مشاہدہ

دو قومی نظریہ ہوا کرتا تھا مگر اب دو قومیں ہیں جو ایک نظریہ رکھنے کا سوچتی ہیں، شاید۔

ایک آج بھی اپنے اسلاف کے پیروکار اور دوسرے آج بھی خود کی بربادی کے علمدار۔

کچھ عرصہ قبل جامعہ کی لائبریری میں چند کتب کے مطالعہ کے حوالے سے جانا ہوا۔ ابھی مطالعہ جاری تھا کہ قریب میز پر چند طلبہ موجود تھے جن میں مطالعہ کا شوق تو کسی حد بھی معلوم نہ ہوتا تھا۔ تو سوچا کہ مطالعہ کو ترک کر کے کچھ ان کے حال پر لکھا جائے۔

گھر سے ایک عزم لے کر نکلا تھا اب کی بار
جامعہ میں کچھ وقت مجھے خود پر بھی ہے درکار
کیفے بیٹھتے یا لوگوں کو تکتے آتے جاتے
ایک عزم تھا، لمحات اب کارگر ہی جاتے
اب کی بار کچھ کر دیکھانا تھا
ارادہ کو اپنے یوں نہ ٹالنا تھا
لائبریری میں علوم ہیں بلاتے
حلفاً نہیں کہتا لوگ ہی یوں بتلاتے
ایک روز جو پڑ گیا کتب خانے میں کام
چل کے دیکھا، تو وہاں کا عجب تھا نظام
ایک دوشیزہ تھی بالکل میرے پیش نظر
لگتی تھی بھلی مانس مگر ، غیر واضح تھے امر
میرے حلیے نے مجھے کتنا بچایا
اس کو بھی میں استاد ہی نظر آیا
خیر ہمت جٹائی پھر سے آغاز کیا
اف، اچانک اک آواز نے چونکا دیا
عائشہ کا نعیم سے ہےتعلق
آہاں ! کیا؟ یوں کچھ احباب نے اظہار کیا
بات تو اچھی نہ تھی، پر میں نے بھی برابر دھیان کیا
وہ چھوڑتا ہے بڑی بڑی ، پر وہ ہے کیا؟
یوں چند لوگوں نے نعیم کو خوب رسوا کیا
پھر ایک پہلی ملاقات کا آغاز ہوا
"پہلی بار جب جاتا تھا تو شرماتا تھا" یوں اک صاحب نے بیان کیا
یہ وہ محترم ہیں کہ پھر اپنی غیرت کو انہوں نے نیلام کیا
یوں اک صاحب نے ان کی بات کا اختتام کیا
میری جماعت کا وقت، میں نے جانے کی کی
پر موضوع گفتگو نے مجھے بیٹھانے کی کی
اب کی بار اسلام کو بھی اندر لایا گیا
مرد عورت کی طلاق کو زیر بحث بنایا گیا
بات تو ان کی خوب جاری تھی
پر مجھے بھی جانے کی بڑی دشواری تھی
سو ان کے مکالمے کو مکمل سن نہ پایا
مگر اک سبق خوب انہوں نے بتلایا
کیوں یہ قوم اپنا اقبال نہیں پاتی ہے
یہ کام اور جگہیں آپس میں الجھاتی ہے

 

Muhammad Sohaib
About the Author: Muhammad Sohaib Read More Articles by Muhammad Sohaib: 2 Articles with 746 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.