انسانی حقوق کا علمبردار ۔۔۔ دین اسلام

حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اگر کہیں برائی کو دیکھو تو اسے روکنے کی کوشش کرو اور الر اس کی استطاعت و طاقت نہیں رکھتے تو اسے برا کہو اور اگر کہنے کی ہمت بھی نہیں ہے تو اسے دل میں برا خیال کرو اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے ۔محترم قارئین کرام حدیث پاک کامفہوم لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کا جوکالم لکھنے جا رہاہوں میں یہ اندازہ لگاناچاہتا ہوں کہ یہ کس درجہ میں شمار ہوگا۔ پہلے درجے میں تو نہیں آسکتا یاقی کے درجات کے بارے میں آپ خود اندازہ لگا لیجئے گا۔ اللہ تبارک تعالی تو یقینا جاننے والا اور با خبر ہے۔ایک خبر کے مطابق ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ”حکم“صادر فرمایا ہے کہ ”توہین رسالت قوانین میں فوری طور پر حکومت ترمیم کرے اور سلمان تاثیر کو ایک مظلوم عورت کی حمایت کی پاداش میں قتل کیا گیا۔یہ خبر جان کر مجھے ان نام نہاد انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کی ڈھٹائی اور کمینے پن پر شدید غصہ آیا اورر ہمارے حکمرانوں کی ایمانی کمزوری دیکھ کر دکھ ہوا کہ تم مامے لگتے ہو توہین رسالت کے قوانین میں ترمیم کرانے کے ۔ تم کون ہوتے ہو جو ہمیںتوہین رسالت کے قوانین کی بابت ڈکٹیٹ کرو۔ اور ہمیں بتاﺅ کہ اسلام میں نعوذ باللہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح؟یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ گستاخ رسول کی بھی قسم کی رعایت و معافی کا مستحق نہیں چاہے وہ کوئی عورت ہی کیوں نہ ۔ اور ایمنسٹی والے تو جس عورت کو مظلوم کہہ رہے ہیں اس سے بڑا ظالم اور لعین اس معاشرے میں ہو ہی نہیں سکتا۔اے انسانی حقوق کے علمبردارو!کیا تم انسانیت کی ابجد سے بھی واقف ہو کیا تم انسانیت کے حقوق انہیں کہتے ہو کہ معاشرہ مدر پدر آزادہو جائے بیٹا باپ کو سمجھانے اور برائی سے روکنے کا مجرم ٹھہرے۔بیٹی کو آوارگی اور بےہودگی سے روکنا والدین کیلئے وبال بن جائے ۔ انہیں کٹہرے میںلا کھڑا کیا جائے۔ کای انسانیت یہی ہے کہ والدین کو جب بوڑھے ہوجائیں تو انہیں اولڈ ہوم میں پھینک دیا جائے۔ جبکہ ان کے حقوق شروع ہی اب ہوئے ہیں کیونکہ اولاد کو جوان کرنے تک تو وہ فرائض ادا کرتے رہےاور جب ان کے حقوق کی وقت شروع ہوا تو انکو بے درد زمانے کی ٹھوکروں کیلئے چھوڑ دیاجائے۔ کیا یہی انسانیت ہے کہ جننے والی ماں اور پالنے والے باپ کو اتنا بھی حق نہیں کہ وہ اولاد کے اچھے برے بارے اس سے باز پرس کر سکے۔انسانی حقوق کی آڑ میں انسانیت کی تذلیل کرنے والو پہلے اپنے آپ کو سدھارو اپنے آپ کو بدلو انسانیت کا حقیقی سبق سیکھو۔انسانیت کے علمبردار تو وہ تھے کہ جب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے ملک شام فتح کیا تو ان کے وزراءنے نئے مفتوحہ ملک کا جائزہ لینے کے بعد بہت سے مشورے دیئے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ چونکہ نصرانیوں کی اکثریت ہے اور یہ لوگ سرکش اور سخت مزاج ہیں تو ان پر اسلام کے نرم سیاسی اصول کارگر نہ ہونگے ان کے ساتھ دوسرے سخت اصول بھی بنائے جائیںتاکہ ان کو قابو کرنے میںآسانی ہو اور حکومت مستحکم ہو اور پریشانیوں کا سبب بننے والوںکو کچلا جا سکے۔ تو یہ سب سن کر سلطان صلاح الدین ایوبیؒکے چہرے کا رنگ بدل گیا اور اس وقت انہوں نے جو کچھ فرمایا یہ ان سب انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے لئے کافی ہے جو اسلام کو شدت پسندی سے مربوط کرتے ہیں اور توہین رسالت کے قوانین کو نعوذ بااللہ سخت اورانسانیت کے منافی قرار دیتے ہیں۔ آپؒ نے فرمایا”تمہارا کیا خیال ہے کہ میں نے یہ جو ملک فتح کیا ہے اس لئے فتح کیا ہے کہ اپنی حکومت اور سلطنت قائم کروں اور لوگوڈ کی گردنوں پر اپنی غلامی کا جوا رکھوں۔ تم میر بات کان کوھول کر سن لو کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ میں نے محض اللہ کو خوش کرنے کیلئے اور اس کی رضا کی خاطر یہ ساری کوششیں کیں ہیںمیں تو صرف اپنے ملک کا چاکر ہوں میںاپنے حکم ہرگز نہیں نافذ کرونگایہ ملک رہے یا جائے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں تم اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ کوئی بھی حکم قرآن و سنت کے خلاف صادر نہیں کر سکتا اور قرآن و سنت کی مخالفت میں کوئی بھی کوشش ہرگز کامیاب نہیں ہونے دونگا کیونکہ قرآن اللہ کا فرمان اور سنت رسول کی امانت ہے اور انسانیت کی فلاح مومن ہو کہ کافر دونوں پر عمل کرنے میں ہے“اور پھر چشم فلک نے دیکھا اس انسانی حقوق کے محافظ کے دور میں کچھ ہی عرصہ بعد نصرانی اکثریت والا ملک مسلم اکثریت والے ملک میں تبدیل ہوگیا۔یہاں پر ہر مذہب کو ماننے والے کو مذہبی آزادی بھی۔ مسجدیں محفوظ تھی تو دوسرے عبادت خانے بھی محفوظ تھے کوئی جبر واکراہ نہیں تھا یہ صرف مسلمانوں کا اخلاق ،حسن سلوک اور انسانی حقوق کی پاسداری تھی جو اسلام اور نبی کریم نے سکھائی تھی ان کے صحابیوں ، ساتھیوں، پیروکاروں اور مسلمانوں نے سکھائی اور پھیلائی تھیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہی وہ دین برحق ہے جودراصل انسانیت کو ہر قسم کے جبرو استحصال و استبداد سے نجات دلا سکتا ہے-

اے مغرب والو،مغرب زدہ لوگو ، مغرب پرودہ لوگودیکھو کہ فاتح ہونے کے باوجود کسی انسان کا ناحق خون نہیں بہایا کسی کو تکلیف نہ دی اور اب اپنے گریبانوں میں جھانکو کشمیر بوسینیا فلسطین لیبیا عراق کویت لبنان افغانستان حتی کہ پاکستان ہر جگہ تم انسانیت کی دھجیاں بکھیرتے نظر آتے ہو۔انسانی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا ٹھیکہ تم نے اٹھا رکھا ہے تم سے کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی روکنے ٹوکنے والہ نہیں۔ لیکن لیکن قصور تمہارا بھی نہیں تم مفادات و مراعات ہی اتنی دیتے ہوئے کہ اچھے اچھوں کی رال ٹپک جائے۔ غیرت مر جائے عزت نیلام ہوجائے بس مراعات بند نہ ہوں اگر ایسا ہے تو پھر یہ حکم نامے تو صادر ہوتے رہینگے اور یونہی اسلام بارے ہرزہ سرائی جاری رہے گی-

اے مسلمانو! اے حکمرانو! ہوش کے ناخن لو ظالم یورپ کی پیروی چھوڑ کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرانہیں یہ بتادو کہ توہین رسالت قوانین میں تبدیلی ہرگز ہرگز نہیں ہوگی جو کوئی بھی اس سے الجھنے کی کوشش کریگا وہ سزاوار اور خطاکار ہوگا اور اسے سبق سکھایا جائیگا ۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی اور فلاح ہے۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193522 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More