عید کی فضیلت اور اس کی مسرت

عید کی فضیلت اور اس کی مسرت

اللہ رب العزت کا ہم پر کرم بالائے کرم ہے کہ اس نے ماہِ رمضان المبارک کے بعد فوراً ہی عیدالفطر کی نعمت عظمٰی سے ہمیں سرفراز فرمایا، جو در حقیقت اللہ کی طرف سے ان خوش بخت مسلمانوں کو جنہوں نے رمضان المبارک کو روزوں، نمازوں اور دیگر عبادات میں سجا کر گزارا، انہیں مزدوری ملنے کا ایک مقدس دن ہے۔

عید سعید کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے، چنانچہ ایک طویل حدیث میں حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے روایت کیا ہے کہ جب عیدالفطر کی مبارک رات تشریف لاتی ہے تو اسے “لیلۃ الجائزۃ“ یعنی انعام کی رات کے نام سے پکارا جاتا ہے، جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں “اے امت محمد ! (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑے گناہ معاف فرمانے والا ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ رب العزت اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے:۔
اے میرے بندو ! مانگو کیا مانگتے ہو ؟ میری عزت و جلال کی قسم ! آج کے روز اس (نماز عید) کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا (یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتری ہو) میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا، میری عزت و جلال کی قسم ! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا، بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاؤ گے، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔“ (فیضان سنت بحوالہ الترغیب الترہیب)

سبحان اللہ ! میرے پیارے اسلامی بھائیو ! اللہ تعالٰی ہم گنہگاروں پر کس قدر مہربان ہے، ذرا دیکھو تو صحیح ! ایک تو رمضان المبارک کا ایسا متبرک مہینہ عطا کیا جس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا عطا کرکے پورے مہینہ ہم پر بے بہا اپنی رحمتیں نازل فرماتا رہا، پھر جوں ہی یہ مبارک مہینہ ہم سے جدا ہوتا ہے فوراً ہی ہمیں عید سعید کی خوشیاں عطا فرماتا ہے، اور ایسی خوشیاں جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے عیدین کی رات یعنی شب عیدالفطر اور شب عیدالاضحٰی طلبِ ثواب کیلئے قیام کیا اس دن اس کادل نہیں مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مر جائیں گے۔(ابن ماجہ)

عیدالفطر کا دن اس قدر اہم ترین دن ہے کہ اس دن اللہ کی رحمت سے کوئی سائل مایوس نہیں لوٹتا، یہی وجہ ہے کہ تصوف کی مشہور کتاب مکاشفۃ القلوب میں علامہ غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں حضرت سیدنا وہب بن منبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی عید آتی ہے تو شیطان چلا چلا کر روتا ہے، اس کی بدحواسی دیکھ کر تمام شیاطین اس کے گرد جمع ہو کر پوچھتے ہیں، اے آقا ! آپ کیوں غضبناک اور اداس ہو رہے ہیں، وہ کہتا ہے ہائے افسوس اللہ تعالٰی نے آج کے دن امت محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو بخش دیا ہے، لٰہذا تم انہیں لذتوں اور خواہشات نفسانی میں مشغول کردو۔

میرے پیارے بھائی ! آپ ذرا غور کریں کہ شیطان کس قدر مسلمانوں کو لذت نفسانی میں مشغول کرنے کیلئے پریشان رہتا ہے، مگر آپ اور ہم اس بات کو بھول کر نہ جانے عید کے دن خوشی کا اظہار کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں، اور بہت سے ناجائز کام کرنے لگ جاتے ہیں، جس کی شریعت کبھی اجازت نہیں دیتی۔ اس لئے ہم سب کو چاہئیے کہ عید کے دن عبادات و حسنات کی کثرت کریں اور اللہ کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں، رقص و سرور کی محفلوں سے دور رہیں، اس کی طرف نظر بھی نہ کریں، ناچ گانوں اور فلمی ڈراموں کا اہتمام ہرگز ہرگز نہ کریں۔

آج کل دیکھا جاتا ہے کہ عید کے پُر بہار موقع سے لڑکیاں کافی بیہودہ قسم کے لباس پہن کر برسر عام گھومتی رہتی ہے۔ جس کے پہنے کے بعد اس کے بدن کا ہر عضو نظر آتا ہے، جو شریعت میں سخت منع ہے اس لئے ایسے لباس سے بچانا والدین کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔

افسوس صد افسوس ! ہم اس مبارک دن کی اہمیت سمجھنے سے کافی دور ہو گئے جس کے نتیجے میں خلاف شرع بہت سی باتوں کا وقوع ہونے لگا۔ میرے بھائی آپ اس دن کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی برکتوں سے فائدہ اٹھائیں ورنہ آپ یاد رکھئے! اللہ جہاں غفار ہے وہیں قہار بھی ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ عید سعید آپ کے لئے یوم عید بن جائے، اس لئے اپنے حال پر رحم کرو فیشن پرستی اور شو بازی سے باز آ جاؤ، اسی میں بھلائی اور کامیابی ہے۔

ہمارے بزرگوں کی عید
محترم اسلامی بھائیو ! ہم اور آپ صرف نئے نئے کپڑے پہننے اور لذیذ و عُمدہ کھانے تناول کرنے کو ہی عید سمجھ بیٹھے ہیں، مگر آئیے ذرا اپنے بزرگوں اور اپنے اسلاف کی عید کی تاریخ بھی پڑھئیے، کہ کس طرح سے انہوں نے عید کے دن خوشی کا اظہار کیا، دیکھئے ! ان کے عید منانے کا انداز ہی نرالا تھا، وہ دنیا کی لذتوں سے کوسوں دور بھاگتے تھے، خلاف شرع نفسانی خواہشات کا کبھی اطباع نہیں کرتے تھے۔ جس کی چند مثالیں تاریخ کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں:۔

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وہ واقعہ جو شیخ فریدالدین عطار علیہ الرحمہ اپنی مشہور کتاب تذکرۃ الالیاء میں فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ الرحمہ نے دس برس تک کوئی لذیذ کھانا تناول نہ فرمایا، نفس چاہتا رہا اور آپ نفس کی مخالفت کرتے رہے۔ ایک بار عید کی مقدس رات کو دل نے مشورہ دیا کہ کل اگر عید سعید کے روز کوئی لذیذ کھان کھا لیا جائے تو کیا حرج ہے ؟ آپ نے دل سے کہا کہ اے دل ! تمہاری خواہش اس وقت پوری کروں گا جب تو یہ برداشت کرلے کہ دو رکعت نفل نماز میں پورا قرآن ختم کروں اور تو اسے برداشت کرلے۔ اس کے بعد آپ نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ اب لذیذ کھانا منگوایا اور جوں ہی نوالہ اٹھا کر منہ میں ڈالنا چاہے کہ بیقرار ہوکر رکھ دیا، لوگوں نے پوچھا کہ حضور آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ تو فرمایا کہ نفس نے مجھ سے کہا دیکھا ! میں آخر اپنی دس سال کی خواہش میں کامیاب تو ہو ہی گیا، اس پر میں نے کہ جب یہ بات ہے تو میں تجھے کامیاب ہرگز ہرگز نہیں ہونے دوں گا، اور ہرگز ہرگز لذیذ کھانا نہ کھاؤں گا۔ اتنے میں ایک شخص لذیذ کھانا لئے حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور ! یہ کھانا میں نے اپنے لئے رات تیار کرایا تھا، رات جب سویا تو ہمارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اگر کل قیامت کے دن تو مجھے دیکھنا چاہتا ہے تو یہ کھانا ذوالنون مصری کے پاس لے جا اور ان سے جاکر کہہ کہ “حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب فرماتے ہیں کہ دم بھر کیلئے نفس کے ساتھ صلح کرلو اور چند نوالے اس لذیذ کھانے میں سے کھالو۔“ اس کے بعد حضرت ذوالنون مصری یہ پیغام رسالت سن کر وجد میں آگئے اور تناول فرمالیا۔ (فیضان سنت)
رب ہے معطی یہ ہیں قاسم
رزق اس کا ہے کھلاتے یہ ہیں
ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا
پیتے ہم ہیں پلاتے یہ ہیں

سبحان اللہ ! حضرات ! آپ نے دیکھا کہ اللہ کے نیک بندے عید کے روز بھی نفس کی پیروی سے کس قدر دور رہتے ہیں۔ اور ہر آن اللہ کی عبادت میں خوش رہتے ہیں، جو اللہ کی رضا کیلئے اپنے آپ کو فنا کر دیتا ہے اللہ اسے ہمیشہ زندہ جاوید رکھتا ہے اور اسے اپنی طرف سے روزی عطا فرماتا ہے۔

عید کے دن لوگ خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کاشانہء خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں، لوگوں نے تعجب سے عرض کیا، یا امیر المومین ! آج تو عید کا دن ہے، آج تو شادمانی و مسرت اور خوشی منانے کا دن ہے، یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا ؟

آپ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا، ھذا یوم العید وھذا یوم الوعید اے لوگو ! یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے، آج جس کے نماز روزہ مقبول ہوگئے، بلاشبہ اس کیلئے آج عید کا دن ہے لیکن آج جس کی نماز روزہ کو مردود کرکے اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو، اس کے لئے تو آج وعید ہی کا دن ہے اور میں تو اس خوب سے رو رہا ہوں کہ آہ ! انا لا ادری امن المقبولین امن المطرودین یعنی مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا ہوں یا رد کر دیا گیا ہوں۔ (فیضان سنت)

حضرات ذرا غور کیجئے اور اپنے دل پرہاتھ رکھ کر سوچئے! یہ وہی فاروق اعظم ہیں جن کو مالک جنت تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری ہی میں جنت کی بشارت دی تھی، پھر بھی خشیت الٰہی کا یہ حال کہ صرف یہ سوچ کر تھڑا رہے ہیں کہ نہ معلوم میری رمضان المبرک کی عبادتیں قبول ہوئیں یا نہیں۔

اللہ اکبر ! مسلمانوں ذرا سوچو تو صحیح جن کی نماز عید اور رمضان کے روزوں کی مقبولیت میں ذرہ برابر بھی کوئی شک و شبہ نہ ہو، ان کا یہ عالم ہے تو ہم اور آپ جیسے نکمے اور باتونی لوگوں کا کیا حال ہوگا ؟ مگر خوش فہمی کا یہ عالم کہ ہم جیسا نیک اور پارسا تو شاید اب رہا ہی نہیں، مگر افسوس صد افسوس ! کہ ہم لوگ اپنے اسلاف کی تاریخ بھول گئے۔ مسلمانوں ! ذرا غور تو کرو جن کا حقیقی حق تھا عید کی خوشی منانا وہ تو خشیت الٰہی سے لبریز ہیں، مگر ہم اور آپ خوشی سے جھوم رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک مرتبہ عید کے دن اپنے بیٹے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو رو پڑے بیٹے نے عرض کیا، پیارے ابا جان ! آپ کس لئے رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا، بیٹے مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے اس پھٹے پرانے قمیص میں دیکھیں گے تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا، بیٹے نے جواب دیا، ابا جان ! دل تو اس کا ٹوٹے گا جو رضائے الٰہی کو نہ پا سکا یا جس نے ماں باپ کی نافرمانی کی ہو اور مجھے اُمید ہے کہ آپ کی رضامندی کے طفیل اللہ تعالٰی بھی مجھ سے راضی ہوگا۔ یہ سن کر حضرت عمر رو پڑے بیٹے کو گلے لگالیا اور اس کیلئے دعاء کی۔ (مکاشفۃ القلوب)
مسلمانوں ! ذرا غور کرو ! ایک بیٹا اپنے باپ کو کتنا پیارا جواب دے رہا ہے، جس پر پوری دنیا قیامت تک رشک کرے گی۔ ہمارے اسلاف کی تاریخ کس قدر انسانیت، وفائے شعاری، اور خدمت والدین کی داستانوں سے لبریز ہے۔ مگر آہ ! ایک ہمارے بھی اولاد ہیں جو وفادار اور فرمانبردار ہونا تو دور کی بات ہے نہ جانے انہیں کتنی گالیاں سننے کو ملتی ہیں اور بہت تو اپنے والدین کو اس قدر مارتے پیٹتے ہیں کہ انہیوں لہو ولہان کر دیتے ہیں، مگر ذرہ برابر بھی انہیں شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا۔ آخر کیوں ؟

شاید یہ ان کی ہی پرورش کا نتیجہ ہے ! جس کا پھل وہ خود کھا رہے ہیں، جیسا انہوں نے پودا لگایا تھا ویسا کاٹ رہے ہیں جیسی انہوں نے محنت کی تھی ویسا پا رہے ہیں، اس میں اولاد کی کیا کمی ہے ! یہ تو کمی والدین کی ہے جو مورڈن زمانوں سے متاثر ہوکر اسلاف کی تاریخ کو فراموش کرکے اس کی پرورش کی تھی۔ اگر وہ پرورش تاریخ فاروقی کی روشنی میں کرتے تو فاروق اعظم کی اولاد جیسا جواب ہوتا، مگر ہم نے ویسی پرورش ہی نہیں کی تو پھر اولاد کیسا ہوگا ؟ وہ آپ خود فیصلہ کیجئے۔

امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں عید سے ایک دن قبل آپ کی بچّیاں حاضر ہوئیں اور بولیں، بابا جان! کل عید ہے اور ہمارے پاس کوئی کپڑا نہیں ہے، ہم کیا پہنیں گے ؟ فرمایا یہ کپڑے جو تم نے پہن رکھے ہیں، اسے ہی دھو کر آج صاف کرلینا اور کل اسے ہی پہن لینا ! مگر بتقضائے انسانیت بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں، ضد کرنے لگے کہ نہیں باباجان آپ ہمیں نئے کپڑے بنوادیں، تو آپ نے فرمایا میری بچیوں عید کا دن اللہ کی عبادت کا دن نئے کپڑے پہننا ضروری نہیں ہے، اس پر بچیوں نے کہا باباجان آپ کا کہنا بالکل صحیح ہے، مگر کل عید کے دن ہماری سہیلیاں مجھے پرانے کپڑے پہنے ہوئے دیکھ کر طعنہ دیں گی کہ تم امیر المومنین کی لڑکیاں ہو کر وہی کپڑے پہن رکھے ہو، چنانچہ یہ سن کر آپ کی آنکھ سے آنسو آگئے۔ اور خازن کو بلا کر فرمایا مجھے میری ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لادو ! اس پر خازن نے عرض کی حضور ! کیا آپ کو یقین ہے کہ ایک ماہ تک زندہ رہیں گے ؟

آپ نے فرمایا جزاک اللہ ! تونے بیشک عُمدہ اور صحیح بات کہی اس کے بعد آپ نے اپنی بیٹیوں کو سمجھایا اور کہا کہ دعاءمیری پیاری بیٹیو ! اللہ و رسول کی رضا پر اپنی رضا کو قربان کردو، کوئی شخص اس وقت تک جنت کا مستحق نہیں بن سکتا جب تک وہ کچھ قربانی نہ دے۔ (فیضان سنت بحوالہ معدن اخلاق)

حضرات ! اس دونوں واقعہ سے وہ لوگ سبق حاصل کریں جو عید کی خوشی کو نئے کپڑے پہننے اور لذیذ تر غذائیں کھانے کو عید کی خوشی سمجھ بیٹھے ہیں، پورے رمضان ایک روزہ بھی نہیں رکھتے اور خوشی کا یہ عالم کہ چاند دیکھنے کیلئے بے قرار رہتے ہیں اور ایک مہینہ پہلے ہی سے نئے کپڑوں کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ مسلمانوں ! کیا عید اسی کا نام ہے ؟ کیا ہمارے اسلاف نے اسی طرح سے عید منائی ہے ۔۔۔۔۔ ؟
اللہ اکبر ! حضرات ! ذرا غور تو کیجئے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ اتنی بڑی سلطنت کے حاکم ہونے کے باوجود اس قدر دیانتدار اور امانتدار تھے کہ ایک ماہ پیشتر تنخواہ لینی بھی مناسب نہ سمجھا، مسلمانوں ! ایک وہ بھی وزیر اعظم تھے اور ایک آج کا بھی وزیراعظم ہوتا ہے جو پہلے اپنی سات پشتوں کا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے بعد ہی کسی عام آدمی کا خیال کرتا ہے، مگر اسلام نے امانت و دیانتداری کا ایسا درس دیا جو آج تک کسی مذہب نے نہ دے سکا، جس کی مثال سے پوری خلفائے راشدین اور اس کے بعد کے مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے۔

حضور سیدی سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان کا کیا پوچھنا جہاں جاکر تمام اولیائے کرام کی رسائی ختم ہو جاتی ہے وہاں سے آپ کی رسائی شروع ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود آپ فرماتے ہیں، “لوگ کہہ رہے ہیں کل عید ہے، کل عید ہے اور سب خوش ہیں لیکن میں تو جس دن اس دنیا سے اپنا ایمان محفوظ لے کر گیا میرے لئے تو وہی دن عید کا دن ہوگا۔ (فیضان سنت)

سبحان اللہ ! ہمارے بڑے پیر دستگیر حضور غوث اعظم کا شان تقوٰی کیا ہی بلند و بالا ہے، کہ آپ تمام اولیاء کے سردار ہیں اور اس قدر تواضع و انکساری ! مسلمانوں ! غور کرو یہ سب کچھ ہمارے درس کے لئے ہے۔ ورنہ اللہ نے ان کو تو ایسا ولی بناکر بھیجا ہے کہ ان کے ایمان کی سلامت کا کیا کہنا ! نہ جانے کتنے لوگوں ان کے دست مقدس پر اسلام کی لازوال دولت سے مالامال ہوئے۔

غریبوں اور ہمسایوں کا خیال رکھنا
دیکھئے ! اسلام ایک ہمہ گیر مذہب ہے، جس نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا اصول قائم کرکے دنیا میں بسنے والے ہر انسان کو ایک دوسرے انسان کے بیچ محبت و بھائی چارگی قائم رکھنے کیلئے ایک دوسرے کا خیال رکھنا ضروری قرار دیا ہے۔ ہمارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا کیا پوچھنا ! آپ نے عید کے دن خاص طور سے غریبوں، مسکیوں اور ہمسایوں کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی، اور عید کی خوشی میں شریک کرنے کیلئے صدقہ فطر کا حکم دیا تاکہ وہ نادار جو اپنی ناداری کے باعث اس روز سعید کی خوشی نہیں منا سکتے اب وہ بھی خوشی منا سکیں۔

حدیث شریف میں آیا ہے حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک صدقہ فطر ادا نہیں کیا جاتا بندے کے روزے زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں۔

حضرات ! آئیے اس موضوع پر ایک تاریخ کے حوالے سے ایک واقعہ سناؤں جسے فیضان سنت میں ایک بہت ہی دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ سیدنا ابو عمر و عبدالرحمٰن بن عمر الاوزاعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں عیدالفطر کی شب اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی شخص نے میرے دروازے پر دستک دی، میں باہر آیا تو دیکھا کہ میرا ہمسایہ کھڑا ہے میں نے کہا کہو بھائی ! کیسے آنا ہوا ؟ اس نے کہا کل عید ہے لیکن میرے گھر میں خاک اڑ رہی ہے اور خرچ کیلئے ایک پیسہ تک نہیں ہے۔ اگر آپ کچھ عنایت فرما دیں تو عزت و آبرو کے ساتھ ہم عید کا دن گزار لیں گے، میں نے عید کے مصارف کیلئے پچیس درہم جمع کر رکھے تھے، فوراً ہی اپنی بیوی سے کہا کہ ہمارا فلاں ہمسایہ نہایت غریب ہے اس کے پاس عید کے دن خرچ کرنے کیلئے ایک پیسہ تک نہیں ہے، اگر تمہاری رائے ہو تو جو پچیس درہم ہم نے عید کے مصارف کیلئے رکھ چھوڑے ہیں وہ ہمسایہ کو دے دیں، ہمیں اللہ تعالٰی اور دے گا۔ نیک بیوی نے کہا بہت اچھا۔

چنانچہ میں نے وہ سب درہم اپنے ہمسایہ کے حوالے کر دئیے اور وہ دعائیں دیتا ہوا چلا گیا، تھوڑی دیر کے بعد میرا دروازہ پھر کسی نے کھٹکھٹایا میں نے دروازہ کھولا تو ایک نوجوان مکان میں داخل ہوکر میرے قدموں پر گر پڑا اور رونے لگا، میں نے کہا خدا کے بندے ! تجھے کیا ہوا ہے ! اور تو کون ہے ؟ اس نوجوان نے جواب دیا کہ میں آپ کے والد کا غلام ہوں، عرصہ ہوا بھاگ گیا تھا، اب مجھے اپنی حرکت پر بہت ندامت ہوئی، یہ پچیس دینار میری کمائی کے ہیں، آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، قبول فرما کر مجھے منعون فرمائیے، آپ میرے آقا ہیں اور میرے آقا ہیں اور میں آپ کا غلام، میں نے وہ دینار لے لئے اور غلام کو آزاد کر دیا، پھر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ خدا کی شان دیکھو اس نے ہمیں درہم کے بدلے دینار عطا کیا۔
سبحان اللہ ! دیکھا آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنے سے اللہ کس کس بہانے عطا فرماتا ہے اس لئے ہم تمام مسلمانوں کو چاہئیے کہ عید کے دن صرف اپنی ہی خوشی کے لئے ہر ساز و سامان کا بندوبست نہ کریں، بلکہ غریبوں، مسکینوں اور پڑوسیوں کی خوشی کا بھی خیال رکھیں، اگر کوئی غریب آپ کے پڑوس میں رہ رہا ہو اور عید کے دن اپنی غربت کی وجہ سے رو رہا ہو تو حقیقت یہ ہے کہ آپ کی عید عید نہیں ہے۔

نماز عید سے قبل سنت
حضرت سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عیدالفطر کے دن کچھ کھاکر نماز کیلئے تشریف لے جاتے، ہاں عیدالاضحٰی کے روز کچھ نہیں کھاتے، جب تک نماز سے فارغ نہ ہو جائے۔ (ترمذی شریف، و ابن ماجہ) اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ کچھ کھا کر نکلنا عید کے دن سنت ہے۔

دوسری روایت میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ عیدالفطر کے دن تشریف نہ لے جاتے جب تک چند کھجوریں نہ تناول فرما لیتے اور وہ طاق ہوتیں۔ (بخاری شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نماز عید کیلئے ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے۔ (ترمذی دارمی)

عید کے مستحبات
عید کے دن یہ امور سنت (مستحب) ہیں:۔
(1) حجامت بنوانا۔ (2) ناخن تراشوانا۔ (3) غسل کرنا۔ (4) مسواک کرنا۔ (5) اچھے کپڑے پہننا، نئے کپڑے ہوں تو نئے ورنہ دھلے ہوئے۔ (6) خوشبو لگانا۔ یاد رکھیں سینٹ نہ لگائیں کہ یہ ناپاک ہوتا ہے۔ (7) انگوٹھی پہننا، مگر ایک سے زیادہ نہ ہو اور نہ ایک سے زیادہ نگینہ ہو۔ ( 8 ) نماز فجر مسجد محلہ میں پڑھنا۔ (9) عیدالفطرکی نماز کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھا لینا جو طاق ہو۔ یا کھجور نہ ہو تو کچھ بھی میٹھی چیز۔ (10) نماز عید، عید گاہ میں ادا کرنا۔ (11) عید گاہ پیدل جانا۔ (12) سواری پر بھی جانے میں حرج نہیں، مگر جس کو پیدل جانے پر قدرت ہو اس کے لئے پیدل جانا افضل ہے اور واپسی میں سواری پر آنے میں حرج نہیں۔ (13) نماز عید کیلئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ (14) عید کی نماز سے پہلے صدقہء فطر ادا کرنا۔ (15) خوشی کا اظہار کرنا۔ (16) کثرت سے صدقہ دینا۔ (17) عید گاہ کو نگاہ نیچی کئے ہوئے جانا۔ ( 18 ) آپس میں مبارکباد دینا۔ (19) بعد نماز عید مصافحہ اور معانقہ کرنا۔ (20) نماز کیلئے جاتے ہوئے راستے میں آہستہ آہستہ تکبیر کہتے ہوئے جانا وہ تکبیر یہ ہے اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ (فیضان سنت و کتب عامہ)

دعاء ہے اللہ تبارک و تعالٰی اپنے حبیب سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہم سب کو عید سعید کی خوشیوں کو سنت کے مطابق منانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین !
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1279564 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.