سچی کہانی میری زبانی

میں اپنی اصحاب الصفہ لائیبریری میں بیٹھا مطالعہ کررہا تھا(گھرہی میں ہی کتب کا کچھ ذخیرہ)۔گھر میں اکیلا ہی تھا۔خیر ۔کچھ دیر کے بعد بیل ہوئی ۔ٹن ٹن ۔۔ٹن ٹن ۔

میں جلدی سے اُٹھا اور دروازے کی طرف لپکا۔دروازہ کھلا تو ایک دراز قد سفید ،چٹاگورا شخص نمودار ہوا۔چہرے پر نظر پڑھتے ہیں میں تپاک سے آگے بڑھا ۔
اسلام علیکم !!(مجھے گلے سے لگاتے ہوئے )نو وارد شخص
(میں بے اختیار بول اُٹھا )ماشاء اللہ ماشاء اللہ !آج تو بہار آگئی ۔
آئیں بیٹھیں ۔وہ بیٹھ گئے ۔
معلوم ہے یہ کون تھے؟ نہیں ؟
یہ ہمارے ابوکے دوست انکل ریاض ساکن ہجیرہ آزاد کشمیر تھے۔رسمیo گفتگو چلتی رہی ۔میری تمام تر مصروفیات جاننے کے بعد کہنے لگے :

ریاض انکل:(ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے )آپ کو یاد ہے جب آپ کا رزلٹ آیاتھا میں اور یسین صاحب آئے تھے ۔آپ نے میٹرک میں اے گریڈ حاصل کیا تھا ۔میں نے افضل جاوید صاحب سے بات کی بچہ ذہین ہے اسے پری انجینرنگ کرواؤ،تمہاری زندگی بن جائیگی ۔لیکن آج بھی جاوید صاحب کی وہ بات میرے کانوں میں گونجتی ہے ۔''جاوید:ریاض صاحب !اولاد اللہ کی طرف سے نعمت ہے اس کا غلط استعمال ،تربیت میں کمی ناشکری اور اس کی درست طریقے سے تربیت رب تعالیٰ کا گویا شکر ادا کرنا ہے ۔مجھے رب نے دیا ہے ۔یہ ان شا ء اللہ عزوجل عالم دین بن کر اپنی صلاحیتوں سے دین کی خدمت کرے گا۔''

ریاض:میں نے کافی سخت لہجہ میں جاوید صاحب سے بات کی کہ '' کیا عجیب باتیں کرتے ہو۔مولوی بناؤ گے ،جو ٥یا ٦ہزار میں حد ہوگئی 10ہزار میں گزر بسر کرے گا۔محتاج ہوکر رہ جائے گا۔لیکن اس جنونی شخص نے میری ایک نہ سنی ۔لیکن اب جب میں جاوید صاحب کی اولاد کو دیکھتاہوں تو دل خوش ہوجاتا ہے ۔ایک بیٹاعالم ،بیٹی عالمہ ،ایک بیٹا حافظ ۔بہت خوب بیٹا۔(میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ۔)

آج تم جس مقام پر کھڑے ہو رشک بھری نظروں سے دیکھتا ہوں ۔پچھلے دنوں میں ہجرت کالونی سے گزرا تو ایک خوبصورت پوسٹر پر نظر پڑی تو بڑے القابات کے ساتھ تمہارا نام لکھا تھا ۔یقین کرو بیٹا:مجھے بہت خوشی ہوئی ۔جن محدود وسائل میں تم نے محنت کی بہت خوب بیٹا بہت خوب۔

(انکل بولے چلے جارہے تھے میں روکتا بھی تو انکل ہاتھ کا اشارہ کرکے مجھے خاموش کروادیتے ،پھر اپنے حالات کے متعلق تمہید باندھ لی)۔بیٹا :میں فیضان کی وجہ سے بہت پریشان ہوں بڑے بڑے منصوبے بنارکھے تھے نیوی میں آفیسر بھرتی کرواؤنگا۔لیکن اس کاہل و نااہل نے ناک کٹو ادی ۔اتنے وسائل کے باوجود میٹرک وہ بھی Cگریڈ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پریشان کرکے رکھ دیا ہے ۔بات سننے کا تو نام ہی نہیں لیتا۔

(میں نے بات مکمل ہونے پر انکل کا ہاتھ پکڑ کر ازرائے تشکردباتے ہوئے )سب سے پہلے تو انکل میں آپ کا شکریہ اداکرتاہوں کہ آپ نے حوصلہ افزائی کی ۔آپ پریشان نہ ہوں فیضان کو جمعۃ المبارک والے دن میرے پاس بھیج دیں ۔
خیر بہتیری باتیں ہوئیں ۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم قارئین:میں سنانے کو بیٹھ جاؤں تو آپ پک جائیں بلکہ شاید دماغ کی دہی نہیں تو کم از کم عرق تو ضرور نکال لوں گا۔اس لیے جلد ہی آپ کی طرف متوجہ ہوگیا۔ یہ ایک حقیقی داستان تھی ۔دراصل گزشتہ سے پیوستہ جن عنوان پر کالم لکھے یہ ان سے قدرِ مختلف ہے ۔ضرورت ایک سائل کے سوال سے پیش آئی۔یہ سب بیان کرنے کا مقصد آپ کی توجہ ایک نکتہ کی جانب مبذول کروانا ہے ۔کہ جو دین کا ہوجاتاہے بہت کچھ اس کا ہوجاتاہے ۔میں نے جب میٹرک کے بعد دینی تعلیم حاصل کی تو ساتھ ساتھ رات گئے تک پڑھنے کا معمول تھا۔وسائل تھے نہیں ۔چنانچہ ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کاسلسلہ بھی جاری رکھا۔یہاں تک کہ شہادت العالمیہ کے ساتھ ساتھ میں نے ایم ۔اے (ماس کمیونیکیشن) کی ڈگری بھی حاصل کرلی ۔یونیورسٹی میں بھی مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ محسوس نہیں ہواکہ میں مدرسہ کی کوکھ سے نکلاہوا ایک طالب ہوں فلاں مجھ سے آگے ہے میں فلاں سے کم ہوں ۔وہ یہ کرسکتاہے میں وہ نہیں کرسکتابلکہ اپنے ہم جماعت دوستوں میں ذہین طلبا میں شمار کیاجاتا تھا۔جس کے تبصرہ وتجزیہ کو دوست احترام کی نظر سے دیکھتے تھے ۔کھیل کا میدان ہویا تقریری مقابلہ ،سیمنار ہوں یا کوئی ایگزیبیشن مجھے میں نہ جانے دین کے صدقے کیسی قوت پیدا ہوگئی تھی کہ مجھے ناکامی کامنہ نہ دیکھنا پڑابلکہ ہرمشکل آسان ہوگئی ۔پھر مجھے والدہ کی بیماری میں اسپتال میں بیتے لمحوں نے بہت رولایا ۔ڈاکٹروں کے رویوں ،انتظامیہ کی بے حسی نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے تاکہ آج ١٥ہزار نہ ہونے کی وجہ سے میری ماں آپریشن تھیٹر سے واپس آگئی ہے کل کسی اور کے گالوں سے بھی دکھ درد اور بے بسی کے آنسوؤں ٹپکیں گے ۔

میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا فیس کی ادائیگی کیسے ہوئی کوئی غیبی مدد تھی ،میں نے پڑھا کیسے ،نفسیات ،تشیخص الامراض ،جنسیات ،گاہنی ،پیتھالوجی وغیرہ ،لیکن ہرلمحہ رب تعالیٰ نے میرے لیے اپنے دین کے صدقے علم کے راستے آسان فرمادیے ۔اور یوں میں میڈیکل کالج میں بھی نمایاں رہا۔

محترم قارئین !!!!آپ میری بات سمجھ گئے ہونگے ہمارا وہ طبقہ جو جدید تعلیم دلوانا اپنے لیے فخر اور دینی تعلیم دلوانے میں جھجک محسوس کرتا ہے اسے سوچ لینا چاہیے کہ آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی فرمالیں۔آپ عصری تعلیم ضرور دلوائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دلوائیں ۔

تاکہ بریٹش انگلش بولنے والا ،پینٹ کوٹ میں ملبوس بچہ ،جو گھرمیں آتاہے تو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ سلام ہی کرلے ۔good nightاور good nightکے صیغے بولتاہوا اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہے ۔کبھی کمپیوٹر تو کبھی موبائل پر ایس ایم ایس کرنے کا اہم فریضہ سرانجام دینے لگتاہے ۔بڑا ہوتاہے تو وضع قطع میں اپنے فرنگی طورطریقے پر اتراتاہے ،تعظیم والدین نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔پھر شادی کی مرتبہ اپنی گرل فرینڈ جو فقط اسی کے لیے ہوتی ہے والدین کی آراء کے برعکس شادی کرکے ایک الگ گھر کی سادھ لیتاہے چہ جائے کہ شریعت نے اجازت دی ہے لیکن اس کا یہ ہرگِز مقصد نہیں کہ گھرکی کھڑکی سے محبت کا آغاز ہو اور پیزاہٹ ،مکڈولنڈ اور نہ جانے کہاں کہاں محبت کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے نہ جانے جامے کتنی مرتبہ اترے ہونگے ۔۔بوڑھے والدین کو اولڈ ہوم میں چھوڑآتاہے ،جب والدین فوت ہوتے ہیں تو ایک روایتی انداز میں تدفین کرکے پھر اپنی وہی دنیا اپنا لیتاہے ۔oxford نصاب تو محنت سے پڑھا لیکن کبھی قرانی قاعدہ پڑھنے کااتفاق نہ ہوا۔ناول و ڈائجسٹ تو پڑھے لیکن کبھی قران پڑھنے کی توفیق نہ ملی ۔اب والدین تو چلے گئے ۔دین سے شناساہوتاتو ایصال ِ ثواب کرتا۔جو عالم برزخ میں انکی راحت کا باعث بنتا۔

خیر :آپ بور اور ناراض ہورہے ہیں لیکن ایسا آپ کو کرنا نہیں چاہیے وہ حقائق ہیں جو معاشرے میں وقوع پزیر ہوچکے ہیں ۔ایک چھوٹاساواقعہ آپ احباب کی خدمت میں پیش کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتاہوں ۔

ایک مرتبہ میں فوجی فاؤنڈیشن اسپتال کالونی گیٹ کراچی کے انتظار گاہ میں بیٹھادادی جان کی چیک اپ کے لیے باری آنے کاانتظار کررہاتھا اور گردونواح میں پریشان حال ،بیمار لاچار انسانوں کے چہروں کی تحریروں کا بڑے انہماک سے مطالعہ بھی کررہا تھا۔کہ اسی اثنا میں ۔ہوں ہووووووووں ہوں کی آواز آئی ۔میں چونک گیا ۔دل ہی دل میں سوال جواب ہونے لگے ۔اللہ خیرکرے پتہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی سوچوں کے دوش پر سفر کرہی رہاتھا کہ کیا دیکھتاہوں کہ اسپتال کے مین گیٹ سے ایک ایمبولینس داخل ہوئی ۔ایمرجنسی وارڈ کے قریب آئی ۔فرنٹ دروازہ کھلا ۔ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس نوجوان نمودار ہوا۔آگے بڑھا ۔اندر داخل ہونے کی سیڑھیاں چڑھا۔سیدھا ریسپشن پہ چلاگیا ۔کچھ بات چیت کی۔نرسنگ اسٹاف نے ایک ادھیڑ عمر کے صاحب کو گاڑی میں سے نکالا۔اسٹریچر پہ ڈالا۔دوسری جانب منظر ہی کچھ اور تھا ۔اس نوجوان کے فون کی بل بجی ۔۔جیب سے نہایت باوقار انداز میں موبائل نکالا۔ہاں ںںںںں۔(میں بس یہی سن سکا)اسکے بعد قہقہوں کی آواز سماعتوں سے ٹکراتی رہیں ۔ہا اہا۔ہی ۔خچ خچ ۔۔۔۔نرسنگ اسٹاف آواز دیے چلاجارہاہے ۔مجال ہے اس نوجوان کے ۔کوئی جواب دے ۔بس کے ہاتھ کہ اشارے سے (لے جاؤ ۔)پھر قدرے ہلکی آواز میں ۔لے جاؤ۔پیمنٹ میں کردوں گا۔آپ چیک اپ کروائیں ۔

نرس:بھائی !فون بعد میں کرلیجیے گا!آپ ساتھ چلیں ۔
لڑکا(موبائل پر ہاتھ رکھ کرسرگوشی سے )۔کیا ہواآپ لے چلو میں آیا۔
نرس !بابا جی کی آخری سانسیں ہیں ۔
نرس بیزار ہوکر لے جاتی ہے ۔ایمرجنسی میں آکسیجن لگی ہوئی تھی ۔
یہ عظیم نوجوان جسے خود بھی باپ بننا ہے ۔(لگ پتاجائے گا)۔ٹہل ٹہل کر باتیں کررہاتھا۔ً(دفعتامرجائے ہوئے چہرے کے ساتھ ایک خاتون نرس آتی ہیں ۔)
نرس:بھائی وہ آپ کے مریض کی ڈیٹھ ہوگئی ہے ۔
نوجوان :چہرے پر اک لمحے کے لیے بھی کوئی غمگین لہر نہیں آئی ۔یہ نوجوان تھا یا اعتماد کا کوہ ہمالیہ ۔اندر گیا۔چند ہی ساعتوں کے بعد باہر آیا۔ریسپشن والے لڑکے نے فون کیا ۔ایدھی ایمبولینس آگئی ۔

محترم قارئین :اب یہ منظر تھا جس نے مجھے چوٹ دی ۔میں ہل کے رہ گیا ۔
وہ کیا کہ جب ڈیڈ باڈی کو اسٹریچر پر لے کر جارہے تھے تویہ نوجوان کسی مہمان کی طرح ساتھ ساتھ چل رہاتھا۔کچھ آگے جاکر کھڑے سیکورٹی گارڈ کو آواز دی ۔
نوجوان:یار سو پچاس لے لینا ۔تھوڑی ہمت کرنا یہ لاش ٹھیک سے گاڑی میں رکھوا دینا۔(میرے تو چاروں طبق روشن ہوگئے)۔خیر مزید آگے کیا بیان کروں ۔میری آنکھوں سے سیل اشک اس وقت بھی رواں تھے اور لکھتے وقت بھی آنکھیں اشکبار ہیں ۔وہ باپ جس نے نہ جانے کتنے جتن کرکے یہاں تک پہنچایا۔آج نہ جانے عالم نزع میں اس کی کتنی آرزو ہوئی ہوگی اپنے لاڈلے کو آخری پیغام دیتا ہوا جاؤں ۔کوئی نصیحت کردوں ۔لیکن ماڈرن شہزادے کو یہ زرق برق ،پرآسائش و پرتعیش نے اس قدر مدہوش کیا کہ عظیم نعمت ،شفیق سائبان سے محروم ہوگیا لیکن اسے خبر تک نہ ہوئی۔

میں یہ نہیں کہتا کہ سبھی برے ہوتے ہیں یا دینی تعلیم حاصل کرنے والے سبھی اولیاء اللہ کے مرتبہ کو پہنچے ہوتے ہیں ۔مقصود اور اہم نکہ وہ یہی ہے کہ جہاں بچوں کو مہنگے مہنگے اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں وہاں خداراہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد کا ہاتھ آپ کے گریبان تک نہ آئے ،بسترِ مرگ پر کچھ خیال کریں جب زمانہ ساتھ چھوڑ دیں تو کوئی پانی پلانے والاہو،توخداراہ بچوں کو دینی تعلیم دلوائیں ،انھیں اسلام کے ذریں اصولوں سے ضرورروشناس کروائیں قوی بلکہ میں پرامید ہوں کہ ہماری اولادیں عالم فنا میں بھی ہمارے لیے معاون اور عالَم بقا میں بھی ہمارے لیے راحت و سکوں اور بخشش کا ساماں بننیں گیں ۔۔میری اگر کوئی بات بری لگے تو میں پیشگی معذرت معذرت ۔۔۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544437 views i am scholar.serve the humainbeing... View More