زمین پر دجّال کتنی مدّت ٹھہرے گا؟

زمین پر دجال صرف چالیس دن رہے گا۔ لیکن ایک دن سال کے برابر ہوگا۔ اور ایک دن مہینے کے برابر اور ایک دن ہفتے کے برابر اور باقی دن عام دنوں کی طرح۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بتایا تو صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جودن ایک سال کے برابر ہوگا کیا اس میں ایک دن کی نمازیں کافی ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا:

’’نہیں بلکہ تم ان کا وقت مقررکرلینا ‘‘اس مثال پر غور کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی باتوں کی کیسے تصدیق کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کسی قسم کی تحریف یاتاویل کا رستہ اختیار نہیں کیا نہ ہی انہوں نے یہ کہا کہ’’ ایک دن تو اتنا لمبا نہیں ہوسکتا سورج تو اپنے مدار میں چل رہا ہوگااس میں کو ئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی بلکہ وہ تکلیفوں اور تنگیوں کی وجہ سے لمبا محسوس ہوگا‘‘۔ - صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال۔حدیث: 2937- -- سنن ترمذی،حدیث: 2240- -

انہوں نے لوگوں کی طرح ایسے نہیں کہا بلکہ انہوںنے تصدیق کردی کہ وہ حقیقت میں بارہ مہینے کا ہوگا۔ کسی قسم کی تحریف وتاویل سے کام نہیں لیا۔ مومن کی یہی شان ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بتلائی ہوئی غیبی باتوں کی تصدیق عقل کے نہ مانتے ہوئے بھی کرتا چلاجاتاہے۔ ہمیں یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی کوئی بات عقلاً بھی محال نہیں ہے۔ البتہ اسے عقل نہ سمجھ سکنے کی بنا پر حیران وششدر رہ جاتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ دجّال کا پہلادن ایک سال کی طرح ہوگا۔ اگر یہ حدیث اس دور کے عقل پرستوں کے سامنے رکھی جائے تو وہ یہی کہیں گے کہ اس سے مجازی طُول مراد ہے دراصل وہ دن باعث تعب ومشقّت ہوگا کیونکہ خوشی کے دن چھوٹے ہوں گے اور تنگی اور تکلیف کے دن لمبے ہوں گے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اخلاص اور تسلیم ورضا کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فوراً مان لیا اور زبان حال سے کہنے لگے کہ :

’’جس ذات نے سورج کو پیدا کیا اور اسے دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں چلایا ہے وہ اسے بارہ مہینے چلانے پر بھی قادر ہے ‘‘۔

کیونکہ خالق تو وہی ہے اور قادر بھی وہی ہے۔ انہوں نے تسلیم ورضا کے بعد یہ دریافت کیا کہ ہم نماز کیسے اداکریں گے کیونکہ یہ ایک شرعی تقاضا تھا جس کے وہ پابند تھے۔ حقیقی ایمان اور تسلیم ورضا بھی یہی ہے۔ ان کے سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’تم اسے اندازے کے مطابق تقسیم کرلینا ‘‘۔

… سبحان اللّٰہ العظیم …

اس جواب پر غور کرنے سے یہ چیز عیاں ہوتی ہے کہ دین اسلام کس قدرکامل ہے۔قیامت تک انسانوں کو جس مسئلہ کی بھی ضرورت ہوگی اس کی اساس میں ضرور ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زبان سے یہ بات نکلوائی جس کے پیچھے محض یہ مقصد کارفرما تھا کہ دین کی کاملیّت کا اظہار ہوجائے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت بھی قطبین میں واقع علاقے کے لوگوں کو اس مسئلہ کی ضرورت رہتی ہے جہاں چھ ماہ رات ہوتی ہے اور چھ ماہ دن۔ آپ ملاحظہ فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مسئلہ درپیش ہونے سے پہلے ہی اس کا جواب دے دیاتھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ }- -المائدۃ:۳-

’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل بنادیا ہے اور تمہارے اوپر اپنے انعام کی تکمیل کردی ہے ‘‘۔

اگر ہم اس فقرے پر غور کریں ’’میں نے تمہارے دین کو کامل بنادیاہے‘‘توہمیں معلوم ہوجائے گاکہ دین میں کبھی کوئی چیز ناقص محسوس نہیں ہوگی۔ دین تو ہر لحاظ سے کامل ہے۔ نقص اور کمی ہمارے اندر ہے۔ ہماری عقلیں ناقص ہیں یا ہماری سمجھ میں کوتاہی ہے یا پھر ہماری نیّتیں درست نہیں ہیں۔ ہر شخص یہ چاہتاہے کہ حق سے چشم پوشی کرکے اپنی رائے کی تائید کرے۔

…نَسَأَلُ اللّٰہَ اْلعَافِیَۃَ …(ہم اﷲ سے عافیّت کی دعا مانگتے ہیں)

اگر ہم فہم وفراست اور حسن نیّت سے غورکریں تو ہمیں یہ دین الحمد للہ کسی بھی قسم کی تکمیلی بات سے بے نیاز نظر آئے گا۔ کوئی بھی چھوٹا بڑا مسئلہ درپیش ہو تو اس کاحلّ ہمیں کتاب وسنّت میں ضرور ملے گا۔ لیکن من پسندی کا اس قدرغلبہ ہوچکاہے کہ کچھ لوگ حق تک پہنچنے سے عاری ہوگئے ہیں۔اگر کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو، اگر چہ اس سے ملتے جلتے پہلے مسائل مشہور بھی ہوں تو وہ مختلف آراء ونظریات اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر اس میں دورائے کا احتمال ہو تو اس میں دس آراء سامنے آجاتی ہیں۔ یہ سب من پسندی کے غالب آجانے کی بناپر ہے وگرنہ ارادہ اور نیّت درست ہو، فہم وفراست اور وسعت علمی سے کام لیا جائے تو حق خود بخود واضح ہوجائے۔

مختصر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ دجّال چالیس دن رہے گا اور چالیس دن کے بعد عیسیٰ بن مریم آجائیں گے جنہیں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کی طرف اٹھایا ہوا ہے۔ صحیح احادیث میں موجود ہے کہ :

’’وہ دمشق کی مشرقی جانب سفید مینار پر نازل ہوں گے۔ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوں گے، جب وہ سر جھکائیں گے تو اس سے پانی ٹپکے گا اور جب اسے اوپر اٹھائیں گے تو ا س سے موتیوں کی طرح گریں گے ‘‘۔ - صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال۔حدیث: 2937- -- سنن ترمذی، حدیث: 2240- -- وسنن أبو داود، 4321- -

یہ تمام چیزیں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس کے بعد ’’بابِ لُدّ‘‘پر دجّال کو جاملیں گے جو فلسطین میں موجود ہے اور وہاں اسے قتل کردیں گے۔ لہٰذا دجّال کایہا ںپر خاتمہ ہوجائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کسی بھی شخص سے دین اسلام کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کریں گے۔ وہجزیہ قبول نہیں کریں گے۔ صلیب کو توڑدیں گے ، خنزیر کو قتل کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں ہوگی۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے ’’جزیہ‘‘ کو مقررکیا ہے تو اس کی ایک مدّت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد پر ختم ہوجائے گی۔ اس پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتاہے کہ یہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے شریعت ہوگی۔ کیونکہ رسول اللہ اسے صحیح قرار دیتے ہوئے پہلے سے اس کی اطّلاع دے چکے ہیں۔

لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت جزیہ کاخاتمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتلایا ہوا اصول اور سنّت ہے۔ کیونکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بھی سنّت ہے ، آپ کا عمل بھی اورآپ کی طرف سے اظہار رضا بھی سنّت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عیسیٰ بن مریم کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس پر اظہار رضا آپ کی سنّت ہی قرارپائے گی۔ وگرنہ نہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوئی نئی شریعت لے کر آئیں گے اور نہ ہی کوئی اور شخص۔ صرف اور صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ہوگی اوریہ قیامت تک رہے گی۔ یہ تھیں کچھ باتیں مسیح دجّال کے متعلق۔اللہ ہم سب کو اس کے فتنے سے محفوظ رکھے۔(آمین)- سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدّجّال وخروج عیسٰی ابن مریم وخروج یأجوج ومأجوج۔حدیث: 4078- - - صحیح
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1279490 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.