کیا میں اسے دنیا کا ایک عجوبہ کہوں

ایسی ریاست جس میں کمشن اس طرح لی دی جاتی ہے جیسے قانونا جائز ہو۔ ہر کوئی: چیف جسٹس آف پاکستان، صدر پاکستان، وزیراعظم، وزرائے اعلی، وزرا ہر کوئی جانتا ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ وہ بے بس ہیں یا اس کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر قوم کو اعتراز نہ ہو تو کیوں نہ اسے قانونی تحفظ دے کر اس کی ایک حد مقرر کر دی جائے تاکہ من مرضی تو ختم ہو جائے اور پھر کم ازکم اس کا کچھ حصہ ٹیکس کی مد میں شائد خزانے میں بھی جمع ہو جائے۔

ایسی ریاست جس کی فوج اتنی بہادر ہے کہ کئ دفعہ اپنے ہی ملک کو فتح کر چکی ہے اور عوام کو غاصب اور بد دیانت سیاستدانوں سے نجات دلوا چکی ہے۔ شائد آج جو بچے کچھے اساسے اسی وجہ سے محفوظ ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے سیاستدانوں کو مظلوم بن کر عوامی خدمت کے بار بار مواقع ملتے رہے ہیں۔ ہماری شائد واحد ایسی فوج ہے جس کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خظروں سے خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

ایسی ریاست کہ جس کی حکومت اتنی مضبوط ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں کو بھی کچھ نہیں سمجھتی۔ اور عدلیہ کو بھی ایسی ایسی ڈاج کروا جاتی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ عدلیہ نے پوری کوشش کی کہ سوئس خط لکھے، حکومت نے ایک وزیر اعظم کو قربان کر دیا مگر خط نہ لکھا پھر لکھا تو اس وقت جب خط کی اہمیت ایک کاغذ کے پرزے سے زیادہ نہ رہی۔ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ دنیا کے لیے ایک بہیت بڑا کامیڈین جو حقیقی لطائف سے دنیا کو محظوظ کرتی ہے۔

احتساب کا ایسا مضبوط نظام کہ وزیراعظم کا خاوند ہو یا والد ان کی پہنچ سے باہر نہ ہے۔ کئ وزیر قومی خزانے کی لوٹی ہوی دولت واپس کرنے پر مجبور ہوگئے۔ بڑے بڑے سیاستدان ایک ساتھ چلنے پر مجبور ہوگئے۔ شائد اسی لیے مشرف کے متعارف کردہ لوکل گورنمنٹ باڈیز میں ایک بھی ضلع ایسا نہیں ملتا کہ جس میں ضلعی محتسب کا دفتر قائم ہو سکا ورنہ شائد آج ایک بھی چھوٹے سے چھوٹا سیاستدان جیل سے بایر نہ ملتا اور ہم سیاستدانوں جیسے انمول خدمتگاروں سے محروم ہو جاتے۔

عدلیہ کی آزادی اور بحالی اگر عجوبہ نہیں تو کسی معجزہ سے کم نہ ہے۔ شائد عدلیہ کی بحالی کا ہی ثمر ہے کہ ہماری حکومت تاریخ میں پہلی بار رکاوٹوں کی پوری کوششوں کے باوجود اپنی آئنی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ ایک ایسے ریاست جس میں فیصلے تو ہوتے ہیں مگر عمل درآمد کم ہی ہوتا ہے ۔عدلیہ بیچاری بھی اپنے فیصلوں کے عمل درآمد کے معاملے میں بے بس ہے ورنہ شائد اور زیادہ بہتری دیکھنے کو ملتی۔ ویسے سابقہ عدلیہ کے کارنامے تو مثالی رہے ہیں جیسا کہ نظریہ ضرورت کے تحت دئے گئے فیصلے ۔

ہمارا میڈیا اتنا آزاد کہ اگر بدنامی کا ڈر نہ ہوتا تو شائد حکومت کو عملی سیاست کر کے بھی دکھا دیتے اور کشش کا یہ حال ہے کہ بڑے بڑے سیاستدانوں کو بھی میں نے کہتے سنا ہے کہ اب تو دل کرتا ہے کہ سیاست چھوڑکر کوئ ٹی وی چینل ہی کھول لیں۔ بزنس، آزادی اور عزت کی کیا بات ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ سب انگلیان ایک جیسی نیہں ہوتیں ورنہ تمیز کرنا بھی مشکل ہو جاتا

ایسی ریاست کہ جس میں بزنس کے ایسے مواقعے موجود ہیں کہ اگر دہشت گردی کا خطرہ نہ ہوتا تو پاکستان دنیا کا سب سے بڑا کاروباری مرکز ہوتا: یہاں نہ ٹیکس کا ڈر نہ لائسنس کا خطرہ۔ جو من میں آئے کرو مگر جان و مال کی حفاظت کے لیے تھوڑا بہت بندوبست کرنا ہی پڑہتا ہے۔

اس ریاست میں ایک طرف تو چوبیس فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لائن سے بھی نیچے رہتی ہے تو دوسری طرف حکومتی شاہ خرچیاں بادشاہوں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔شادی بیاہ پر ایسی ایسی فضول رسمیں ہیں کہ لوگ قرضے لے کر بھی ایک دوسرے سے آگے گزرنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔عورتوں کو فیشن اور رسم و رواج سے فرصت نہیں ہے۔ایک طرف عورتوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے تو دوسری طرف عورتیں ہی اپنے حقوق کی خلاف ورزی میں سب سے آگے ہیں۔

اس ریاست میں امن کے دعویدار ہی دہشت کے ملزم کہلاتے ہیں۔ ہر کوئ جنت کی ملکیت کا دعویدار ہے اور مولوی سے مولوی نفرت کروا رہا ہے۔ وہ دین جو محبت بھائی چارہ اور پراپری کا درس دیتا ہے کو اتنا متنازہ بنا دیا گیا ہے کہ ایک سیدھا سادہ مسلمان اتنا کنفیوز ہو گیا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں۔

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ “نوکر کی تے نخرہ کی“ مگر عملی طور پر یہاں کے نوکر پر تو جچتا ہے “نوکر نہیں تے نخرہ نہیں“ معزرت کے ساتھ ہمارے ملک کے سب تو نہیں مگر اکثریت مللازمین کا یہ حال ہے کہ گردنوں میں لوہے کے راڈ ہیں اور ہر کوئی اپنی جگہ پر تھانیدار ہی لگا ہوا دکھتا ہے۔ شان و شوکت اور نخرے کا یہ حال ہے کہ اس ملک کے پٹواریوں نے بھی کم از کم دس ہزار کی اجرت پر منشی رکھا ہوتا ہے جو اس کے لیے کام کرتا ہے۔

ایک ایسی ریاست جس میں ہر کوئی مصروف ہی مصروف دکھتا ہے اور بے مقصد ہی بھاگا جا رہا ہے۔ قوم کی تمام کی تمام صلاحیتیں غلط اور فضول استعمال ہو رہی ہیں۔ چھوٹا سا کام کرنے اور نکلوانے کے لیے اتنی زیادہ کوششیں کرنی پڑتی ہیں کہ آدمی پاغل ہو جاتا ہے اور تعلقات اور سفارش سے بڑے سے بڑا کام بھی منٹوں میں ہو جاتا ہے۔مصروفیت کا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ ریلوے پھاٹک بند تھی ابھی ریل آنے میں کچھ وقت باقی تھا اور سب ریل کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک ایک نوجوان جلدی سے سائیکل سے اترا، سائیکل کو اوپر اٹھایا اور دوڑتا ہوا ریلوے لائن کراس کرکے چلا گیا۔ سب سوچ رہے تھے کہ ہی نوجوان بڑی جلدی میں ہے۔ یقینا بہت ضروری کام ہوگا۔ اور یہ بھی سوچ رہے تھے کہ اگر سب جوان ایسے ہی جفا کش ہو ں تو قوم کیوں ترقی نہ کرے۔ ریل گزرنے کے بعد سب چل پڑتے ہیں اور آگے جا کر کیا دیکتھے ہیں کہ وہی جوان ایک مداری کے پاس کھڑا کرتب دیکھ رہا ہے۔ اس قوم کی مصروفیت کو سمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں۔

ایک ایسی ریاست جو ایٹمی پاور بھی ہے اور سب سے زیادہ ڈروں اٹیک بھی اسی ریاست کی حدود میں ہوئے ہیں کم ازکم اس بنیاد پر تو ورلڈ گینز بک میں ہمارا نام شامل ہونا ہی چاہیے۔ اور تو اور شائد اگر یہ ریاست نہ ہوتی تو دنیا میں ڈرون حملوں کے تجربات کرنے کا بھی انتا وسیع موقعہ نہ مل سکتا۔
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114748 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More