نیپال کے موجودہ حالات نے دنیا کے ہر سنجیدہ مبصر کو لرزا دیا ہے۔ وہاں کی فضا میں ایک عجب سی گھٹن پائی جاتی ہے، جہاں کرپشن، ریاستی جبر، اور آزادیِ اظہار پر قدغنوں نے عوام کو بغاوت پر مجبور کر دیا ہے۔ نوجوان نسل جسے عرفِ عام میں “Gen Z” کہا جاتا ہے، وہ میدان میں اُتر آئی ہے اور اُس نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ظلم کے بوسیدہ ڈھانچوں کو مزید برداشت نہیں کرے گی۔
حکومت نے عوامی آواز کو دبانے کے لئے درجنوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگائی، مگر جب احتجاج نے شدت اختیار کی اور خونِ عوام گلی کوچوں میں بہنے لگا، درجنوں افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے، تب جا کر اربابِ اقتدار کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑی۔ یہ قربانیاں بتاتی ہیں کہ جب عوام جاگ اٹھیں تو کوئی طاقت اُنہیں روک نہیں سکتی۔ اس کے برعکس پاکستان کے حالات ایک خاموش بربادی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ یہاں پارٹی امریت کا ایک ایسا سایہ طاری ہے جس میں سیاسی رہنما عوامی خدمت کو بھول کر ذاتی مفاد اور ذاتی طاقت کے کھیل میں مصروف ہیں۔ عوام بھوک، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ تلے کچلے جا رہے ہیں، مگر اربابِ اختیار کو اُن کی فریاد سے زیادہ اپنے اقتدار کی پائیداری اور سطحی تماشوں کی فکر ہے۔
عوام خون کے آنسو رو رہے ہیں اور حکمران طبقہ اُن کا خون چوسنے پر مصر ہے، یہاں تک کہ نوجوان طبقہ بھی اپنی اصل قوت کو سوشل میڈیا کے فالتو مشغلوں اور وقتی بحثوں میں گنوا بیٹھا ہے۔ نیپال میں جہاں خون بہنے کے باوجود ایک اجتماعی شعور کی جھلک دکھائی دیتی ہے، پاکستان میں وہ شعور منتشر ہے، خوف اور مصلحتوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کی کہانی ایک ہی مرض کی علامت ہے۔ طاقت کے مراکز عوام کے حقوق اور آواز کو دباتے ہیں، اقتدار کو ایک کھیل سمجھ کر اپنی بقا کو مقصدِ اول بنا لیتے ہیں، اور عوامی فلاح پس منظر میں گم ہو جاتی ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسے نظام زیادہ دیر قائم نہیں رہتے، کیونکہ جب بھوک اور ناانصافی ایک خاص حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو پھر عوامی بغاوت ناگزیر ہو جاتی ہے، چاہے وہ نیپال کی سڑکوں پر ہو یا پاکستان کے میدانوں میں۔
پاکستان کی عوام، جو مدتوں سے خوف، مصلحت اور مایوسی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، اگر چاہے تو اپنی تقدیر کا دھارا بدل سکتی ہے۔ یہ نیند جس میں قوم مدت سے مبتلا ہے دراصل مصنوعی ہے جو حکمران طبقے نے جھوٹے وعدوں، سطحی تفریحات اور وقتی سہولتوں کے ذریعے مسلط کر رکھی ہے۔ مگر تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جب عوام بیدار ہو جائیں تو تخت و تاج لرز اٹھتے ہیں۔ اس بیداری کی پہلی شرط یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی کمزوریوں کو اجتماعی طاقت میں بدلیں، چھوٹے چھوٹے ذاتی اختلافات اور لسانی، مذہبی یا پارٹی تقسیمات کو
پسِ پشت ڈال کر ایک مشترکہ مقصد کے تحت اکٹھے ہوں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ نوجوان طبقہ، جو اصل طاقت ہے، وہ اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں لاحاصل مشغلوں سے نکال کر حق اور انصاف کے حصول میں صرف کرے۔ تیسرے مرحلے میں عوام کو چاہئے کہ وہ قلم اور زبان کو اپنا پہلا ہتھیار بنائیں، ظلم کے خلاف بات کریں، اپنے حق میں آواز بلند کریں، اور جب ان کی آواز دبائی جائے تو پرامن احتجاج کے ذریعے اپنا وجود منوائیں۔ کسی بھی جابر نظام سے لڑنے کے لئے بندوق کی ضرورت نہیں، صرف اجتماعی شعور اور ثابت قدمی درکار ہے۔ نیپال کے نوجوانوں نے سڑکوں پر نکل کر یہ ثابت کیا کہ خون بہائے بغیر بھی عوام کو جھکایا نہیں جا سکتا، اور پاکستان کے عوام بھی اگر اپنی بیداری کو زندہ کریں، تو یہ پارٹی امریت کے بوسیدہ ستون لمحوں میں زمین بوس ہو جائیں۔ یہ لڑائی صرف حکمرانوں کے خلاف نہیں بلکہ اپنی تقدیر کو بدلنے کی لڑائی ہے، اور جو قوم اپنی تقدیر بدلنے کے لئے کھڑی ہو جائے، اُسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ |