پشاور کے شہری اپنے شہر میں مسافر

اپنے شہر میں مسافر ہونا کیسا لگتا ہے اس کا جواب تو خیبر پختونخوا کے لوگ خصوصا پشاورکے شہری ہی دے سکتے ہیں کیونکہ اس دیس کے باسیوں کیساتھ جو سلوک اس وقت سیکورٹی فورسز کررہی ہیں اس سے انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہماری "اوقات" کیا ہے اور ہم جیسے " بلڈی سویلین" کا اس صوبے میں کوئی پوچھنے والا نہیں -عام لوگوں کیساتھ سیکورٹی فورسز کا روا رکھنے جانیوالا سلوک اس وقت صرف قبائلی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ پشاور کے مختلف شاہراہوں پر تعینات فوج کے اہلکار جیسا کررہے ہیں وہ پاک فوج جیسے قومی ادارے سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کے شایان شان ہی نہیں -اب تو ان کے سلوک کی وجہ سے پشاور کے لوگ جس القاب سے انہیں پکارتے ہیں انہیں یہاں لکھنے سے جہاں" قومی مفاد" پر ضرب پڑتی ہے وہیں پرمیرا نام بھی " لاپتہ افراد "کی فہرست میں شامل ہونے کا خطرہ ہے -

ایک ہفتہ قبل خیبر روڈ پر محکمہ صحت میں کوریج کے سلسلے میں دفتر کی گاڑی میں گیا ہوا تھا کوریج کے بعدگاڑی میں بیٹھ گیا اور کیمرہ مین کا انتظار کرنے لگا چونکہ اس وقت وہ ایک اور ادارے کے کیمرہ مین کو اس میٹنگ کی فلم دے رہا تھا اسی وجہ سے وہ پانچ منٹ لیٹ ہوگیا میں انتظار کررہا تھا کہ سڑک کے دوسرے طرف سیکورٹی فورس کے ایک اہلکار نے اشارہ کیا اور کہا کہ "فورا یہاں سے نکل جائو"میں نے اشارہ کرکے بتا دیا کہ جناب پانچ منٹ میں کیمرہ مین آرہا ہے اور میں نکل رہا ہوں اس کی غصے اور غلط لہجے کی وجہ سے میں نے کیمرہ مین کو آواز دی کہ جلدی ختم کرو میں پیچھے کیمرہ مین کو دیکھ رہا تھا کہ ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی میں نے پوچھا کہ ایسا تم نے کیوں کیا تو اس نے بتادیا کہ متعلقہ سپاہی نے جو کہ دیوار پر ڈیوٹی پر تھا نے تمھارے جواب کے فوری بعد گن ہماری طرف کردی اور کارتوس کو آگے کردیا یعنی اس نے صرف ٹرائیگر دبانا تھا کہ میں نے ڈر کی وجہ سے بھگا دی میں نے اس سپاہی کو دیکھ لیا جو اس وقت گن نیچے کرکے اس سے گولی نکال رہا تھا -میں خوف کا شکار بھی ہوگیا لیکن اس دن اپنے قومی ادارے جس کیلئے میرے دل میں جتنی محبت تھی اس سپاہی کے ایک ہی حرکت نے ختم کردی مجھے اس فورس سے ڈر لگنے لگا اور جس چیز سے ڈر لگنے لگے اس سے محبت نہیں کی جاتی اس سے نفرت شروع ہو جاتی ہیں اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بہت سارے واقعات ہوئے ہیں-چونکہ ہم اس ملک کے وہ باسی ہیں جن کی "اوقات "نہیں ہوتی اور پھر سویلین بھی ہیں تو ان کیلئے ہماری اوقات شائد مچھر مارنے کے برابر ہے-

گذشتہ دو ہفتوں سے پشاور کے خیبر روڈ پر عام لوگوں کیساتھ جو رویہ رکھا جارہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ ان کے " چاچے " بھی موجود ہیں جن کے ڈنڈے کے آگے کسی کی نہیں چلتی - "یس سر اور نو سر " کی گردان کرنے والے ان لوگوں نے پشاور کے خیبر روڈ کو ٹریفک کیلئے مکمل طور پربند کردیا ہے اور صرف "کار والے "حضرات ہی اس روڈ سے گزر سکتے ہیں میری طرح ہزاروں افراد جو روزگار کے سلسلے میں اسی روڈ کے ذریعے حیات آباد اور یونیورسٹی ٹائون سمیت شامی روڈ کو جانا چاہتے ہیں ان کیلئے یہ راستہ شجر ممنوعہ ہے -بڑی بڑی دیواروں ` سیکورٹی کیمروں اور بلٹ پروفوں میں ڈیوٹی انجام دینے والے "موت "سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں اور زندگی پیاری لگتی ہے لیکن اپنی زندگی کیلئے دوسروں کی زندگی کو حرام کرنا کونسے آئین اور کونسے اسلام میں ہے کیا اس کا جواب کسی کے پاس ہے -

ٹھیک ہے کہ ہمارا خطہ دہشت گردی کا شکار ہے اور دہشت گرد معصوم لوگوں کو مار رہے ہیں لیکن دہشت گردی کی اس جنگ نے ہمیں کس حال میں پہنچا دیا ہے شائد اوپر بیٹھنے والے حکمران اور ان کے پیٹی بند وں کو یہ نظر نہیں آرہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس جنگ نے عام لوگوں کی زندگی اتنی اجیرن کردی ہے کہ اب وہ ہر چیز سے نفرت کررہا ہے - اللہ جنت نصیب کرے )ویسے مشکل ہے( ضیاء الحق جن کے بارے میں ہمارے ایک مشہور کامیڈین کا لطیفہ ہے کہ جب اسے قبر میں رکھ دیا گیا اور اس سے سوال و جواب کا سیشن ہوا تو غلطی ہوئی تو فرشتوں نے اسے مار دیا تو جواب میں قبر میں پڑے صاحب نے کہا کہ مجھے مار تے رہو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس قبر میں تو بہت سارے لوگوں کے گوشت کے ٹکڑے پڑے ہیں -خیر یہ تو ایک لطیفہ ہے لیکن یہ اعزاز بھی انہیں کو جاتا ہے کہ سیکورٹی فورس کو تباہ کرنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے انہوں نے سویلین اداروں میں انہیں ضم کردیا اور پھر ملک سے بھاگ کر "سیاست کرنے والے" ایک سابق جرنیل بھی اسی فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے اس قومی ادارے کا وقار تباہ کردیااور ایسا وقت آگیا کہ اس ادارے سے وابستہ لوگ یونیفارم تک نہیں پہنتے تھے ان کے جانے کے بعد موجودہ صاحب نے حالات بہت حد تک کنٹرول کردئیے اور لوگوں کا اعتماد کسی حد تک بحال ہونے لگا کیونکہ پروفیشنل ہونے کی وجہ سے قومی ادارے میں ڈسپلن آگیا -اور یہی اس ملک کا واحد ادارہ ہے جس میں اس وقت بھی ڈسپلن ہے اور قوم کی حفاظت کررہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ سڑکوں پر پولیس کیساتھ ڈیوٹی کرنے والے سیکورٹی فورس کے اہلکاروںکا رویہ عام لوگوں کیساتھ انتہائی توہین آمیز ہے -اور اس حوالے سے پولیس جواپنی بد زبانی کی وجہ سے مشہور تھی انہیں بھی یہ اہلکار شائد پیچھے چھوڑ دے -

ہمارے پشتو زبان میں ایک مثل مشہور ہے جس کے معنی تو اردو میں یو ں ہیں کہ " غریب تو اللہ تعالٰی نے پیدا کیا ہے لیکن کمینہ کس نے بنا دیا" یہ مثل اب سیکورٹی کیلئے تعینات اہلکاروں کیلئے بدقسمتی سے کہی جاسکتی ہے کہ ٹھیک ہے کہ ڈیوٹی ہے لیکن اگر اس ڈیوٹی کو خوش اسلوبی سے انجام دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں - ویسے اگر سیکورٹی کی صورتحال خراب ہے تو خدارا! جو لوگ بند قلعوںاور بلٹ پروفوں میں پھرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ شہر کے کسی دوسرے علاقے میںاپنی رہائش / دفاتر قائم کرے تاکہ اس ملک کے " بلڈی سویلین" کو کچھ تو سکون ہو- یہ گزارش ان لوگوں سے بھی ہے جنہوں نے سیکورٹی کے نام پر تاریخی قلعہ کے آگے بڑی دیواریں قائم کردی ہیں اور ٹریفک کا برا حال ہے اگر اس تاریخی قلعے کو سیاحوں کیلئے کھول دیا جائے تو یقینا لاکھوں کی آمدنی بھی ہوگی اور شہری بھی آرام سے اس شہر میں رہ سکیں گے-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 588 Articles with 418459 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More