متحدہ ایک بار پھر بے نقاب – کچھ جواب کچھ سوال

میرے اس بلاگ کے تین حصّے ہیں۔ پہلے حصّے میں دوہری شہریت کے حامل افراد کے عوامی اور سرکاری عہدوں پر تعیناتی کے قانون پر چند الفاظ، دوسرے حصّے میں ایم کیو ایم کے اس قانون پر ردِّ عمل پر تبصرہ اور آخری حصّے میں ایک اور بلاگ ” متحدہ ایک بار پھر بے نقاب" پر کچھ خیال کچھ سوال۔

پاکستان کا موجودہ آئین جو 1973 میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور ذوالفقار علی بھٹّو کی سر براہی میں تشکیل دیا گیا، اس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ عوامی اور سرکاری عہدے دار پاکستانی شہریت کے علادہ کوئی اور شہریت رکھنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین کے اسلامی تشخص کا کریڈٹ لینے والی کسی جماعت کو اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ کل مستقبل میں یہ مسئلہ پاکستان کے لئے کس قدر اہم بن جائے گا۔ سو انہوں نے اس معاملے کو آئین کا حصّہ بنانے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔ یہاں مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ اس شق کے لئے جس سیاسی اور انتظامی بصیرت کی ضرورت تھی وہ بھٹّو کے علاوہ نہ اس وقت کی بیشتر قیادت کے پاس تھی اور نہ ہی اب ہے۔

ذوالفقار علی بھٹّو پاکستانی تاریخ کی متنازعہ ترین شخصیات میں شامل ہیں۔ ان کے چاہنے والوں کے پاس ان کے کارناموں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے جس کے ابتذال کے لئے جہالت یا کذب بیانی میں سے ایک کا ہونا لازم ہے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان پر لگائے گئے ان کے زخم آج بھی رِس رہے ہیں۔ بہرحال یہاں مجھے ان کی سیاسی بصیرت کی تعریف کرنی پڑے گی کہ انہوں نے 1973 میں اس مسئلے کا ادراک کر لیا تھا جو اس وقت تک معاشرے میں اپنی جڑیں بنانے میں کامیاب نہ ہو سکا تھا اور آئین میں اس مسئلے کو اٹھنے سے پہلے ہی ختم کرنے کا انتظام کر دیا گیا تھا۔ ستم ظریفی یہ کہ آئینِ پاکستان میں یہ شق اس شخص نے شامل کی جس کے ٘مخالفین ، خصوصاً مذہبی جماعتیں، تمام عمر بھٹّو اور اس کی اولاد کو غدّارِ پاکستان ہونے کا الزام دیتے رہے۔ ہم آج بھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ اگر وہ پاکستان کے خلاف ہوتا توپاکستان سے بھاگنے کے راستے بند کیوں کرتا؟

اب آتے ہیں موجودہ صورتحال کی طرف۔ آج کل چہار سُو دوہری شہریت کے حامل ارکانِ اسمبلی کے چرچے ہیں جن میں سے کئی ایک نے اسمبلی کی رکنیت پر بیرونی شہریت کو ترجیح دی ۔ اس “نیک “ کام میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے حسبِ توفیق بدنامی کمائی مگر یہاں میں ذکر کروں گا ایم کیو ایم کا۔ مہاجر قومی موومنٹ اور بعد ازاں متّحدہ قومی موومنٹ، جس کی تشکیل خاصی منفرد تھی۔ عموماً سیاسی جماعتیں، تعلیمی اداروں میں اپنے ریکروٹمنٹ سینٹرز کھولتی ہیں جنہیں طلباء تنظیموں کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر ایم کیو ایم اس لحاظ سے منفرد تھی جہاں ایک طلباء تنظیم ترقی کر کے سیاسی جماعت کے طور پر منظّم ہوئی۔ چونکہ اس کا خمیر تعلیمی اداروں سے اٹھا تھا لہٰذا گوں نا گوں خرابیوں کے باوجود یہ شہری سندھ کے تعلیم اور تہذیب یافتہ عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہی۔ یہاں یہ یاد دلانا بے محل نہ ہوگا کہ شہری سندھ کا یہی تعلیم یافتہ طبقہ پہلے جماعت اسلامی کے نظم ، تہذیب اور دعوت سے متا ثر تھا اور جماعتِ اسلامی کی ملک گیر کامیابیوں کے لئے مضبوط بنیادیں فراہم کرتا تھا۔ ایم کیو ایم کی قیادت چونکہ عوام میں سے اٹھی تھی اور اس نے ایک طویل عرصے تک عوام سے اپنے رابطے اور رشتے برقرار رکھے لہٰذا وہ ہر طرح کے سیاسی اور غیر سیاسی حربوں کا مقابلہ کرتے ہوئےعوام میں اپنی مقبولیت قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد مثال ہے جہاں ایک جماعت کا لیڈر 21 سال سے ملک کے باہر ہونے کے باوجود بھی اپنی جماعت پر موثر کنٹرول رکھے ہوئے ہے اور اب بھی نہ صرف شہری سندھ کا سب سے بااثر رہنما ہے بلکہ اپنا دائرہ اثر پاکستان کے دوسرے حصّوں میں بڑھانے میں بھی کامیاب نظر آتا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ایم کیو ایم کی اصل قوّت اس کے عوامی ہونے میں پنہاں ہے۔ شہری سندھ نے ہمیشہ ایسی قیادت کو جو عوام سے دور رہے اور جن کے مسائل عوام سے مختلف ہوں، مسترد کیا ہے ۔ اور اغلب یہی ہے کہ شہری سندھ اس معاملے میں کسی کو بھی استثنا دینے پر تیار نہ ہوگا۔ ایم کیو ایم کے قائد ۲۱ سال سے دیارِ غیر میں بیٹھے ہیں اور ان کے ہزاروں کارکنان، جنہوں نے 1992 کے آپریشن کے زمانے میں ایم کیو ایم حقیقی میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا، جان بچانے کیلئے دوسرے ممالک میں روپوش رہنے کے بعد وہاں کی شہریت لے چکے ہیں۔ مگر پھر بھی شہری سندھ کی عوام نے ہمیشہ ان کو اپنے دلوں کے آس پاس ہی محسوس کیا کیونکہ ان کے خیال میں ایم کیو ایم کی قیادت بحالتِ مجبوری غیر ممالک میں مقیم تھی۔ مگر آج ایم کیو ایم کے چند قائدین کے فیصلے نے اس یقین میں دراڑ یں ڈال دیں۔ شہری سندھ کے عوام کو ہمیشہ یقین تھا کہ ایم کیو ایم عوامی خدمت اور عوامی نمائندگی پر یقین رکھنے والی جماعت ہے اور اس کے قائدین اور کارکنان ان کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ مگر ان افراد کے غلط فیصلے کی وجہ سے بھروسے کے ستونوں کو شک کی دیمک نے چاٹنا شروع کر دیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے بظاہر ایم کیو ایم خود ان غلط فیصلوں کوتحفظ دیتی نظر آرہی ہے۔

ایم کیو ایم، بانیانِ پاکستان کی اولادوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بزرگوں نے اللہ تعالٰی کے با برکت نام پر ایک مملکت کی بنیاد رکھی۔ آج مجھے سخت افسوس ہے کہ ان بزرگوں کی اولاد اپنے بچوں کا مستقبل پاکستان سے باہر دیکھتی ہے۔ مجھے پیپلز پارٹی کے ارکان سے اس قدر گلہ نہیں اور مسلم لیگی ارکان سے تو امّید بھی یہی تھی مگر افسوس ایم کیو ایم کے قائدین کے فیصلے پر ہوا۔ خدارا اس بات کو سمجھ جائیے کہ شہری سندھ (بلکہ پورے سندھ) کی عوام کا دل پاکستان کے نام پر دھڑکتا ہے۔ آپ ریاستی آپریشن اور سیاسی پروپیگنڈا محض اس وجہ سے جھیل گئے کہ شہری سندھ کے عوام آپ کو پاکستان سے مخلص سمجھتے ہیں۔ لیکن جس دن انہیں اس امر کا یقین نہیں رہا، وہ آپ کے بھی پیروں تلے زمین نکال دیں گے اور آپ کے ساتھ لمحوں میں وہ
سب ہو جائے گا جو آپ کے مخالفین 30 سال میں نہ کر پائے۔

https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=27347

اور اب آخر میں ایک اور بلاگ ” متحدہ ایک بار پھر بے نقاب" پر کچھ باتیں ہو جائیں۔ ہمارے بہت پیارے بلاگ نگار سلیم اللہ شیخ صاحب اپنا سارا غصّہ ایم کیو ایم پر اتار دیا ہے جو کہ عنوان سے بھی ظاہر ہے۔حالانکہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے زیادہ افراد دوہری شہریت اور جعلی اسناد کے معاملات میں ملوّث نکلے۔ بہر حال کسی کی غلطی دوسرے کی بد اعمالی کا جواز نہیں بن سکتی لہٰذا اس معاملے میں ہم بھی ان کے ہم نوا ہیں اور ایم کیو ایم سے جواب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بس ایک سوال ان سے بھی کہ اس ہی آہنگ میں مسلم لیگ کی مدح سرائی کر دیں تو ان کی اصول پسندی پر ایمان مضبوط ہو جائے گا۔لگے ہاتھوں اگر یہ بھی پتہ چل جائے کہ مسلم لیگ کی جعلی اسناد، دوہری شہریت والے ارکان اور مشرف کے حواریوں کی پارٹی میں شمولیت کے باوجود جناب منوّر حسن صاحب، مسلم لیگ کے ساتھ انتخابی اتحاد کے امکانات کو کیونکر خارج از امکان قرار نہیں دیتے؟

پاکستانی سیاست میں جو یہ دعوٰی کرے کہ وہ منافقت یا جھوٹ سے پاک سیاست کر رہاہے تو اس بات کو آپ اس کا پہلا جھوٹ سمجھ کر آگے بڑھیں۔ انشاءاللہ یہ کلّیہ کبھی غلط ثابت نہیں ہو گا۔ آپ کی جماعت پر بھی نہیں حضور۔

اب کچھ سوال ہمارے بھی سن لیں جناب۔ کراچی میں توووٹوں کی تصدیق اور بوگس ووٹوں کے اخراج کے لئے فوج کی نگرانی میں آپریشن کرنے کے لئے آپ تیار ہیں مگر پاکستان کے شمالی حصّوں میں فوج کے آپریشن خلاف۔ منوّر حسن صاحب ایک حالیہ انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ فوج سوات میں آپریشن کرنا چاہتی تھی اور وہاں اس کی ڈپلائمنٹ بھی ہو گئی تھی مگر جب تک ہماری صوبہ سرحد میں حکومت تھی ہم نے فوج کو سوات میں آپریشن نہیں کرنے دیا۔ اب آپ سوات اور وزیرستان میں تو فوج پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں مگر کراچی کے معاملے میں ایسا کون سا راز چھپا ہے کہ فوج یکدم قابلِ بھروسہ ٹھہرتی ہے؟

تحریکِ طالبان پاکستان کے وجود کو نہ تو آپ مانتے ہیں اور نہ ہی آپ کا اس سے کوئی تعلق لیکن جب اس کے خلاف آپریشن کی بات ہوتی ہے تو آپ مخالفت کرتے ہیں اور جواز یہ دیتے ہیں کہ یہ دینی جماعتوں کے خلاف کارروائی کا بہانہ ہے۔ کیا تنکے والی کہاوت یہاں فٹ نہیں ہوتی ؟ اب فوج کراچی میں آپریشن کرے تو پاکستان اور اسلام کی خدمت اور سوات اور وزیرستان میں کرے تو امریکہ کی ایجنٹ۔ آپ تو دو متضاد باتوں کے بیچ میں سانس بھی نہیں لیتے۔

علاوہ ازیں وزیرستان آپریشن کو آپ اپنے خلاف کارروائی کا بہانہ قرار دیتے ہیں تو آپ سچّے ۔ ایم کیو ایم کراچی میں فوج کی آمد کو اپنے خلاف کارروائی کا بہانہ قرار دیتی ہے تو وہ جھوٹی ۔ جیسا کہ میں نے ایک اور جگہ کہا تھا کہ کیا سچ صرف وہی ہوتا ہے جو جماعتِ اسلامی کے کارکن بولیں؟

کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ چند دن پہلے جنرل پرویز مشرف نے کراچی میں ایک “مضبوط “ جنرل کی نگرانی میں کراچی میں آپریشن کا مشورہ دیا۔ اور اب مختلف جماعتوں نے کراچی میں فوج کے کردار کی حمایت شروع کر دی ہے۔ کس کے پاس یہ ضمانت ہے کہ فوج کچھ مختلف عزائم لیکر کراچی میں نہیں آئے گی؟ 1992 میں بھی اندرونِ سندھ پتھاریداروں کے خلاف آپریشن اچانک ہی کراچی آپریشن میں بدل گیا تھا۔ اس ہی طرح 1977 میں فوج نے جس طرح پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کو دھوکے میں رکھ کر مارشل لاء لگایا وہ بھی اب راز نہیں رہا۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ پہلے مارشل لاء کے بعد پاکستان میں کبھی بھی دس سال سے زیادہ جمہوریت نہیں رہی اور 1973 کے بعد تو محض پانچ سال بعد ہی دوسرا مارشل لاء آ گیا تھا جو دس سال پر محیط تھا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ فوج آنے کی درخواست سنتی ہے جانے کی نہیں۔ آج جو لوگ کراچی میں فوج کا کردار بڑھانے کی سفارش یا حمایت کر رہے ہیں، وہ یاد رکھیں کہ الیکٹرونک میڈیا میں خبریں دفن نہیں ہوتیں اور کل جب یہی لوگ مستقبل کے نقصانات سے بری الذمّہ ہونے کی کوشش کریں گے تو آج کے یہی بیانات ان کے سامنے آکر ان کا منہ چڑا رہے ہوں گے۔

حال ہی میں منوّر حسن صاحب نے ایک بہت خوبصورت بات کہی۔ انٹرویور نے ان سے پوچھا کہ آپ اینکرز کو امریکن ایجنٹ کہہ دیتے ہیں۔ آپ کو کیسے پتہ کہ وہ امریکن ایجنٹ ہے؟ منوّر حسن صاحب نے فرمایا کہ جو ایسا عمل کر رہا ہو جس سے امریکن پالیسیوں کی مدد ہو رہی ہو وہ امریکن ایجنٹ ہے۔ اب اس خوبصورت منطق کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں پر غور فرمائیے۔ ہم بلکہ ہم سے زیادہ زور و شور سے مذہبی جماعتیں کہتی ہیں کہ یہود، ہنود اور امریکہ بشمول یورپ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ اس وقت پاکستان کی کیا حالت ہے۔ وزیرستان میں فوج داخل نہیں ہو سکتی اور فاٹا میں فوج حالتِ جنگ میں ہے۔ پختونخواہ کے بقیہ علاقوں میں بھی فوج ہائی الرٹ پر ہے۔ پاکستان کو ڈیڑھ ڈویژن فوج انڈین سرحد سے اٹھا کر افغان سرحد پر رکھنی پڑ رہی ہے اور امریکہ مستقل دباو ڈال رہا ہے کہ پاکستان مزید فوجیں انڈین بارڈر سے ہٹائے۔ اب فوج کراچی میں تصدیقی آپریشن کے لئے فوج کہاں سے لائے گی؟ کیا انڈین بارڈر سے؟

بلوچستان میں بقول خود آپ کے امریکہ اسے پاکستان سے الگ کرنے کے درپے ہے۔ بلوچستان - افغانستان بارڈر سے انڈیا ہمارے باغیوں کو اکسا کر انہیں ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اس صورتحال سے نبٹنے کے لئے پاکستان اپنی شمالی سرحدوں پر خاردار تاریں لگانا چاہتا ہے تاکہ افغانستان سے مداخلت کا سلسلہ ختم ہو۔ اور اس کی مخالفت کون کر رہا ہے؟ امریکہ، امریکہ کی پٹھو افغان حکومت اور ہماری اپنی جماعت کے امیر جو فرماتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کا بارڈر ہمیشہ سے کھلا ہے، لوگوں کی رشتہ داریاں ہیں لہٰذا اس بارڈر کو بند کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ گرچہ یہی اصول وہ ایران کے بارڈر پر منطبق نہیں کرتے۔

دوسری طرف بلوچستان میں ہی پاکستان مخالف گروہ اس قدر طاقت پکڑ چکے ہیں کہ انہوں نے کوئٹہ شہر میں پاکستان کا پرچم لہرانے اور پاکستان کا قومی ترانہ پڑھنے پر پابندی لگا دی ہے۔ کچھ ہی عرصے پہلے ایک اسکول کے صدر مدرّس اور ان کے اہلِ خانہ کو فائرنگ کرکے اس جرم میں شہید کر دیا گیا کہ وہ اپنے اسکول میں قومی ترانہ پڑھواتے تھے۔ اور حالت یہ ہے کہ یہ صورتحال نہ تو پولیس اور نہ ہی فوج قابو میں ہے۔ ایسی صورت میں جب فوج پہلے ہی انڈیا کے بارڈر سے زیادہ افغان بارڈر پر مصروف ہو تو اس کو کراچی میں الجھانے میں کس کو فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ کیا اس کا فائدہ انڈیا، امریکہ اور اس کے حواریوں کو نہیں پہنچے گا؟

جب وزیرستان آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو مذہبی جماعتیں کہتی ہیں کہ اس کے ردّعمل میں پورے ملک میں انتقامی کارروائیاں ہوں گی جو کہ بے تحاشا نقصان کا باعث بنیں گی۔ اب جبکہ یہی جماعتیں کراچی میں تصدیقی آپریشن کی حمایت میں نغمہ سرا ہیں تو اس کے تو دو ہی مطالب ہو سکتے ہیں۔ یاتو ان کو یقین ہے کہ کراچی میں بسنےوالے تمام افراد اور تمام جماعتیں پر امن افراد پر مشتمل ہیں اور فوج کو وہاں سے کسی منفی ردِّعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا یا دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ فوج کو اس بری طرح سے کراچی میں الجھانا چاہتے ہیں کہ اس کی توجہ انڈین بارڈر، افغان بارڈر ، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں اور وزیرستان سے ہٹ جائے۔ اب اگر پہلی صورت صحیح ہے تو پھر کراچی میں فوج کی کیا ضرورت؟ ووٹر لسٹ کی تصدیق تو پولیس اور انتخابی عملہ بھی کر سکتا ہے۔ بلکہ ہمیشہ سے کرتا چلا آیا ہے۔ اور اگر دوسری صورت ہی ان جماعتوں کی خواہشات کے مطابق ہے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کون کس کا ایجنٹ ہے۔

بہر صورت معاملہ جو بھی ہو، فاٹا اور بلوچستان کی جلتی ہوئی صورتحال کو پسِ پشت ڈال کر کراچی کے معاملے کو ابھارنا بہر حال معنی خیز ہے۔ یہ بات بھی کچھ کم عجیب نہیں کہ پختونخواہ میں ایک ایسی جماعت کی حکومت کے جو کھلے عام پاکستان کے وجود کی مخالف رہی ہو ( اور یہ بات بھی ہمیں مذہبی جماعتوں نے ہی ذہن نشین کرائی) اس کی حکومت پورے پانچ سال اطمینان سے برداشت کر لی جائے مگر کراچی میں جہاں ایسی جماعت کی اکثریت ہو جو کہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے بات کرتی ہو اور اپنے آپ کو بانیانِ پاکستان کی اولاد کہنے میں فخر محسوس کرتی ہو، اس کی حب الوطنی پر شک کیا جائے۔ کیا یہ کچھ غیر حقیقی نہیں لگتا کہ یہی جماعتیں بلوچستان میں پاک فوج سے دو بدو لڑنے والوں اور پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں سے تو مذاکرات کے مشورے دیتی ہوں مگر کراچی میں جہاں کہ حالات دوسرے علاقوں کی نسبت بہرحال اتنے خراب نہ ہوں ، وہاں مسائل سے سیاسی طور پر نمٹنے کے بجائے فوجی حل کی طرف دیکھا جائے۔ ایسی کیا وجہ ہے کہ فوجی حل جو آپ کے اپنے ہی نزدیک بلوچستان اور وزیرستان میں کارگر نہیں، مگر کراچی میں موثر ثابت ہوگا؟

اب ذرا یہ بات کہ کراچی میں ووٹوں کی تصدیق کے عمل پر ایم کیو ایم چراغ پا کیوں ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ جس جماعت کے جہاں مفادات ہوں گے وہ اس ہی پر چلّائیں گے۔ اب اگر یہی عمل آپ لاہور میں کریں تو دیکھئے گا کہ مسلم لیگ کس طرح اس امر کو ممکن بنانے دیتی ہے۔ابھی کچھ ہی عرصے پہلے عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ اس کا امّیدوار لاہور شہری علاقوں میں زیادہ ووٹ لینے کے باوجوداس لئے ہار گیا کہ دیہی علاقوں میں بے تحاشا جعلی ووٹ ڈالے گئے۔ مگر چونکہ معاملہ لاہور کا تھا لہٰذا عمران خان جیسے "ایماندار" شخص کی بات کو بھی کسی نے اہمیت نہیں دی۔ مزے کی بات یہ کہ کراچی میں ووٹر لسٹ کی تصدیق کی حمایت کرنے والوں میں سے کسی نے بھی بشمول عمران خان ، نہیں کہا کہ میرے حلقے میں بھی یہی عمل ہونا چاہئے۔

پھر آپ کا اعتراض کہ "سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پورے ملک کے ساتھ ساتھ اگر کراچی میں بھی فوجی آپریشن ہوتا ہے یا فوج کی نگرانی میں ووٹوں کی تصدیق کا عمل شروع کیا جاتا ہے تو اس میں ایم کیو ایم کے خلاف سارش کہاں سے آ گئی ؟"؟ میرے بھائی امّت کے علاوہ بھی کوئی اخبار پڑھا کیجئے۔ پورے پاکستان میں کہاں فوج کی نگرانی میں ووٹوں کی نگرانی کا عمل شروع ہو رہا ہے؟ ویسے تو ابھی کراچی میں بھی اس امر کا فیصلہ نہیں ہوا ہے اور سپہ سالار بظاہر اس آپریشن کے حق میں نہیں ہیں تو پھر بقیہ ملک میں کیا جماعتِ اسلامی یہ تصدیقی عمل کروا رہی ہے؟

اب ایک ذرا ٹیکنیکل اعتراض۔ میری طرح کراچی کے ( بلکہ تمام ملک کے ) لاکھو ں افراد پاکستان سے باہر رہتے ہیں اور ان کے ووٹ کراچی میں رجسٹرڈ ہیں۔ اب اگر کل ووٹر لسٹ کی تصدیق ہوتی ہے تو چونکہ میں پاکستان سے باہر ہوں لہٰذا میرے اصلی اور سچّے ووٹ کی تصدیق نہیں ہو پائے گی اور میرا نام ووٹر لسٹ سے خارج ہو جائیگا۔ اس طرح اگر ایک قابلِ ذکر تعداد ووٹر لسٹ سے خارج ہو گئی تو پچھلی ووٹر لسٹوں کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا اور اس کا سیاسی نقصان صرف ایم کیو ایم کو ہی ہوگا اور اس کے خلاف ایک اور پروپیگنڈا محاذ کھل جائے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں رہنے والی ایک بڑی تعداد کا ووٹ ان کے آبائی علاقوں میں رجسٹرڈ ہے۔ اور اگر یہ مہم پورے ملک میں چلائی گئی تو کراچی سے بلا مبالغہ لاکھوں ووٹ دوسرے علاقوں میں منتقل ہو جائیں گے۔ اور میں شرطیہ کہتا ہوں کہ اس صورتحال کو ایم کیو ایم کی کوئی مخالف جماعت برداشت نہیں کر سکتی۔ لہٰذا ان کا مطالبہ صرف کراچی میں ووٹرلسٹ کی تصدیق تک محدود رہے گا اور وہ کبھی بھی ملک گیر تصدیق کا مطالبہ نہیں کریں گے۔

آخر میں، میں خود اس بات کی حمایت کروں گا کہ کراچی سمیت تمام ملک میں ووٹر لسٹ کی تصدیق کی جائے اور کراچی سمیت تمام ملک سے جعلی ووٹ کے اندراجات کو ختم کیا جائے۔ اور اس بارے میں علاقائی پالیسی کے بجائے قومی پالیسی بنائی اور لاگُو کی جائے۔

رہا عمران فاروق کے قتل کا معاملہ تو قاتل کو اپنے کئے کا حساب اس ہی دنیا میں دینا پڑے گا۔ ویسے ایک دلچسپ ضمنی سوال یہ ہے کہ آپ اس بات پر تو یکسو ہیں کہ یہود و نصاریٰ، پاکستان کے خلاف ہر طرح کی سازشی حربہ استعمال کر کے اسے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ تو کیا وہ عمران فاروق کے قتل کے معاملے کو پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہیں کریں گے؟ ہے نہ مزے کی سازشی تھیوری؟
MAQ
About the Author: MAQ Read More Articles by MAQ: 23 Articles with 21898 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.