یوم عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم

اک جم غفیر ہے ، لوگ جوق در جوق قدم سے قدم ملاتے آرہے ہیں کہ شاید کچھ نیا ہونے جارہا ہے شاید ہم وہ سنیں گے جو ہم سننا چاہتے ہیں فاران کی چوٹی کے سامنے تمام افراد اپنے شہر کے سب سے معزز و مکرم انسان کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتی ہیں اور سماعتوں سے یہ آواز ٹکراتی ہے َ اے لوگو ! میرا بچپن و جوانی تمھارے درمیان گزرا میرے شب و روز تمھارے سامنے ہیں بتاو میرے متعلق تمھاری کیا رائے ہے ’ تاریخ اپنے صفحات پھیلائے درمندانہ اپیل کرتی ہے کہ آو مجھے پڑھو اور سمجھو کہ اس وقت عرب میں کئی قومیں آباد تھیں جن میں عیسائی بھی تھے ، یہودی بھی تھے اور مشرکین بھی تھے ۔ مگر کسی کو بھی جرات نہ تھی کہ وہ کامل انسانیت کی شان میں کسی قسم کی ہجو کرتے یا کسی بھی قسم کا عیب ڈھونڈتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو کچھ ان کی زبان سے نکلا وہ بے اختیار تھا اور وہی ان کے دل کی آواز تھی کہ ‘ بے شک آپ صادق و امین ہیں’۔ اللہ اللہ یہ کیسا ان لوگوں کا امتحان تھا ذات مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں رب عزوجل نے تمام نافرمانوں کو بھی یک زبان کردیا اور ‘ ناموس مصطے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم’ کی گواہی دلوادی۔ یعنی ناموس کی گواہی پہلے بعد میں دین مبین کا اظہار ۔۔۔۔۔ گویا فارمولہ یہ بنا کہ انسانو! پہلے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کی حرمت کا اقرار کرو پھر دین مبین کو اپنا کر اپنی زندگیوں میں ھدایت کا راستہ چنو۔

بہت عرصے بعد میں کوئی کالم لکھ رہا ہوں اور وہ بھی ایسے نازک موقع پر جب کہ تمام عالم اسلام سراپااحتجاج ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چاہنے والے یک نکاتی ایجنڈا کہ ‘ گستاخ رسول کی ایک سزا ۔۔۔۔۔۔ سر تن سے جدا سر تن سے جدا ’ کا نعرہ لگائے دیوانگی کی حد تک ظالم کو للکار رہے ہیں۔ بے شک جو شخص توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مصلحت کی چادر اوڑھے ، غیروں کی زبان میں اپنوں کے جذبات کو پاگل پن یا انتہا پسندی سے تعبیر کرے ایسے شخص کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے۔

قرآن پاک اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کے بارے میں یوں بیان فرماتا ہے

بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ، ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں ، اللہ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (پارہ ۲۲ ۔ احزاب ۵۷)

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے ‘ جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرئیل و میکائیل کا ، تو اللہ دشمن ہے کافروں کا۔ (البقرہ ۹۸)

کفار ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ کسی طرح سے مسلمانوں کے دلوں سے ‘ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم’ کا چراغ بجھا دیں لہذا ان کا سازشی ذہن ہمیشہ کسی نہ کسی ایسے پوائنٹ کو ڈھونڈتا رہتا ہے کہ جس سے شان مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تنقیص کا پہلو لاسکیں اور اپنی اس بد عملی کو وہ تمام ذرائع بروئےکار لاتے ہوئے وقتا فوقتا امت مسلمہ کے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ اور عشق مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تپش کی حدت کو جانچنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ بات زبان و بیان کی ہو یا تقریر و تحریر کی ، خاکے بنائے جانے کا معاملہ ہو یا فلم کی صورت توہین رسالت کا اقدام ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کفار کی یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہیجان کی کیفیت میں مبتلا کرکے ان سے صحیح اور غلط کی تمیز بھی چھین لیں تا کہ پھر باقی ساری دنیا کو ان کا برا امیج پیش کیا جاسکے۔ اور اسلام کے آفاقی پیغام کو سمجھ رکھنے والے غیر مسلموں تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اپنے کردار کو اپنے افکار سے مربوط کردیں۔ جو کہیں وہ کر کے دکھائیں، منافقت کی چادر اتار کر حق کا پرچار کرنے کی کوشش کریں تا کہ اغیار پر ہماری کہی باتوں کا اثر بھی ہو۔

بہرحال موجودہ حالات میں کہ جب ایک بد بخت ، مردود اور جہنمی نے ہمارے پیارے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اس پر امت مسلمہ کا احتجاج سو فیصد برحق اور عین ایمان ہے۔ ہماری نمازیں بھی اہم ، روزے بھی اہم ، صدقہ و خیرات و زکواۃ بھی اہم ۔۔۔۔۔ بلکہ تمام اسلامی معاملات اہم اور دین و دنیا کی بھلائی و کامیابی کی ضمانت ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جس دل میں اہانت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قیامت نہ گزرتی ہو ، جو آنکھ پیارے مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں آنسو نہ بہاتی ہو ایسوں کے مسلمان ہونے میں بھی ہمیں شک ہے۔

ایک مرتبہ کسی نے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ تعالی علیہ سے پوچھا کہ اے وقت کے امام گستاخ رسول کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے۔ تو فرمایا ‘ ایسی قوم کو جینے کا کوئی حق نہیں کہ جس میں ایک بھی گستاخ رسول موجود ہو’۔ یقینن کوئی نہ کوئی ، کبھی نہ کبھی اس پلید پادری کو واصل جہنم کر ہی دے گا۔ لہذا اگر کوئی یہ کہے کہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہم کیسے اس پلید پو ہاتھ ڈال سکتے ہیں اور پھراس بات کو عاشقان مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احتجاج سے روکنے میں دلیل کے طورپرپیش کرے تو پھر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ جب ابراھیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جارہا تھا تو ایک پرندہ (غالبا چڑیا) اپنی چونچ میں پانی کے قطرے لا لا کر اس آگ پر ڈالتی رہی ۔ یقینن اس چڑیا کی چونچ میں موجود پانی کے قطرے سے ان آسمان کو چھوتی آگ کی لپیٹوں میں کوئی فرق نہ آیا مگر بروز قیامات جب آگ بجھانے والوں میں کسی کا نام آئے گا تو وہ چڑیا بھی ان آگ بجھانے والوں میں شامل ہوگی۔ اور جب مصر کے بازار میں حضرت یوسف علیہ السلام کی بولی لگائی جارہی تھی تو ایک بھڑیا بھی رسی کا کچھ گچھا اس بولی میں شامل کرنے لگی۔ پوچھنے والوں نے پوچھا اے بھڑیا یہاں لوگ بیش قیمت بولی دے کر یوسف علیہ السلام کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور تو اس رسی کے گچھے سے اسے خریدنے آئی ہے تو بھڑیا بولی بے شک میں یوسف کو خرید تو نہیں سکتی مگر خریدنے والوں میں میرا نام بھی تو آجائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ہم بے شک اس پلید کو اپنے ہاتھوں فی الوقت جھنم واصل نہیں کرسکتے مگر سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخوں سے نفرت کے اظہار میں جب عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ ہوگا اور بروز قیامت جب حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سند مانگی جائے گی تو ہم اسی احتجاج اوراسی دلی نفرت جو ہم اس منحوس و مردود گستاخ کے لئے رکھتے ہیں پیش کردیں گے۔ انشا اللہ عزوجل یہی عمل ہماری نجات کا سبب بنے گا۔

اب میں حکومتی اقدام کہ جس میں یوم عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا اعلان کیا گیا ، پر حکومت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ جن جن اصحاب نے جس جس لیول پر احتجاج کیا اور اس بد طینیت شخص سے نفرت کا اظہار کیا اللہ کریم ہم سب کو اس پر اجر عظیم عطا فرمائے اور اسی حمیت و غیرت کو ہماری نسلوں میں بھی شامل فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

ایک چھوٹی سی درخواست ہے تمام امت سے بلخصوص پاکستانی مسلمانوں سے کہ حکومتی سطح پر منائے جانے والے دن یعنی "یوم عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" پر کسی قسم کی بدگمانی میں مبتلا ہونے کے بجائے جو صحیح ہے اور جتنا صحیح ہے اسے صحیح ہی کہا جائے۔ ہم نے کسی حکومتی رکن کے دل میں نہیں جھانکا نہ ہم ایسا کرسکتے ہیں لہذا اچھے گمان کے ساتھ اس حکومتی اقدام کو سراہا جائے۔ کہ دیر آید پر درست آید۔

آخر میں ، میں کچھ مزید کہنا چاہوں گا کہ

۱۔ پوری قوم کا یہ مطالبہ نہیں تھا کہ انھیں ایک دن کی چھٹی دے دی جائے بلکہ مطالبہ یہ تھا کہ امریکی سفیر کو بلا کر بھر پور احتجاج ریکارڈ کرایا جائے اور او آی سی لیول پر اس ملعون کے اس اقدام کی روک تھام اور سزا دینے کے حوالے سے کوئی عملی اقدام کیا جائے۔

۲۔ پورے پاکستان میں احتجاج کے نام پر جس جس گروہ یا فرد نے لوٹ مار کی ہے ، فساد برپا کیا ہے یا قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی ہے ان سب گروہ اور ان کے سرپرستوں کے نام قوم کے سامنے لائیں جائیں تا کہ ہم تمام فسادیوں کو بھی پہچان سکیں۔

۳۔ مجھے دلی طور پر ان تمام لوگوں سے ہمدردی ہے کہ جو فسادیوں کے ہتھے چڑھ کر شہید و زخمی ہوگئے۔ اللہ کریم ہم سب پر اپنا کرم فرمائے۔ اور لواحقین کو صبر جمیل اور اس پر اجر عظیم عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

اے کاش کہ یوم عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "عقیدت و محبت " کے جذبات کے ساتھ ہی منایا جاتا اور کسی قسم کا دنگا فساد برپا نہ ہوتا ۔۔۔۔۔ مگر کیا کریں کچھ نام نہاد تنظیموں کے بے لگام گھوڑے ۔۔۔۔۔ سب کچھ برباد کرگئے۔ ہم یقینن شرمندہ ہیں اس جرم پر جو ہم نے نہیں کیا مگر ہماری صفوں میں موجود کچھ کالی بھیڑوں کی کارستانی ہے۔ اللہ کریم ایسے فسادیوں کو عقل سلیم عطا فرما کر ھدایت کے راستے پر گامزن فرمائے اور ہم تمام امتیوں کو ان کے شر اور صحبت سے ہمیشہ ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
Kamran Azeemi
About the Author: Kamran Azeemi Read More Articles by Kamran Azeemi: 19 Articles with 50235 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.