نواز شریف صاحب اصل کہانی سیاچن سے شروع ہوتی ہے

نواز شریف کی مسلم لیگ ن نے مطالبہ کیا ہے کہ کارگل پر آزاد ، خودمختار جوڈیشل کمیشن قائم کرکے رپورٹ قوم کے سامنے پیش کی جائے، پرویز مشرف کارگل ایشو پر حکومت کو اعتماد میں لینے کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ کمیشن ضرور بنایا جائے مگر کارگل کی اصل جڑ سیاچن کو بھی اس میں لازمی شامل کیا جائے کیونکہ 1984 سےبھارت اور پاکستان کے بیچ تنازع کا سبب سیاچن ہے کارگل نہیں۔ 1984 میں بھارت نے سیاچن پر قبضہ کیا تھا جس کا مقصد پاکستان اور چین کو فوجی اعتبار سے ہراساں کرنا تھا۔ دوسرئے دریائے سندھ کو پانی بھی اسی گلیشیر سے ملتا ہے۔ جس وقت بھارت کی فوجوں نے سیاچن پر قبضہ کیا تھا، اس وقت پاکستان میں ضیا الحق کا راج تھا، اس نے کہا تھا کہ ”سیاچن میں تو گھاس بھی نہیں اگتی۔“ اس بیان کا مقصد سوائے قوم کو دھوکا دینے کے اورکچھ نہ تھا۔ یعنی دفاعی ا ور معاشی لحاظ سے سیاچن کی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن بعد میں پاکستان کی فوجی قیادت کو اس بات کا احساس ہوا کہ بھارت کا سیاچن پر ناجائز قبضہ خالی کرانا بہت ضروری ہے۔ اگر پاکستان کی فوجی قیادت فوری طور پر اس جگہ بھارت کی جارحیت کو روکنے کے سلسلے میں اقدامات نہیں اٹھاتی تو بھارتی فوجی اسکردو تک پہنچ سکتے تھے اور ان کی جارحیت کے قدم مزید بڑھتے رہتے۔ اس بلند ترین جگہ سے بھارت کا قبضہ ختم کرانے کے سلسلے میں بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے درمیان کئی مرتبہ بات چیت ہو چکی ہے لیکن بھارت جو کشمیر اور مونا بھاؤ پر بزورِ طاقت قبضہ کر چکا ہے۔ فوجی مداخلت کے ذریعے مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کی حمایت کرکے بنگلہ دیش بنوانے میں مرکزی کردار ادا کرچکا ہے۔ کشمیر سے پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں پر مسلسل ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر کرنے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے وہ کسی بھی صورت سیاچن سے دستبردار ہوہونے کو تیار نہیں۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل وی پی سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ سیاچن پاکستان کو واپس نہیں دیں گےاس کا کہنا تھا کہ سیاچن قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ اسے ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ بھارتی آرمی چیف کا یہ خصوصی انٹرویو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکرٹریوں کی سطح کے مذاکرات جاری تھے۔ کئی دفعہ دونوں ملکوں کے درمیان سیاچن پر مذاکرات ہوئے لیکن اس بات پر ناکام رہے کہ بھارت کہتا ہےکہ وہ اپنی فوجیں اس وقت واپس بلائے گا جب پاکستان وہاں بھارتی افواج کی قائم چوکیوں کو تسلیم کرے گا۔ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ اس کا مطلب سیاچن پر بھارتی قبضہ ماننے کے مترادف ہوگا۔ ماضی میں اس برف پوش علاقے کو نو مین لینڈ قرار دینے کی بھی بات کی جاتی رہی ۔

اپنے آپ کو ضیا الحق کا بیٹا کہلانے والے نواز شریف اپنے دوسرئے دور اقتدارمیں چونکہ بھاری اکثریت سے جیتے تھے لہذا وہ اپنے آپ کو ہر چیز سے مبرا سمجھنے لگے تھے۔ انہوں نے ایک صدر ، ایک آرمی چیف اورایک چیف جسٹس آف پاکستان کو گھر روانہ کرنے کے علاوہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے اور ایک رات میں اپنے ہموطنوں کے بارہ ارب ڈالر کے اکاونٹ منجمد کرنے کے کارنامے اپنے دوسرئے دور میں ہی انجام دیے۔ آہستہ آہستہ انکے خوشامدی ٹولے نے انکو قائد اعظم ثانی بھی کہنا شروع کردیا تھا۔ وہ بھارت کے ساتھ دوستی بڑھانے میں مصروف تھے کہ پاکستانی افواج نے سیاچن میں اپنے مسلسل نقصانات کو روکنے کیلئے کارگل آپریشن کا فیصلہ کیا۔ آج نواز شریف کہتے ہیں کہ انہیں کارگل آپریشن بارے میں پیشگی باخبرنہیں رکھا گیا مگر ان کے دور کے وزیرداخلہ چودھری شجاعت حسین دعوے سے کہتے ہیں کہ کارگل پر نوازشریف کو باقاعدہ بریفنگ دی گئی تھی ۔ اس لیے کارگل کی پوری جنگ کے دوران ان کے وزیر اطلاعات سید مشاہد حسین اور آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل راشد قریشی روزانہ باقاعدگی سے بریفنگ دیا کرتے تھے۔ اس بریفنگ میں کارگل میں بھارتی افواج کی ہار اور تباہی کے بارے میں جو تفصیلات بیان کی جاتی تھیں، اس ہی وجہ سے بھارت نے اپنے ملک میں پاکستان ٹی وی کی نشریات دیکھنےپر پابندی لگادی تھی۔

کارگل میں پاکستانی افواج نے بھارت کو سخت پرشانی میں مبتلا کیا ہوا تھااور بھارت کی پریشانی امریکہ تک پہنچ چکی تھی۔ یہ تکلیف بھارت کے ساتھ ساتھ نوازشریف کو بھی کچھ کم نہ تھی۔ پاکستانی افواج نے سیاچن میں اپنے مسلسل نقصانات کو روکنے کیلئے کارگل آپریشن کا فیصلہ کیا تواس میں قباحت کیا تھی۔کارگل کی چوٹیوں پر قابض ہوکر پاکستانی افواج نے بھارت کی شہ رگ کو کاٹ کر رکھ دیاتھا۔شہ رگ بھارت کی کٹی اور تکلیف کا اظہار نوازشریف نے کیا۔ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود انہوں نے پاکستانی افواج کے خلاف ایک نشری تقریر کرڈالی جس میں ایک بہت ہی طنز اور تذلیل سے بھرپور جملہ کچھ یوں کہا گیاکہ:"کارگل سے کوئی راستہ سری نگر کی طرف نہیں جاتا"۔اس جملے سے نوازشریف کی قابلیت کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے کہ سری نگر سے نکل کر سیاچن کو جانے والا ہر راستہ کارگل سے ہوکر گذرتا ہے۔ بھارت کےلئے سیاچن میں فوجوں کو سپلائی فراہم کرنے میں اس لئے آسانی تھی کہ سری نگر سے کارگل کے راستے سیاچن تک اسے ایک کھلی سڑک میسر تھی۔ یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ وہ نشری تقریر کرکے فوج کے مقابل صف آراءہونے کے بجائےاس وقت کارگل کمیشن قائم کردیتے جس کا آج وہ مطالبہ کررہے ہیں۔ نوازشریف نے اس کے برعکس فوج سے محاذآرائی کا راستہ اختیار کیا۔اس تقریر کا لازمی نتیجہ جو نکلا وہ یہ تھا کہ سیاسی اور فوجی قیادت میں دوریاں ہوگیں اور پھر بارہ اکتوبر 1999 کو نواز شریف اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماربیٹھے جب اس وقت کے چیف آف آرمی جنرل پرویز مشرف کو ان کے سری لنکا کے دورے کے دوران برخواست کرکےجنرل ضیاالدین بٹ کو ان کی جگہ آرمی چیف بنادیا۔ شام تک نواز شریف گرفتار ہوگے اور ملک ایک مرتبہ پھر جمہورت کی پٹری سے اتر گیا۔ دسمبر 1999 میں نواز شریف جدہ چلے گے اور پھر انکی واپسی نومبر 2007 میں ہوئی۔ جدہ سے واپسی پر نواز شریف اپنے ساتھ مشرف فوبیا بھی ساتھ لیکر آئے۔ اب انکے ہرسوال کے جواب میں یا بیان میں مشرف کا ذکر بڑی حقارت سے ہوتاہے۔

گذشتہ سال گیاری سیکٹر میں گرنے والے برفانی تودے تلے دب کر ایک سو انتالیس افراد کی شہادت ہوئی، جن میں گیارہ شہری اور ایک سو اٹھائیس فوجی شامل تھے،جس کی وجہ سے سیاچن ایک مرتبہ پھر خبروں کا موضع بنا۔ گیاری سیکٹر کا دورہ کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کہنا تھا کہ سیاچن دونوں ملکوں کے ٹیکس گزاروں اور خزانوں پر بوجھ ہے۔ یہاں ہونے والے اخراجات عوام کی فلاح پر خرچ ہونے چاہییں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان سیاچن سے فوج نکالنے کے لیے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔مگرنواز شریف نے گیاری سیکٹر کے صرف 22منٹ کے دورے کے دوران متاثرین اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا وہ پاکستان کے سیاسی حلقوں کے لیے حیران کن تھا، انہوں نے فرمایا کہ پاکستان اور بھارت سیاچن سے اپنی اپنی افواج واپس بلا لیں اور پاکستان اس سلسلے میں پہل کرے۔ انہوں نے ذرا آگے بڑھ کر یہاں تک کہا کہ اگر بھارت سیاچن سے اپنی فوجیں نہیں نکالتا تو پاکستان کو اپنی افواج واپس بلا لینی چاہئیں یاد رہے کہ یہ ایسا ہی بیان تھا جو ضیاالحق نے دیا تھا کہ "”سیاچن میں تو گھاس بھی نہیں اگتی۔“ نواز شریف کا یہ بیان جتنا اچانک تھا اتنا ہی حیران کن بھی تھا کہ یہ وہی نواز شریف ہیں جن کی حکومت سیاچن کے مسئلے پر پرویز مشرف کے ساتھ اختلاف کے باعث ختم ہوئی تھی اور آج بھی انکا موقف یہ ہی ہے کارگل پر حملے کے وقت فوج نے انہیں آگاہ کیا تھا نہ اعتماد میں لیا تھا۔

حال ہی میں "لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک؟“ منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب پر ایک علیدہ مضمون کی ضرورت ہے، مگر اس کتاب کے بعد ایک مرتبہ پھر کارگل کا آپیریشن موضوع بنا ہوا ہے۔ ایک انٹرویو میں سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ کارگل میں پاک فوج نے دشمن کو سیاچن کا بھرپور جواب دے دیا تھا، دشمن کے پاس تابوتوں کیلئے لکڑی ختم ہوگئی تھی، کارگل میں جیتی جنگ نواز شریف نے میز پر ہار دی جب اُنہوں نے راجہ ظفرالحق اورخود مشرف کے کہنے کے باوجود کارگل سے فوج واپس بلالی۔ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت نے پرویز مشرف کی جانب سے کارگل اور نواز شریف سے متعلق دیئے گئے بیانات کی تصدیق کر تے ہوئے کہاکہ کارگل مشن سے نوازشریف آگاہ تھے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے انٹرویو کے دوران ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت نے پرویز مشرف کے بیانات کی تصدیق کردی۔ چوہدری شجاعت کا کہناتھا کہ پرویزمشرف نے جوکچھ کہا وہ درست ہے،چوہدری شجاعت کے مطابق ہم کارگل محاذسیاست پرہارگئے،اس پرمتفق ہوں۔ چونکہ نواز شریف کی حکومت مشرف کے ہاتھوں ختم ہوئی تھی اس لیے ان کا موقف جنرل پرویزمشرف سے ذاتی عداوت کا آئینہ دار ہے۔ نواز شریف کو چاہیے کہ ملک کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاست کریں ، اگر وہ الیکشن جیت جایں تو پھر ضرور جوڈیشل کمیشن قائم کریں لیکن صرف کارگل نہیں بلکہ بھارت کے سیاچن پر ناجائز قبضہ کا بھی معلوم ہونا ضروری ہے، نواز شریف صاحب اصل کہانی سیاچن سے شروع ہوتی ہے۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 443023 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More