علماء کرام راہنمائی فرمائیں

شعبہ صحافت اہم مقد س پیشہ کے ساتھ ساتھ ریاست کا چوتھا ستون بھی کہلا تاہے جس کا کام اپنی عوام کو ہر خبر سے با خبر رکھنے کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کو ملک میں موجودہ مسائل اور وسائل کی نشان دہی ہے اور اسی سلسلے کو اپنے آ نے والے دوستوں میں منتقل کر نا بھی صحافیوں کے لئے اتنا ہی اہم ہو تا ہے جتنا عام لوگوں کے لئے اپنے پیشے کو اپنے بچوں اور دوسرے شاگردوں میں منتقل کر نا ہو تا ہے اور اسی اہم شعبے کے اندر صحافیوں کو بے شمار مشکلات کا بھی شکار ہو نا پڑتا ہے اور کئی ایک صحافی اس شعبے کی آ بیاری کر تے ہوئے اپنی جان اور خون بھی اسے دے چکے ہیں مگر آ ج کا کالم صحافیوں یا ان کے مسائل کے حل کے لئے نہیں ہے بلکہ اپنے علماءکرام سے راہنمائی حاصل کر نے کا ہے کیو نکہ ہر صحافی اور کالم نگار کو اس کے لئے قلم اٹھا نا چاہیئے مگر ملک میں موجود افراتفری پر ہی قلم چلتے چلتے نہیں رکتے اس لئے یہ اہم مسئلے پر کسی کا قلم نہیں اٹھ سکا اور علماءکرام سے بھی یہ گزارش ہے کہ وہ متفقہ طور اس مسئلے پر ہماری راہنما ئی کریں تا کہ ہم اپنے لئے یہ راہ چن سکیں ہم لوگ جو صحافت کے پیشے سے منسلک ہیں وہ اپنے کالموں اور خبروں ، اخبارات میں جگہ جگہ محمد اور اللہ تعالی ٰکا استعمال(لکھتے ہیں) کرتے ہیں اس کے سا تھ ساتھ سکولوں کا لجوں دوسری کام کر نے والو ں والی جگہوں پر بھی پیپرز بنا نے اور بچوں کے نام رجسٹر میں میں لکھتے ہیں جب بھی کسی شخص کے نام کے ساتھ محمد آ تا ہے تو ہمیں اپنے صفحات ( جو خبریں لکھنے اور فیکس کر نے کے لئے استعمال کیئے جاتے ہیں یا سکولوں کالجوں میں پیپر بنانے میں استعمال ہو تے ہیں) میں لکھنا پڑتا ہے اور پھر وہ فیکس کر کے اپنے اپنے اداروں کو بھیج دیئے جاتے ہیں وہ بھی کمپوزنگ کر نے کے بعد ان کو ضائع کر دیتے ہیں اور اخبارات میں اسلامی مضامین بھی باکثرت لکھے جاتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم نہ تو ان صفحات کی عزت کا کوئی احترام کر پاتے ہیں اور نہ ہی ان کے لئے کوئی حل تلاش کر پائے ہیں ہم میں سے اکثریت تو وہ فیکس کئے ہو ئے صفحات کو جلادیتے ہیں چاہے اس میں کئی جگہ محمد لکھا ہو اور باقی ماندہ ردی میں بیچ دیتے ہیں اور اخبارات میں بھی یہی کام ہو تے ہیں کہ وہ کمپوزنگ کے بعد ان کو ختم کر دیتے ہیں اور صبح آ نے والے اخبارات میں بھی ایسے ہی ہو تا ہے کہ ہم اور ہمارے ہاکرز صبح اخبارات کے باہر لگے اخبارات( جن سے ان کا بنڈل بنا یا ہو تاہے) کو اپنے اخبارات نکال کر وہی پھینک کر اپنے نئے اخبارات اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور چل دیتے ہیں اور اکثر جگہوں پر وہ بھی جلادیئے جاتے ہیں ان میں اکثریت میں پا ک نام لکھے گئے ہوتے ہیںاور آخر میں اخبارات دوکانوں کے شٹروں کے نیچے رکھے جاتے ہیں (جوکہ مجبوری کی حالت میں کیا جا تا ہے) اس کے ساتھ ساتھ اخبار کی ردی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے وہاں بھی اسے لوگ روٹی لپیٹنے اور دوسری چیزوں کو صاف کر نے کے لئے اخبارات کو استعمال کر تے ہیں اور آ خر کار اسے گندگی کے ڈھیروں پر پھینک دیا جا تا ہے جہاں کئی قسم کی گندگی کی وجہ سے اکثر اوقات وہ اخبار اٹھایا بھی نہیں جا سکتا۔جب کہ سکولوں کالجوں میں پیپر کمپیوٹر پر کمپوز کر کے ا ن صفحات کو پھاڑ دیا جا تا ہے اب آ پ لوگوں سے یہ سوال ہے کہ ہمیں یہ بتایا جائے کہ ہم اپنے نبی ﷺ اور اللہ پاک کے نام کی حرمت کو کیسے مکمل طورپر بحا ل رکھ سکتے ہیں کیونکہ خبر لکھنے سے اخبارات کی ترسیل تک اور پیپر بنانے سے کمپو ز کر نے تک اور اس کے بعد بھی ہم سے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کام ہو رہے ہیں جو نہیں ہونے چاہیئں کیاکوئی ایسا عمل ہے کوئی ایسا لفظ ہے جس سے محمد کے نام کی حرمت کے لئے استعمال کیا جائے جیسا کہ 786کو بسم اللہ کے برابر سمجھا جاتا ہے اب آ پ لوگوں کی طرف ہماری نظر ہے کہ آ پ ہمارے لئے کیا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں اور ہماری راہنمائی کس طرح کر تے ہیں اور ایسی را ہنمائی نہیں کر نی جیسے آ ج تک نماز میں ہاتھ باندھنے کی طرح کر تے آ ئے ہیں -
Muhammad Waji Us Sama
About the Author: Muhammad Waji Us Sama Read More Articles by Muhammad Waji Us Sama: 118 Articles with 120120 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.