تعلیمِ نسواں کی حالت اور نتائج

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا تصور تک علم کے بغیر بے معنی ہے۔علم کی بدولت قومیں عروج کی سر بلندیوں تک جا پہنچتی ہیں اور اس سے غفلت ہی قوموں کو پستیوں کی اس گہرائی میں جا پھینکتی ہے جس سے نکلنا ان کے لیئے نا ممکن ہو جاتا ہے۔دور جدید میں اگر قوموں کو جدید تعلیم اور نت نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ نہ کیا جائے تو عالمی سطح پر اپنا نام منوانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔دور حاضر کی ترقی کی رفتار نے علم و ادب کی اہمیت اور ضرورت کو بہت ذیادہ بڑھا دیا ہے۔میرے آقائے دوجہاں حضرت محمد ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ماں کی گود سے لیکر قبر تک علم حا صل کرو۔گویا بچے کے لیئے اس کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے۔وہی اس کا وہ تعلیم ادارہ ہوتا ہے جہاں سے وہ اپنی عملی زندگی میں آنے والے قواعد و ضوابط سیکھتا ہے۔یہاں علم و تعلیم کے علاوہ تہزیب وتمدن ،ادب و احترام اور عملی زندگی کے کافی مثبت پہلو سیکھتا ہے۔انگریز مفکرین کے نزدیک ماں کے رویے کا اس کے بچے پر گہرا اثر پڑتاہے۔حلقہ ءادب کا یہ ماننا ہے کہ معاشرے میں شرح تعلیم کو بہتر بنانے کے لیئے معاشرے کی خواتین کو زیور تعلیم سے آراستا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ایک تعلیم یافتہ ماں ہی ایک صحت مند اور پڑھے لکھے معاشرے کو جنم دے سکتی ہے۔ماں اگر خود ہی تعلیم سے محروم ہوگی تو وہ اپنے بچوں کو کیسے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تربیت دے سکے گی۔ایک تعلیم یافتہ عورت خواہ وہ ماں، بیٹی ، بیوی یا بہن کسی بھی شکل میں ہو وہ اپنا کردار ایک ان پڑھ عورت سے کئی گنا موثر اور مثبت طریقے سے اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ملکی تعلیم میں اضافہ کے لیئے تعلیم نسواں پر خصوصی توجہ دینا اب انتہائی نا گزیر ہو چکا ہے۔حکومت پاکستان اس امر میں کافی متحرک نظر آتی ہے کہ خواتین میں علم کی شرح اور معیار دونوں میں اضافہ کیا جائے۔اس امر کے لیئے پرائویٹ سیکٹر میں بننے والے سکولوں اور کالجوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ساتھ ہی سر کا ری سکول اور کالج بنائے گئے۔خواتین اور حضرات میں بیداری شعور مہم بھی چلی۔اس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آئے۔مگر در اصل ہوا کیا یہ ایک نہایت ہی افسوس ناک بات ہے۔سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کی اور صنف نازک کے حقوق کی کس طرح دھجیاں اڑائی گئی شائد ہم سب اس سے واقف تو ہیں مگر ا س کے خلاف بولنے کے لیئے کوئی بھی تیار نہیں۔خواہ وہ مدارس میں پڑھنے والی بچیاں جہاں قانون کی مخالفت کر رہی ہیں تو سکول و کالج میں ان کو جس طرح سے تعلیم دی جارہی ہے شائد اس بات کا علم پڑھنے والی بچیوں کے والدین کو نہ ہو۔حال ہی میں ایک واقعہ میانوالی میں پیش آیا جہاں کالج کے اوقات میں ایک گرلز کالج میں پولیس کے کئی اہلکار داخل ہوئے بلکہ وہاں کی وارڈن اپنے جوان بچوں کے ہمراہ وہاں قیام پذیر تھی۔اب کہاں گیا پردہ کہاں گیا ادب شرم و حیا کی چادر اس سے بڑھ کر اور کیا تار تار ہوگی۔نوبت یہاں تک آگئی کہ انہوں نے سرکاری دفاتر میں جس طرح اپنا موقف بیان کیا شائد اس کی اجازت پاکستان کا قانون نہیں دیتا مگر میرے ایک دوست کے نزدیک ا س کا جواز یہ تھا کہ یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے۔اب اگر لڑکیوں کی تر بیت اس طرح سے ہونے لگے کہ وہ لڑنے جھگڑنے کی مشق کرتی ہوں تو ہماری آنے والی نسل کیسی ہوگی یہ سوچ کر میرے تو رونگھٹے کھڑے ہوگئے ۔اور مزید کچھ لکھنے کی میرے قلم میں طاقت شائد نہ ہے یا شائد میری قلم کا وقار وہ سب لکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 47514 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More