علم کی فضلیت ۔قرآن و حدیث کی روشنی میں

بسم اللہ الر حمن الر حیم

علم نو ر ہے ۔علم وہ دولت ہے جس کو نہ چرایا جا سکتا اور نہ ہی چھینا جا سکتا ہے۔یعنی علم ایک ایسا خزانہ ہے جو کبھی زائل اور فنا نہیں ہو گا ۔علم اور جہالت دونو ں متضا د چیزیں ہیں۔علم ایک ایسی مشعل راہ ہے جو راہ گم کر دہ اور بھٹکے ہو ئے افراد کو راہ راست پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے اور جہل ایک تا ریکی ہے اور ایک ایسا گھٹا ٹوپ اند ھیرا ہے جس میں راہ گیر ٹھو کریں کھا کر گر پڑتا ہے اور اس کو چہار جا نب میں تا ریکیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔علم تنہائی کا رفیق ،خلوت کا ہم نشیں اور ترقی کی راہو ں پر گامزن کر نے والا ایک عظیم رہبر و رہنما ہے۔بخلاف جہل کہ وہ انسان کو و حشت ،زوال و انحطاط کی طرف دھکیل دیتا ہے۔

اسلام نے انسانیت کو علم سکھایا ،شعور دیا اور ترقی کی راہوں پر گامزن کیا ۔علم وہ ہے جو انسانی اقدار واخلاق میں تہذیب اور سلیقے کو پیدا کر تا ہے،جس کی وجہ سے زندگی با مقصد اور با معنی بن جاتی ہے اور وہ قوم اور ملت قیا دت کے اہلیت حاصل کر لیتی ہے۔ علم کے تفوق وبر تری کو کلام میں جا بجا ارشاد فر مایا کہ اہل علم اور جا ہل برابر نہیں ہو سکتے ۔حضور ﷺنے ہجرت مدینہ کے بعد سب سے پہلے دینی مر کز اور درسگاہ کو قا ئم فر مایا جہاں صحابہ اکرام کی دینی اور اخلاقی تر بیت ہوتی تھی یہ اسلام کا پوری دنیا کے لیے پیغام تھا کہ اسلام انسانیت کو علم کی روشنی اور محبت کا درس دیتا ہے۔اسلام میں علوم خوا دینی ہو یا دنیوی ،کے حصول کی تر غیب دی گئی ہے بجز اس کے کہ دنیاوی علوم پر دینی علوم کو فو قیت دی گئی ہے ۔وجہ امتیاز یہ ہے کہ دینی علوم انبیاءو رسل سے ہو تے ہوے ہم تک پہنچے ہیںاور اللہ تعا لیٰ نے اہل علم کے لئے آخرت میں بلند درجا ت کا وعدہ فر مایا ہے ، دین کا علم ان ہی لو گوں کو عطا کیا جا تا ہے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ بہلا ئی کا ارادہ فر ماتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فر مایا :آپ فر ما دیجئے کیا علم والے اور جہل برابر ہو تے ہیں پ۲۲۔خدا سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں پ۲۲۔اللہ تعالیٰ تم میں اہل ایمان کے اور اہل علم کے درجے بلند کر ے گا پ۰۲۔حضرت ابن عبا س ؓ ارشاد فر ماتے ہیں کہ دوسرے مو منین کے مقا بلے میں اہل علم کے سات سو درجات بلند ہو ں گےااور دو درجوں کے درمیانی مسا فت پا نچ سو برس کی ہے۔آپ ؑنے علم حا صل کر نے کی فضیلت اور اہمیت کو مختلف انداز میں ار شاد فر مایا :علما ءانبیاءکے وارث ہیں (ابو داؤد و تر مذی)عا لم انسانیت میں نبوت سب سے بڑا منصب ہے ۔اس منصب کی وراثت سے بڑھ کر کو ئی اور شرف کیا ہو سکتا ہے ۔آپؑ نے ارشاد فر مایاجو علم دین حاصل کر نے کے لئے چلا تو اللہ تعالٰی کےلئے جنت کا راستہ آسان کرے گا،فرشتے طالب علم سے علم حا صل کر نے پر خوش ہو تے ہو ئے اپنے پر اس کے قدموں تلے بچھا دہتے ہیں اور آسمانی اور زمین کی تمام مخلو قات عالم کے واسطے دعاءمغفرت کر تی ہیں حتی کی پا نی میں مچھلیاں ۔ عالم کو عا بد پر ایسی فضیلت ہے جیسی میری فضیلت ادنیٰ صحابی پر ہے۔(تر مذی)۔اہل علم کی فضیلت کو ایک روایت میں یو ں ارشاد فرمایا کہ نبو ت سے قریب تر اہل علم اور مجا ہدیں ہیں ۔اہل علم اس لیے کہ انہوں نے لو گوں کو وہ با تیں بتلائیں جو انبیاءلے کر آئے اور مجاہدین اس لئے کہ انہو ں نے انبیا ءکی لا ئی ہو ئی شر یعت کے خا طر اپنی تلواروں سے جہاد کیا ۔(ابو نعیم)سنن ابن ما جہ میں روایت ہے کہ قیامت کے دن تین آدمیوں کی شفاعت قبو ل ہو گی، انبیاءکی، علماءکی اور شہیدوں کی۔حضرت معا ذ بن جبل ؓ سے مر وی ہے آپ ؑ اسلام نے فر مایا : علم سیکھو کیو نکہ علم اللہ کے لئے سیکھنا خشیت ہے اور اس کی طلب عبادت ہے اور اس کا پڑھنا لکھنا تبلیغ ہے اور اس میں بحث کر نا جہاد ہے اور علم اس کو سکھانا جو نہ جانتا ہو صدقہ ہے اور اس کے اہل پر خرچ کرنا قر بت ہے اور علم تنہائی میں ساتھی ہے ،خلوت میں دوست ہے ،دین میں دلیل ہے ،تنگ دستی اور تکلیف میں صبر دلا نے والا ہے ،پھر ان کو بھلائی اور نیکی میں قا ئد ،سردار اور پیشوا کر دیتا ہے کہ بھلائی میں ان کی اقتداءکی جا تی ہے، علم کے طفیل انسان ابرار اور مقربین کے درجات میں پہنچ جاتا ہے ۔علم میں غورو فکر کرنا روزہ رکھنے کے برابر ہے اور اس کا درس وتدریس قیام کے مساوی ہے ۔علم کے ذریعے ہی اللہ کی اطاعت کی جاتی ہے اور علم کے ذریعہ ہی سے اس کی عبادت ہو سکتی ہے ،اسی سے اس کی تو حید پہچانی جا تی ہے اور کما حقہ تعظیم کی جا تی ہے اور علم سے ہی ورع حاصل کیا جاتا ہے اور علم ہی سے حلال و حرام کو پہچانا جاتا ہے ۔علم امام ہے اور عمل اس کا تابع ہے نیک بختوں کو اللہ تعالی علم کا الہام فر ماتے ہیں اور بد بختو ں کو محروم رکھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فر مایاکر تے تھے ، اس سے پہلے کہ علم اٹھا لیا جا ئے اسے حاصل کر لو ۔علم کا اٹھنا یہ ہے کہ اس کے روایت کر نے والے با قی نہ رہیں ،خدا کی قسم جو لوگ خدا کی راہ میں شہید ہوے ہیں وہ قیامت کے روز جب علماءکے فضا ئل اور بلندی مر تبہ کا مشاہدہ کر یں گے تو ان کی خواہیش ہو گی ،کا ش !وہ بھی عالم ہو تے اور جان لوعالم ماںکے پیٹ سے پیدا نہیں ہو تا بلکہ علم سیکھنے سے آتا ہے۔

بحرانوں کے اس دور میں تیزی سے علماءکرام اور مشایخ عظام کا دنیا سے اُٹھنا ،نہ صرف عالم اسلام بلکہ تمام انسانیت کے لئے خسارہ ہے اور رب تعالیٰ کی نا راضگی کی علامت ہے،ایک عالم کی موت عالم کی موت ہے اور علم کے اٹھنے کا سبب ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے منقول ہے کہ حضور ؑنے فر مایا: اللہ تعالیٰ علماءکے اٹھائے جانے سے علم کو اٹھا لیں گے یہاں تک کہ جب کو ئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لو گ جا ہل سر داروں کو مقتدی بنا لیں گے۔لو گ ان سے مسئلہ پو چھیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوی دے کر خود بھی گمراہ ہو ں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گئے(بخاری ومسلم)

ہم مسلمانوں میں ایسی ایک جماعت ضرور با قی رہنی چاہیے جو علم دین میں تفقہ اوررسوخ حاصل کر تی رہے ،جو اسلامی تہذیب و تمدن اورآثار کی محافظ ہو باقی مسلمان ان کے معاون و مساعد ہوںتاکہ مسلمان کسی بڑی آفت اور فتنوں میں مبتلا ہو نے سے بچ جا ئیں اور علم کے فضا ہل و منا قب حاصل کر تے ہوئے پو ری دنیاکی قیادت وسیادت کی ذمہ داری نبھاسکیں۔
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 249965 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More