وہ عورت

وہ میرے دوست کے محلے میں رہتی ہے ۔اسکا خاوند پشاور یونیورسٹی میں پروفیسر ہے۔اکثر میرے سے ملتا رہتا ہے۔اور گپ شپ ہوتی رہتی ہے۔محکمہ بہبود آبادی کے مشورے کے مطابق اسکے تین بچے ہیں جن میں سے ایک بچہ اور دو بچیاں ہیں۔ اسکا یہ بچہ آج کل شائد ایم بی اے کر رہا ہے۔اور بچیاں میٹرک اور ایف ایس سی میں ہیں۔ تو ہوا کچھ یوں کہ ایک دن دوپہر کے وقت اس عورت نے میرے دوست کے گھر گھنٹی بجائی۔اسکے ساتھ ہی محلے کے ایک دو اور گھروں کی گھنٹی بھی بجائی۔جو کہ تقریبا سارے میرے جاننے والے تھے۔ میرے دوست نے باہر آکر پوچھا کہ بی بی کیا مسئلہ ہے؟

تو عورت نے جواب دیا کہ ہمارے گھر کے پاس جو چھوٹی سی دوکان ہے ،تو اسمیں آئس کریم بیچنے والے نے باہر سڑک پر بینچ لگا کر تیز آواز میں میوزک لگائی ہے جو کہ ہمارے شان،عزت اور پردے کے خلاف ہے۔لھذا اسکو بند کراؤ۔ میرے دوست نے کہا کہ بی بی جب آپکا شوہر یونیورسٹی سے گھر آجائے تو وہ بہتر انداز میں اس دوکاندار سے بات کر لے گا، جس پر اس عورت کو غصہ آگیا اور کہنے لگی کہ کا میں عزت دار نہیں ہوں اور آپکی بہن نہیں ہو ں؟ جس پر میرے دوست نے دوکاندار کو میوزک سے منع کیا اور بڑی مشکل سے اسکو اپنے اس فعل سے منع کیا کیونکہ قریب تھا کہ وہ دوکاندار میرے دوست سے لڑائی کرتا۔

یہ تو تھی اس عورت کی عزت اور خوداری والی بات۔اب آگے کی سنیں۔

آج ایک ساتھی ملا جو کہ اسی عورت یعنی پروفیسر صاحب کا پڑوسی تھا ۔ اس نے بتایا کہ اس پروفیسر صاحب کی بڑی بیٹی امریکہ سے واپس آگئی ہے۔میرا تو خیال تھا کہ کہیں انکے رشتہ دار ہونگے اور وہاں اس نے تعلیمی سال گزار ا ہوگا ، لیکن اس دوست نے بتایا کہ نہیں بلکہ ایک امریکی پروگرام کے مطابق ایک یہودی خاندان میں یہ اکیلی سال گزار کر واپس آگئی ہے۔

اُف کیا بتاؤں میرے ذہن میں تو دھماکے ہونے لگے،اور میرے آنکھوں کے سامنے ایک امریکی خاندان کے ہر ہر فرد کے مناظر زندگی ایک ایک کرکے گذرنے لگے۔ اور چونکہ یہ بچی میرے سامنے بڑی ہوئی تھی ،لھذا مجھے شدید دھچکا لگا۔

مجھے اس دوست نے دلاسہ دینے کے انداز میں کہا کہ پریشانی کی بات نہیں وہ خاندان ایسے بچوں کی بہت قدردانی اور میزبانی کرتے ہیں۔اور بچی کی عزت کا خیال رکھتے ہیں۔

لیکن ۔۔۔۔افسوس۔۔۔۔۔وہ میرے غم کو کم نہ کرسکا۔

میں نے اسکو کہا کہ اس بچی کو میں جانتا ہوں،اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ لڑکا یا لڑکی جب ایف ایس سی میں ہوتی ہیں تو وہ زندگی کے کتنے خطرناک اور نازک موڑ پر ہوتی ہیں، اور اس دور میں لڑکا یا لڑکی کتنی آسانی سے بہک سکتا ہے۔اور شیطانی شکنجے میں پھنس سکتا ہے۔

میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ تم بتاؤ اگر ایک محفل میں سارے سگریٹ پینے والے ہوں اور ایک بندہ صرف انکے ساتھ بیٹھا رہے تو وہ برابر سگریٹ کے دھوئیں سے متاثر ہوگا کہ نہیں؟

ایک امریکی خاندان میاں بیوی ،اور انکے لڑکے اور لڑکیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ اس بچی کی ہم عمر لڑکیاں تو سکرٹ اور نیکر پہن کر بازار ،کلبوں اور دیگر گندگیوں کے ڈھیر میں جائیں اور یہ لڑکی بھی انکے ساتھ ہو اور اس نے شلوار قمیس یا مشرقی لباس پہنا ہوا ہو؟

کیا یہ ممکن ہے کہ نہانے کیلئے وہ اس مشرقی بچی کو ساتھ لے جائیں اور وہ نہانے کے مخصوص گندے لباس میں ہوں اور یہ مشرقی لڑکی اپنے لباس میں ؟

کیا یہ ممکن ہے کہ یہ ایف ایس سی کی عمر کی مشرقی لڑکی ایک سال ان گندے ،چالباز ،دھوکے باز اور بے حیاء انگریزوں کے گھر میں گذار کر انکے آزادی اور بے راہ روئی سے متاثر نہ ہوں؟

کیا یہ ممکن ہے کہ وہ انگریز لڑکیاں تو سکرٹس میں گھومیں اور یہ مشرقی لڑکی اپنے لباس میں؟

آخر کہاں تک یہ لڑکی نہیں نہیں کرتی رہے گی ۔
آخر کب تک وہ پردے پر اسرار کرئے گی۔
آخر کب تک انکے رنگ میں رنگنے سے اپنے آپ کو بچائے گی۔
کب تک مشرقی روایات کے مطابق اپنے جسم کو ڈھانپنے کی کوشش کرتی رہے گی۔

یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک سال تک اس ایف اے یا ایف ایس سی کے عمر کا بچہ یا بچی ایک یہودی فحش اور بے حیاء خاندان میں گذارے اور ان سے متاثر نہ ہو، یا انکے ساتھ پروگراموں اور بے حیاء محافل میں شریک نہ ہو۔
کب تک ۔۔۔اخر کب تک وہ بچ کر رہے گی۔۔۔۔۔

اُف سر چکرا رہا ہے ۔آنکھیں پر نم ہیں ۔دل اندیشوں سے بھر ہوا ہے۔ کیا کروں سمجھ نہیں آرہی ۔
کالم تو لکھ لونگا لیکن کیا اس سے میرا غم کم ہوجائے گا؟
کیا کالم لکھنے سے میرے اندیشے غلط ثابت ہونگے؟

نہیں نہیں مجھے تو ایسا نہیں لگ رہا۔

غصہ اس عورت پر آرہا ہے کہ مردوں کے سامنے اس ڈھٹائی سے اپنے عزت اور خود داری کی باتیں کرتی تھی اور بے شرم بن کر محلے میں مردوں کے ساتھ منہ مارتی تھی لیکن جب اسکی بیٹی کی بات آگئی تو آرام سے اپنی بچی کو اغیار کے گود میں پھینک ڈالا ۔

ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستی انسان کا بنیادی حق ہے۔معلوم نہیں کیسے لکھوں کہ کتنے پاکستانی بچوں اور بچیوں کو یہ حق ملا ہوگا۔مشرقی لڑکی اگر لڑکوں کے ساتھ نہ گھومے پھرے لیکن اگر یہ لڑکیاں ہی انکو یہ ( بنیادی حق) مہیا کریں تو پھر کیا ہوگا۔

دراصل امریکہ نے پاکستان میں فل برائیٹ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ہوا ہے۔جس کے ذریعے مختلف سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لڑکوں کو وہاں تعلیم کے نام پر بلایا جاتا ہے۔اور پھر ان سکول اور کالجوں کے بچوں کو وہاں کے خاندانوں کے ساتھ انکے گھروں میں خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے ٹھرایا جاتا ہے اور یہ مخصوص گھرانے ہوتے ہیں جن کو باقاعدہ یہ تربیت فراہم کی جاتی ہے کہ تم لوگوں نے اس مشرقی بچے یا بچی کو کس طرح سے اپنے ماحول سے متاثر کرنا ہے تاکہ وہ مشرقی بچہ اپنے مشرقی اخلاق وعادات کو چھوڑ کر تمھارے ہی گُن ہر جگہ گائے اور تمہارے خاندان کے اطوار و عادات اور مغربی تہذیب انکے رگ و پے میں پوری طرح سرائیت کرجائے اور یہ فل برائیٹ پروگرام ایک طے شدہ منصوبہ ہوتا ہے ۔ اس پاکستانی بچے کو وہاں اس خاندان کے ماحول میں ایک سال تک رہنا ہوتا ہے ۔ اس ایک سال میں اسکو اس خاندان کے افراد کے ساتھ گھل مل کر زندگی گذارنا پڑتا ہے اور یہ خاندان والے بھی یہی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح یہ پاکستانی بچہ ہمارے ماحول سے مانوس ہو کر ہماری طرح بن جائے۔

لھذا خدارا اپنے ان چھوٹوں بچوں کو گمراہی سے بچالیں ،اور انکو جھنم کا ایندھن نہ بننے دیں۔

تعلیم ہی حاصل کرنی ہے تو جب بڑے ہوجائیں اور انکی بنیاد مضبوط ہو جائے تو پھر اگر بھیج دیں تو کوئی بات ہے لیکن اس کچی عمر میں ان بچوں کو وہاں بھیجنا اپنے پاوں پر کلھاڑی مارنا ہے۔

اسی طرح کے پروگرام روس نے بھی افغانستان میں شروع کئے تھے۔ایک قاضی صاحب نے اپنے ایک نا پختہ اور کمزور بنیاد والے بیٹے کو روس بھیجا تعلیم کیلئے، تو وہ لڑکا جب واپس آگیا تو بس نام اسکا مسلمانوں والا تھا باقی کسی مرتد سے کم نہ تھا۔

ایک دن موقع پا کر گھر کے قریبی فرد سے اس نے منہ زبردستی کالا کیا۔جب بعد میں اس سے پوچھا گیا کہ ظالم تم نے کیوں ایسا کیا؟

تو اس نے جواب میں کہا (اُف ۔۔۔اسکا جواب کم از کم مجھ سے نہیں لکھا جا رہا)

اسکی تربیت ہی ایسی ہوئی تھی کہ محرم اور غیر محرم میں فرق محسوس نہیں کرتا تھا،تو یہ برکات تو ہونگی کچے عمر میں اغیار کی تربیت کی۔

یہ سارے دجالی منصوبے ہیں۔ شیطان کے جال ہمارے ارد گرد ہیں ہمارے لئے ہی بچھائے ہوئے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ آنکھیں بند کرکے ان جالوں میں پھنس رہے ہیں ، پھر کہتے ہیں مولوی صاحب دعاء کرو ،بچہ ایسا ویسا ہے۔

ارے بد بخت کم عمر اور نا پختہ بچے کو جب ( فل برائیٹ )کر نے امریکہ بھیج رہے تھے کسی حقیقی سیانے سے مشورہ کیا تھا؟کسی دل کے بینا آدمی کی صحبت میں گئے تھے کہ اپنے بچے کے بارئے میں اسکے ساتھ مشورہ کرتے؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حقیقی وارث کے پاس گئے تھے رہنمائی حاصل کرنے ؟ارے کمبخت بچے کی بنیاد کو مضبوط بنانے سے قبل ہی اس پر عمارت کھڑی کرنے کا سوچا۔تو اب شکایت اور واویلا کیسا ، عزت اور ابرو لوٹنے کی فریادیں کیسی۔
کسی نے بھی گندم بو کر مکئی نہیں کاٹی۔

ہاں اگر ایک بچہ کی ایسی تربیت کی ہے کہ اس پر اغیار کی دجالی محنتیں کارگر ثابت نہیں ہوتی تو بے شک بھیجو اور پھر نتیجہ دیکھو۔کیسے وہ خاندان والوں میں سے مسلمان بناتا ہے ایسے ایسے شیر بھی ہیں جو گیڈروں کے درمیان رہ کر بھی شیر ہی ہوتے ہیں۔ وہ مرد کے بچے ہوتے ہیں۔قرآن مجید میں ان لوگوں کیلئے لفظ (رجال) کا آیا ہے یہی اصل مرد کے بچے ہیں۔اور انکی تربیت ایسی ہی ہوتی ہے کہ شیطان انکو دیکھ کر ہی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شیطان دیکھ کر ہی راستہ بدل دیتا تھا اور بھاگ جاتا تھا۔

یہ سارا تربیت کا کمال ہے۔آج بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حقیقی وارث اور علماء موجود ہیں، اور امریکہ اور دجالی قوتوں کو بھی یہ بات معلوم ہے ،اسی لئے تو وہ اسکے ختم کرنے کے درپے ہیں۔

جس مورچے کو ختم کرنے میں دشمن زیادہ قوت لگائے تو سمجھ جاؤ کہ یہی اہم مورچہ ہے ، جس سے دشمن خوف کھاتا ہے۔اور دشمن خوف کیوں نہ کھائے ،انکے سارے منصوبے اللہ تعالیٰ کے یہ شیر الٹ دیتے ہیں۔ میرے چند دوست جن کی دینی اور دنیاوی بنیاد مضبوط ہوتی ہے جب ان کفار کے ملکوں میں جاتے ہیں تو کئی لوگوں کو جھنم کی آگ سے بچا کر جنت کی ہمیشہ راحت والی زندگی کی طرف لاتے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ جب یہ لوگ مسلمان ہوجاتے ہیں تو روتے ہیں اور گلہ کرتے ہیں کہ پہلے کیوں نہیں آئے ،ہمارے ماں باپ جھنم کی ایندھن بن کر دنیا سے گئے ہیں۔

لیکن جیسے میں نے پہلے کہا کہ یہ کام ہر کسی کے بس کا نہیں ، جن کو قرآن مجید میں رب کائینات نے رجال (مرد) کہا ہے ،وہی دجالی اور شیطانی منصوبوں کو پلٹا کر الٹا انکے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

میرا ایک نادان دوست ایک بار مجھ سے کہہ رہا تھا کہ جب ہم انکو مسلمان بنا رہے ہیں ۔تو اگر انہوں نے ہمارے چند ایک کو اپنے رنگ میں رنگ لیا تو کیا برا ہے؟اور یہ تو انصاف بھی نہیں کہ ہم تو انکو تو اپنے پرانے عقیدے سے لا کر دائرہ اسلام میں داخل کرادیں لیکن اگر انہیوں نے چند مسلمانوں کو مرتد کیا تو ہم اس پر واویلا کریں۔

میں نے اسکو کہا کہ اگر ایک گاؤں میں سارے لوگ ہیروئنچی ہیں اور پھر ڈاکٹروں کی ٹیم انکے پاس گئی اور ان میں سے چند ایک کا علاج کرا کے انکو صحت مند اور تندرست انسان بنایا کہ اسکی نشے کی عادت ہی چھوٹ گئی ۔تو اب اگر یہ ہیروئنچی کہنے لگے کہ ہمارے چند آدمیوں کو تو تم نے ہم سے الگ کرکے اور ہمارے معاشرے سے کاٹ کر اپنے صحت مند معاشرے کا فرد بنایا ،اب ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم بھی تم میں سے چند ڈاکٹروں کو نشی اور ہیروئنچی بنائیں۔

تو کیا اسکو کوئی انصاف کہے گا؟

اسی طرح ان کافروں اور غیر مسلموں کی مثال ہے۔
Mansoor Mukarram
About the Author: Mansoor Mukarram Read More Articles by Mansoor Mukarram: 21 Articles with 66199 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.