اہلبیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے تین روزے

حضراتِ حَسَنَینِ کریمَین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بچپن میں ایک بار بیمار ہو گئے تو امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم وحضرت سَیِّدَتُنا بی بی فاطِمہ اور خادِمہ حضرتِ سَیِّدَتُنا فِضَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ان شہزادوں رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی صِحّت یابی کے لیے تین روزوں کی مَنّت مانی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں شہزادوں رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو شِفاء عطا فرمائی۔ چُنانچِہ تین روزے رکھ لئے گئے۔ حضرت ِمولیٰ علی کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم تین صاع جَولائے ۔ ایک ایک صاع (یعنی تقریباًچار کلو، سو گرام) تینوں دن پکایا۔ جب اِفطار کا وَقت آیا اور تینوں روزہ داروں کے سامنے روٹیاں رکھی گئیں تو ایک دن مِسکین، ایک دن یتیم اور ایک دن قیدی دروازے پر حاضِر ہوگئے اور روٹیوں کا سُوال کیا تو تینو ں دن سب روٹیاں ان سائلوں کو دے دیں اور صِرف پانی سے اِفطار کر کے اگلا روزہ رکھ لیا۔ (خزائن العرفان، ص٩٢٦ )

قراٰنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری شہزادی کے گھر انے کے اس ایمان افروز ایثا ر کو (پارہ ٢٩،سورۃُ ا لدَّھر، آیت نمبر ٨،٩) میں اس طرح بیان فرمایا ہے :۔
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْناً وَّ یَتِیْماً وَّاَسِیْرًا 0 اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اﷲِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّ لَا شُکُوْرًا 0
(پ٢٩،ا لدَّھر٨،٩)

ترجَمہ کنزالایمان۔ اور کھانا کھلاتے ہیں اُس کی مَحَبَّت پر مسکین اور یتیم اور اَسیر (یعنی قیدی) کو۔ ان سے کہتے ہیں ہم تمہیں خاص اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) کے لیے کھانا دیتے ہیں، تم سے کوئی بدلہ یا شکر گُزاری نہیں مانگتے۔
سُبْحٰنَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! اس ایمان افروز حِکایت میں اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے جذبہِ ایثار کا کیا خوب اظہار ہے! واقِعی تین دن تک صِرْ ف پانی پی کر روزہ رکھ لینا کوئی معمولی بات نہیں۔ ہم اگر ایک روزہ رکھیں تو اِفطار میں ٹھنڈا ٹھنڈا شربت ، کباب، سَموسے، میٹھے میٹھے پھل ،گرما گرم بریانی اور نہ جانے کیا کیا چاہیے !اس قَدَر تنگدستی کے عالَم میں اتناشاندار ایثار یہ انہیں کا حصّہ تھا۔

ایثار کی ایک فضیلت پیش کی جاتی ہے کہ ، سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مغفِرت نشان ہے ، ''جو شخص اُس چیز کو جس کی خود اِسے حاجت ہو دوسرے کو دیدے تو اللّٰہعَزَّوَجَلَّاِسے بخش دیتا ہے۔(اتحاف السادۃالمتقین ،ج٩،ص ٧٧٩)

اَ ہلبیتِ اَطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شانِ عظمت نشان میں نازِل شدہ آیتِ کریمہ کے اس حصّے پر بھی توجُّہ فرمائیے جس میں ان کاقَول بیان کیا گیا ہے۔ ''ہم تمہیں خاص اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے کھانا دیتے ہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے۔'' اِس قول میں اِخلاص کا عظیم الشّان دَرَجہ بیان کیا گیا ہے۔ کاش! ہم بھی اپنا ہر عمل مَحض اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے کرنا سیکھ جائیں ۔ کسی پر اِحسان کر کے اُس کا بدلہ چاہنا یا اس کی طرف سے شکریہ کی طلب رکھنا یہ سب خواہِشات خَتْم ہو جائیں ۔ بہتر تویِہی ہے کہ کسی پر اِحسان کر کے یا فقیر کو کھانا یا خیرات دے کر یہ بھی نہ کہا جائے کہ''دعاء میں یاد رکھنا''۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے اُس سے بدلہ طلب کر لیا! اب وہ دعاء کرے یا نہ کرے ،ہمارے حق میںقَبول ہو یا نہ ہوکاش ہمارے نصیب کھل جائیں اور ہم نیک انسان بن جائیں۔
مرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو
کر اِخلاص ایسا عطا یا الہٰی

یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349646 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.