کوئی پوچھنے والا نہیں

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں یہ میرا پہلی مضمون ہے۔ میرے خیال سے پہلے میں اپنا تھوڑا سا تعارف پیش کردوں پھر آگے بڑھتے ہیں۔ تو جناب میرا نام جمیل اختر ہے اور میرا تعلق مڈل کلاس فیملی سے ہے اور میری رہائش اورنگی ٹاؤن میں ہے (جو کہ ایشیاء کی سب گنجان ترین اور سب سے بڑی کچی آبادی میں شمار ہوتا ہے) اور میں کمپیوٹر کے فیلڈ سے ریلیٹڈ ہوں۔ شاید اتنا کافی ہے۔

کافی دنوں سے میں کی باتیں سوچ رہا تھا ملکی حالات کے حوالے سے،KESC کے حوالے سے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے، ٹریفک کے مسائل کے حوالے سے، ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حوالے سے۔ وغیرہ وغیرہ۔

سب سے پہلے تو میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بات کروں گا کیوں کہ میں خود بھی اس سے متاثر ہوتا ہوں اور ہو رہا ہوں۔

جناب یہ ملک پاکستان کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے اور اس کے لیے کتنے ہی لوگوں نے اپنی جانیں قربان کی کتنی بہنوں کی عزت تار تار کی گئی، اور کتنے ہی گھر لٹے اور کتنے لوگ برباد ہوئے اور نہ جانے کیا کیا ہوا؟ یہ تو ساری دنیا ہی جانتی ہے۔ لیکن پاکستان بنے ہوئے تقریباً ساٹھ سال ہو چکے ہیں لیکن ہمارے ملک میں پراپر طریقے سے آج تک ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہ ہوسکا حالانکہ ارباب اختیار کو عوام کے اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ہمارے حکمران صمم بکمم کی تصویر بنے ہیں۔ "اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے! " کراچی جو کہ پاکستان کا دل ہے جس کے ذریعے پاکستان کے رگوں میں خون دوڑ رہا ہے بڑی بڑی صنعتیں، کارخانے، انڈسٹریز ہیں لیکن یہاں ٹرانسپورٹ کی کوئی مناسب سہولت نہیں ۔

سرکاری طور پر کہیں کہیں بسیں ہیں۔ لیکن یہ سرکاری بسیں پورے شہر میں ہر جگہ ہر علاقے میں کیوں نہیں ہیں؟ کیونکہ "کوئی پوچھنے والا نہیں ہے!"، پورے شہر میں پرائیویٹ بسیں اور منی بسیں ہیں جن کی حالت زار ہر ایک کے نظر کے سامنے ہے۔

اورنگی ٹاؤن جو کہ ایشیاء کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے اور اسی اورنگی ٹاؤن کی آبادی سے SITE ٹاؤن کی رگوں میں خون دوڑ رہا ہے یہاں کہ مرد اور خواتین محنت کش ہی سائٹ ٹاؤن کی انڈسٹریز چلا رہے ہیں یہاں کہ خواتین اور حضرات جو مزدور پیشہ اور محنت کش لوگ ہیں جن کی بدولت سرمایہ دار، صنعت کار اور حکومت پیسے کما رہی ہے لیکن ان اورنگی والوں کے لیٔے کویٔ مناسب سہولت نہیں کم از کم ٹرانسپورٹ کے حوالے سے تو نہیں ہے اورنگی ٹاؤن کی سیورج سسٹم ، سڑکیں، اور یہاں موجود بسیں جو کہ گنتی کی ہیں اور ان کی حالت بھی (تقریباً) ابتر ہوتی ہیں۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے

اورنگی ٹاؤن میں دو روٹ ہیں ایک 10 نمبر جہاں پر ایک 1D ہے جو کہ عرصہ دراز سے چل رہی ہے اور اس کے علاوہ بھی کئی بسیں و منی بسیں ہیں یہ روٹ تو کسی حد تک بہتر ہے یہاں کافی بسیں اور منی بسیں ہیں جبکہ دوسرا روٹ اورنگی 16نمبر گلشن بہار والا جو روٹ ہے یہاں گاڑیوں کا فقدان ہے اور جو موجود ہے اس کی حالت بہت ہی خراب ہے سمجھ نہیں آتا ایسی گاڑیوں کے فٹنس کے سرٹیفیکٹ کیسے جاری ہو جاتے ہیں۔اور جو جاری کرتا ہے کیا اس سے "کوئی پوچھنے والا نہیں؟" ۔

میں ذرا تصویر کشی کر تا ہوں کہ ان بسوں میں سفر کیسا ہوتا ہے۔ فل اے سی گاڑیاں ہوتی ہیں کیونکہ گاڑیوں میں شیشے نہیں ہوتے اور جو ہوتے ہیں ہو کھلنے اور بند کرنے کے قابل نہیں ہوتی ہیں اس لیے کنڈیکٹر حضرات اپنے دل کش آواز میں باآواز بلند اعلان کرتے ہیں "فل اے سی ہے آؤ آؤ" صبح کے اوقات میں ان گاڑیوں میں سوار ہونا اتنا ہی مشکل ہے جتنا چاند پر جانا بلکہ چاند پر جانا آسان ہوگا بہ نسبت اس کے۔ کیونکہ اس بری طرح سے لوگ گاڑی کے اندر ٹھونسے ہوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ اس پر مستزاد یہ کہ گیٹ پر بھی لٹکے ہوتے ہیں اور تو اور چھتوں تک میں اس طرح سوار ہو کر جاتے ہیں اپنے اپنے روزگار میں کہ جیسے فری میں جا رہے ہوں یہ محنت کش لوگ بے چارے جان ہتھیلی پر لیے روزگار کے لیے جاتے ہیں اور حادثات بھی ہوتے ہیں قیمتی جانیں ضائع بھی ہوتی ہیں ۔ اور پھر گاڑیوں کی کمی جتنی آبادی ہے اس تناسب سے گاڑیاں نہیں ہیں اور پھر سڑکوں کی حالت ایسی کہ بندہ گھر سے کھانا کھا کر نکلے تو اورنگی سے میٹرک بورڈ آفس یا حبیب بنک چورنگی پہنچتے پہنچے کھانا ہی ہضم ہو جائے۔

اور یہ بسوں کے فقدان کا مسئلہ صرف اورنگی میں ہی نہیں تقریباً پورے کراچی میں ہی ہے۔ کیا کسی کی توجہ اس طرف نہیں؟ کیا "کوئی پوچھنے والا نہیں؟" آخر کیوں اس پر توجہ نہیں دی جاتی آخر کیوں حکمرانوں کو ارباب اقتدار کو ان محنت کش عوام کا خیال نہیں آتا؟ آخر کیوں؟ اس لیے ان کو اندازہ نہیں کیونکہ ان لوگوں کی اپنی اپنی گاڑیاں ہیں اپنے اپنے ڈرائیور ہیں ان کا اپنا پروٹوکول ہے ان کی اپنی سیکیورٹی ہے جب جہاں جانا چاہیں پروٹوکول کے ساتھ جاتے ہیں جس راستے سے گزرتے ہیں اس سے ملحقہ تمام راستوں کے ٹریفک معطل کر دیے جاتے ہیں جن راستوں سے ان کو گزرنا ہوتا ہے تو فوری طور پر ان سڑکوں کی پیوند کاری کر کے درست کیا جاتا ہے (اگر ضرورت ہو تو) پھر کیسے ان کو احساس ہوگا، کیسے اندازہ ہوگا کہ یہ غریب عوام یہ محنت کش کس طرح جان ہتھیلی میں لے کر سفر کرتے ہیں اور اکثر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کون ان کو احساس دلائے کون ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائے کون؟  کوئی نہیں کیوں کہ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں

میں اس مضمون کہ ذریعے ارباب اقتدار کی توجہ اس جانب دلانا چاہتا ہوں کہ خدارا کم از کم ٹرانسپورٹ کا نظام تو بہتر کردیں وہ غریب و محنت کش عوام جو کہ اپنا خون، پسینہ بہا کے حتیٰ کہ جان سے بھی ہاتھ دھو کے آپ کی تجوریوں کو بھر رہے ہیں ملک کا پہیہ چلا رہا ہیں ان کے مسائل پر بھی تو توجہ دی جائے ان کو بھی تو تھوڑی سی زیادہ نہیں صرف تھوڑی سی سہولت دی جائے کہ کم از کم ٹرانسپورٹ کا نظام تو بہتر ہو اور یہ لوگ آسانی سے روزگار پر جا سکے۔ کوئی تو ہو پوچھنے والا۔ کوئی تو ہو۔