چاروں فقہی اماموں کی گھٹی میں محبت و مودب ہل بیت تھی

چاروں فقہی اماموں کی گھٹی میں محبت و مودب ہل بیت تھی۔
ابوالحامدپیرمحمدامیرسلطان چشتی ہاشمی قادری
محبت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا ہے کہ جن سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبت فرمائیں ہم بھی ان سے محبت کریں جس کی ایک دلیل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرابت مجھے اپنی قرابت سے زیادہ پیاری ہے۔

ابوالحامدپیرمحمدامیرسلطان چشتی ہاشمی قادری
محبت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا ہے کہ جن سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبت فرمائیں ہم بھی ان سے محبت کریں جس کی ایک دلیل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرابت مجھے اپنی قرابت سے زیادہ پیاری ہے۔
اُرْقِبُوْ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی اهل بَیْتِ.
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو اپنے دور خلافت میں وصیت کرتے ہوئے یہ اصول وضع کر دیا تم حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت کو دیکھو اگر تم ایماندار ہو تو اہل بیت کے اندر تمہیں نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر آنے چاہیے.اگر کوئی دعویٰ کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے محبت کا عقیدت کا اور وہ اہل بیت اطہار علیہم السالم کی مؤدت کو رافضیت کہتا پھرتا ہے تو اس کا تعلق صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی نہیں۔جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نہیں وہ کہاں کا اہل سنت ہے وہ خارجی ہے۔ خودحضرت امام حسنِ مجبتیٰ علیہ السلام کے پوتے حضرت عبد اللہ الکامل وہ روایت کرتے ہیں۔
مجھے کوئی کام تھا حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سےمیں ان کے پاس چلا گیا وہ فوری کھڑے ہوگئے۔ میری حاجت پوری کی۔ انہوں نے مجھ سے عرض کیا آپ خود زحمت نہ کیا کریں بس ایک چٹ لکھ کر بھیج دیا کریں یا کسی غلام کو بھیج دیں۔ آپ کے حکم کی تعمیل ہو جائے گی۔کیا منہ دکھاؤں گا قیامت کے دن اللہ کو اگر آپ چل کے میرے دروازے پر آئیں مجھے حیا آتا ہے ۔

امام شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوا ان کا جنازہ پڑھا گیا وہ ضعیف تھے اُس وقت جنازے سے فارغ ہوئے تو ان کے لیے سواری قریب کی گئی تاکہ اُنہیں بٹھایا جائے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ آئے اب چونکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جلیل القدر اکابر صحابہ میں سے تھے۔حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان آل میں سے بھی تھے۔ صحابہ کرام میں سے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے پاؤں رکاب میں رکھنے کے لئے رکاب تھام لی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اے ابن عباس رضی اللہ عنہما آپ نے یہ ایسا کیوں کیا؟ آپ پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت ابن عباسؓ فرمانے لگے ہم علماء کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تیزی کے ساتھ جھکے اور حضرت ابن عباسؓ کا ہاتھ چوم لیا۔
انہوں نے پوچھا حضرت آپ نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں حکم ہے کہ مصطفی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت کے ساتھ ہم ایسا کیا کریں
حضرت عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر تھے حضرت سیدہ فاطمہ بنتِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کسی ضرورت سے میں ان کے پاس گئی۔ میرے آنے کی ان کو اطلاع ملی وہ تو فوراً دربار سے باہر نکل کر آگئے اور کہا اے علی المرتضیٰ علیہ السلام کی شہزادی خدا کی قسم روئے زمین پر آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت آپ سے بڑھ کر کوئی گھرانہ میرے نزدیک محبت والا نہیں حتیٰ کہ میرا اپنا گھرانہ میری اولاد بھی آپ پر قربان ہے۔ جو کچھ انہوں نے کہا وہ کام کر کے مجھے ہاتھ جوڑ کر وہ کہتے تھے کہ آپ اہل بیت رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں مجھ سے وعدہ کریں قیامت کا جب دن ہو تو میری شفاعت کر دینا اور کہہ دینا کہ ہماری نوکری کرتا تھا۔ ان سے پوچھا گیا اے عمر بن عبدالعزیزؓ کہ بنو ہاشم اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماہل بیت رسول ہیں۔ ان کے بچے نسلیں ہیں ابھی کیا ان سب کی شفاعت ہے,
انہوں نے کہا خدا کی قسم بنی ہاشم حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خانوادہ، بچے بچیاں سب شفاعت کریں گے۔ امام ابو حنیفہ کا طریقہ یہ تھا آپ کے زمانے میں جتنے امام اہل بیت کے زندہ تھے آپؒ ہر ایک کے شاگرد بنے۔

امام ابو حنیفہؒ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ جب مدینہ گئے تو سیدنا امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عقیدت کا اظہار کیا اور ایک جملہ بولا اس کو امام موقف بن احمد بن مکی نے مناقب امام ابی حنیفہ میں بیان کیا۔خدا کی قسم اے امام محمد بن باقر علیہ السلام آپ کی حرمت و تعظیم میرے اوپر اس طرح واجب ہے جس طرح صحابہ کرام پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واجب تھی کیونکہ آپ کی حرمت مجھے حرمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر آتی ہے۔

توامام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا سیدنا امام جعفر صادق علیہ السلام کو فہ تشریف لائے ہیں آپ اپنے بہت سے اکابر تلامذہ کو لیے کر سیدنا امام جعفر صادقعلیہ السلام کی خدمت میں زیارت اور استفادہ کرنے حاضر ہوئے۔ جب آپ کو دیکھا ادب و احترام سے سلام عرض کیا اندر داخل ہوئے اجازت مانگی اس طرح آدب کے ساتھ بیٹھ گئے آپ کے شاگردوں نے دیکھا تو سارے اپنا طریقہ پلٹ کر امام اعظم رضی اللہ عنہ کی طرح سب شاگرد بیٹھ گئے جب آپ نے دیکھا کہ سارے لوگوں نے اپنا طریقہ نشست بدل لیا ہے۔ اس شخص کی طرح سارے بیٹھ گئے ہیں تو آپ نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جن کی تم سب اتنی تعظیم و تکریم و توقیر کر رہے ہو۔کہنے لگے کہ یہ ہمارے استاد ابو حنیفہؒ ہیں۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اس پوری زمین روئے زمین پر جتنے علماء و اکابر اساتذہ کو آپ نے دیکھا سب سے زیادہ فقیہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں نے روئے زمین پر امام جعفر بن محمد صادق علیہ السلام کو فقیہ پایا۔

امام اعظمؒ امام محمد باقر علیہ السلام ، امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام زین علی کے شاگرد ہیں یہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی مودت اہل بیت تھی۔ جسٹس بننا قبول نہ کیا۔
بہانہ یہ تھا کہ ہماراحکم نہیں مانا اور چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ بس اور کوئی گستاخی بنو عباس کے حکمرانوں کے خلاف نہیں ہوئی دراصل سبب یہ تھا کہ وہ سب حکمران جانتے تھے کہ یہ امام اعظم گھر بیٹھ کر ہر شہزادے اہل بیت کی خدمت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ محبت و مودت کرتے ہیں۔ ان کو سزا محبتِ اہل بیت کی دی۔ جیل بھیجا حتیٰ کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کا جنازہ بھی جیل سے نکلا انہوں نے محبتِ اہل بیت میں وفات پائی۔
امام مالکؒ اہل بیتِ اطہار سے شدید محبت تھی حصرت امام جعفر صادق علیہ السلام جیسی ہستیوں کے پاس کوئی مسئلہ پوچھنے جاتا تو فرماتے:
امام مالک کے پاس چلے جائیں ہم اہل بیت کا علم اس کے پاس ہے۔ کل ائمہ اہل بیت کے شاگرد تھے ان کی محبت و مودت میں فنا تھے مگر محبت و مودت اہلِ بیت کی سزا دی کہ ان کے سر اور داڑھی کو مونڈ دیا اور سواری پر بیٹھا کر مدینہ کی گلیوں میں چلایا اور حکم دیا کہ کوڑے مار کر ان کو بتائو کہ میں امام مالکؒ ہوں آپ گلی گلی میں رک کر کہتے تھے جو مجھے اس حال میں دیکھ کر نہیں پہچانتا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں۔ اس حال کے ساتھ پچیس سال تک حضرت زین العابدین علیہ السلام کی طرح آپ گھر میں بیٹھ گئے باہر نہیں نکلے۔یہ دور تھا بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں کا ائمہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کا نام نہیں لے سکتے تھے۔ ملاؤں نے فتوے اور تہمت لگا دی کہ یہ رافضی ہیں۔
امام شافعیؒ نے اپنا دیوان لکھا اور اُس میں آپ نے ربائی لکھی۔ اے اہل بیت رسولعلیہم السلام تمہاری محبت اللہ نے قرآن مجید میں فرض کردی ہے۔
اے اہل بیت علیہم السلام تمہاری عظمت اور تمہاری شان کی بلندی کے لیے اتنی دلیل کافی ہے جو تم پر درود نہ پڑے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
پھر امام شافعی نے کہا۔ اگر ال محمد علیہم السلام سے محبت کرنا رافضی ہوجانا ہوتا ہے ساراجہاں جان لے کہ میں رافضی ہوں۔یہ کلمات آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمائے ہیں۔ میری امت کی جو سب سے پہلی ہلاکت ہے وہ بے وقوف لونڈوں کے ہاتھوں ہوگی اس حدیث رسول کی روشنی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ گلیوں میں چلتے پھرتے باآواز بلند دعا کرتے تھے اور کہتے تھے۔
اے اللہ میں ان چھوٹوں کے حکمران بننے اورسن ساٹھ ہجری کے شروع ہونے سے پناہ مانگتا ہوں۔
امام عسقلانی لکھتے ہیں اللہ نے ان کی دعا قبول کی انسٹھ ہجری سے ایک سال قبل ان کا وصال ہو گیا۔امام مالک کو جب کوڑے مارے جاتے آپؒ بے ہوش ہو جاتے۔ جب ہوش آتا تو دوبارہ کوڑے شروع کر دیتے۔ کوڑوں سے ہوش آنے کے بعد کہتے لوگو! گواہ ہو جاؤ۔ باری تعالیٰ میں نے کوڑے مارنے والوں کو معاف کر دیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ شاید کوڑے کوڑے کھاتے کھاتے میں مر جاؤں۔ مجھے اپنی حالت نظر آ رہی ہے۔ بے شک مجھ پر ظلم ہو رہا ہے لیکنیہ لوگ حضور علیہ السلام کے چچا سے لوگ میں سے ہیں تو میں نہیں چاہتا کہ میرے آقا علیہ السلام کے چچا کا کوئی فرد میری وجہ سے دوزخ میں جائے۔ اس لئے ہوش میں آتے ہی ساتھ ہی ساتھ معاف کرتا جاتا ہوں۔ اتنا بڑا ظلم ادھر حضور علیہ السلام کے خاندان کے افراد کے ساتھ اتنا بڑا حیاعقیدہ ہے۔ عقیدہ اہل سنت و جماعت اس کو کہتے ہیں۔ چاروں اماموں سے پوچھا گیا آپؒ یزید کے بارے میں کیا حکم کرتے ہیں۔ انہوں نے فتوی دیا۔ یزید میرے نزدیک کافر ہے۔ لوگوں نے دلیل پوچھی انہوں نے قرآن مجید کی آیت پڑھی اور کہا اس آیت کا مصداق تعلق یزید بدبخت پرہے۔ ابدال قطب غوث ہر ولی کوئی ولی مرتبہ ولایت تک نہیں پہنچتا جب تک اس کی ولایت کو حضرت علی علیہ السلام کی توثیق نہیں ہوتی۔
کوئی ولی شان ولایت کو نہیں پاتا جب تک مولا علی علیہ السلام کی مہرنہیں لگتی کیونکہ وہ خاتم الولایت ہیں۔

 

پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1280521 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.