کاش ہم ایک ہوجائیں

آج بھی جب کبھی اپنا بچپن یاد آتا ہے تو بہت سی یادیں ساتھ لاتا ہے اس وقت کی یادیں عجیب سی یادیں ہوتی ہیں اس وقت ہمارے ملک میں ایک ہی ٹی وی چینل ہوتا تھا اور اس ٹی وی چینل کا نام تھا پی ٹی وی اس چینل پر ہر ہفتے ایک بہت ہی پیاری فلم دیکھائی جاتی تھی ہم پورا ہفتہ ا س انتظار میں ہوتے تھے کہ کب اتوار آئیگا اور ہم فلم دیکھیں گے انتظار بھی بہت لمباہوتا ہے آخر کار ہفتہ ختم ہوہی جاتا تھا اور ہم بڑے شوق سے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر فلم دیکھتے تھے پاکستانی ڈراموں کی کیا ہی بات تھی ،اکثر لوگ سڑکوں پر ٹھر کر ڈرامے دیکھا کرتے تھے ان ڈراموں میں خاص طور پر جن چیزوں کا خیال رکھا جاتا تھا وہ تھا اداکار کا بولنا ،اٹھنا ،بیٹھنا ،ادب سے بات کرنا ،سر پر ڈوپٹا رکھنا یہ سب باتیں بہت اچھی لگتی تھیں اس وقت کے ڈراموں میں کوئی بھی ایسا منظر نہیں ہوتا تھا جس کو دیکھ کر تھوڑی سی بھی شرمندگی ہوتی ہو گھر والے اپنا کام جلدی جلدی ختم کرکے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جایا کرتے تھے اور اکثر تو یہ تھا کہ بزرگ اور بڑے سب بچوں کو ساتھ بیٹھا کر ٹی وی دیکھاتے تھے اس وقت ہمارے پاکستانی ڈراموں کو پوری دنیا میں پسند کیا جاتا تھا خاص طور پر ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جہاں ان ڈراموں کو بہت زیادہ دیکھا اور پسند کیا جاتا تھا مگر آج اتنے چینلز ہونے کے باوجود وہ پہلے والی بات نہیں رہی اب تو گھر والوں کے ساتھ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ڈرامہ دیکھنا ایسا لگتا ہے جیسے کوئی انگریزی فلم دیکھ رہے ہیں آج بھارت ہمارے ملک میں اپنا کلچر بھیج رہا ہے جو تیزی کیساتھ مقبول ہورہا ہے آج ہمارے نوجوان اس کلچر کو پسند کررہے ہیں پورے ملک کے ہر گھر میں بھارت کے ٹی وی ڈرامے دیکھے جارہے ہیں بھارت کے ہر ڈرامے میں پوچا پاٹ ضرور دیکھائی جاتی ہے ہمارے نوجوانو ں کو جن باتوں کا علم نہیں بھی ہوتا وہ بھی ہمیں بتاتا ہے کچھ ٹی وی چینلز ایسے بھی ہیں جن پر صرف اور صرف فلمیں لگتی ہیں جو ہمارے نوجوان بہت زیادہ پسند کرتے ہیں اکثر فلمیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں پاکستان کو بہت زیادہ برا بھلا بھی کہا جاتا ہے ہمارا ہمسایہ ملک بھارت آج اپنا کلچر ہمارے ملک میں بہت تیزی سے بھیج رہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے نوجوان خراب ہورہے ہیں ہمارے روزانہ کی اخبار میں خبر شائع ہوتی ہے کہ ہم نے اپنے پسند کی شادی کرلی ہے اور ہمارے بزرگ ہم سے ناراض ہیں ہماری زندگی کو خطرہ ہے ہمیں تحفظ دیا جائے اب ایسا کیوں ہورہا ہے پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا جو کام پہلے بڑے بزرگ کرتے تھے آج نوجوان خود کرنے لگ گئے ہیںبزرگوں کی پسند کی جوڑیا ں بہت کامیاب ہوتی تھیں اب ہم جو مسلمان کررہے ہیں ہمارا مذہب ہمیں اجازت نہیں دیتا ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اس کے بارے میں خاص طور پر سوچیں آج کل نوجوان کس طرف جارہا ہے کل اس نوجوان نے ملک کیلئے کچھ کرنا ہے اور ملک کی قیادت سنبھالنی ہے اس نوجوان نے ملک کو آگے لیکر جانا ہے کب ہمارے ملک کے سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیاں ختم ہونگی اور ہم اپنے بارے میں سوچیں گے سب سے زیادہ نقصان اس ملک میں آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے ہورہا ہے جس کا فائدہ دشمن اٹھا رہے ہیں ہمارے بزرگ بتاتے ہیں 65 ءکی جنگ میں جب بھارت نے ہمارے ملک پر حملہ کیا تو ہم سب ایک ہوگئے اور یہ بھی ریکارڈ کی بات ہے کہ ان دنوں کہیں بھی ایک چوری نہیں ہوئی اور نہ ہی ڈکیتی کی گئی کاش ہم آج بھی 65ءکی طرح ایک ہوجائیں اور درد دل رکھنے والی قوم بن جائیں پاکستانی قوم نے پوری دنیا کو دیکھا دیا ہے ہم ایک ہیں اور ایک رہیں گے کاش اس ملک کے سیاستدان بھی ایک ہوجائیں۔
Mirza Arif Rasheed
About the Author: Mirza Arif Rasheed Read More Articles by Mirza Arif Rasheed: 11 Articles with 7918 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.