مالیگاؤں کی سرگرم دینی شخصیت حافظ تجمل حسین حشمتی

ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی

اخلاص عمل ایسا جوہر ہے جس سے شخصیت نکھر جاتی ہے، اور پھر اس کے دنیا سے رخصت کے بعد بھی یادوں کے نقوش تازہ رہتے ہیں۔ غور کریں وہ کیسے لوگ ہیں جن کے نقوش دھندلاتے نہیں۔ وہ پاکیزہ خصلت کے حامل اور اخلاص عمل سے آراستہ افراد ہوتے ہیں۔ مالیگاؤں میں ربع صدی پیش تر حافظ تجمل حسین حشمتی کی ذات ایسی ہی گزری، جن کے جذبہ دینی، اور جماعتی سرگرمیوں کے اپنے مخالف سبھی قایل و معترف ہیں، ان کی ذات میں جہاں دین و سنیت کی اشاعت کا جذبہ وافر موجیں مار رہا تھا وہیں شرعی مسائل سے متعلق حزم و احتیاط کا پہلو بھی پیش نظر ہوتا تھا۔

راقم نے شہر کے کئی سن رسیدہ افراد سے حافظ تجمل حسین کی بابت پوچھا، وہ کیسے تھے، ان کی مقبولیت کا سبب کیا تھا۔ یہی جواب ملا کہ وہ پیکر استقامت تھے، شریعت کی پاس داری ملحوظ رکھتے تھے، اللہ و رسول کے وفاداروں سے نرم تھے، دین کے دشمنوں پر سخت تھے، اسی لیے مقبول تھے، گویا اقبال کے اس شعر کے صحیح مصداق تھے:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہوتو فولاد ہے مومن

حافظ صاحب کی سرگرم شخصیت کو کئی جہتوں میں سمیٹا جا سکتا ہے: دین پر استقامت، جماعتی خدمات، ملی خدمات، اہل سنت کی اشاعت کے لیے جدوجہد، علما و مشایخ سے روابط و تعلقات، سنی رویت ہلال کمیٹی کا قیام، سنی جمعیةالعلما، سنی عید گاہ اور دارالعلوم حنفیہ سنیہ کے لیے سرگرم کردار۔ علاوہ ازیں اکھاڑہ مسجد میں بلا معاوضہ عرصے تک امامت وغیرہ.... ہم جس عہد میں جی رہے ہیں یہ بڑا پر آشوب دور ہے۔ مغربی تمدن نے اخلاص مٹا دیا، تعمیری فکر قریبِ مرگ ہے، علما کا ادب جاتا رہا، دین کی اشاعت کا جذبہ ¿ صادق رخصت ہوا اس پر مفاد غالب آیا، خلوص و للّٰہیت سے اشاعت حق کا کام کرنے والے شاذ ہیں، ایسے میں اسلاف کی خدمات رہ نما ہیں، رہ بر ہیں، انھیں کی رہ نمائی میں ملت کا کارواں آگے بڑھے گا، اور نسل نو کے لیے ان کی حیات آئیڈیل ہے۔ حافظ تجمل حسین کی بے لوث خدمات ایسی ہیں کہ ان سے نسل نو کو یک گونہ رہ نمائی ملتی ہے۔ اور ان کی سرگرم زندگی درس دیتی ہے جہد مسلسل کا:
ناصبوری ہے زندگی دل کی
آہ! وہ دل کہ ناصبور نہیں

پروفیسر گب نے روس میں سلاسل طریقت کے اشاعت اسلام میں کام یاب مشن کو دیکھ کر کہا تھا کہ: ”اسلام پر بارہا ایسے مواقع آئے کہ سیاسی طور پر مسلمان کم زور ہو گئے مگر عہد غلامی میں بھی روحانی اسلام تصوف کے ذریعے زندہ رہا اور ہر موڑ پر اس نے ایک نئی جان ڈال کر اسلام کو تازگی عطا کردی۔“ مالیگاؤں میں مسلمانوں کی روحانی تربیت کے پیش نظر حافظ تجمل حسین نے کافی کاوشیں کیں، نابغہ روزگار صوفی با صفا مفتی اعظم ہند کو متعدد بار بریلی شریف سے بلوایا اور آپ کے ہاتھوں بہت سارے افراد نے توبہ کی سعادت حاصل کی، اسی طرح بریلی شریف، پیلی بھیت شریف اور دوسری خانقاہوں سے وابستہ مشایخ کو گاہے بہ گائے مدعو کرتے۔ یوں روحانی طور پر تربیت کا سامان ہو جاتا۔ روح مر جاتی ہے تو جسم بے جان ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایمان کی روح آقاے کائنات علیہ الصلاة وا لسلام کی محبت و الفت ہے، اور جب یہ محبت ختم ہو کر اہانت میں بدل جائے تو بندہ بے ایمان ہو جاتا ہے، آپ کے دور میں مالیگاؤں میں بد عقدگی کے ایسے جرثومے پیدا ہوئے، اور شہر میں اہانت کی فضا گرم کی گئی، آپ نے اس دور کی ممتاز شخصیت مولانا حشمت علی خاں کو پیلی بھیت سے بلوایا، اور حق غالب آیا۔ جس کے اثرات بعد کو بھی دیکھنے کو ملے۔ اور آج بھی شہر کی فضا سلام و نعت کے نغموں سے گونجتی محسوس ہوتی ہے۔

جماعتی سطح پر آپ نے افراد کو رابطے میں باندھ کر رکھا، سنی جمعیةالعلما اور رویت ہلال کمیٹی کے ذریعے بروقت مسلمانوں کی رہ نمائی کی، واقعی کام کیا، جاہ و حشم اور حسد و بغض سے دور تھے۔ افسوس آج یہ منفی عناصر ہمارے اجتماعی تشخص کی راہ میں رکاوٹ بنتے جا رہے ہیں، اور یہ عناصر اب لازمہ بنتے جا رہے ہیں، اس سے قوت بکھر رہی ہے، زندگی کے آثار مٹتے نظر آ رہے ہیں ع
موج ہے اندرون دریا بیرون دریا کچھ نہیں

عالمی سطح پر ایک صدی قبل جو حالات سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کی شکل میں سامنے آئے اس نے مسلمانوں کی رہی سہی قوت کو توڑ کر رکھ دیا۔ گستاخ اور دریدہ دہن گروہ کھلے عام بارگاہ رسالت میں گستاخی کرنے لگے ، اس طوفان نے بہت سے ذہنوں کو فرنگی سازشوںمیں ڈبو دیا۔ ایسے میں مفکر اسلام امام احمد رضا محدث بریلوی نے مسلمانوں کی صحیح رہ نمائی کی، آپ کی خدمات سے رازی و غزالی اور مجدد الف ثانی کی یاد تازہ ہو گئی۔ حافظ تجمل حسین نے جب دیکھا کہ فرنگی سرمہ لگائے اصحاب جبہ و داستار ایمان کو چھیننے کے درپے ہیں تو آپ نے امام احمد رضا کی خدمات کے اسلامی نقوش کو اجاگر کیا۔ اور محبت رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے وہ کئی جہتوں سے سرگرم ہوئے۔ اور ایسے صالح جذبے کے ساتھ کہ جب وہ ۴صفر1405ھ/1984ءکو اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو زباں پر جو نغمہ جاری تھا ایسا لگ رہا تھا کہ ملاءاعلا کے فرشتے آمیں کہہ رہے ہوں:
یا الٰہی جب رضاخواب گراں سے سراُٹھائے
دولت بیدار عشق مصطفےٰ کا ساتھ ہو
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255539 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.