بواسیر کا تعارف، اسباب اور علاج(1)

مجھے آج کا یہ مضمون لکھتے ہوئے حیرت بھی ہو رہی ہے اور خوشی بھی کہ میں تو فطری طور پر ایک مذہبی، معاشرتی اور سیاسی نقّاد ہوں تو پھر میرے قلم نے رخ کیوں بدل لیا۔ تو بات کچھ یوں ہے کہ ایم۔بی۔بی۔ایس کی ڈگری تو ہمارے ہاتھ آتے آتے کسی اور کی ہو گئی۔ ڈی۔ایچ ۔ایم۔ایس اپنے گھر سے بھاگ کر ہمارے ہاں "اخلاقی پناہ" لینے میں کامیاب ہو گئی۔ اسی لئیے ہم کسی سے اس بات کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ ابھی کل ہے تو ہم نے اس کے خلاف اپنی بھڑاس نکالی ہے۔ تاہم اس ساری "مہم جوئی" کا اہلِ خانہ اور قریبی دوستوں کو یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ ان کی ڈاکٹر کی فیس بچ جاتی ہے اور وہ ہم سے "موبائل نسخہ" لے کر کام چلا لیتے ہیں۔

ہم نے محسوس کیا ہے کہ انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے ہمارے مضامین اور کالم لوگوں نے پڑھے۔ سیاسی ، معاشرتی اور مذہبی مضامین کی نسبت صحت پر لکھے جانے والے مضامین میں لوگوں کی دلچسپی بہت زیادہ ہے۔ زیتون کے بارے ہمارے مضمون کو بہت پسند کیا گیا۔ اس پر آپ کا شکریہ۔ اسی رحجان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ارادہ کیا ہے کہ اپنے تنگ دامن میں جو کچھ نفع بخش معلومات ہیں وہ عوام الناس تک ضرور پہنچا دی جائیں، ملک و قوم کی خدمت بھی، صحت کی تعلیم بھی عام اور اللہ عزوجل و رسول ﷺ بھی خوش۔ سبحان اللہ عزوجل۔

اس سلسلے میں آج ہم جس بیماری کو یہاں ذکر کریں گے وہ ہمارے معاشرے کے علاوہ مشرق بعید اور مغربی ممالک میں بھی بکثرت پائی جاتی ہے۔ اس ناسور اور تگنی کا ناچ نچانے والی بیماری کو ہمارے ہاں عرفِ عام میں "بواسیر" کہا جاتا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ایک جامع اور مفصّل انداز میں اس بیماری کی تمام متعلقہ پہلوؤں پر کچھ رقم کر سکیں۔

بواسیر عموماً تیس برس کی عمر کے بعد زندگی کے کسی بھی موڑ پر ہو سکتی ہے، تا ہم کچھ نوجوانوں میں تیس سال سے قبل بھی پائی جاتی ہے۔ بواسیر رنگ و نسل، علاقہ و اسکان کا لحاظ کئیے بغیر کسی بھی انسان کو شکار کر لیتی ہے۔ امریکہ، افریقہ، جنوبی ایشیاء، مشرق بعید، سمیت دنیا کے ہر کونے میں یہ مرض موجود ہے۔ عمر رسیدہ افراد کے علاوہ نوجوان لڑکیوں، لڑکوں اور حاملہ عورتوں کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حاملہ عورتوں میں یہ مرض پانچویں مہینے کے بعد شروع ہوتا اور نویں مہینے میں پوری شدّت و حدّت سے ظاہر ہوتا ہے۔ مختلف لوگوں میں اس کی مختلف وجوہات و اسباب ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل ہم اس مضمون کے آخر میں پیش کریں گے۔

بواسیر کیا ہے؟
ایک مرض، جس میں مریض کے مقعد پر ورید کے پھول جانے سے چھالے پڑجاتے ہیں اور اجابت کرتے وقت مریض کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس تکلیف کی شدت، بیماری کی نوعیت اور شدت پر منحصر ہے۔

اردو ، عربی اور فارسی میں بواسیر ہی کہا جاتا ہے جب کہ انگریزی اور رائج الوقت میڈیکل سائنس میں hemorrhoidsکہا جاتا ہے۔ عموماً دو اقسام ہی کی ہوتی ہے ایک کو ظاہری یا بیرونی یا خونی کہتے ہیں جبکہ دوسری قسم اندرونی یا بادی کہلاتی ہے۔ اوّل الذکر میں عام طور پر زیادہ تکلیف کا سامنا نہیں ہوتا تا ہم جب مرض مزمّن حالت میں چلا جائے پھر حاجتِ بشری کے وقت دباؤ کی صورت میں مقعد کے اندر موجود مٹر کے دانے نما فضلہ باہر آ کر پھٹ جاتا ہے اس سے خون بھی جاری ہوتا ہے اور اچھی خاصی تکلیف بھی درپیش ہوتی ہے۔

دوسری قسم کو خارجی یا بیرونی بواسیر کہتے ہیں۔ اس میں مقعد کے باہر ایک نرم سوجی ہوئی رسولی محسوس ہوتی ہے۔ رفعِ حاجت کے اوقات میں اس میں شدت واقع ہوتی ہے اور دباؤ پڑھنے پر یہ دانہ نما رسولی پھٹ جاتی ہے، جس سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا خون خوب سرخ اور چمکیلا ہوتا ہے۔ یہ خون چند لمحوں میں خود بخود بند ہو جاتا ہے اور اس کے بعد مریض خود کو بہت زیادہ پر سکون محسوس کرتا ہے۔ اس کے چہرے پر افاقہ کے واضح اثرات نظر آتے ہیں۔ بواسیر کی اس قسم میں مریض کو مقعد میں شدید خارش کے ساتھ ساتھ انتہائی کربناک درد بھی محسوس ہوتا ہے۔ بار بار رفع حاجت کے لئیے بیت الخلا جاتا ہے تاہم حاجت رفع نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی دباؤ کے نتیجے میں چربی بھی خارج ہوتی ہے۔
اب ہم ذکر کریں گے بواسیر کی وجوہ اور اسباب کا۔

ہمارے معاشرے میں ہیلتھ ایجوکیشن کی کمی تمام بیماریوں کی بنیادی وجہ ہے۔ بواسیر کی اولین وجہ بھی یہی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے ظاہری حسن و جمال کے لئیے اطباء اور ڈاکٹروں سے مشاورت کرتے ہیں تاہم اس خطرناک بیماری کے بارے میں شرمندگی ان کے آڑے آتی ہے اور نتیجتاً یہ شرمندگی ان کے لئیے وبالِ جان بن جاتی ہے۔ تکلیف اور بیماری جب شدید ہو جائے پھر طبیب سے رجوع کرتے تو ہیں مگر مکمل معائنہ کروانے سے پھربھی گریزاں نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ اس بیماری کو ایک عیب سمجھتے ہیں او ر اس سے متعلق بات کرنے کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ جبکہ یہ ایک بیماری ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اچھی اور بری تقدیر کا مالک وہی ہے۔

اسباب اور علاج کے بارے میں انتہائی مفید معلومات اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔ اگر آپ اس تحریر اور مضمون کو بار بار پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ آپ کے لئیے اور آپ کے پیاروں کے لئیے انتہائی مفید و معاون ہو گی۔ دوسروں تک پہنچائیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پائیے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 236365 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More