8سال،10مہینے اور 8دن

یہ اکتوبر 1999ءکی بات ہے،شام کے پونے ساتھ بج رہے تھے،کولمبو میں بارش کی ہلکی ہلکی پھوار موسم کو مزید خوشگوار کررہی تھی،ایسے میں پاکستا ن کی ایک کمرشل فلائٹPK-805سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے پاکستان کے لیے اُڑان بھرنے کو تیار تھی،ابرآلود موسم اور بونداباندی کی وجہ سے جہازنے تھوڑی تاخیرسے ٹیک آف کیا،اس طیارہ میں اس وقت کے پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف سمیت پاکستان آرمی کے کئی سینئرآفیسرز محوِ پرواز تھے،یہ لوگ سری لنکا کی آزادی کے گولڈن جوبلی کی تقریب میں شرکت کرکے واپس آرہے تھے، طیارہ ابھی کراچی کی فضائی حدود میں 800فٹ کی بلندی اور 10منٹ کی مسافت پر تھا،اچانک کنٹرول روم سے پائلٹ کو جہاز لینڈ کرنے سے روک دیا گیا،ساتھ ہی رَن وے کی تمام لائٹس آف کردی گئیں،PK-805کو کنٹرول ٹاور سے فوری طور پر پاکستان کی فضائی حدود سے باہر نکل جانے کا حکم دیا گیا،بظاہر یہ ان اہم شخصیات کے خلاف ایک سازش تھی،جہاز میں سوا رآرمی چیف سمیت دیگر آفیسرز کسی بھی صورت میں ملکی حدود سے نکلنے کو تیار نہیں تھے،ایسے میں جی ایچ کیو نے جہازمیں موجودآفیسرز کونیچے کے حالات سے باخبر کیا،ان کے مطابق وزیراعظم نےآرمی چیف کو اپنے عہدہ سے سبکدوش کرکے ISIکے سربراہ کو آرمی چیف بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیاہے، جی ایچ کیو نے یہ کہہ کراس حکم نامہ کی تعمیل کرنے سے انکار کردیا کہ چیف آرمی اس وقت ملک سے باہر ہیں،اس لیے ان کی غیر موجودگی پر ہم کچھ نہیں کرسکتے،ان اطلاعات کے موصول ہونے کے بعدآرمی چیف اپنے ساتھیوں کے ساتھ مختلف جہتوںسے حالات کابغور جائزہ لیااور فوری طور پر صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا،چند لمحوں بعد کنٹرول روم سے کراچی میں تعینات میجر جنرل افتخار علی خان کی آواز اُبھری:”سر!آپ لینڈ کرسکتے ہیں....ہم نے حالات پر قابو پالیا ہے....“اس بعد جہاز میں سوار آرمی چیف نے کاک پٹ میں آکر ان سے چند سوالات کیے اور پھر جہاز کو کراچی ائیر پورٹ پر لینڈ کرنے کا سگنل دے دیا،دوسری جانب فوج نے اسلام آباد میں پرائم منسٹر ہاﺅس اور پاکستان ٹیلی ویژن اسٹیشن کا گیٹ پھلانگتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور اس کے بعدتمام نام نہاد جمہوریت کے علمبرداروں کو ہتھکڑیاںلگاکر جیلوں میں پھینک دیا۔

یہ تھی کہانی 12اکتوبر1999ءکی....جب پاکستان میں چوتھی دفعہ آمریت کے سائے پھل پھول رہے تھے،کہاجاتا ہے کہ یہ منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارنے کے لیے ایک ڈرامہ رچایا گیا تھا،اس ڈرامہ کے ہیرواس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف تھے،یہ 12 اکتوبر1999ءسے 18اگست2008ءتک8سال،10مہینے اور 8دن تک ایوانِ اقتدا ر کے مکین رہے،پرویز مشرف 11اگست1943ءکو دہلی میں پیدا ہوئے،1961میں آرمی جوائن کی،1964ءاور 1971ءکی جنگوں میں حصہ لیا،اکتوبر 1998کو اس وقت کے مغلِ اعظم میاں نواز شریف نے کئی سینئر جنرلز پر فوقیت دیتے ہوئے انہیں آرمی چیف کے عہدہ سے نوازا،انہوں نے آرمی چیف بننے کے ایک ہی سال بعدنواز شریف کو برطرف کیا اور 29 جون 2001ءکو صدر رفیق تارڑکو اپنے عہدہ سے سبکدوش کرکے 30اپریل 2002 کو ریفرنڈم کے ذریعہ خود کو 5سال کے لیے فوجی صدر منتخب کرالیا۔

اس چوتھے فوجی دور میں فوج نے سب سے پہلے قومی احتساب بیورو(NAB)قائم کیا،جس نے لوٹ مارکرنے والوں کے حلق سے قومی خزانہ نکال باہر کیا،ابتداءمیں اس کی کارکردگی انتہائی تسلی بخش رہی،اس ادارہ کی کوششوں کی وجہ سے بدعنوان سیاست دانوںسے 80 ارب روپے سے زائد رقم وصول کی،یہ ایک نہات خوش آئنداقدام تھا،اسی طرح قومی تعمیرِ نو بیوروکا قیام عمل میں لایا گیا،اس کے بعد مشرف حکومت نے قرضے ری شیڈول کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی اور مالیاتی اصلاحات کرائیں،ملکی آبادی کے اعداد و شمار کا حساب رکھنے اور افراد کا ڈیتا کمپیوٹرائزکرنے کے لیے NADRAقائم کیا،اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے لیے جتن کیے،تاریخ میں پہلی بار ریلوے اور پی آئی اے جیسے قومی ادارے خسارے سے نکلنے میں کامیاب ہوئے،اسٹیل مل نے پہلی بار سب سے زیادہ منافع دیا،ڈالر کو اپنے پورے عرصہ میں 60روپے میں روکے رکھا،واقعی اس حکومت کے بعض ابتدائی اقدامات سے ملکی ترقی کے حوالے سے بہترین نتائج برآمد ہوئے۔

ان کے علاوہ اگر ہم پرویز مشرف کے 8سال،10مہینے اور 8دن پر محیط دور کے سیاہ کارناموں کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ 8سال،10مہینے اور 8دن پاکستان کی تاریخ کے خوفناک ترین ایام تھے،اس سے زیادہ بدترین مثال پوری تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔

آپ کارگل کے قضیہ کو لے لیں،پاک فوج کے بے شمار جوانوں کے قتل کا ذمہ دار کون تھا؟پوری دنیا کے سامنے پاکستان آرمی کا امیج کس نے بگاڑا؟اکبر بگٹی کا مسئلہ کیا تھا؟بلوچ قوم کے لیے حقوق کا مطالبہ کرنے والے سردار کو کیا سزا ملی؟اپنی انا کے راستے میں آنے والی ہر شے کو طاقت کی ایڑی تلے کچل کر بلوچستان میں علیحدگی کی دہکتی آگ سلگانے والا کون تھا؟لال مسجد کا ایشو کیا تھا؟سینکڑوں طلبہ و طالبات کے مطالبات کو رعونت کی جوتی تلے مسل ڈالنے والا کون تھا؟اگر لال مسجد والے غلط بھی تھے تو اپنی ہی قوم کے افراد کو ”خاموش“کرانے کایہ کونسا طریقہ تھا؟پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے محسنِ پاکستان کو برسوں نظربند رکھنے والا کون تھا؟پڑوسی ملک افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور عراقی شہریوں کے چیتھڑے اڑانے میں کون اتحادی بنا بیٹھا تھا؟قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کرکے وہاں کے مکینوں کو بغاوت پر کس نے اُکسایا؟ڈاکٹر عافیہ جیسے سینکڑوںپاکستانی باشندوں کو عالمی وحشی درندے کی جھولی میں کس نے ڈال دیا تھا؟آئین توڑنے کے بعد ایمرجنسی نافذکرنے کے ساتھ منصف اعلیٰ سمیت60ججوں کو گھر میں کس نے محبوس کردیا تھا؟ وہ روشن خیالی کے دلدادہ کون تھا، جس نے اپنے دور میں میراتھن ریس جیسی سرگرمیوں کو فروغ دے کرمشریقیت کا جنازہ نکال ڈالا تھا،گزشتہ عام انتخابات2008کے دوران قومی مفاہمتی آرڈیننس(NRO)کے ذریعہ قومی خزانوں پہ ڈاکہ ڈالنے والوں کے 30کھرب روپے کس نے معاف کیے؟

ایک لمحہ کے لیے آنکھیں موند کر اس دورِ نامساعدکو زرا تصور کیجیے کہ وہ کیا عجب ہنگامہ خیز دور تھا،جس کا ہرسورج ایک نئی آفت لے کر طلوع ہوتا تھا،جس کی ہر خون آلود شام نت نئی پریشانیوں کو اپنے دامن میں سمو کر رات کی تاریکیوں میں گم ہوجاتی تھی،جہاںہر گلی ،ہر چوک اور ہر سڑک پر غرور،نخوت اور رعونت چنگھاڑتی تھی،ایک فرعونی لہجہ تھا،جو کسی طور خدائی کے دعوے سے باز نہیں آتا تھا، اس عہدِ نامبارک میں دہلی کے اس خواجہ سرا کے کنجِ لب سے پھوٹنے والے ایک ایک لفظ کو آج پاکستان کا بچہ بچہ بھگت رہا ہے،آج پاکستان کا ہر نوجوان ،ہر عورت اورہر بوڑھااس کی بوئی ہوئی فصلوں سے کانٹے جدا جدا کرتے کرتے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑرہے ہیں،ان8سالوں،10مہینوں اور 8دنوں میں پاکستانی ایک ایک لمحہ کے سکون کو ترس چکے تھے، قوم کی بوڑھی آنکھیں، جھریوں زدہ چہرے پہ آنسوﺅںکی لڑیاں سجائے،کپکپاتی ہتھیلیوںکے ساتھ خدا کے دربار میں اس بدروح کے لیے بددعائیں کیا کرتی تھیں،لگتا ہے کسی مظلوم ماں،کسی بے بس بیوہ اور کسی بے آسرا بیٹی کی ان بد دعاﺅں نے عرش کو ہلادیاہے،آج وہ فرعونی لہجہ کہیں گم ہے، آج وہ چنگھاڑتی آواز کہیں خاموش ہے،ایک عجیب سا خوف ہے،جو ہرلمحہ اس بدروح کے ارد گرد منڈلارہا ہے....!

18 اگست2008ءکو جب پرویز مشرف ایوانِ صدر سے بہت ساری شرمندگیوں اوررُسوائیوں کے ساتھ رخصت ہونے لگے تو ان کے شانوں پہ گناہوں ،قصوروں اور غلطیوں کا ایک بوجھ لداہوا تھا،نگاہیں نیچی اور چہرے پہ آنسوﺅںکی دو لڑیاں سجائے ،رُندھی ہوئی آواز میں آخری الفاظ تھے :”قوم غلطیوں پر معاف کردے....“لیکن یہ مکافاتِ عمل ہے،یہ اب تک اچھے خاصے ذلیل اور رسوا ہوچکے ہیں،انسان جو کچھ بوتاہے،اسے وہ کاٹنا بھی پڑتا ہے،سو انہیں اپنے 8سال،10مہینے اور 8دن کی بوئی ہوئی فصل بھی کاٹنی ہوگی،نہ جانے پرویز مشرف کے نصیب میں ابھی اور کتنے کٹھن مراحل ہیں،جو انہیں بھگتنے ہونگے؟
Muhammad Zahir Noorul Bashar
About the Author: Muhammad Zahir Noorul Bashar Read More Articles by Muhammad Zahir Noorul Bashar: 27 Articles with 25621 views I'm a Student media science .....
as a Student I write articles on current affairs in various websites and papers.
.. View More