باسٹھ تریسٹھ کی پر خار وادی ....اور عوامی نمائندگان

الیکشن کی آمد آمد ہے.سیاسی لوگ اپنی وفاداریاں تبدیل کر رہے ہین . ن لیگ والے ق لیگ میں,پیپلز پارٹی والے ایم کیو ایم میں ماضی سے مضارع کے صیغہ جات کی طرح تبدیل ہو رہے ہیں.نظریات و افکار کے پہاڑیکایک ریزہ ریزہ ہوتے چلے جارہے ہیں میرٹ کا خون کرنے والے اچانک آب مطہر سے اشنان کرتے نظرآتےہیں .عدل وانصاف کی ٹانگیں کاٹنے والے مساوات عامہ کی بات کرتے نہیں ہچکچاتے .اقرباء پروری کی ترویج وبڑھوتری بابت کام کرنے والے اب کی بار ٹیلینٹ و صلاحتیوں کے فقدان کی بات کرتے نہیں تھکتے.ہر ایک کا یہی دعوی ہے کہ ہم ہی ہیں جو ملک و ملت کی تقدیر بدلنے کے لیے کوشاں ہیں.تبدیلی لائیں گے تو ہم ہی وعدہ وفاء کریں گے تو ہم ہی. لیکن سدا یہ وقت نہ رہے گا. ہم الیکشن کے ماحول سے نکل کر انتخابات کے بعد کا نئی امید سے انتظار کررہے ہوں گے....تبدیلی کا خواب دیکھ رہے ہوں گے.دریں اثناء حکومتی فیصلوں سے ناامیدی کی بدبو آنا شروع ہو جائے گی.عوام کا منہ بند کرنے اور ان کی توجہ تقسیم کرنے کے لیے بازار میں چینی اور آٹے کی میلوں لمبی قطاریں دیکھنے کو ملنا شروع ہو جایا کریں گی.سفید پوش لوگ کاروبار زندگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان قطاروں میں کھڑے گورنمنٹ کے سربراہان کے نام لے لے کر تسبیح کرتے نظرآیا کریں گے.پریس کانفرنسوں اور میڈیا محافل میں سیاسی کارکنان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے نظر آیا کریں گے.جمہوریت اور جمہوری نظام کو ڈی-ریل ہونے کی باتیں ہوا کریں گی.پھر قاتل کے وکیل کی طرح جھوٹ کے پلندوں پر مشتمل دستاویزات جمع کئے جایا کریں گے.جو 5 سال تک ہر ٹی وی شو میں دکھائے جایا کرئیں گے.مناظرے مباحثے اور مجادلےکی بات ہواکرے گی.مخالف پارٹی کو زیرکیا جایا کرے گا.آئینی ترامیم کا ایک سلسلہ شروع کیا جایا جائےگا. لیکن عوام حسب سابق ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبتی چلی جائے گی.....اس کی وجو ہات بہت سی ہو سکتی ہیں لیکن اہم وجوہ میں آئین کا عملی نفاذ نہ ہونا اور سیاست دانوں کا سیاست کو صرف روزی کمانے کا ذریعہ خیال کرنا شامل ھیں.ہمارے سیاست دان ایک دوکاندارکی طرح پیسے لگا کر اپنے آپ کو پانچ سال کےلیے منتخب کرواتےہیں اور پورے پانچ سال ان کی ریکوری منافع درمنافع مختلف مدات میں وصول کرکے عوام کو دوہر ی چوہری تکالیف و مصائب سے دوچار کرتے ہیں. ہر چیز آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہے.اوریہ منافع اپنے ملک کے بینکوں میں "حالات کا کیا بھروسہ" کہہ کر سوئیس بینکوں میں ڈالتے چلے جاتے ہیں. کالا دھن جمع کرنے سے جڑا ہوا کوئی بھی موقع ضائع کرنا گناہ کبیرہ سمجھاجاتا ہے.

اگرچہ 73کاآئین متفقہ آئین ہے.اسے تمام خوبیوں کا مرقع قرار دیا جاتا ہے.اورحقیقت میں ہمارے ملک کے لیےبہتر ہے بھی لیکن افسوس صد افسوس اس کا عملی نفاذ آج تک نہیں ہو سکا. یہاں تک کہ اسکے بانیان بھی کھلے عام اسکی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں .کہنے کی حد تک تو سب آئین ترویج ،تقدیساور تطہیر پر یقین رکھتے ہیں لیکن عملی طور پر اسے جھٹلا تے نظر آتے ہیں ایسا کیوں ہے ....شاید اس لیے کہ انتخابات و عوامی نمائندگان کی متذکرہ بالا آئینی شرائط سے جی چرایا جاتا ہے.واضح طور پر ٹی-وی ٹاک شوز میں آ کر موقف اختیار کیا جا تا ہےکہ اس کرائی ٹیریا پر کوئی بھی پو را نہیں اترسکتا ہے . او...!!!....تف ہو تم پر یہ بنا یا کیوں تھا???بنایاتھا تواس پر عمل کیوں نہیں ہو سکتا؟اکثر عوامی کارندے اس آرٹیکل کے خلاف بات کر کے آئین پاکستان کی گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں....انھیں باسٹھ تریسٹھ کا لفظ سنتے ہی سانپ سونگھ جا تا ہےایک ضمنی بات یاد آ گئی جب راقم گورنمنٹ پرائمری سکول سارمنڈل جماعت چہارم یا پنجم کا طالب علم تھا تو اسوقت سا ل اول کی ایک بچی کو صرف 62تک گنتی یاد ہوا کرتی تھی۔وہ 61تک گنتی تسلسل سے پڑھ کراچانک باسٹھ،باسٹھ ،باسٹھ کا رٹ لگا دیتی تھی۔اس کا انداز بہت دیدنی ہوا کرتا تھا۔اور تمام بچے اسے بار بار گنتی دہرانے کا کہتے اور وہ بلا تکلف پڑھ کر سنا یا کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔آج محسوس ہو رہا ہے کہ باسٹھ تریسٹھ کا تذکرہ واقعی مشکل ہے۔حسن اتفاق ہے تذکرہ مناسب سمجھا خیر۔۔۔۔۔ آئیے اس میں مذکور آرٹیکلز و سب آرٹیکلزکے خلا صے پر ایک سر سری نظر ڈالتے ہیں ...

آرٹیکل باسٹھ کے مطابق کوئی شخص مجلس شوری (پارلیمنٹ)کارکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو گا اگر سب آرٹیکل نمبر 2شق (د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہواور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو;اسی آرٹیکل کی اگلی شق (ہ)وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقررکردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو;شق (و) وہ سمجھدار پارسا نہ ہو اور فاسق , ایماندار اور امین نہ ہو ;شق (ز) کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزایافتہ نہ ہو;شق (ح) اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت کی ہو;مگر شرط یہ ہے کہ پیرا (د) اور(ہ) میں مصرحہ نااہلیتوں کا کسی ایسے شخص پر اطلاق نہیں ہوگا جو غیر مسلم ہو,لیکن ایسا شخص اچھی شہرت کا حامل ہوگا;اور شق (ط) وہ ایسی دیگر اہلیتوں کا حامل نہ ہو جو مجلس شوری (پارلیمنٹ) کے ایکٹ کے ذریعے مقرر کی گئی ہوں.اسی طرح آرٹیکل تریسٹھ کی شقیں (ز,ی,ک,ل ) وغیرہ پر پورا ترنے والا شخص ہی رکن پارلیمنٹ بن سکتا ہے. وگرنہ نہیں فیصلہ آپ پر ہے کیا ہمارے عوامی نمائندگان ان شرائط پر پورے اترتے ہیں ....حقیقت میں تمام عوامی نمائندگان اسی لیے باسٹھ تریسٹھ کی پر خار وادی میں قدم رکھنے سے ہچکچاتے ہیں....کیوں کہ ان لوگوں میں سے اکثریت کا کردار انتہائی نا معقول اور منافی مذکورہ بالا سطور ہے.یوں تو سارا آئین ہی عمل کرنے کے لیے ہے مگر صرف ان دو آرٹیکلز پر عمدرآمد ہو جائے تو ہمیں مخلص اور صالح قیادت میسر آ سکتی ہے جسے اس بات کا پاس ہو کہ "اگر دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا "....اور اسی فقرے میں تبدیلی اور انقلاب کی روح چھپی ہے.
عبدالباسط فاروقی
About the Author: عبدالباسط فاروقی Read More Articles by عبدالباسط فاروقی : 2 Articles with 2466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.