اللہ تعالیٰ مکاں و زماں اور جہت وغیرہ سے پاک ہے

عبادت و ریاضت کی جس قدر اہمیت ہے ان سے بڑھ کر عقائد کی ردستگی بدرجہ اتم اہم اور ضروری ہے کیونکہ اعمال اسی وقت مقبول ہونگے جب عقائد کا قبلہ درست ہوگا چنانچہ آج میں آپ کی توجہ ایک اہم مسئلہ کی جانب مبذول کرواتاہوں جس میں عقل سے پیادہ لوگوں نے اپنی بصیرت و بصارت کے گھمنڈ میں نہ کو ہاں اور ہا ں کو نہ سمجھ کر امت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ۔لیجیے :حقیقت کیا افسانہ کیا:
اللہ عزوجل کے لئے مکان ثابت کرنا کفر ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مکان سے پاک ہے ، مفتی الثقلین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : '' لایتمکن فی مکان '' اسکے تحت علامہ سعد الدین تفتازانی فرماتے ہیں : '' اذا لم یکن فی مکان لم یکن فی جھۃ لا علو ولا سفل ولا غیرھما '' ( شرح عقائد نسفی ) علامہ ابن نجیم مصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : '' یکفر بوصفہ تعالیٰ بالفوق او بالتحت '' اھ ملخصا ( البحر الرائق ) مذکورہ عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مکان میں ہونے سے پاک ہے اور جب وہ مکان سے پاک ہے تو کسی جہت میں ہونے سے بھی پاک ہے ا ور اللہ عزوجل کو اوپر والا یا نیچے والا قرار دینے والے کی تکفیر کی جائے گی ۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو یہ بھی سمجھ لیجئے کہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ نے اسی بات کو بیان کیا چنانچہ فرماتے ہیں : '' ہرجگہ میں حاضر و ناظر ہونا خدا کی صفت ہر گز نہیں خدا تعالیٰ جگہ اور مکان سے پاک ہے کتب عقائد میں ہے لا یجری علیہ زمان و لا یشتمل علیہ مکان خدا پر نہ زمانہ گذرے کیونکہ زمانہ سفلی اجسام پر زمین میں رہ کر گذرتا ہے انہیں کی عمر ہوتی ہے چاند سورج تارے حور و غلمان فرشتے بلکہ آسمان پر عیسی علیہ السلام معراج میں حضور ؐ زمانہ سے علیحدہ ہیں اور نہ ہی کوئی جگہ خدا کو گھیرے خدا تعالیٰ حاضر ہے مگر بغیر جگہ کے اس لئے ثم استوی علی العرش کو متشابہات سے مانا گیا ہے اور بکل شئ محیط وغیرہ آیات میں مفسرین فرماتے ہیں علما و قدرۃ یعنی اللہ کا علم ا ور اسکی قدرت عالم کو گھیرے ہوئے ہے ۔
وہی لامکان کے مکیں ہوئے سر عرش تخت نشین ہوئے
وہ نبی ہیں جسکے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جسکا مکاں نہیں
(جاء الحق ص ١٥٧، ١٥٨ مکتبہئ اسلامیہ )

خیال رہے کہ ا گر حاضر و ناظر بمعنی شھید و بصیر اعتقاد رکھنے کے طور پر ہو یعنی ہر موجود اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے تو یہ عقیدہ حق ہے مگر اس عقیدہ کی تعبیر لفظ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں حاضر و ناظر کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

ایک مرتبہ امام الحرمین کسی امیر کی دَعوت میں تشریف لے گئے تو وہاں بڑے بڑے اَکابر عُلماء آپ کی خِدْمت میں حاضر ہوئے۔اچانک ایک شخص نے آپ سے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالی مکان سے پاک ہے اس کی کیا دلیل ہے؟قرآن میں تو اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی( ترجمہئ کنزالایمان : وہ بڑی مِہر والا اس نے عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے (پارہ١٦،طہ،آیت٥)) وارد ہوا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عَرْشْ خدا کا مکا ن ہے۔امام الحرمین نے فرمایا کہ خدا کیلئے کوئی مکان نہیں ہے۔اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت سیدنا یونس علیہ السلام کو جب دریا کی گہرائی میں ایک مچھلی نگل گئی تو آپ نے مچھلی کی پیٹ میں لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن ََ( ترجمہئ کنزالایمان : کوئی معبود نہیں سوا تیرے پاکی ہے تجھ کو بیشک مجھ سے بے جا ہوا(پا رہ١٧، الانبیائ،آیت٨٧))کہا۔حاضرین کو آپ کے اس جواب پر تعجب ہوا اور صاحبِ خانہ نے عرض کی :حضور!اس بات کی وضاحت فرمائیں۔امام الحرمین نے ارشاد فرمایا:یہاں ایک فقیر موجود ہے جس پر ایک ہزار دِرْہَم قرض ہے ۔آپ اس کا قرض ادا کردیں پھر میں بیان کرتا ہوں۔صاحبِ خانہ نے اس کے قرض کی ذمہ داری قبول کرلی تو آپ نے ارشاد فرمایا:سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم شبِ معراج جب لامکاں میں اللہ تعالی کے قربِ خاص میں تشریف لے گئے تو آپ نے وہاں بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا: لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک یعنی اے اللہ!میں تیری تعریف کی طاقت نہیں رکھتا۔تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی تعریف فرمائی ہے اورحضرت سیدنا یونس علیہ السلام کو جب دریا کی گہرائی میں ایک مچھلی نِگل گئی تو آپ نے مچھلی کی پیٹ میں لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن کہااور دونوں حضرات نے اللہ تبارک وتعالی کو حاضر کی ضمیر''اَنْتَ''سے پکارا ۔ اگر خدا کا کوئی خاص مکان ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عرش پر اور حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں خداوند تعالی کو ''اَنْتَ'' (تُو)کہہ کر پکارنا صحیح نہیں ہوتا،لہٰذا معلوم ہواکہ اللہ تعالی کا کوئی خاص مکان نہیں ہے۔بلکہ عرش وفرش،مکان ولامکان بلکہ کائناتِ عالم کے ذرے ذرے میں اس کی ذات کی تَجَلِّی ہر جگہ یکساں ہے۔(تفسیر روح البیان ج١ ص٢١١)۔

اہل سنت وجماعت کا یہی عقیدہ ہے کہ خداوند قدوس مکاں و زماں جہت وغیرہ تمام جسمانی لوازم سے پاک ہے اور کائناتِ عالم کی ہر شے میں اس کی ذاتِ پاک کے جلووں کی تجلیاں موجود ہیں۔حضرت آسی علیہ الرحمۃ نے کیا خوب فرمایا ہے:
بے حجابی یہ کہ ہر عالم میں جلوہ آشکار
اس پہ یہ گھونگھٹ یہ کہ صورت آج تک نادیدہ ہے

اتممتُ بفضلہ
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349534 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.