عورت نما مرد

میں بس میں سفر کررہاتھا۔ دن بھر کی تھکاوٹ ،چینل میں فکر و نظر کاکام ،بس اسی امید سے کہ گاڑی میں سیٹ مل جائیگی ۔آگے بڑھا تو ایک سیٹ خالی تھی ۔خداکی قدرت کہ مجھے جو سیٹ ملی اس پر شکل و شبہات میں ایک خاتون چیز بیٹھی ہوئی تھی ۔میرے قدم رک گئے کہ اتنے میں انہی خاتون کی آواز آئیے:بیٹھیے :(میں تو چونک گیا)۔خیر میں بیٹھ گیا۔

محترم قارئین :آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ ڈاکٹر صاحب یہ یوکے یاامریکہ نہیں یہ پاکستان کی پی ون ہے ۔آپ کدھر خاتون کی خدمت میں فیض وبرکتوں سے مالامال ہونے کے لیے پہنچ گئے ۔اس سے پہلے کہ میرے آرٹیکل کو آپ کلوز کریں ۔عرض کرتا چلوں کہ یہ خاتون نہیں یہ محمد علی جناح کے ملک کا نوجوان تھا۔جس نے لمبے لمبے بالوں میں پونیاں باندھی ہوئی تھیں ،بازوپر کڑے،کانوں میں بالیاں ،ناخن بڑھے ہوئے تھے ۔آپ خود بتائیں اسے خاتون جاننے میں میراکیا قصور۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود

خیر یہ اس نوجوان کا قصور نہیں ،قصور تو قصور کے رہنے والوں کا ہے بھلا ہم ہر کسی کو قصور کیوں دیتے پھریں ۔دوران سفر میری اس جدت کے دلدادہ نوجوان سے گفتگو بھی ہوئی ۔خیر سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔میں جس موضوع کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتاہوں وہ ابلاغی بے لگام گوڑھے میڈیاکے ذریعے ثقافتی یلغارہے ۔

میری غیور قوم!!!!!!!! عہدرفتہ کی بس یادیں رہ گئیں ،کردار گیا،وقار گیا،اعزاز گیا۔سوچیں تو سہی رہ کیاگیا۔خیر جانتے ہیں کہ ثقافتی یلغار نام کس جن کا ہے ۔کس جادو کا نام ہے کہ جو قوم کا تشخص مٹاکے رکھ دیتاہے ۔انسان کے افکار، گفتار، رفتار اور کردار کے انفرادی اور اجتماعی طور طریقوں کا دوسری ثقافت پر حملہ کرنا ثقافتی یلغار کہلاتا ہے۔میں اور آپ جس صدی میں سانس لے رہے ہیں اس میں ویپن وار کم اور ثقافتی جنگیں عروج پر ہونگی ۔یہ دور تہذیبوں کے تصادم کا بدترین دور ہے ۔

کسی بھی ملت ،کسی بھی قوم کا مضبوط بازو اس قوم کے جوان ہوتے ہیں جو اپنے قوت ارادی ،اپنے زورِ بازو سے تاریخ ساز کانامے سرانجام دیتے ہیں ،قوم و ملت ،ملک و مذہب کو اوچ ثریا پہنچادیتے ہیں ۔آج کے دور کے جوان جہاں بھی نکلیں اور جہاں بھی دیکھیں اس کو فحاشی، عریانی اور غیر اخلاقی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ شیطانی حربوں کے استعمال سے نوجوان نسل کی جنسی خواہشات کو ابھارنے کی بہت سی کوششیں کی جارہی ہیں اور ان کو اخلاق، تعلیم، آداب و احترام ، معاشرتی فلاح و بہبود اور قومی و ملی ترقی میں حصہ لینے سے دور رکھا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری سوچ ، گفتارو رفتار اور ہمارے کردار دوسروں کی ثقافت کی ترجمانی کر رہے ہیں اور ہمیں دیکھ کر غیر جانب دار نہ فیصلہ کرنے والا شخص یہی کہنے پر مجبور ہے کہ یہ لوگ یا تو ہندوثقافت کے ترجمان ہیں یا مغربی ثقافت کے ترجمان، کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ ہمارا رہن سہن، اٹھنا بیٹھنا، باہمی تعلقات اور تمام سرگرمیاں دوسری ثقافت کی ترجمانی کررہی ہیں۔ حالانکہ اسلامی ثقافت رہتی دنیا تک کے لیے مادی و روحانی سعادتوں کا حسین امتزاج ہے ۔ اس کے باوجود ہم نے اس الٰہی ثقافت کو چھوڑ دیا ہے ۔

افسوس !!!!!آج ہم اپنی پہچان کھوگئے ،اپنا اثاثہ کھوگئے۔اک زبان تھی اسے بھی انگریز کی نظر کردیا۔مجھے اکثر سیمنار،کنونشن و پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوتاہے ۔میں دیکھتاہوں کہ مائیک پر آنے والا جوجو شخص انگریز آلود اردو بولتاہے ۔وہ پنڈال میں بیٹھے لوگوں کی نابینا آنکھ کا تارا بن جاتاہے ۔عام نجی محافل میں بھی جو ایک جملہ کے اندر ٢انگریزی لفظ نہیں بولتا ،گردونواح کے رویہ سے یوں لگتاہے کہ شاید اب اس کی تعلیمی ڈگریاں چیلنچ کردی جائیں گی کہ یہ پڑھا لکھا نہیں ۔خدا کے لیے خداکے لیے ۔کچھ خیال کریں ۔اپنی پہچان کو قائم رکھیں ۔میں نہیں سمجھتاکہ انگریزی زبان،انگریزی کلچر کامیابی کی ضمانت ہے ۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ انگریز نے جو اپنی قوم کی ترقی و بقاء کے لیے کیا وہ ہمارے لیے قابل تقلید ضرور ہے کہ اس نے سائنس کے میدان میں بہت محنت کی ،اقتصادیات ،سماجیات پر بھی گہری نظررکھی ۔تو کیا انھیں سرخاب کے پرلگے ہیں کہ آپ انہیں کاپی کرنے پر مجبور ہوگئے ہو۔یہ فضیلت نہیں ذلت ہے ۔جس لباس اور جس گفتگوپر آپ اور میں اتراتے پھرتے ہیں قابلِ غورہیں ۔یوں لگتاہے کہ ہم وہ ربوٹ ہیں جس میں انگریزی سافٹ وئیر انساٹلڈ کردیاگیاہے وہی کرتاہے جو انسٹرکشن آتی ہے۔میں انگریزوں کی اچھے کام کو اچھااور برے کام کو براکہنے کی جرت بھی رکھتاہوں ایسانہیں کہ وہ فقط برے ہی برے ہیں ۔ان کی محنت ،لگن ،جستجو کی وجہ سے نصف دنیا ان کی محتاج ہوکر رہ گئی ہے ۔

محترم قارئین :سوچیے گاضرور۔جب سوچ لیں تو پھر عملی اقدام کے لیے بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ بھی ملائیے گا۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544148 views i am scholar.serve the humainbeing... View More