بھوک

اُس بلی کے بچے میں اور مجھ میں دو باتیں مشترک تھیں ایک تو یہ کہ وہ بھی بچہ تھا اور میں بھی، اور دوسرا کہ ہم دونوں بھوکے تھے۔ میں ابھی ابھی پچھلی گلی سے یہاں پہنچا تھا اور سستانے کے لیے جیسے ہی ایک تھڑے پر بیٹھا تو یہ بلی کا بچہ میرے سامنے تھا۔ پھر اُس نے بھی سر جھٹکا تھا جیسا کہ میں نے یہ سوچتے ہوئے جھٹکا کہ ’کیا میں اس بلی کے بچے کو پکڑ کر کھا لوں’۔ مجھے اپنے خیال پر بے ساختہ ہنسی آ گئی۔ پر یہ کیا؟؟ میں نے آنکھیں زور زور سے ملیں۔ وہ بھی ہنس رہا تھا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے زمین پر اکڑوں بیٹھا مجھے گھور رہا تھا۔ سردی کی ایک لہر میرے بدن میں دوڑ گئی، لیکن جلد ہی میں نے خود پہ یہ کہتے ہوے قابو پا لیا کہ بلی کا ایک بچہ ہی تو ہے۔

بھوک نے پیٹ کے سارے کس بل نکالنے شروع کر دیے تھے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس سرد شام کس دروازے پر دستک دوں ، کون دروازہ کھول کر مجھ بھوکے کو کھانا کھلائے گا؟ اتنی تکلیف کون برداشت کرے گا۔ اسی ادھیڑ بُن میں میں نے جیب سے وہ بانسری نکالی جو پچھلی گلی سے مجھے گری پڑی ملی تھی، ہونٹوں سے لگائی اور حیرت انگیز طور پر ایک نغمہ جیسے پھوٹ نکلا، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے مجھے بانسری کی لے اور سُر پر پورا ملکہ حاصل ہے۔ بلہ کا بچہ ایک ٹک مجھے دیکھے جا رہا تھا-

میں کون ہوں کہاں سے آیا ہوں ؟ میرا گھر کہاں ہے؟ میرے والدیں؟ بانسری بجاتے یہ سوالات میرے ذہن میں گونجنے لگے، جواب میں درد کی ایک شدید لہر اُٹھی اور اُس نے میرا دماغ ماوف کر دیا، میں نے گھبرا کر سر پکڑ لیا، پر یہ کیا، میرا سر گیلا تھا، ہاتھ پر رطوبت محسوس کرتے ہی میں نے ہاتھ نیچے گرا کر دیکھا تو اُس پر سرخ سُرخ جما ہوا خون دیکھ کر مجھے یہ سمجھنے میں بلکل دیر نہیں لگی کہ میں زخمی ہوں، اور مجھے جلد از جلد کسی کی مدد لینا چاہیے، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بلی کا بچہ بازو والے گھر کے دروازے کی جھری میں سے اندر چلا گیا۔ ایک لمحے کو لگا کہ میں نے کوئی ساتھی کھو دیا ہو، پھر میں نے خود کو سنبھالا، قوت مجتمع کی اور اُٹھا ہی تھا کہ وہ بچہ وہیں سے باہر نکلتا دکھائی دیا ، اُس کے منہ میں روٹی کے ٹکرے دبے ہوئے تھے، جو اُس نے میرے سامنے ڈال دیے۔ میں مربھکوں کی طرح اُن ٹکڑوں پر ٹوٹ پڑا۔

پٰیٹ کا جہنم بھرتے ہی توانائی جسم میں واپس آنا شروع ہو گئی، اور وہ سوال جو درد کی لہروں میں معدوم ہو گیا تھا، پھر سے میرے سامنے آن کھڑا ہوا، بلی کے بچے نے ایک طرف چلنا شروع کر دیا، مجھے بیٹھا دیکھ کر وہ پھر واپس آیا اور دوبارہ اُسی طرف چلنے لگا، میں سمجھ گیا کہ یہ مجھے چلنے کو کہہ رہا ہے، مجھے چلتے ہوئے بہت دیر ہو گئی تھی پر وہ تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، پھر ایک گلی میں مڑتے ساتھ ہی وہ ایک گھر کے دروازے پر رک گیا۔ میں نے اس کہ بات سمجھتے ہوے دروازے پہ لگی گھنٹی بجا دی، دروازہ کھلا اور اُس عورت کے سامنے آتے ہی میرے منہ سے ایک چیخ نکلی، ماں اور بس بے ہوش ہو کر ماں کی گود میں گرتے ہوئے میں نے اُس بلی کے بچے کو دیکھا تو وہ مسکراتے ہوئے واپس جا رہا تھا۔

جب مجھے ہوش آیا تو ماں نے بتایا کہ میرے والد مجھے سارے شہر میں ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ میں اُن کی گاڑی کے پچھلے شیشے سے گر گیا تھا۔ میں پھر ماں کی آغوش میں سر رکھ کر سو گیا-
azharm
About the Author: azharm Read More Articles by azharm: 21 Articles with 22485 views Simply another mazdoor in the Gulf looking 4 daily wages .. View More