بلوچ قوم پرستوں کی اصلیت

اسلام کے نام نہاد ٹھیکیدار جب قوم پرستی کو تعصب کانام دیکر اسے غیر اسلامی اورقوم پرستوں کو اسلام سے خارج قراردیتے ہیں تو افسوس کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آتا ہے، عقل سے پیدل ان لوگوں کویہ سمجھانا مشکل ہے کہ تعصب اورقوم پرستی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کے ضد ہیں۔ تعصب جتنا منفی اور ایک غیر اسلامی جذبہ ہے قوم پرستی انتا ہی مثبت اور عین اسلامی جذبہ ہے۔ اسلام نے تعصب سے منع کیا ہے لیکن اقرباءپروری پر زور دے کر ایک طرح سے قوم پرستی کی تعلیم دی ہے اوراس لئے دی ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور قوم پرستی فطرت انسانی کا حصہ۔ ایک حقیقی قوم پرست میں رتی بھر تعصب نہیں پایا جاتا۔یہ سچ ہے کہ وہ اپنے وطن، اپنی قوم ، اپنی زبان اور اپنی ثقاقت سے شدید محبت کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے دوسری اقوام ، دوسرے اوطان، دوسری زبانوں اور دوسری ثقافتوں سے نفرت ہوتی ہے ۔ وہ انہیں بھی انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس وجہ سے دیکھتا ہے کہ اسے دوسروں کے مقابلے میں اس بات کا زیادہ احساس ہوتا ہے کہ جس طرح انہیں اپنا وطن، اپنی قوم ، اپنی زبان اورثقافت عزیز ہیں بالکل اسی طرح دوسروں کو بھی اپنی یہ تمام چیزیں عزیز ہوتی ہیں۔ ایک حقیقی قوم پرست اپنے قوم کوترقی یافتہ اورخوشحال دیکھنا چاہتا ہے لیکن کسی کونقصان پہنچانے کی قیمت پر ہرگز نہیں۔ وہ اپنے وطن اورقوم کیلئے تمام جائز حقوق حاصل کرنا چاہتا ہے اوراس کیلئے ہر قسم کی جدوجہد کرتا ہے لیکن اس سارے عمل میں وہ کسی کو اس کے حق سے محروم نہیںکرنا چاہتا بلکہ وہ دوسروں سے بڑھ کراوروں کے حقوق تسلیم کرنے والا ہوتا ہے۔ ایک حقیقی قوم پرست کبھی بھی ذاتی فائدہ نہیں ڈھونتا بلکہ وہ اپنا سب کچھ ملک وقوم کی ترقی اورخوشحالی کیلئے قربان کرتا ہے۔

اس طویل تمہید کامقصد مسئلہ بلوچستان کے تناظر میں بلوچ ”قوم پرستوں “کے کردار اور مقاصد کاجائزہ لینا ہے۔ سردار اختر مینگل کی پاکستان آمد ، سپریم کورٹ میں پیشی اور شیخ مجیب کی طرز پر چھ نکات کے منظر عام پرآنے سے بلوچستان کامسئلہ ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں کازینت بن گیاہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی رہنماءاورمیڈیا بلا سوچے سمجھے بلوچستان کے مسئلے کو مشرقی پاکستان کے مسئلے جیساقراردے رہے ہیں اور اپنے نمبر بڑھانے اورخود کو محب وطن قراردینے کیلئے” بلوچ قوم پرستوں “کے ساتھ ہمدردیاں جتارہے ہیںلیکن انہیں معلوم نہیں کہ ان کا یہ عمل اصل میں بلوچ قوم کے ساتھ بڑاظلم ہے۔ ان کی یہ ہمدردیاں اس وقت بلوچ قوم کے وسیع تر مفاد میں ہوتیں اگر” بلوچ قوم پرست لیڈر“ واقعی قوم پرست ہوتے۔ اوپر کی سطروں میں لفظ بلوچ قوم پرستوں کوواوین میں اس لئے لکھاگیا ہے کہ میں بلوچ قوم پرست لیڈروں کو حقیقی قوم پرست سمجھتا ہی نہیں اوریہی خیال میراسندھی قوم پرست رہنماﺅں کے بارے میں بھی ہے۔

بلوچوں کی سرزمین پاکستان کا حصہ رہے ، کسی اور ملک میں ضم ہوجائے یا پھر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کرے ،میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ اصل مسائل تو بلوچ قوم کی غربت، پسماندگی اورجہالت ہیں اور میں اس کا ذمہ دار ریاست سے بڑھ کر ان نام نہادقوم پرستوں کو سمجھتا ہوں جو بلوچ قوم کے نام پر ذاتی مفاد ات کیلئے ریاست کو بلیک میل کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بالادست ریاستی قوتوں کی ہوس اقتدار ، غلط فیصلوں،کرپشن اورنااہلی نے ملک وقوم کوبے پناہ نقصان پہنچایا ہے لیکن یہ نقصان صرف بلوچ قوم کو نہیںملک بھر کے عوام کو یکساں طورپر پہنچاہے لہٰذا ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں کہ ریاست کی جانب سے بلوچ عوام کو کسی امتیازی سلوک کانشانہ بنایاگیا ہے یا بنایا جارہاہے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ بلوچ قوم کو خود بلوچ سرداروں (جن میں سے اکثر قوم پرست ہونے کادعویٰ کرتے ہیں) نے ہی بدترین سلوک کانشانہ بنایاہے۔ ان سرداروں کے ہاں بلوچ عوام کی اہمیت جوتے برابر بھی نہیں۔ یہ انہیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔اگر سمجھتے توایک بلوچ سردار بڑے فخر کے ساتھ یہ اعتراف نہیں کرتا کہ اس نے ایک بلوچ مزدور کومحض تفریح طبع کیلئے گولی مار کرقتل کیا تھا۔پانچ بلوچ خواتین کو زندہ درگور کرنے کے پیچھے بھی ان ہی بلوچ سرداروں کاہاتھ تھا لیکن سیاست چمکانے اورذاتی مفادات کے حصول کیلئے بلوچ سردار خود کو قوم پرست بھی کہتے ہیں،لبرل بھی اور روشن خیال وترقی پسند بھی لیکن حقیقت میں ان کی سوچ ،ان کامزاج اوران کاکردار ظالم جاگیرداروں جیساہے۔ ایجی سن جیسے بڑے تعلیمی اداروں کی ڈگریاں بھی ان کی فرسودہ جابرانہ اور متکبرانہ سوچ کو تبدیل نہیں کرسکی ہیں۔

ریاستی ناانصافیوں اورمظالم کیخلاف واویلا کرنےو الے ان سرداروں سے کوئی پوچھے کہ انہوں نے اپنے طورپر بلوچ عوام کیلئے کیاکیا ہے؟کیا کسی بلوچ سردار نے آج تک اپنی قوم کیلئے تعلیم اور صحت کے شعبے میں کوئی کام کیا ہے؟ اس سلسلے میں کوئی تحریک چلائی ہے ؟بلوچ معاشرے میں موجود فردسودہ اورظالمانہ رسومات کے خاتمے کیلئے کبھی کوئی قدم اٹھایا ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے حالانکہ یہ سردار اگرواقعی قوم پرست ہوتے اوران کے دل میں بلوچ قوم کا دکھ درد ہوتا تویہ اتنے صاحب ثروت اوراتنے بااثر ہیں ضرور ہیں کہ اپنی مدد آپ کے تحت بھی بلوچ معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لاسکتے ہیں ۔بلوچ قوم کو تعلیم اورترقی کی دوڑ میں شامل کرسکتے ہیں لیکن وہ یہ سب کچھ کیونکر کریں گے؟ ایسا کرنے سے تو بلوچ قوم میں شعور آئے گا اوراس طرح ان سرداروں کی صدیوں سے جاری سرداری کا خاتمہ ہوگا۔ وہ توچاہتے ہیںکہ بلوچ جہالت اورغربت کے اندھیروں میں ہی رہیںتاکہ ان کی بدمعاشیوں اورعیاشیوں کا سلسلہ جاری رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ سردار نہ صرف خود بلوچ معاشرے کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھاتے ہیں بلکہ اس مقصد کیلئے ریاست کی جانب سے بھی اگر کچھ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی راہ میں بھی رکاﺅٹیں پیداکی جاتی ہیںاور ان کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جاتا ۔آج اگر بلوچ عوام پاکستان کے دیگر لوگوںکے مقابلے میں زیادہ پسماندہ ہیں تو اس کی واحد وجہ یہی بلوچ سردار ہیں جنہوں نے ریاست کے اندر اپنی ریاستیں قائم کررکھی ہیں۔ جہاں ان کی مرضی کے کیخلاف کوئی پر بھی نہیں مارسکتا۔جب کبھی حکومت نے ان کی اس داداگیری کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتی ہے تویہ لوگ بڑی چالاکی کے ساتھ اسے بلوچ قوم کے خلاف کارروائی قراردے کر واویلا مچانا شروع کردیتے ہیں اورپاکستان توڑنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

بلوچستان میں جب بھی بااثر سرداروں کے مفادات کوخطرات لاحق ہوئے ہیں انہوں نے اپنے تنخواہ داروں کے ذریعے اور کچھ سادہ لوح بلوچ نوجوانوں کے ذریعے امن وامان کے مسائل پیدا کرنے شروع کردیئے ہیں۔ اس وقت بھی بلوچستان میں حالات کی خرابی میں ان ہی بلوچ سرداروں کا ہاتھ ہے جبکہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے بیرونی ہاتھ نے بھی اپنا کام شروع کردیا ہے۔ جہاں تک ایجنسیوں پر الزامات کا تعلق ہے تواس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا توکام ہی ملک دشمن عناصر کو ٹھکانے لگانا ہے۔ وہ اپنا یہ کام نہ کریں توکیا کریں؟ البتہ یہ سچ ہے کہ ان کاطریقہ کار غلط ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ یہ ایجنسیاں کس مجبوری کے وجہ سے غلط طریقہ کار اپنائی ہوئی ہیں۔لیکن کچھ بھی ہو انہیں اپنا قبلہ درست کرنا چاہئے۔ انہیںملک دشمن عناصر کے ساتھ آئین وقانون کے مطابق نمٹ کر بدنامی کے بجائے نیک نامی اور ملک وقوم سے داد حاصل کرنی چاہئے۔

آخر میں تعلیم یافتہ، ترقی پسند اور روشن خیال بلوچ نوجوانوں سے گذارش ہے کہ وہ مفاد پرست سرداروں کی باتوں میںہرگز نہ آئے۔ یہ کسی بھی طرح قوم پرست نہیں۔ انہیںصرف اپنی رائلٹیاں اوردوسری مراعات و مفادات عزیز ہیں۔ بلوچ قوم کے ساتھ ان کوزرہ بھر بھی ہمدری نہیں۔ بلوچ نوجوان اگر واقعی آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بلوچ قوم کوخوشحال اورترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں بلوچوں کو سرداروں کے چنگل سے نکالنے کیلئے کمربستہ ہونا ہوگا۔انہیں بلو چ معاشرے میں تعلیم کو عام کرنا ہوگا اورفرسودہ اورجاہلانہ رسومات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ان سب کے بغیر بلوچ عوام کبھی بھی حقیقی آزادی حاصل نہیں کرسکتے۔ ظالم سرداروں کی موجودگی میں بلوچستان اگر الگ ملک بن بھی گیا تو اس کا عام بلوچ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔البتہ خدشہ ہے کہ ایسی صورت میں بلوچستان کے حالات موجودہ سے بھی زیادہ بدتر ہوجائیں گے کیوں کہ پھر بلوچ عوام مکمل طورپر بلوچ سرداروں کے رحم وکرم پر ہوں گے ۔ ذاتی مفادات کیلئے یہ سردار پھر ایک دوسرے کے ساتھ بھی لڑیں گے اور اس کے نتیجہ میں بلوچوں کی سرزمین بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوگی اورسارے کاسارانقصان ایک عام بلوچ کو ہوگا۔

بلوچوں کی حقیقی آزادی کاایک ہی راستہ ہے کہ انہیں تعلیمی انقلاب کے ذریعے ایک باشعور قوم بنایا جائے۔ ایسی صورت میں نہ پھر بلوچ سردار ان کے حقوق غضب کرسکیں گے اورنہ ہی کوئی اور،کیونکہ ایک تعلیم یافتہ باشعور قوم کو زیادہ عرصے تک غلام رکھا جاسکتا ہے اورنہ ہی حقوق سے محروم ۔
Nazeer Alam Nazeer
About the Author: Nazeer Alam Nazeer Read More Articles by Nazeer Alam Nazeer: 14 Articles with 41956 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.