کوئی پوچھنے والا نہیں حصہ 3

ظلم پر ظلم - انتہائے ظلم

ایک خبر کے مطابق سرکار نے ڈبل سواری پر پابندی پر مزید توسیع کر دی۔ آہ کتنی افسوس ناک خبر اور درد ناک خبر ہے اور ہمارے امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی نااہلی کا ثبوت ہے۔ بڑے شرم کی بات ہے کہ شہر میں پولیس فورس ہے رینجرز ہے اور دیگر سیکورٹی ادارے موجود ہیں لیکن ان کی نااہلی تو دیکھیں کہ کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ ڈبل سواری پر پابندی پر مزید توسیع کی جارہی ہے۔

انہوں نے سوچا کہ اس خبر سے کتنے غریب مزدور و محنت کش لوگ جو کہ انتظار میں ہیں کہ کب ڈبل سواری پر پابندی ختم ہو اور ہمارے جیب پر پڑنے والا اضافی بوجھ ختم ہو اور پھر کیا ہوا۔۔۔۔۔۔ پھر سے تاریخ بڑھا دی گئی توسیع کر دی گئی۔

ایک عام آدمی کس بری طرح زندگی گزار رہا ہے کیسے جی رہا ہے دو وقت کی روٹی کے لیے کیسے تگ و دو کر رہا ہے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے کے لیے کس طرح سے سر توڑ کوشش کر رہا ہے اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اس سر توڑ کوشش میں ناکام ہو گئے ہیں وجہ حالیہ مہنگائی ہے اور کیا؟ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کی اتنی آمدنی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلا سکیں کچھ عرصہ پہلے تک تو کسی طرح گزارا ہو ہی رہا تھا لیکن اب کئی لوگوں نے اپنے بچوں کے نام اسکول سے خارج کر وادیے ہیں کہ کھانے کو کچھ نہیں فیس کہاں سے لائیں؟

ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈبل سواری پر پابندی کی وجہ سے ایک عام آدمی پر تقریباً 1000روپے اضافی ماہانہ بوجھ پڑ رہا ہے جو کہ صرف ٹرانسپورٹ کے کرایوں کی مد میں ہے ۔ ایک تو یہ ظلم ہو رہا ہے کہ ڈبل سواری پر پابندی ہے اور تو اور ریجنرز والے لوگوں کو بسوں سے اتار اتار کر مرغا بنا رہے ہیں ان کی عزت نفس سے کھیل رہے ہیں ان غریبوں مزدوروں کی تذلیل کر رہے ہیں کیوں کہ وہ لیڈیز پورشن میں بیٹھے ہیں واہ جناب واہ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو یہ کس نے حق دیا کہ ہم غریبوں کو مذاق بنائیں ہماری بے عزتی کریں سڑک کے بیچوں بیچ ہمیں مرغا بنائیں اور اسٹک سے ہماری پٹائی کریں "کوئی پوچھنے والا ہے کہ نہیں" آپ جواب دیں کہ ہم غریب کہاں جائیں ڈبل سواری پر پابندی کی وجہ سے تمام کے تمام لوگ تو بسوں میں جائیں گے نا اور ظاہر ہے جب فی منی بس میں 40 کے بجائے 150/160 افراد سوار ہوں گے تو آگے پیچھے اوپر نیچے ہر جگہ ہی سوار ہونا پڑے گا بصورت دیگر آپ بتائیں کہ ہم کہاں جائیں ہمیں اپنے روزگار پر وقت پر پہنچنا تو ہے نا یہ تو ہم سے پوچھیں کہ ہم کس طرح ان منی بسوں اور کوچز میں اپنی جان ہتھیلی پر لیے سوار ہوتے ہیں اور اکثر جان سے بھی جاتے ہیں (حالیہ واقع 11فروری 2009 کو پیش آیا جب ایک نواجون سیون اسٹار کوچ کی چھت سے گر کر ہلاک ہو گیا جو کہ اپنے جاب پر جا رہا تھا کچھ پرواہ ہے آپ کو۔ کیوں ہوگی جس کے جگر کا ٹکڑا ہے اس سے پوچھیں کہ اس گھر میں کیا قیامت ہوئی کہ ایک نواجون اور کفالت کرنے والا آپ لوگوں کی حکومت کی نااہلی کے نذر ہو گیا۔ افسوس صد افسوس۔ ) بجائے آپ ٹرانسپورٹ میں اضافہ کرنے کے ہمیں تنگ کر رہے ہیں ہماری تذلیل کر رہے ہیں۔ آپ کو پنجاب کا شہر لاہور کیوں یاد نہیں جہاں عورتیں اور مرد ایک ساتھ ایک ہی سیٹ پر بیٹھے سفر کر رہے ہوتے ہیں کیوں نظر نہیں آتا بتائیں۔ اگر ہم غریب محنت کش اور مزدور لوگ اپنے وقت پر اپنے آفس ، کمپنی ، فیکٹری نہ پہنچے تو وہاں عتاب ورنہ آپ لوگ مرغا بنا رہے ہوتے ہیں اور ڈنڈے برسا رہے ہوتے ہیں مانا کہ خواتین کا احترام ہم سب پر فرض ہے لیکن کیا خواتین جو بسوں میں سفر کررہی ہوتی ہیں ہماری مائیں بہنیں نہیں ہوتی کون چاہتا ہے کہ عورتوں کو تکلیف پہنچائے یا ان کو ہرٹ کریں لیکن مجبوری میں تو ظاہر ہے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا نہ ۔

یا تو آپ ڈبل سواری سے پابندی ختم کریں یا اس طرح سے بے عزتی کرنا چھوڑ دیں یا ٹرانسپورٹ میں اضافہ کریں۔ آپ لوگوں کو اور کوئی کام نہیں ہے یہی کام سرکار نے دے دیا کہ غریب لوگ جو پہلے ہی پریشان ہے اپنے حالات اور مہنگائی کے ہاتھوں، ان کو ڈنڈے برسائیں۔ واہ یہ ظلم پر ظلم نہیں تو اور کیا ہے بلکہ انتہائے ظلم ہے۔ مظلوموں کی داد رسی کے بجائے مظلوم پر اور ظلم نہ کریں اور سرکار سے سفارش کریں کہ وہ عوام کے لیے کچھ کریں لیکن وہ کیوں کچھ کریں گے ان کو تو اپنے اقتدار سے محبت ہے دیکھیں کس طرح سے کرسی کے لیے ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہیں کیسے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں کس طرح دونوں طرف سے الزامات کی بارش ہو رہی ہے یہ ہیں ہمارے حکمران یہ ہیں اس ملک کے جمہوریت کے لیڈران۔

افسوس ہے کہ ملک میں جمہوریت ہوتے ہوئے بھی جمہوریت نہیں ایک عام آدمی بلکل بھی آزاد اور خوش نہیں بلکہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہے۔اور ہمارے حکمران کیا کر رہے ہیں ہر شخص باخبر ہے یہاں تو بس کرسی کی اور اقتدار کی دوڑ لگ رہی ہے باقی تمام کے تمام مسائل طاق میں رکھے جا چکے ہیں بس حکمران و لیڈران ہیں اور اقتدار ہے۔

اگر میری باتوں سے کسی کی دل شکنی ہوئی ہو تو معذرت چاہتا ہوں کیوں کہ ممکن ہے کہ لہجہ کچھ تلخ ہو گیا ہو کیونکہ میں خود اورنگی ٹاؤن میں رہتا ہوں اور روز صبح شام ان مسائل کا سامنا کرتا ہوں اس لیے تلخی تو لازم ہے خیر پھر معذرت چاہوں گا اور ارباب اختیار سے اپیل کرتا ہوں کہ کچھ نہیں تو کم از کم ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کردے پھر بھلے اقتدار کی دوڑ لگاتے رہیں۔