بھولے بسرے دن

(Shafia Subas Abbasi, Islamabad)

بچپن سہانا دور ہوتا ہے جو خوشیوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے ہر شخص اپنے بچپن کو یاد ضرور رکھتا ہے کچھ لوگوں کا بچپن تلخ یادوں سے بھرا ہوتا ہے اور کچھ اپنی شرارتوں سے اسے سہانا بنا دیتے ہیں۔ زندگی کا سنہرا دور بچپن ہے اور میرا بچپن (شافعہ سباس )شرارتوں سے بھرپور گزرا ہے سب لوگ کچھ نہ کچھ ضرور شکایت لے کہ گھر آتے تھے اور مار بھی پڑتی تھی لیکن باز نہ آتی تھی۔
ایک دفعہ سکول میں دو ماہ کی چھٹیاں تھیں اور رمضان کا مہینہ بھی تھا پانچویں جماعت میں پڑھتی تھی مسجد میں ہم صبح کے وقت قران پاک پڑھنے جایا کرتے تھے۔ میرے ساتھ چھوٹی بہن بھی مسجد جاتی تھی اور ہمارا یہ معمول تھا کہ راستے میں ایک گھر تھا وہاں ہم روز پانی پینے کے بہانے جایا کرتے تھے اور اماں جی ہمیشہ کولڈ ڈرنک دیتی تھی لیکن اس دن انہوں نے ہمیں پانی ہی دیا ۔اب میری بہن کو روزہ تھا اور مجھے بڑا برا لگا جب وہاں بوڑھی اماں نے کہا دیکھو چھوٹی نے روزہ رکھا ہے اور تم پانی پینے آگئی ہو۔ ان کے گھر سے دو منٹ کے فاصلے پہ ایک ناشپاتی کا درخت تھا میں نے بہن سے کہا تم اس درخت پر چڑھو اور صرف دو ناشپاتی اتار کہ دے دو اسے کہا کہ ایسا کرنے سے ثواب ہوگا وہ فورا ثواب حاصل کرنے کی غرض سے درخت پہ چڑھ گئی وہ دو ناشپاتی اتار کہ واپس اتر رہی تھی میں نے کہا رکو۔ دو کیوں اتار رہی ہو خود نہیں کھاؤ گی؟ میں نے مزید اسے اکسایا کہ دیکھو میں نے کل ٹی وی میں دیکھا تھا کہ وہاں ایک شخص فروٹ بھی کھا رہا تھا اور پانی بھی پی رہا تھا اور اسے روزہ بھی تھا ۔کہنے لگی شافعہ تم کہہ تو ٹھیک رہی ہو میں نے بھی دیکھا تھا اب شاید اسے بھوک ستا رہی تھی اور ناشپاتی کو دیکھ کہ کہہ رہی تھی۔ میں نے کہا تم کھا کہ کہہ لینا بھول چوک سے کھا گئی ہوں اب وہ اپنے لیے بھی اتارنا شروع ہو گئی کہ میں نے جھٹ سےدیکھا کہ بوڑھی اماں اسی طرف آرہی ہیں میں اسے ادھر ہی چھوڑ کر بھاگ نکلی اور اوپر آ کر جھاڑیوں میں چھپ گئی اب چھوٹی نے مجھے زور زور سے آوازیں دینا شروع کر دیں ۔ جب اماں اسے دیکھ گئی تو کہنے لگی نیچے تو اترو تمہیں میں ٹھیک کرتی ہوں۔میں نے اسے نیچے اترنے کا کہا کہنے لگی گھر تمہارے بتاتی ہوں کہ سارا فروٹ کھا گئی ہیں۔ میں نے کہا آم نہیں تھے جو آپ اتنی بات کو بڑھا رہی ہیں ۔اب بہن نے اونچی آواز میں کہا شافعہ تم گھر نہ جانا میرے والی ناشپاتی بھی پاس رکھنا تم کھا رہی ہو میں دیکھ رہی ہوں اور اماں مجھے ماریں گی اسے اوپر چڑھ کر بھی واپس اترنے کا خطرہ نہیں تھا بس اسے یہ ڈر تھا کہ شافعہ ناشپاتی نہ کھا جائے۔ میں نے کہا نیچے اتر کہ دھکا دے کر بھاگ جاؤ۔ میں گھر جا رہی ہو وہ مجھ سے بھی دو ہاتھ اوپر تھی ان کے سامنے ہی اونچی آواز میں کہتی ہے مر جائے گی اور میں پھنس جاؤں گی۔ تم بس ناشپاتی نہ کھانا اور گھر بھی نہ جانا لیکن میں نے سوچا جا کر امی کو بتا دیتی ہوں کہ وہ تو درخت پہ چڑھی تھی اور میں اچھے بچوں کی طرح گھر آگئی ہوں ۔ میں سانس چڑھے گھر پہنچی اور امی نے کہا چھوٹی کدھر گئی ہے میں نے کہا وہ ناشپاتی کھا رہی تھی تو اماں نے دیکھ لیا ہے اب وہ درخت پر چڑھی ہوئی ہے
میں نے معصومانہ انداز میں سب روداد بتائی لیکن آخر وہ میری ہی ماں تھی کہنے لگی تمہیں تو آ کر ٹھیک کرتی ہوں ۔ اب وہ اماں جی اتنی اونچی آواز میں امی کو پکار رہی تھی جیسے گھر میں چوری ہوگی ہے اور سارا زیور لٹ چکا ہے امی فوراً وہاں گئی ۔بہن ابھی تک درخت کے اوپر ہی چڑھی ہوئی تھی کیونکہ اماں جی کی ضد تھی کہ وہ گھر سے کسی فرد کے آنے تک نیچے اترنے نہیں دے گی کوئی آئے گا پھر تم نیچے اترو گی اور ہاتھ میں اماں جی تو بڑا سا ڈنڈا لے درخت کے نیچے استقبال کرنے کھڑی تھی۔ امی پہنچی تو اسے جوں توں کر کے گھر لایا اب گھر میں نئی فلم لگنے والی تھی کچھ اندازہ مجھے بھی پہلے تھا اشارہ تو پہلے مل چکا تھا کہ تمہیں بھی چھوڑنا نہیں ہے اس لیے چپل اچھے والے پہن کر تیار بیٹھی تھی تاکہ بھاگنے میں آسانی ہو ۔جب امی گھر آئی تو بہن بھی ساتھ تھی دور سے اسے تھپڑ لگتے دیکھ چکی تھی اسلئے میں نے خاموشی اختیار کر لی چھوٹی وعدے قسمیں کھا کر کہنے لگی میں نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ یہ سب شافعہ کا پلان تھا۔امی کے ہاتھ دن کو تو چڑھ سکی لیکن عین افطاری سے تھوڑا قبل کہنے لگی گھر آؤ جاؤ چشمے سے پانی بھر کر لے آؤ ۔میں نے سوچا اب موڈ اچھا ہے ۔مجھے بھوک بھی لگی ہے کچھ کھا بھی لوں گی آج دن تو انہی ناشپاتیوں پہ گزارا ہے۔ گھر گئی بہن تو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے میرے لئے اس کے ارادے نیک نہیں ہیں آنکھوں میں بلا کا حصہ چھک رہا تھا
آخر میں امی کے ہاتھ چڑھ ہی گئی ۔۔۔۔۔۔۔ خیر آگے جو ہوا تو وہ ایک الگ کہانی ہی ہے لیکن وہ دن کبھی نہیں بھولوں گی جو شرارتوں اور مار کا حسن امتزاج تھا ۔ آج بھی کہانی لکھتے وقت ویسا ہی منظر آنکھوں کے سامنے ہے ۔وہ اماں جی تو دنیا سے کوچ کر چکی ہیں لیکن یادوں کے دریچوں میں اب بھی زندہ ہیں بیتے ہوئے لمحوں کی کسک بن کر۔ وقت کا سبک رفتار گھوڑا شتر بے مہار کی طرح گزر جاتا ہے اور صرف یادیں رہ جاتی ہیں ۔
آدمی مسافر ہے آتا ہے جاتا ہے آتے جاتے
رستے میں یادیں چھوڑ جاتا ہے

Shafia Subas Abbasi
About the Author: Shafia Subas Abbasi Read More Articles by Shafia Subas Abbasi: 6 Articles with 7931 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.