کہانی روشنیوں کے شہر کی

بھلا کون کہہ سکتا تھا کہ بحرہ عرب کے کنارے آباد بلوچ ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی کی قسمت کبھی ایسے جاگے گی کہ وہ عالم اسلام کی سب سے بڑی اور دنیا کی تیسری بڑی ریاست کے دارلحکومت کا روپ ڈھال لے گی ، اسے وادی سندھ کی اقصادی شہ رگ اور جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ ہونے کا امتیاز حاصل ہوگا اور اسکی طرف برصغیر پاک و ہند کے ہر خطہ اور تہذیب کے نمائندے کھینچے چلیں آئیں گے اور اسکے دامن میں ایک نئی مشترک تہذیب کی بنیاد رڈالیں گے۔ قیام پاکستان کے وقت کسی نے کہا تھا کہ آج دیلی کراچی کی قسمت پر رشک کررہی ہے اور کیوں نہ کرتی کہ جو مقام دلی کو صدیوں کے انقلابات زمانہ نے بخشا، کراچی نے چند برسوں میں ہی سمیٹ لیا۔

گو کراچی لاہور اور ملتان جیسے تاریخی اہمیت کے حامل شہروں کے مقابلے میں ایک نوزائیدہ یا یوں کہیں کہ نوعمر شہر ہے لیکن اسکی حیثیت ان شہروں سے کسی صورت بھی کم نہیں۔اگر لاہور کو حضرت علی ہجویری اور ملتان کو حضرت بہاالدین ذکریہ کے فیض نے سمیٹ رکھا ہے تو اہلیان کراچی حضرت عبداللہ شاہ غازی جیسے مجاہد طبیعت ولی کے مرقد کے سائے میں آباد ہیں اوراگر لاہور کو پھرتوی ، غزنوی، غوری، اکبر اور جہانگیرجیسے عالم پناہوں کی داستانیں سنانے کا شوق ہے تو کراچی محمد علی جناح جیسے عظیم رہبر کے ذکر سے کیوں باز رہے۔مورخین کراچی کی تاریخ کا تانہ بانہ اٹھاریں صدی سے جوڑتے ہیں، سکوت سندھ کے بعد انگریزوں نے اس جگہ کو جہاں آج کراچی آباد ہےخالص فوجی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی ٹھانی اور یہاں بندرگاہ اور جھاونی قائم کی ۔بندرگاہ کیا قائم ہوئی کہ گجرات کے مسلم تاجروں کی قسمت ہی کھول گئی ، کھارادر اور میٹھادر کے علاقے اسی دور کی یاد ہیں۔1957 کی جنگ آزادی میں جہاں پورے ہندوستان نے بغاوت کی ایک تاریخ رقم کی وہیں کراچی کی فوجی چھاونی میں بھی یہ آگ اسی طرح پھیلی ، بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جس جگہ پرآج ایمپریس مارکیٹ ٹاور اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ کھڑا اور جہاں دن بھر لین دین کے سودے زوروں پر ہوتے ہیں، دو صدی پہلے ٹھیک یہی جگہ درجنوں حریت پسندوں کے مقدس خون سے سیراب ہوئی تھی۔

کراچی نے قیام پاکستان کے بعد دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی اور چند برسوں میں ہی اسکا شمار دنیا کے بڑے معاشی مراکز میں ہونے لگا۔ یہاں کی بحری و فضائی بندرگاہیں،صنعتی و اقصادی مراکز اور تجارتی و کاروباری سرگرمیاں اسے ملک کے کسی بھی دوسرے شہر سے ممتاز کرتی ہیں۔ کہتے ہیں کراچی میں زندگی اتنی تیز اور برق رفتار ہے کہ گھنٹے سیکنڈ کی رفتار سے اور موٹر بائیک ہوائی جہاز کی رفتار سے بھاگتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہاں ہر کوئی جلدی میں ہے ، یہ دیکھئے اتنی جلدی کہ گاڑیوں کو پارک کرنے کا بھی وقت نہیں اوریہاں تو اتنی جلدی کہ صاحب سرخ بتی بھاڑ میں جائے۔

لیکن جہاں یہ تیزی اور برق رفتاری قابو سے باہر نظر آتے ہیں ،وہیں اس شہر کے کئی کونے ایسے بھی ہیں جہاں ٹھراو اور دھیمے پن کا اپنا ہی انداز ہے، یہ گل جی ہیں عالمی شہرت یافتہ مصور، انکے رنگوں میں پھیلی گہرائی سے ملئے، یہ فاطمہ سریہ بجیا ہیں عالمی شہرت یافتہ ادیبہ انکے قلم کی شگفتی کو دیکھئے اور یہ ضیاء معین الدین ، شعلہ سا لپک جائے آواز تو دیوھہ۔ بدقسمتی سے جب کبھی کراچی کی بات نکلتی ہے تو معیشت اور صنعت پر آکر رک جاتی ہے حالانکہ باغوں کی رونق ہو یا ساحلوں کی ہوا،نوجوان منچلوں کی ٹولیاں ہوں یا رومانی جوڑوں کی من موجیاں، ادب کی سنجیدہ محفلیں ہوں یا شعرا کی مشگوفیاں، آرٹ اورفنون لطیفہ کے شاہپارے ہوں یا علم و دانش کی درسگاہیں، مذہب اور عقیدے کی چشمیں ہوں یا روحانیت کی برکات ، گویا روشنیوں کا یہ شہر زندگی کے ہر رنگ سے رنگا ہوا ہے اور خوشبو سے مہکا ہوا ہے۔

یہ ٹھیلے ، فٹ پاتھ اور کہوا خانے ہوں یا سیون اسٹار ہوٹل، دنیا کی کونسی پکوان ہے جسکا دسترخوان یہاں نہیں سجتا ۔ بوٹ بیسن ، برنس روڈ،احسن آباد اور گلستان جوہر کی فوڈ اسٹریٹ ہو یا اورنگی ٹاؤن کی حلوا پوری اورقائدآباد کا چائے پراٹھہ، مشرقی مرغ مسلم سے مغربی فاسٹ تک ہرکچھ ہر وقت تیاررہتا ہے ، مشہور ہےکہ اس شہر میں کوئی بھوکا نہیں سوسکتا اور دس بیس روپے میں بھی پیٹ کی آگ کو بجھانے کا کوئی نہ کوئی انتظام ہو ہی جاتا اور اگر کوئی لاچار دو وقت کی روٹی کا سامان نہ بھی کرسکے تو رفاحی اداروں کا پھیلا منظم جال اسے بھوکا سونے نہیں دیتا، کہیں سیلانی کا دسترخوان اسکی تواضع کرتا ہے تو کہیں وہ چھیپا اور ایدھی کا مہمان بن جاتا ہے۔

کراچی کو اگر بازاروں کا شہر بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، یہاں جہاں قدیم انداز کے تھوک بازار جابجا پھیلے ہوئے وہاں انکھوں کو خیرا کرتے اور نظروں کو چندیاتے جدید انداز کے شاپنگ مالز کی بھی کمی نہیں۔قدیم اور جدید کا یہ متزاج جہاں امیر کی امیری کا سامان پورا کرتا ہے وہیں غریبوں کی سفید پوشی کا بھرم بھی رکھتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق روشنیوں کے اس شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، اسکی وسعت شمال میں سرجانی، مغرب میں بلدیہ ٹاون اور مشرق میں گلشن حدید تک پھیل چکی ہے اور مسلسل پھیل رہی ہے۔ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی ، سب سے بڑی کباڑ مارکیٹ، سب سے بڑی گائے بکرا منڈی، سب سے بڑا بیچ پارک اور سب سے بڑا مصباح خانہ۔

ایک دور تھا جب کراچی اپنی امن پسندی کے لئے مشہور تھا، لیکن ناجانے اس شہر کی پر امن فضاء کو کس کی نظر کھاگئی۔ انیس سو چھیاسی میں بشرا زیدی کی حادثاتی موت کے بعد جو لسانی فسادات رونما ہوئےاس نے لسانی بنیادوں پر ایک نئی سیاسی تقسیم پیدا کی جو آگے چل اکثر مسائل کا سبب بنی۔ ریاستی آپریشن، فرقہ ورارنہ کشیدگی ، گینگ وار، لینڈ مافیا، بھتا مافیا اور چوری ڈاکے۔ معاملات ہیں کہ سنبھلنے کا نام ہی نہیں لیتے اور ایک ہلکی سی چنگاری بارہ مئی، ستائس دسمبر جیسے واقعات کا پیش خیما ثابت ہوجاتی ہے۔لیکن ان تمام تر صورتحال کے باوجود حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اہل کراچی زندگی کی گاڑی روکتے نہیں، کاروبار بڑھ رہا ہے، لوگ آرہے ہیں، سماجی ، ادبی اور روایتوں سرگرمیوں میں بھی وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے جبکہ اعلی تعلیم کا رجہان بھی بڑھ رہا ہےاور شاید اسی لئے قیام پاکستان کے وقت کسی نے کہا تھا کہ آج دیلی کراچی کی قسمت پر رشک کررہی ہے اور کیوں نہ کرتی کہ جو مقام دلی کو صدیوں کے انقلابات زمانہ نے بخشا، کراچی نے چند برسوں میں ہی سمیٹ لیا۔
Kashif Naseer
About the Author: Kashif Naseer Read More Articles by Kashif Naseer: 13 Articles with 14311 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.