غازی کا شہید بیٹا،،، فیصل احمد خان۔۔۔

اسلام آباد میں بحریہ یونیورسٹی کی جانب سفر کا آغاز کیا ہی تھا کہ اک فون آیا اور سلام کے بعد یہ کہا گیا کہ مجھ سے اسی نمبر پر رابطہ کریں۔ رابطہ کیا تو حال احوال کی جاننے کے بعد زندگی کے مختلف معاملات پر بات کی گئی، پھر بیماریوں کی اور آزمائشوں کی بھی باتیں ہوئیں۔ اس کے بعد زندگی اور موت کی بات ہوئی اور موصوف نے فرمایا کہ ہر زندگی کا اختتام ہونا ہے اوریہ حقیقت پر مبنی بات ہے۔ جو بھی انسان اس دنیا میں آیا ہے اسے اس دنیا سے چلے جانا ہے۔

محترم آپ کی باتیں حقائق پر مبنی ہیں، اس لئے ازراہ کرم اصل بات کی جانب آئیں، اس سوال پر انہوں نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر کہا کہ آپ کا بھتیجا آج صبح دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہوگیا ہے۔۔۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون.

یہ سن کر کچھ دیر کیلئے جذبات و احساسات ایسے ہوئے کہ جیسے سب کچھ جامد ہوگیا ہو، قدرے خاموشی کے بعد اس خبر پر دعا پڑھی اور پھر پوچھا کہ یہ کب اور کیسے ہوا ہے؟ تفصیل بتائیں؟ فیصل احمد خان آج صبح دس بجے آئل اینڈ گیس کمپنی کے اک قافلے کہ جس میں دو گاڑیاں تھیں اور دس سے زائد افراد سوار تھے، ان کے ساتھ ڈیرہ اسمعیل خان کی تحصیل درازاندہ کے گاؤں کوٹ پالک سے گذر رہے تھے، وہاں اک مقام پر پہلے سے موجود دہشت گردوں نے اس قافلے پر حملہ کیا اور فیصل جو کہ پہلی گاڑی کو چلا رہے تھے، ان کی براہ راست فائرنگ سے شدید زخمی ہوئے، قافلے میں بارہ افراد تھے اس حملے میں اک ایف سی کا اہلکاراور فیصل احمد خان شدید زخمی ہوئے، قافلے میں موجود دیگر اراکین بھی زخمی ہوئے۔ اس واقعے کی اطلاع پر ڈسٹرک ایمرجنسی نے ریسکیو1122 کی ایمبولینسس بھیجیں جو زخمیوں کو ٹاپ ڈی ہسپتال لے گئیں اور دو شدید زخمیوں کو دسٹرک ہیڈ کواٹر ہسپتال ڈیرہ منتقل کیا گیا جہاں پر فیصل اور اہلکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔

یہ سب تفصیلات سن کر فیصل کی شکل و صورت سامنے آئی، اس کے بچپن سے اب تلک کی حرکات و سکنات، اس کی خاموشیاں، اس کی شرارتیں، ایک اک کر کے سب سامنے آرہی تھیں، اسی دوران فون کرنے والے نے بتایا کہ ڈیرہ اسمعیل خان سے شہید کا جسم دو سے تین گھنٹے کے بعد گاؤں کیلئے روانہ کیا جائیگا، آپ یہ بتائیں کہ اسلام آباد سے آپ کب تک گاؤں آئیں گے؟ آپ یہ بتائیں کہ کیا یہ خبر شہید کی والدہ کو دی گئی ہے؟ نہیں اب تک نہیں دی ہے تاہم اب ہم انہیں یہ ساری اطلاعات دینے جارہے ہیں اور آپ کا چھوٹا بھائی بھی ہمارے ساتھ ہی موجود ہے۔ بھائی سے بات کروائیں، بھائی نے بتایا کہ ہاں یہ ساری اطلاعات درست ہیں اور ہم ابھی بھابھی کو اور ادی (میری والدہ) کو یہ سب بتانے جارہے ہیں۔ اللہ تعالی آپ لوگوں کی مدد فرمائے، جائیں اور بتائیں یہ سب کچھ۔۔۔ میں بھی آتا ہوں۔

ستائیس سالہ نوجوان، جو اس کمپنی میں کئی برسوں سے ڈرائیونگ کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے اور چند ماہ قبل بھی بلوچستان ہی کے کسی علاقے میں دہشت گردوں کی فائرنگ کی زد میں آئے تھے، اس وقت اللہ رب العزت نے انہیں بال بال بچا لیاتھا اور ان کے ساتھ بیٹھا دوسرا فرد شہید ہوگیا تھا۔ کئی روز ہسپتال میں گذارنے کے بعد فیصل نے اپنی ذمہ داریاں دوبارہ احسن انداز میں نبھانا شروع کیں اور تاحال نبھا رہے تھے۔ شہید فیصل کی چند ماہ قبل منگنی ہوئی تھی اور عید الفطر یا عید الضحی کے بعد ان کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہونا تھا، تاہم ان کی قسمت میں ازدواجی زندگی کے بجائے شہادت تھی۔۔۔

1967 سے 1998 تک پاک بحریہ میں خدمات سرانجام دینے والے میرے والد صاحب نورمحمد خان مرحوم،جنہوں نے 1971 کی بھارت کے خلاف جنگ بھی لڑی اور اک غازی کی طرح اپنی زندگی گذاری۔ انہی کا بڑابیٹااور میرا بڑا بھائی نوراحمد خان جو بری فوج میں گئے اور اپنی زندگی کے بیس سے زائد برس پاک فوج میں وطن عزیز کیلئے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ والد صاحب 15 مارچ 2019 کو سی ایم ایچ ہسپتال کوہاٹ میں طویل عرصے تک بیماریوں کے خلاف لڑتے ہوئے وفات ہوئے، ان کی نماز جنازہ ان کی وصیت کے مطابق بڑے بھائی نوراحمد خان کے چھوٹے بیٹے حافظ حارث نے پڑھائی۔ ان کی تدفین گاؤں میں واقع خاندان کے ہی قبرستان میں ہوئی۔ والد صاحب نے اپنی زندگی اک غازی کی طرح گذاری۔

بڑے بھائی، فیصل احمد خان شہید کے والد نوراحمد خان بھی کوہاٹ کے ہی سی ایم ایچ ہسپتال میں 25 جون کو فوت ہوئے، بزرگ غازی کے جانے کے تین ماہ بعد ان کا غازی بیٹا بھی چلا گیا اور ان کی تدفین بھی اسی قبرستان میں والد صاحب کے پہلو میں ہوئی۔ ان دونوں غازیوں، اک غازی کا پوتا اور دوسرے غازی کا بیٹا جب شہید ہوا تو اسے بھی اسی قبرستا ن میں دفن کیا گیا۔ قبرستان میں قبروں کی بھی صف بندی ہوتی ہے، اس قبرستان میں نئی صف بندی میں پہلی قبر غازی نورمحمد خان کی، دوسری قبر غازی نوراحمد خان کی اور تیسری قبرشہید فیصل احمد خان کی ہے۔ شہید کی جب میت اس کی ماں کے سامنے آئی، اس کی دادی کے، بہنوں اور بھائیوں کے سامنے آئی تو وہ لمحات ناقابل بیاں ہیں، بس اللہ رب العلمین شہید کے درجات بلند فرمائے اور مجھ سمیت تمام لواحقین کو صبر عطا فرمائے، امین

پیر 13 نومبر کو فیصل احمد خان کو شہید کیا گیا اور 14نومبر کی صبح ساڑھے دس بجے نماز جنازہ شہید ہی کے بھائی حافظ حارث نے پڑھائی۔ خاندان سمیت قرب و جوار کے دیہات والے بھی شہید کی نماز جانزہ میں شریک ہوئے اور تدفین کے بعد بھی بہت دیر تلک قبرستان میں اللہ کے کلام کر پڑھتے رہے، بعدازاں مولانا عبد الصمد نے طویل دعا میں فلسطینیوں کیلئے خصوصی دعائیں مانگیں۔

شہداء کے متعلق ہم سنتے، پڑھتے آئیں ہیں، شہداء کی تجہیز و تدفین کو دیکھتے بھی ہیں، یقینا اس وقت جو کیفیات ہوتیں ہیں وہ زندگی میں دیگر معاملات میں نہیں ہوتیں تاہم اپنے گھر میں اپنے بھتیجے کی شہادت کو دیکھ کر، اس کی ماں، بہنوں اور بھائیوں کو دیکھ کر جو دل و دماغ کی حالت و کیفیت رہی، وہ صرف محسوس ہی کی جاسکتی ہیں۔ زمانہ طالبعلمی سے سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت کی دعائیں اب تلک کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ زندگی کا آغاز کے بعد اختتام بھی ہے، اس لئے زندگی اللہ کی رضا کیلئے گذاری جائے اور شہادت کی تمنا بھی رکھی جائے توبہت بہتر ہی نہیں انتہائی بہتر ہے۔

شاعر مشرق علامہ اقبال ہی کا یہ شعر ہے نا کہ
میری زندگی کا مقصد تیری دین کی سرفرازی، میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی

اللہ تعالی، شہید فیصل احمد خان سمیت فلسطین میں جاری جہاد کو، شہداء کی شہادتوں کو قبول فرمائے، حق و باطل کی اس جنگ میں حق داروں کو فتحیاب کرے اور باطلوں کو نیست و نابود کرے، امین امین

Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 195 Articles with 163140 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More