کنفیوژن پھیلانا بھی قومی جرم سمجھا جائے(2)

علامہ طاہر القادری کے معاملے میں میڈیا کے بعض حصوں نے کنفیوژن پھیلانے کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ‘ اس کی ایک اور مثال پیش کر رہا ہوں ‘ جب یہ دھرنا اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ ختم ہو گیا اور شرکا گھروں کو لوٹ آئے تو میڈیا کو چٹکلے، طنزو مزاح ، غیر سنجیدہ اور غیر ضروری تنقیدسوجھنے لگی‘ کہا جانے لگا کہ لانگ مارچ کے شرکا نے اپنی موجودگی سے اسلام آباد کے حسن کو داغدار کر دیا ‘ لوگوں نے جناح ایونیو کو کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا اور گرین بیلٹ پر خیمے نصب کر دیئے گئے‘ اس کا مقصد ناظرین اور قارئین کو یہ باور کرنا تھا کہ یہ لانگ مارچ نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس غیر ضروری رپورٹنگ سے لانگ مارچ کا انتہائی منفی تاثر دیا گیا ‘جبکہ جہاں بھی ایک لاکھ سے زائد لوگ موجود ہوں چاہے نیک مقصد کیلئے ہی کیوں نہ سہی وہاں لفافے ، پھلوں کے چھلکے اور دیگر معمولی آلودگی کا ہونا نا گزیر ہے‘ جبکہ پر امن احتجاج اور لانگ مارچ تو عوامی حق ہے‘ کیا ماہ ِ رمضان میں عوامی اجتماعات پر ہونے والی افطاریوں میں سڑکوں ، پارکس اور گلی کوچوں میں کوڑا کرکٹ اور گندگی نہیں پھیلتی؟ ‘ کیا پھرروزہ رکھنے اور افطاری کروانے پر پابندی لگا دی جائے ؟‘ حج کے موقع پر لاکھوں لوگ مکہ اور مدینہ میں موجود ہوتے ہیں ‘ اتنے زیادہ نفوس کی موجودگی سے شہر کی صفائی اور خوبصورتی کچھ متاثر ہوتی ہے ‘ فریضہ حج کے بعدسعودی حکومت کچھ عرصہ تک عمرے کی ادائیگی پر پابندی لگا دیتی ہے تا کہ شہروں کو صاف کیا جا سکے ‘ اب اگر حج کے بعد مغربی میڈیا گندگی پھیلنے کا بے جا پروپیگنڈہ شروع کر دے تو کیا پھر ہم فریضہ حج کو اسلام سے خارج کر دیں؟‘ کیا کوڑا کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر کو لانگ مارچ یا طاہر القادری کی شخصیت سے منسلک کرنا ضروری تھا؟‘ ایک لمحہ کیلئے فرض کیجیے کہ اگر نواز شریف صاحب کا لانگ مارچ گوجرانوالہ میں ختم نہ ہوتا اور علامہ کے لانگ مارچ ہی کی طرح اسلام آباد پہنچ جاتا ‘ اسی طرح کچھ روز کے دھرنے کے بعد ججز بحال ہوتے تو کیا اس لانگ مارچ میں اسلام آباد میں گندگی نہ پھیلتی؟‘ جن زاویوں، تبصروں اورمصنوعی تاثرات کے مجموعے سے اس خبر کو بار بار ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا ، کیا اس کے بغیر خبریت کا اظہار ممکن نہیں تھا؟‘ لیکن اگر ہم اس خبر کو اتنے مصالحوں کے ساتھ نہ دکھاتے تو قوم کی کنفیوژن میں اضافہ کرنے کا کام کیسے مکمل ہوتا۔

ایک سینیئر صحافی اور معروف اینکر ، جن کی صلاحیتوں اور قابلیت کا میں خود بھی معترف ہوں کے بارے میں ایک جملہ زبان زدِ خاص و عام ہے ، ”وہ ہر ہفتے مسلسل پانچ راتوں تک حکومت کو گرا کر سوتے ہیں“ لیکن حکومت بھی یاجوج ماجوج کی دیوار کی طرح گذشتہ پانچ سالوں سے ہر صبح پہلے سے زیادہ عزمِ صمیم کے ساتھ بری طرزِ حکمرانی کیلئے تیار ہو جاتی ہے۔ اگر حکومت کی انہی بد اعمالیوں ، کرپشن، لوٹ مار، بری طرزِ حکومت کے خلاف طاہرالقادری نے لانگ مارچ کیا تو یہی محترم صحافی اور اینکر طاہرالقادری کے لانگ مارچ کے خلاف تاویلات پیش کر کے قوم کو کنفیوژ کرنے لگے ‘ حتی کہ میں خود دم بخود رہ گیا کہ آیا وہ سب کچھ ٹھیک تھا جو آپ گذشتہ پانچ سالو ںسے اپنے پروگرام میں دکھاتے اور فرماتے رہے یا یہ سب کچھ ٹھیک ہے جو آپ اب طاہر القادری اور ان کے لانگ مارچ کے خلاف کہہ رہے ہیں۔

آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا خود سے پوچھئے کہ جن مسائل کی نشاندہی طاہرالقادری تئیس دسمبر سے سترہ جنوری تک کرتے رہے ہیں‘ کیا آپ کے آباواجداد گذشتہ پینسٹھ سالوں سے ان کا شکار نہیں رہے؟ کیا آج آپ خود ان مسائل کا شکار نہیں ہیں؟ اور کیا آپ اپنی اولاد کے مستقبل کے بارے میں انہی خطرات سے دوچار نہیں ہیں۔؟ آخر معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک میں نہ کہیں بجلی ہے، نہ گیس اور نہ صاف پانی، کیا علامہ کا یہ سوال اٹھانا غلط ہے؟ ‘وزیر اعلی پنجاب کے داماد علی عمران اور ایلیٹ فورس کے سات اہلکاروں پہ مبینہ طور پر لاہور کے ایک بیکری ملازم عرفان پر تشدد کرنے کا الزام لگتا ہے‘ سی سی ٹی وی کیمرے کی آنکھ انسانیت کی تذلیل پر مبنی تمام مناظر کو محفوظ کر لیتی ہے‘ آزاد میڈیا کے دباو کے بعد دفعہ 109کے تحت مقدمہ نامزد ملزمان کے حلاف درج کر لیا جاتا ہے‘ مدعی ملزمان کو پہچان لیتا ہے‘ لیکن سولہ جنوری کی سماعت میںپولیس عدالت میں عرفان کے بیان کی رپورٹ پیش کرتی ہے جس کے مطابق تمام نامزد ملزمان نہ تو موقع پر موجود تھے اور نہ ہی عرفان انہیں پہچانتا ہے لہذا جوڈیشل مجسٹریٹ منور حسین تمام ملزمان کو با عزت بری کر دیتے ہیں‘اگر یہ علی المرتضی کا زمانہ ہوتا تو اس اندھیر نگری پر خلیفہ مسندِخلافت چھوڑ دیتے‘ یہ حجاج بن یوسف جیسے شقی القلب کا دور ہوتا تو وہ ایسے مضحکہ خیز نظامِ انصاف پر مدعی ، ملزم اور قاضی تینوں کا سر قلم کروا دیتا اور اگر یہ شہنشاہ جہانگیر کا زمانہ ہوتا تو اس کی زنجیرِ عدل موم بن کر پگھل جاتی‘ اب اس طرز کے نظامِ انصاف پر اگر علامہ ماتم کرے تو کیا غلط ہو گا؟‘ ملک میں ہر گھنٹے بعدکم و بیش تیس کروڑ کی کرپشن ہو رہی ہو اور علامہ ان تجوریوں اور لوٹ مارکرنے والوں کو بے نقاب کرنے کا سوال کرے تو کیا یہ امریکی ایجنڈا ہو گا؟‘ علمدار روڈ کوئٹہ پر چھیاسی لاشیں چار روز تک انسانیت کے منہ پر طمانچے رسید کرتی رہیں ‘ وزیرِ اعلی دیارِ مغرب میں اور حکومت جامِ عیش و طرب نوش کرتی رہے اور جب آنکھ کھلی تو بے شرمی اور ڈھٹائی سے مذاکرات کرنے پہنچ جائے ‘ ایسے میں اگر طاہر القادری سوال کرے کہ تم نے اقتدار کی عبا و قبا پہننے کے بعد شرم اور انسانیت کا پیرہن کیوں اتار دیا تو کیا یہ سوال جمہوریت کی نفی ہو گا؟‘آخر چوری ، ڈکیتی، رہزنی اور اغوا برائے تاوان شعبہ ہائے صد احترام کیوں بن گئے؟ علاج گراں قیمت اور موت سستی کیوں ہو گئی؟‘ تعلیم مہنگی اور جہالت و انتہا پسندی سرِعام کیوں ہو گئی؟ کیا طاہر القادری کے یہ سوال انہیں ایجنسیز کی پیداوار بنا دیتے ہیں؟‘ دادا بھی ہاری تھا، باپ بھی ہاری ہے، خود بھی ہاری اور بیٹا بھی ہاری ہو گا‘ کیا یہ ہی فلاحی ریاست کے عمدہ اصول ہیں ؟ کیا یہ ہی پینسٹھ سال کے سفر کی معراج ہے؟آخر علامہ کے ان سوالوں سے سیاست کے ایوانوں میں زلزلہ کیوں آ گیا؟۔

درحقیقت علامہ کی آمد، ان کے جلسوں ، نعروں ، لانگ مارچ ، دھرنے اور مطالبات کو کنفیوژ کر دیا گیا‘ سیاستدانوں نے تو واویلا مچانا ہی تھاکیوں کہ علامہ نے انہیں للکارا تھا لیکن دکھ ان تجزیہ نگاروں ، ماہرین ، دانشوروں ، صحافیوں اور اینکرز پر ہے جنہیں عوام کی رہنمائی کرنی چاہیے تھی اور بتانا چاہیے تھا کہ اب نئے پاکستان بنانے کا وقت آ گیا ہے لیکن انہوں نے علامہ کے تبدیلی کے اعلان کو کنفیوژ کر دیا ۔

میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ جب بھی تبدیلی کی آوازبلند کی جائیگی اگرچہ آواز لگانے والا قائد اعظمِ ثانی ہی کیوں نہ ہوا‘ اسے بھی فوج، امریکہ، سی آئی اے، موساد، را، ایم آئی فائیو یا آئی ایس آئی کا کارندہ کہا جائے گا ‘ ایک دن یہی کنفیوژن سازی المیہ میں تبدیل ہو جائے گی اورہمیشہ انقلابی قیادت کی حوصلہ شکنی کرتی رہے گی اور قوم کا تبدیلی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔

مجھے بھی علامہ صاحب سے بہت تحفظات ہیں ‘ میں بھی ان کے ناقدین میں شامل ہوں لیکن فقط اس لئے کہ علامہ صاحب کی مخالفت سے میرے سیاسی آقا مجھ سے خوش ہوں گے میں حقائق کو مسخ نہیں کر سکتا ۔ میری قوم سے اپیل ہے کہ آپ چاہے تبدیلی نہ لائیں لیکن کنفیوژن پھیلانے کو قومی جرائم میں شامل کرنے پر زور دیں ورنہ تبدیلی آئے نہ آئے آپ متحد قوم تو کبھی نہیں بن سکیں گے۔
Ameer Abbas
About the Author: Ameer Abbas Read More Articles by Ameer Abbas: 18 Articles with 16414 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.