ہندوستان زندہ ہے تو اس کا سبب اسکے مختلف علاقوں کے تہذیبی دھارے تھے جوایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود مشترکہ عناصر بھی رکھتے تھے۔ان تمام تہذیبوں کے مختلف رنگ تھے مگر سب مل کر ایک رنگ تھا جسے ہندوستانی تہذیب کہاجاتاہے ۔بالکل اسی طرح جیسے انسانی وجود میں ہاتھ کی انگلیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں مگرسب ایک ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں۔سنگم پر گنگا اور جمناکے پانی کا رنگ مختلف ہوتاہے مگر بہر حال وہ ایک ہوتاہے ۔

کسی بھی ملک کی تاریخ ،ادب یا ثقافت کو نزدیک سے جاننے اور سمجھنے کا سب سے اچھا ذریعہ اس ملک کی زبان ہوتی ہے ہندوستان ملک کی عظمت اور رنگار رنگی کا اندازہ یہاں کی زبانوں سے ہوتاہے ۔ہمارے آئین میں ملک کے سبھی طبقوں اور سبھی لوگوں کی آرزوؤں اور امنگوں کی عکاسی کی گئی ہے۔اس سے ہم آہنگی کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ ہندوستان کی اتحاد واتفاق کو مضبوطی عطا کر نے والی ہے۔ اجنتا،الورا،تاج محل اورلال قلعہ ہماری ساجھی وراثت ہیں اور ہندوستان کے سبھی باشندے اس سا جھی وراثت کے امین ہیں،چاہے وہ کسی بھی زبان یا مذہب کے ماننے والے ہوں۔عبادت کا طریقہ بدل جانے سے کوئی اپنی تہذیب سیکٹ نہیں جا تا ۔ہماری ساجھی وراثت کی مثال ایک ایسے خوبصورت اور پہلے لباس سے دی جا سکتی ہے جو بھاشاؤں کے رنگ برنگے تانے بانے سے بہت ہی باریکی کے ساتھ تیار کیا گیا ہے۔ بھاشاروپی یہ مہین اور خوبصورت دھاگے اپنی الگ الگ پہچان رکھتے ہیں ۔ان میں ہرایک کی اپنی خوبیاں ہیں لیکن ان کی خوبصورتی ،ان کی سماجی اہمیت اوران کی تکمیل ایک دوسرے کے وجود پرمنحصر ہے،اوران سب کی مشترک پہچان نہ صرف ان کے اپنے وجود کو معنی دیتی ہے،بلکہ متحدہ ہندوستان کی عزت کو قائم رکھنے میں ہم رول ادا کر تی ہے۔

میرے خیال میں برصغیر ہند-پاک مہاجروں کا ملک ہے کیونکہ یہاں کی آبادی کی اکثریت ایسی ہے جن کا آباواجداد باہر سے ہند-پاک آئے تھے، جن کا رنگ، نسل ،زبان اورروایات مختلف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سیکولرزم اور سب کو آزادی بہت ضروری ہے ورنہ یہ ملک نہیں چل سکتا۔ ہمارے چہار سمت پڑوسی ممالک اس کی مثال ہے۔ جہاں پیہم خون خرابہ اور تشدد کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ سیکولرزم کی بنیادبادشاہ اکبر نے ڈالی تھی۔ ان کے بعد دوسرے حکمراں جن میں ٹیپو سلطان اور نواب واجد علی شاہ وغیرہ بھی شامل تھے، سب کے سب سیکولر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان میں محمدعلی جنا اور دوسرے رہنما اور ہندوستان میں مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد ،محمد علی جوہر، حسرت موہانی،سردار پٹیل، بال گنگا دھر تلک،سبھاش چندر بوس اور ان کے ساتھیوں نے انہی کی سیکولر اور جمہوری اوصول اور پالیسی کو اختیار کیا اور حکومت سازی کے لیے اپنا رہنما بنا یا۔ مشترکہ کلچر جو ایک طرح سے اردو۔ سنسکرت،پنجابی،سندھی، بھوجپوری، بنگالی، بلوچی، سرائیکی وغیرہ وغیرہ کلچرہے ہند-پاک کا اصل کلچر ہے۔

میں یہاں ہندوستانی تناظرکی روشنی میں کہنا چاہوں گا کہ افسوس کہ ان میں سے آج ہندوستان میں اردو اور سنسکرت دونوں سے ہی ہماری نسل ناواقف ہے۔ انگریزوں نے ہندواور مسلمانوں کو الگ الگ کرنے کے لیے ہندی کو ہندؤں اور اردو کو مسلمانوں کی زبان کہنا شرو ع کردیاجبکہ اردو ادب اور تہذیب مکمل طور پر سیکولرہے۔ انگریزی،اردو ،ہندی ترجمہ میں میں نے دنیا بھر کی زبانوں کی شاعری پڑھ ڈالی ہے لیکن اردو شاعری میں دل کی جو آواز نکلتی ہے وہ کسی اورزبان میں نہیں دیکھی۔ افسوس کہ ہم اہل ہند اردو کو مسلمانوں کی زبان کہہ کراتنے بہترین سرمایہ کو گنوا رہے ہیں۔ اردو محض ایک زبان ہی نہیں ایک تہذیب کانام ہے، جسے فنا کرنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں،اگر یہ زبان ختم ہوگئی تو ہم سب بھی ایسے ہی گم ہوجائیں گے جیسے جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مجاہدین مثلاً علی برادران، مولانا آزاد، شیخ عبداﷲ وغیرہ کا نام لیوانہیں ہے۔ انگریزی اورہندی میڈیا تو ہمیں کوئی جگہ دینے کو تیار نہیں ہے اگر اردو صحافت نہ ہو تو ہماری بات بھی لوگوں تک نہ پہنچے۔ ان حالات کے لیے ہم بھی ذمہ دار ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو اردونہیں پڑھائی۔ آج اگر اردو زندہ ہے تو ٹی وی سیریلزاور اس پر آنے والے متعدد کمپنیوں کے پرچار اشتہاراور فلموں کی وجہ سے یا عدالتوں میں جہاں آج بھی ملزم، مجرم،موکل، وکالت نامہ کا ترجمہ نہیں ہوا اور ’’انصاف‘‘ بھی صرف وہیں سے مل سکتا ہے۔ فلموں نے اردو کوزندہ رکھا جب مغل اعظم اور مدر انڈیا کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا وقت آیا تو ان کا سرٹیفکیٹ ’ہندی‘ میں لینا پڑا۔ اردو کو ختم کرنے کی کوشش کرنے والوں کی تقریریں بھی اردو کے اشعارسے شروع اور ختم ہوتی ہیں۔ہندی کے اخبارات ،رسائل وجرائدہی نہیں بلکہ علمی ،ادبی اورنصابی کتابوں سے اگر اردو کے الفاظ نکال دیے جائیں تو مذکورہ سارے مضامین کے موضوعات محملات کی شکل اختیار کرلیں گی۔ دہلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ تو دیاگیا لیکن ہندوستان کے یونیورسٹیوں،کالجوں، اسکولوں اور حکومت ہند کے جملہ شعبہ میں اردواساتذہ اور افسران نہیں ہیں۔ کیا ٹیچر اور دیگرملازم مہیا کرانا حکومت ہند کی ذمہ داری نہیں ہے؟

ہندوستان میں ہر زبان کی ماں سنسکرت ہے لیکن وہ تو خود کتابوں میں سمٹ گئی اورمر گئی، اب ہم ملک کے مشترکہ تہذیب کا تحفہ دینے والی زبان اردو کا بھی تحفظ نہیں کر پارہے ہیں۔ یہ سوچ غلط ہے کہ اردو پڑھ کر کوئی نوکری نہیں ملے گی بلکہ ایک سے زیادہ زبانیں جاننے والوں کے لیے زیادہ متبادل ہوتے ہیں شرط یہ ہے کہ ہمارے اردو کے اساتذہ اور طلبا اردوکے ساتھ ساتھ اور کئی بین القومی اور بین الاقوامی زبانیں مثلاً ا نگریزی ،ہندی، عربی ، فارسی، سنسکرت،اطالوی، چینی ،جاپانیز وغیر وغیرہ زبانوں پرلکھنے ،پڑھنے اور بولنے میں دست عبور حاصل کریں۔اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو کسی طرح کے احساس کمتری کا شکارنہیں ہونا چاہیے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ اردو میڈیم سے پڑھائی کرکے لوگ ترقی کی بلندیوں تک پہنچے ہیں۔ موجودہ تناظر میں زبانوں کے تعلق سے ہمارا ذہن صاف ہونا چاہے۔ ایسا ہی معاملہ جنوبی ہند کی ریاستوں کا بھی ہے لیکن اردو کا اپنا کوئی صوبہ نہیں ہے۔ کشمیر میں اردوسرکاری زبان ہے لیکن وہاں کشمیریت زیادہ حاوی ہے۔ اردومیڈیم کو کم سے کم ہائر سیکنڈری تک منظور کیا جانا چاہیے۔ سہ لسانی فارمولہ پرآج تک صحیح طریقے سے عمل نہیں ہوا۔ تیسری زبان کے طور پر مانگنے پر بھی اردو نہیں دی جاتی یہ سوچ قطعی غلط ہے کہ اردو میڈیم سے پڑھ کر ہم پسماندہ رہ جائیں گے۔ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔

میراماننا ہے کہ تعلیم کا مقصد اعلیٰ انسانی قدروں کو استوار کرنا ہے اور اردو تعلیم کے ساتھ ہندوستان کا مستقبل وابستہ ہے۔ اس لیے کہ اردو زبان ادب کے فروغ میں ہند وستان کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی تمام مذاہب کے افراد نے نمایاں رول ادا کیا ہے۔ مغرب کے مادی نظام تعلیم وتربیت نے انسان کو بے راہ روی کے راستہ پر ڈال دیا ہے، جبکہ تعلیم کا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا اہم اوربنیادی کام انسان کی سیرت واخلاق کو اعلیٰ انسانی قدروں پر استوار کرنا ہے اورایسے افراد تیار کرنا ہے جو انسانیت کے لیے نفع بخش ہوں لہٰذا ہمیں عصری تقاضے کی روشنی میں مغربی تہذیب وتمدن کا اخذوقبول کرنا تو چاہیے مگر خیال رہے کہ ہماری مشرقی شناخت پر حرف نہ آئے جو ہماری شریعت کے لیے لفظ الف یعنی حکم کا مقام رکھتی ہے ۔

عصری تقاضے کی روشنی میں میں نے دونوں نظام تعلیم اسلامی اور مغربی یعنی عصری کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس میدان میں میرا طویل تجربہ بھی ہے۔ عصر حاضر کے تقاضے کی روشنی میں موجودہ نسل معلومات تو رکھتی ہے لیکن وہ تربیت سے بیگانہ ہے اور جب ایسے افراد تعلیم وتربیت کے میدان میں آئیں گے اور ان سے جو نسل تیار ہوگی اس کی اخلاقیات کا آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ کس طرف گامزن ہے خیر یا شر؟۔

اردوہندوستان کی زبان ہے اور ہندوستان کا ماضی اس سے وابستہ رہا ہے حال میں اس کا رشتہ یہاں کے عوام سے کمزور ہوا ہے لیکن خوبصورت ہندوستان کا مستقبل اردوکے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے، تقسیم وطن کے بعد اس پر بہت کٹھن وقت آ پڑا، آزادی کامل کا اعلان ہوا، خیالات ،افکار،مکتب فکر، مذاہب، طرز تحریر اور طرز بیاں بٹ گیا، ترسیل وابلاغ میں جمودو تعطل کا حکم ہوا۔ لہٰذااس کے نتیجے میں اردو پر غداری کا الزام لگا ، مگر یہ الزام لگانے والے صفحۂ ہستی سے غائب ہوگئے، اردو آج بھی باقی ہے اس لیے کہ اس کی آبیاری میں او ل تو ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں نے کلیدی رول ادا کیاہے اور دوئم پوری دنیا کے قوموں کا خون جگر بھی شامل تھا اور رہے گا اس کا زندہ مثال پورے عالم میں اردو کی نئی بستیاں قائم ہوچکی ہیں اور اردوزبان وداب کا فروغ عالمی پیمانے پر ہورہا ہے۔

پورے عالم میں آزادی کے بعد اردو کو ایک مخصوص مذہب یعنی مسلمان سے جوڑدیا گیا جو غلط تھا اور ہے، کیونکہ اول تو اردو ہندوستان کی قومی زبان ہے دوئم دیکھا جائے تواردو عالم گیرسطح پر بین الاقوامی زبان ہے ۔اس بات کو یوں سمجھاجاسکتا ہے کہ صدیوں تک ہندوستان پر حکومت کرنے والا ملک برطانیہ ہندوستان پر اپنا قبضہ کرنے اور تسلط بنانے کے لیے اردوزبان وادب کا سہارا لے کر کامیابی اور کامرانی حاصل کیا۔ ہندی فارسی کا لفظ ہے اور اردو سنسکرت کا جس کے مطلب ہوتے ہیں،’ ار‘ یعنی دل اور دو یعنی دو دل اردو دو دلوں کو جوڑنے والی زبان ہی نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے دلوں کو جوڑ کر اپنی بین الاقوامی شناخت بنا چکی ہے۔

آج کے دور میں اردونے عالمی حیثیت اختیار کرلی ہے اس کا احساس ہمیں ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پورے عالم میں اردو کو روزی روٹی سے جوڑنا اردو زبان کی ضرورت اور تقاضے کو پورا کرنا ہے، اس لیے اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے ٹھوس اقدام کرنے چاہیے۔ اردو زبان کی عالمی حیثیت ہونے کے باوجود بطور خاص ہندوستان میں اردو کے بانی کہے جانے والے لوگ اردو سے بے پروا ہ ہیں جبکہ اس کی ترقی اورفروغ کے لیے ہمیں آگے آنا چاہیے۔ اردو لشکری زبان ہے اس میں دیگر زبانوں کے الفاظ شامل ہونے سے یہ ہماری زبان ہوگئی ہے۔ پورے عالم میں اس نے اپنی مٹھاس سے عام لوگوں کے دلوں کو جیتا ہے او رہماری تہذیب وتمدن کو خوبصورت الفاظ کا لباس پہنا یا ہے۔ اردو کو پستی کی طرف لے جانے میں ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ فی زمانہ مغرب پرست اور خاص طور پر ہم مسلمان اردو کا مطالعہ تو کیا اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم نہیں دلاتے ہیں۔ جوافسوسناک ہے۔

So every moment read, write and speak and wear the culture of Urdu, Urdu language Urdu language and literature has a long and colorful history that is inextricably tied to the development of that very language, Urdu, in which it is written. While it tends to be heavily dominated by poetry, the range of expression achieved in the voluminous library of a few major verse forms, especially the Ghazal and Nazm (poetry), has led to its continued development and expansion into other styles of writing, including that of the short story, or Afsana.
Urdu language and literature aspires to be one of world's leading language providing innovative, responsive and high quality job opportunities all over the world. i hope to enable individuals to realize and develop to the fullest their educational and intellectual potentialities; promote social and human values in order to build a strong character, as also inculcate scientific temper and moral values; to facilitate pursuit of knowledge and academic excellence in the light of call of times.
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 121049 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More