پریوں کی چراگاہ

فیری میڈوز پاکستان کے شمالی علاقے گلگت کے ضلع دیامیر میں دنیا کے نویں اور پاکستان کے دوسرے بلند ترین پہاڑ نانگا پربت کے دامن میں واقع ایک گل رنگ وادی ہے۔ صنوبر، فرن اور برچ کے درختوں سے گھرا، ہزاروں اقسام اور رنگ کے پھولوں کی خوشبو سے مہکا، نانگا پربت کے برفانی سفید بلند دیوار تلے اس سرسبز وادی میں قدرت کے صناعی کا ہر رنگ نظر آئے گا۔

فیری میڈوز جانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اسلام آباد سے جہاز کے ذریعے گلگت جائیں جو محض 45 منٹ میں گلگت کے چھوٹے سے ایئرپورٹ پر لینڈ کرے گا یہاں سے چلاس جانے والی کوچ کے ذریعے رائے کوٹ کے پل تک آئیں یہ سفر دو ڈھائی گھنٹے کا ہے۔ مگر چونکہ جہاز کی روانگی خراب موسم کی وجہ سے مشکوک تھی اس لئے ہم نے دوسرا راستہ جو طویل مگر ایڈونچر سے بھرپور تھا اسے چنا یعنی پنڈی کے پیرودھائی کے اڈّے سے بذریعہ شاہراہ قراقرم گلگت جانے والی بس میں بیٹھ گئے۔ یہ بس چودہ گھنٹے کی طویل مگر خوبصورت سفر کے بعد ایبٹ آباد، بشام اور چلاس کے راستے رائے کوٹ کے پل پر پہنچی جہاں سے ایک راستہ پہاڑوں کو چیرتا ہوا فیری میڈو کو جاتا ہے۔ مگر دوستوں نے صلاح کی کہ پہلے ہم گلگت جائیں گے اور کل واپس یہاں آئیں گے تاکہ سفر کی تھکان کچھ کم ہوجائے اور جسم موسم، مزاج اور بلندی سے ہم آہنگ ہوجائے۔
 

image

چنانچہ ایک دن گلگت میں قیام کے بعد ہم لوگ دوبارہ بذریعہ کوچ رائے کوٹ پہنچے، پل کے ساتھ ہی شنگریلا ہوٹل ہے اور ساتھ کچھ گیراج اور جیپوں کی قطار۔ یہ جیپ ہمیں فیری میڈوز تک کا نصف راستہ یعنی 8 کلومیٹر تک کا سفر طے کرائے گی۔ ایک جیپ میں 6 افراد بیٹھ سکتے ہیں ہم چونکہ 12 افراد تھے اس لئے ہم نے دو جیپ کرائے پر لیں۔ جیپ ہمیں لے کر بلند و بالا اور سنگلاخ پہاڑوں میں داخل ہوگئی۔ جیپ چٹان سے چمٹی ہوئی تھی اور ہم سب جیپ کے ساتھ اس لئے کہ بائیں جانب کئی سو فٹ گہری عمودی کھائی تھی اور جیپ کے ٹائر اس کھائی سے چند انچ کے فاصلے پر تھے اور ہر موڑ پر ہمارے کئی ساتھی اپنی آنکھیں بند کرلیتے تھے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ سامنے سے ایک جیپ آگئی۔ اب کیا ہوگا؟ سب کے ذہنوں میں یہی سوال تھا۔ سامنے والی جیپ ایک طویل ریورس کے بعد نسبتاً کشادہ جگہ پر پہاڑ کے ساتھ چمٹ کر کھڑی ہوگئی اب ہماری جیپوں کو کھائی کی جانب سے اسے کراس کرنا تھا ۔ ہم سب کے لبوں پر درود شریف اور قرآنی دعائیں تھیں اور کچھ لوگ اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے۔ بالآخر جیپ گزری اس طرح کہ اس کے ٹائر آدھے روڈ پر تھے اور آدھے کھائی میں ایسے میں اﷲ کی مدد کے ساتھ ساتھ ڈرائیور کی مہارت کی داد نا دینا زیادتی ہوگی۔

بہرحال اس ایڈونچر کے بعد آگے کا سفر آسان لگا اور پون گھنٹے کے سفر کے بعد تاتو کا ایک روایتی پہاڑی گاﺅں آیا، یہاں ایک گرم پانی کا چشمہ ہے جس کا پانی اس قدر گرم ہے کہ اس میں محض دو منٹ میں انڈا ابل جاتا ہے۔ یہاں مزید آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد جیپ نے ہمیں ایک پہاڑی نالے کے پاس چھوڑ دیا۔ یہاں ہم نے جیپ والے سے چار دن کے بعد گیارہ بجے دن کا وقت واپسی کا طے کیا اور نالے پر موجود لکڑی کے پل کو عبور کرکے لکڑی کے بنے ایک ریسٹورنٹ پہنچے، یہاں گرم گرم چائے سے اپنے آپ کو تازہ دم کیا، کیونکہ یہاں سے فیری میڈوز تک کا سفر پیدل طے کرنا ہے۔ اسی لئے تمام ٹیم ممبرز نے تیاریاں شروع کردیں۔ کوئی اپنے پاﺅں پر ٹالکم پاﺅڈر ڈال رہا ہے تاکہ چھالوں سے محفوظ رہ سکیں، کوئی قریبی چشمے سے پانی کی بوتل بھر رہا تھا تو کوئی پانی میں گلوکوز اور نمکول ڈال رہا تھا تاکہ ڈی ہائیڈریشن سے بچیں۔ سب اپنی جیبوں میں ٹافیاں، چیونگم اور خشک فوبیان بھررہے تھے جو ہم گلگت سے لائے تھے یہ چیزیں سفر کے دوران توانائی بحال رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔

ٹریک سے پہلے تمام دوستوں کو ٹریکنگ کے بنیادی اصول بتائے گئے ”ٹریکنگ کے دوران جلد بازی نہ کریں، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائیں، بلندی کے بعث کم آکسیجن اور مسلسل چڑھائی کی وجہ سے بہت جلد بلکہ بعض اوقات چند قدم کے بعد تھکن ہوجاتی ہے۔ اس دوران تھوڑی دیر کسی پتھر پر بیٹھ کر آرام کرلیں، مگر آرام کا دورانیہ صرف اتنا ہونا چاہئے کہ سانس بحال ہوجائے۔ زیادہ دیر آرام ٹانگوں کے (پٹھوں) کو شل کردے گا اور مزید سفر میں دشواری ہوگی“۔
 

image

اس بریفنگ کے بعد ٹریکنگ کا آغاز ہوا، صنوبر، جونیپر اور جنگلی گلابوں میں گھرا یہ سفر آپ زنگی بھر نہیںبھلاسکیں گے۔ مختصر یہ کہ چلتے چلتے بلکہ چڑھتے چڑھتے جب ہمارا دم ہوا ہونے لگا اور جسم نڈھال ہوگیا تو ایک موڑ پر اچانک ہی ایک بورڈ نظر آیا ”فیری میڈو کیمپ سائیٹ، بلندی: سطح سمندر سے 3306 میٹر“ تو ہماری جان میں جان آئی۔ اگلے موڑ پر ”فیری میڈوز“ ہمارے سامنے تھے۔ لیکن ہم سب کی نگاہیں اس عظیم برف کے مجموعے پر جمی ہوئی تھیں جو خوبصورت نانگا پربت 8126 میٹر آسمان تک بلند تھا اور اس کے گلیشئر نیچے وادی میں ہمارے بائیں طرف گہرائی میں بچھے ہوئے تھے اور اس کے دھانے سے نکلنے والا پانی بصورت نالہ شور مچاتا گزررہا تھا۔ گلیشئر کے ساتھ ساتھ پائن اور فرن کے گھنے جنگلات تھے جو دور تک چلے گئے تھے اور جس جگہ ہم کھڑے تھے وہ ایک گھاس کا قطعہ تھا جس پر رنگ برنگے کیمپ لگے تھے۔ اس طرح کا خوبصورت منظر ہم نے صرف پریوں کی کہانیوں میں پڑھا تھا اس حوالے سے ہی اسے ”فیری میڈوز“ یعنی پریوں کی چراگاہ کہتے ہیں۔ یہاں ہم نے کرائے پر 4 کیمپ معہ سلیپنگ بیگ لئے اور گرم گرم چائے نوش کرنے لگے۔ لکڑی کے چولہے پر بنی خالص دودھ کی چائے اس موقع پر مززا دے گئی اور ہمیں دوبارہ چست کردیا۔ پھر ہم نے اطراف میں نظر ڈالی، چاروں طرف بلند و بالا سرسبز پہاڑ، اور ساتھ ہی پولو گراﺅنڈ اور درمیان میں یخ بستہ پانی کا چشمہ جو آگے جاکر ایک مختصر سی جھیل کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور سامنے نانگا پربت کا مسحور کن نظارہ۔ یہاں سیاحوں کے لئے ایک باقاعدہ فلش ٹائلٹ بھی ہے اور گرم پانی کا بھی انتظام ہے۔ مگر یہاں بجلی کا انتظام نہیں ہے اس لئے ہم اپنے ساتھ ٹارچ معہ اضافی بیٹریاں لائے تھے۔ سورج غروب ہوتے ہی سردی یکدم بڑھ گئی اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے آگیا تو تمام لوگوں نے گرم کپڑے پہن لئے مگر سردی کا احساس کسی صورت کم نہ ہوتا تھا، پھر مقامی لوگوں نے لکڑیاں جمع کرکے الاﺅ روشن کیا اور تمام لوگ اس کے گرد بیٹھ کر آگ تاپنے لگے، تھوڑی دیر میں الاﺅ کے گرد جاپانی، آسٹریلوی، جرمنی، فرانسیسی، چینی اور دوسرے ممالک کے سیاحوں کا ہجوم لگ گیا۔ اس دوران ایک مقامی شخص نے ایک گیت گانا شروع کیا تو ڈھولک کی تھاپ پر مقامی سیاحوں کے علاوہ غیرملکیوں نے بھی رقص کرنا شروع کردیا اور باقاعدہ کیمپ فائر کا آغاز ہوگیا، باری باری تمام لوگوں نے اپنی اپنی مقامی زبان میں گیت سنائے۔ یہاں تمام سیاح زبان، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر محض ایک سیاح تھے، قدرت کے شیدائی ایک ہی قبیلے کے فرد۔ رات گئے تک یہ محفل جمی رہی۔

اس دوران جب ایک نظر نانگا پربت پر پڑی تو گھپ اندھیرے میں بھی یہ اپنی چمک دمک کے ساتھ نظر آرہی تھی اور آسمان پر اس قدر تارے تھے کہ آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔ شہر کے باسیوں کے لئے یہ منظر قدرت کا ناقابل فراموش تحفہ ہے۔

اگلی صبح دس منٹ کی چہل قدمی پر واقعی فنتوری کا گاﺅں اور اس کی مختصر جھیل کی سیر کو نکلے۔ جھیل کے ساتھ ہی ایک ٹیلہ ہے جو اسٹرابیری کے چھوٹے چھوٹے درختوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہم سب نے جی بھر کے اسٹرابیری کھائے، یہاں سے راکاپوشی کے پہاڑی چوٹی کا نظارہ بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ ایک مقامی گائیڈ بھی تھا اس نے ہمیں بہت مفید معلومات فراہم کیں۔ اس نے بتایا کہ ”نانگا پربت کو قاتل پہاڑ بھی کہتے ہیں اس لئے کہ اب تک 129 کوہ پیما اس کو سر کرنے کی کوشش میں ہلاک ہوچکے ہیں اور 1995 میں اسے آخری بار جاپانی کوہ پیماﺅں نے سر کیا تھا۔ اس کے بعد سے اسے کوئی سر نہیں کرسکا۔ ایک سوال کے جواب میں اُس نے بتایا کہ یہاں ایک زمانے میں برفانی ریچھ بھی پائے جاتے تھے مگر انسانی ہوس کے ہاتھوں ان کی نسل ختم ہوگئی۔ اب صرف مارخور، آئی بیکس اور مور بچے ہیں اور یہ بھی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں“۔
 

image

اگلے دن ایک گائیڈ کے ہمران نانگا پربت کو مزید قریب سے پرکھنے کی نیت سے اس کے بیس کیمپ کی طرف چل پڑے۔ ٹریک کا آغاز صنوبر، چیڑ اور فرن کے گھنے جنگلات سے ہوا، یہ رستہ خوبصورت اور ہموار تھا تقریباً دو گھنٹے کے سفر کے بعد ہم ایک کھلے اور سرسبز گھاس کے قطع میں پہنچے۔ یہ بیال کیمپ ہے، فنتوری اور تاتو کے اپنے والوں کا سمر کیمپ یہاں بھی ایک کیمپ سائیٹ ہے اور ایک ریسٹورنٹ بھی ہے۔ اس مقام پر کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ مگر اب رستہ ہموار نہیں تھا بلکہ چڑھائی تھی اور یہاں درخت بھی کم تھے۔ آگے ایک پہاڑی چٹان جو عین کھائی کے اوپر ٹکی ہوئی تھی کہ پاس ہم پہنچے تو گائیڈ نے کھائی کی طرف اشارہ کرکے کہا یہاں سے چلنا ہے۔ مگر وہاں تو کوئی راستہ نہیں تھا، غور کرنے پر ایک پتلی سی پگڈنڈی نظر آئی جو کہیں تھی اور کہیں نہیں تھی۔ مرتے کیا نہ کرتے ہم سب نے آگے پیچھے اس پگڈنڈی پر قدم رکھا اور اپنا وزن دائیں طرف رکھا کیونکہ بائیں جانب گہرائی میں رائے کوٹ گلیشئر منہ کھولے ہمارا انتظار کرتے ہوئے محسوس ہورہا تھا۔ خیر اﷲ اﷲ کرکے اس مشکل مقام سے گزرگئے بس یوں سمجھیں کہ اپنی جان سے گزرگئے۔ آگے کا رستہ نسبتاً آسان تھا یا اس پگڈنڈی کے بعد ہمیں لگا۔ پھر ایک پہاڑی نالہ ہمارے راہ میں حائل ہوگیا۔ اس شور مچاتے نالے کو بمشکل ہم نے ایک دوسرے کے سہارے عبور کیا تو ایک گلیشئر ہمارے سامنے تھا۔ یہاں گائیڈ نے ہمیں ایک برفانی دراڑ دکھائی جس کے اندر پانی زور و شور سے بہہ رہا تھا اور بتایا کہ ایسی دراڑیں جا بہ جا گلیشئر میں چھپی ہوئی ہیں اس لئے احتیاط ضروری ہے آپ سب میرے پیچھے پیچھے چلیں۔ ہم سب نے دراڑ کے اندر خوف سے جھانکا اور گائیڈ کے نقش قدم پر چلنا شروع کردیا۔ بالآخر یہ مرحلہ بھی طے ہوگیا۔ گلیشئر کے فوراً بعد ایک عمودی راستہ بلندی کی طرف جارہا تھا۔ اسے دیکھ کر تمام ساتھیوں کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی کیونکہ اب ہمیں اسی پر چلنا بلکہ چڑھنا تھا۔ دو تین دفعہ راستے میں سستاکر ہم نے یہ بلندی سر کر ہی لی۔ اوپر کا منظر دیکھ کر ہماری ساری تھکاوٹ دور ہوگئی کیونکہ سامنے ایک وسیع لینڈ اسکیپ تھا اور اس میں ہزاروں رنگ برنگے پھول اور ان پھولوں کے پس منظر میں نانگا پربت اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ یہاں آسمان کم اور نانگا پربت اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ یہاں آسمان کم اور نانگا پربت کا وجود زیادہ معلوم ہورہا تھا۔

”یہی نانگا پربت کا بیس کیمپ ہے جو سطح سمندر سے 4500 میٹر بلند ہے“ گائیڈ نے جب یہ اعلان کیا تو ہم سب نے اپنی گھڑیوں کو دیکھا۔ یہ سفر ہم نے 4 گھنٹے میں طے کیا تھا۔ یہاں نانگا پربت کو سر کرنے میں ناکام چند کوہ پیماﺅں کی قبریں بھی ہیں۔ یہاں سب لوگوں نے کیمرہ نکال کر دھڑادھڑ تصویریں لینی شروع کردیں۔ کسی کا بھی دل اس منظر کو چھوڑ کر واپس جانے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر گائیڈ نے جلد ہی واپس چلنے کو کہا کیونکہ کالے بادل چھارہے تھے اور ہمیں ایک طویل سفر طے کرکے واپس فیری میڈوز پہنچنا تھا۔ ہم سب نے ایک الوداعی نظر نانگا پربت پر ڈالی اور واپسی کے لئے پل پڑے۔ آج ہم ہزاروںمیل طے کرکے اپنے گھروں میں موجود ہیں مگر نانگا پربت ہمارے دلوں میں کہیں بس گیا ہے اور ہم دوست آپس میں جب بھی ملتے ہیں تو ہماری گفتگو میں نانگا پربت اور فیری میڈو کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔
Asghar Karim Khan
About the Author: Asghar Karim Khan Read More Articles by Asghar Karim Khan: 14 Articles with 268347 views I am Assistant professor in Physics at Government college in Karachi. I have done Masters in Physics and Computer Science. Traveling in Northern areas.. View More