تحفظ ختم نبوت میں علماء و مشائخ کا کردار

7ستمبر یوم تحفظ ختم نبوت کے موقعہ پر خصوصی تحریر

اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا رب ہے ۔اس کا خالق ہے ۔اس کا حاکم مطلق ہے ۔اس کا نظام الوہیت، ربوبیت کائنات کے ہر ہر وجود کو اپنی انتہائی سادہ پست حالت سے اُٹھا کر درجہ بدرجہ کمال تک پہنچا رہا ہے ۔اُس نے جب چاہا اوریہ اُسی کے اختیار کل میں ہے تو امر کُن سے کائنات کی وسعتوں کو تخلیق کر دیا ۔ مختلف عوامل پیدا کئے کائنات کی ہر شے ۔اُس کی نشو و نما اُس کی جدو جہد ،اُس کے وجود کی بقا اُس واجب الوجود اللہ کے کرم کی محتاج ہے ۔اُس ذات احد کو جب اپنے جلوﺅں کا ظہور مقصود ہو اتو ارادہ کن سے کائنات کی تخلیق کر دی۔آسمان تخلیق کئے ۔اُ ن کو بلندیاں عطا کیں ۔طبقات بنائے انہیں وسعتیں دیں۔سمندر بنائے انہیں تموج عطا کئے ۔پہاڑ بنائے انہیں جلال سے نوازا غرضیکہ شجر و حجر ،جمادات ،نباتات ،موجودات، حیوانات کو وجود عطا کیا ،ہر ہر شے میں اپنی صفات ، کمالات اور حسن کے کسی نہ کسی پہلو کا عکس اُتاردیا ۔زمین کے ذرے سے لے کر عرش کی بلندیوں تک ہر سُو حُسن کے جلوے بکھیر دئےے ہر سُو اُس کی صفات مطلقہ کی جلوہ گری ہوئی ۔پھرجب اُس ذات بے ہمتانے چاہا کہ کوئی ایسا پیکر بھی تخلیق کیا جائے جس میں تمام جلوے یکجا ہوں۔ چنانچہ اس ارادہ الوہیت کی تکمیل میں کارخانہ کائنات میں انسان کو خلقتِ وجود عطا ہوئی۔جس کا اعلان قرآن عظیم میں خالق کائنات فرماتے ہے :ترجمہ”ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے ۔“(سورة التین)

گویا خالق کائنات نے انسان کی تخلیق کر کے اشرف المخلوقات بنا دیا ۔جس کے اندر ملائکہ کی حقیقت بھی رکھ دی گئی اور حیوانات کی حقیقت بھی ،خالق کائنات نے انسان پر کرم کرتے ہوئے اپنے قہر و غضب کی مظہریت بھی عطا کی اور رفعت کی آئینہ داری بھی ۔اس کی شان اپنی تمام مخلوق سے بلند کر دی مقام مشہود پر جلوہ گر کر دیا ۔پھر انسان سے انسان کامل بنا دیا ۔عبدہ بنا دیا ۔شانِ ربوبیت کا مظہرا تم بنا دیا اور پیکر نبوت کاحامل بنا دیا ۔جس میں تمام اوصاف و کمالات انسانیت اور حُسن الوہیت کے تمام جلوے اپنے پورے نکھار اور شان مظہریت کے ساتھ جلوہ گر ہوں ۔

خلاّق عالم نے پیکر نبوت کو وجود بخشا ۔حسن ربوبیت کی تمام جلوہ آرائیاں جو مختلف طبقات انسانی میں منتشر تھیں وجود نبوت میں جمع کر دیں اور اس طرح مظاہر حُسن الوہیت کی امین بن کر کائنات نبوت معرض وجود میں آگئی اور پھر حسن و جمال نبوت مختلف ادوار میں حاملان نبوت میں تقسیم ہونے لگا ۔ہر ہر پیکر نبوت شانِ مظہریت کے ساتھ جلوہ گر ہوا اور پیکرا ن نبوت کو خالق کائنات نے اپنے حُسنِ ربوبیت ،الوہیت سے برکات دیں جو ایک دوسرے پر کسی خاص تجلی حسن کے حوالے سے عطا ہوئیں ۔ہر نبی کو رب کائنات نے اپنے اپنے انداز سے نواز ا لیکن مقصد کی تکمیل ہنوز باقی رہی۔

رب العالمین کے اعجاز ربوبیت کا تقاضا ٹھہرا کہ کوئی پیکر نبوت آئے جو ساری کائنات کے لئے باعث رحمت ہو۔جس کی رحمت کی چادرپوری کائنات پرپڑ جائے۔جس میں تمام تر حُسن کائنات نبوت مجتمع ہو،جو حُسن الوہیت کا مظہر اتم اور تمام تر محاسن کائنات نبوت کا خلاصہ و مرقع ہو اور جو مختلف حاملان نبوت کو فضیلتیں اور اوصاف و کمالات حاصل ہیں ۔اس پیکر دلربا میں اپنے نقطہ کمال کو پہنچے ہوئے ہوں ۔جب مشیت ایزدی کو یہ منظور ہوا کہ حُسن کائنات نبوت اپنے اتمام کو پہنچے اور اب پیکر مصطفویﷺ ڈھل کر زمین پر جائے اور اس کائنات ارضی میں پہلا قدم رکھتے ہی اپنی ختم نبوت کے نور کے جلوﺅں سے کائنات کے بسنے والوں کو حق کی روشنی دے ۔پھر ایسا ہی ہوا ۔مکہ کی سر زمین اس نور اولین سے منور ہوئی ۔تاریکی ہمیشہ کے لئے مٹ گئی اور ابدی روشنی نے کائنات کو روشن کر دیا۔الغرض رب ذوالجلال کا حُسن بکھرا تو کائنات معرض وجود میں آگئی اور سمٹا تو وجود مصطفی ﷺ سے معنون ہو گیا۔سو نبوت و رسالت کا وہ سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السلام سے چلا اور محاسن نبوت کا امین بن کر اپنے کمال کی جانب گامزن رہا۔آخر محبوب خدا سید المرسلین خاتم النبیین ﷺ کے وجود اطہر میں مکمل ہوا۔

پھراس طرح خالق کائنات نے فرمایا:ترجمہ”اور ہم نے اپنی نعمت مکمل کر دی۔“(سورةالمائدہ )

یہ شان بھی میر ے آقا محمد مصطفےٰ ﷺ کو رب کائنات نے عطا کی ۔دیگر انبیاءو رسل کسی نہ کسی مخصوص انسانی گروہ ،طبقے کی طرف مبعوث ہوئے تو آپﷺ جملہ کائنات انسانی کی جانب آئے۔“ارشاد ہوتاہے:۔” اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔“(سورة الاعراف)

سبحان اللہ ! پھر اللہ تعالیٰ نے آقائے دوجہانﷺ کو ختم نبوت کا تاج پہنا دیا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے۔“(سورة الاحزاب)

اسی لئے میرے آقا نبی رحمت نور مجسم ﷺ نے فرمایا:” سلسلہ نبوت و رسالت منقطع کر دیا گیا ہے اور میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا اور نہ نبی۔“(ترمذی)

نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت کا مظہر اتم بنا کر خاتم النبیین کا تاج پہنا کر مبعوث فرمایا کہ رسالت و نبوت کا وہ سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع فرمایا تھا منقطع کر دیا اور میرے آقا پر دین حق مکمل کر دیا اور اس دین حق کو قیامت تک اُمت کی رہنمائی کے لئے کافی قرار دیا ۔قرآن کریم کی دو سو آیات کریمہ میں صراحتاً اور اشارتاً اس مفہوم کی نشاندہی فرمادی کہ اب نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور آئندہ کوئی نبی ،رسول دنیا میں نہیں آئے گا اور نہ ہی اب وحی کا سلسلہ باقی رہے گا۔

میرے آقا حضور پُر نور ﷺ نے خود اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کے معنی مفہوم ارشاد فرمائے ۔لہٰذا ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ : ”بے شک میری اور مجھ سے پہلے انبیاءکی مثال ایک ایسے شخص کی طرح ہے ۔جس نے ایک گھر تعمیر کیا اُسے بہت خوبصورت اور عمدہ بنایا لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ رہنے دی۔لوگ اس گھر کے گرد چکر لگاتے اور اس پر خوشی کا اظہار کرتے اور کہتے یہ خشت کیوں نہیں لگائی گئی ۔پس میں ہی یہ خشت ہوں اور میں ہی آخری نبی ہوں۔(بخاری)

امام المفسرین علامہ ابن جریر طبری :خاتم النبیین کے بارے فرماتے ہیں۔”لیکن آپﷺ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین یعنی وہ ہستی جس نے سلسلہ نبوت ختم فرمادیا ہے اور اس پر مہر ثبت کر دی ہے کہ قیامت تک یہ کسی کے لئے نہیں کھلے گی۔“(تفسیر طبری)

امام فخر الدین رازی:فرماتے ہیں۔”اور آپ آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔“(تفسیر کبیر)

علامہ بیضاوی شافعی:فرماتے ہیں۔”آپ ﷺ(بعثت کے اعتبار سے )انبیاءمیں سب سے آخری نبی ہیں ۔آپ نے تشریف لا کر سلسلہ نبوت ختم کر دیا اور سلسلہ نبوت پر مہر لگا دی۔“(تفسیر بیضاوی)علامہ ابن کثیر :فرماتے ہیں۔”حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جب نبی کا آنا محال ہے تو رسول کا آنا بدرجہ اولیٰ محال ہے ۔“(تفسیر ابن کثیر)

امام ابن کثیر اس کے بعد حضور ﷺ کی ختم نبوت اور آخری نبی ہونے پر متعدد احادیث پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں ۔

اور تحقیق آگاہ فرمادیا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآ ن مجید میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی سنت متواتر میں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آگاہ اس لئے فرمایا تاکہ امت محمدیہ جان لے کہ آپ کے بعد جو شخص اس منصب کا دعویٰ کرے وہ کذاب جھوٹا ،بہتان طراز ،مکار و دجال ،گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔

امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:۔اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے اور وہ جانتا ہے کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور جب حضرت عیسیٰ (دوبارہ )نازل ہوںگے تووہ حضورﷺ کی شریعت کے متبع اور پیروکار ہوں گے۔علامہ سید محمود آلوسی فرماتے ہیں:۔نبی کا لفظ عام ہے اور رسول خاص۔ اس لئے حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ آپ خاتم المرسلین بھی ہیں چنانچہ آپ کے خاتم النبیین اور خاتم المرسلین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس دنیا میں آپ کے منصب نبوت و رسالت پر فائز ہونے کے بعد جن و انس میں سے اب کسی کو یہ منصب عطا نہ ہوگا۔(روح المعانی)

امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔ بے شک تمام امت محمدیہ ﷺ نے اس لفظ خاتم النبیین اور لا نبی بعدی سے اور قرائن و احوال سے یہی سمجھا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد نہ بھی کوئی نبی ہو گا اور نہ رسول ۔نیز یہ کہ اس میں کسی قسم کی نہ کوئی تاویل ہو سکتی ہے نہ تخصیص ،پس اس کے منکر کو کافر قرار دینے پر کوئی مخالفت نہیں ۔ کیونکہ اُس نے نصِ قرآنی کو جھٹلایا ہے ۔(الاقتصاد فی الاعتقاد)امام زرقانی فرماتے ہیں:۔آپ ﷺ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اس پر مہر لگادی ہے ۔(کتاب المعجزات)

امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔ حضور پر نور خاتم النبیین سید المرسلینﷺ یعنی بعثت میں آخر جمیع انبیاءو مرسلین بلا تاویل و بلا تخصیص ہونا ضروریات دین سے ہے جو اس کا منکر ہویا اس میں ادنیٰ شک و شبہ کو بھی راہ دے ۔کافر و مرتد ملعون ہے۔

ہمارے ایمان کامل ہونے چاہئیں کہ کذاب جو نبوت کے دعویٰ کرتے آئے ہیں جو امت مسلمہ میں فرقہ برپاکرتے آئے اُن کی کسی بات پر دھیا ن نہ کریں ،یہی ایمان ہے بلکہ اپنی ایمانی قوت سے اُس کا قلع قمع کریں۔

حضور نبی اکرم نور مجسم ﷺ کی حیات طیبہ کے آخری دنو ںمیں اسود عنسی نامی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تو نبی اکرم نور مجسم ﷺ نے مسلمانوں کو اس کے قتل پر مامور فرمایا اور آپ کی رحلت سے قبل حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آپ کو بشارت سنائی کہ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے اسود عنسی کو جہنم رسید کر دیا ۔آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین کو ان الفاظ میں خوشخبری سنائی ۔”فیروز کامیاب ہو گیا۔“

حضور نورمجسم ﷺ کے وصال کے بعد چاروںطرف سے اسلام پر فتنوں کی یلغار ہوئی ان میں سب سے بڑا فتنہ جھوٹے مدعیانِ نبوت کا تھا ۔یمن سے مسیلمہ کذاب نے جھوٹا دعویٰ نبوت کیا ۔سجاع نامی عورت نبوت کی دعوے دار بن کر مسلمانوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ان دونوں نے بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کےلئے کوچ شروع کر دیا۔

سید نا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ عاشقِ رسول ﷺ نے ان فتنوں کو مٹانے کے لئے بہترین حکمت عملی ،جرات مندانہ تدبیر کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے تیار کردہ لشکر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔ دشمن اسلام کا لشکر آگے بڑھا۔جھوٹے مدعیان نبوت کو مٹانے کے لئے خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں لشکر تیار کیا جس میں کئی ہزار محدثین ،مفسرین ،حفاظ ،قرا اور اصحاب بدر شامل تھے ۔مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ۔مسیلمہ کذاب نے ایک باغ میں قلعہ بند ہو کر پناہ لی ۔اس شدید ترین حملے کے بعد مسیلمہ کذاب اپنے 28ہزار لشکریوں سمیت جہنم رسید ہوا ۔جبکہ مسلمانوں کے لشکر میں سے 700حفاظ ،محدثین، اصحاب بدر سمیت بارہ سو صحابہ نے جام شہادت نوش کیا اور اپنے رسول ﷺ کی ختم نبوت کا پرچم بلند کیا ۔اس طرح سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضور پُر نور ﷺ کے حکم کے مطابق یہ سنت اور روایت قائم کر دی کہ جب بھی اسلام کو مٹانے اور نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کو چیلنج کرنے کے لئے کوئی عذاب کھڑا ہو تو اُس کے خلاف جہا د کیا جائے ،یہی ایمان کا تقاضا ہے جس کا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مظاہرہ کیا تھا۔

برصغیر میں فتنہ انکار ختم نبوت
1879ءمیں برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں ،ایڈیٹروں اور چرچ کے نمائندوں پر مشتمل وفد نے ہندوستان کا دورہ کیا اور حکومت برطانیہ کے استحکام کے لئے سب سے اہم یہ تجویز پیش کی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماﺅں کے دل و جان سے پیرو کار ہیں اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرے تو اُس شخص کے دعویٰ نبوت کو حکومت کی سر پرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی مفادات کے لئے مفید کام لیا جا سکتا ہے ۔

حوالہ(The arrival of British impire in India)
اس رپورٹ کی روشنی میں برطانوی حکومت کے نمائندوں نے تین اشخاص کا انتخاب کیا تھا۔جن میں مرزا غلام مرتضیٰ کے بیٹے مرزا غلام احمد کو جو کہ سیالکوٹ کی ایک عدالت میں ملازم تھا منتخب کیا گیا اور اس کو تیار کرنے کے لئے پہلے مناظرِ اسلام کے طور پر پیش کیا ۔اس بد بخت نے انگریزوں کی غلامی کو اپنی منزل بنایا اور دین مصطفی اور نبی رحمت ﷺ کے ساتھ بے وفائی کر کے اپنا ایمان چند ٹکوں میں بیچ دیا ۔اُس نے عیسائیوں ،ہندوﺅں کے خلاف تقریریں شروع کیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق توہین آمیز جملے کہنے شروع کئے ۔ہند وﺅں کے دیوتاﺅں کو بُرا بھلا کہنا شروع کیا۔

1880ءمیں ہلم من اللہ اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا ۔1882میں مامور من اللہ میں مجدد اور نذیر کا اضافہ کیا ۔1883آدم مریم اور احمد ہونے کا دعویٰ کیا۔ جب اس حدتک اس کی سوچ میں فتنہ آگیا تو علماءکرام و صوفیا ءنے اس کے خلاف آواز بلند کی کہ یہ دین محمدیہ میں اب انگریزوں کے کہنے پر ایک فتنہ پیداکر رہا ہے ۔

1884ءمیں جب مرزا قادیانی ایک پروگرام کے سلسلہ میں لدھیانہ گیا تو وہاں علمائے لدھیانہ نے اس سے ملاقات کرنا چاہی تاکہ اس کے عقائد واضح ہو ں مگر اُس نے راہ فرار اختیار کی کیو نکہ وہ باطل تھا ۔پھر علماءنے اس کے باطل عقائد کی وجہ سے اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ۔پھر اس قادیانی نے علمائے کرام کے خلاف اپنی زبان چلانی شروع کردی۔ اس کے ان عقائد کی بناءپر علما ئے حق اور مشائخ اسلام نے اس کے خلاف آواز حق بلند کی کہ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے جو اسلام و بانی اسلام کی عزت و حرمت کا ڈاکو ہے۔

1891ءمیں مرزا قادیانی نے مثل مسیح پھر مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا مجھے بحیثیت عیسیٰ دنیا میں دوبارہ بھیج دیا گیا۔

1892ءمیں اللہ کی صفت ”کن فیکون“سے اپنے آپ کو متصف ہونے کا دعویٰ کیا۔

1894ءمیں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا بعد ازا ں ظلی نبی اور بروزی نبی کی حیثیت سے اپنے آپ کو متعارف کرایا۔

1901ءمیں باقاعدہ نبوت کا اعلان اس دعوے کے ساتھ کیا، ”سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔“(دافع البلا مندرجہ روحانی خزائن ج 18ص231)

مرزا قادیانی کے زہر آلود عقائد نے امت مسلمہ میں بے چینی پیداکر دی۔لیکن جھوٹے مدعی نبوت کو قہر الٰہی کا سامنا ضرور کرنا پڑا۔

حضورر ﷺ نے نہ صرف جھوٹے مدعیانِ نبوت کے بارے میں پیشگی اطلاع دے دی بلکہ آپ ﷺ نے تو ان کی تعداد بھی بیان فرمادی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تیس (30) دجال اور کذاب پیدانہ ہوں گے ۔ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۔“(کتاب المناقب)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں قیامت تک مختلف ادوار میں نبوت کا دعویٰ کرنیوالے کذاب(جھوٹے) ظاہر ہوں گے ۔لہٰذا ہر دور میں ایسے کذاب پیدا ہوئے اور فدایان ختم نبوت نے ان کذابو ں کی گردنیں اڑا کر ان کو واصل جہنم کیا۔

جس دین کو خالق کائنات نے پسند کیا اور میرے آقا تاجدار مدینہ ﷺ پر مکمل کیا یعنی اسلام کی اشاعت میں اویس و بلال آتے رہیں گے اور نعرہ مستانہ لگاتے رہیں گے ۔ کبھی، عبد القادر جیلانی کی طرح ۔کبھی غریب النواز معین الدین چشتی کی طرح اور کبھی بہاﺅ الدین نقشبندی کی طرح ۔کبھی شہاب الدین سہروردی کی طرح ۔کبھی مجدد الف ثانی کی طرح ۔ کبھی امام احمد رجاخان بریلوی کی طرح، کبھی جماعت علی شاہ کی طرح ۔کبھی حضر ت مہر علی شاہ گولڑوی کی طرح اور کبھی شاہ احمد نورانی(رحمة اللہ علیہم) کی طرح۔

یہ جانثارفیضان ختم نبوت کے چراغ جلاتے رہیں گے ۔قادیانیوں سن لو۔تمہاری ہر جھوٹی سوچ پر ہم حق کا تالا لگا کر ہی دم لیں گے اور میرے رسول خاتم النبیین کا نور پوری کائنات کو منور کر تا رہے گا کیونکہ اس نور اور نور پیغام کی حفاظت خود خالق کائنات کر تاہے ۔میرے ایمان کا تقاضا یہی ہے ۔ معزز قارئین! عقیدہ ختم نبوت ہی کا دوسرا نام عشق رسول ﷺ ہے جو کہ ہر صاحب ایمان مسلمان کی بنیاد اور اساس ہے ۔اس کی حفاظت ہی ہماری پہچان ہے ۔اے اللہ ہمیں اپنے نبی رحمت ﷺ سے سچی محبت اور لازوال طاقت دیتے رہنا۔

قادیانیت اسلام کے نام پر سادہ مسلمانوں کے ذہنوں پر حملے کر رہی ہے ۔اس کے زہر آلود خیالات پوری امت مسلمہ کے لئے ایک چیلنج ہیں ۔اب ہمیں ہر محاذ پر اس شیطانی سوچ کے جھوٹے ارادوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔

شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال نے کیا خوب لکھا:”قادیانیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ایک غیر مسلم اس کو اسلام سمجھ کر قبول کر رہا ہو گا المیہ یہ ہوگا کہ وہ بیچارا ایک کفر سے نکل کر دوسرے کفر میں جا رہا ہو گا۔“

حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف نے باطل کو چیلنج کیا ۔مرزا قادیانی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا:” حسب وعدہ شاہی مسجد میں آﺅ ہم دونوں اس کے مینار پر چڑھ کر چھلانگ لگاتے ہیں ۔جو سچا ہو گا بچ جائے گا ۔جو کاذب ہو گا مر جائے گا۔مرزا قادیانی جھوٹا تھا بھاگ گیا۔(تحریک ختم نبوت ص52)

عاشق رسول خواجہ قمر الدین سیالوی رحمة اللہ علیہ نے عشق رسول ﷺ میں ڈوب کر کیا خوب کہا:”قادیانیوں کا مسئلہ باتوں سے حل نہیں ہو گا آپ مجھے حکم دیں میں قادیانیوں سے نپٹ لوں گا اور چند روز میں میں ربوہ کو صفحہ ہستی سے مٹادوں گا۔

یہ وہ پس منظر تھا جس میں شاطرانگریزوں نے ایک ایسے شخص کی جستجو کی جوان کی بھر پور حمایت کرے، چنانچہ انہیں مرز اغلا م احمد قادیانی مل گیا جسے انہوں نے جھوٹی نبوت کی مسند پر بٹھادیا اور اساور اس سے اپنی حمایت میں اور دین اسلام کے خلاف ایسے ایسے بیانات دلوائے جنہیں پڑھ کر ایک مسلمان کا سر بارندامت سے جھک جاتا ہے ۔

امت مسلمہ جس نے چودہ صدیوں میں کسی جھوٹے دعویدار نبوت کو قبول نہیں کیا تھا وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کیسے نبی یا مجدد تسلیم کر لیتی ؟ علماءاہلسنت و جماعت نے اپنی تمام تحریری اور علمی توانائیاں اس کے خلاف صرف کر دیں۔

حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی نے 1317ھ / 1899-1890میں ”شمس الہدایہ“ لکھ کر حیات مسیح علیہ السلام پر زبر دست دلائل قائم کئے ۔مرزا قادیانی ان کا جواب تو نہ دے سکا البتہ پیر صاحب کو مناظرے کا چیلنج دے دیا ۔25 جولائی 1900مناظرہ کی تاریخ مقرر ہوئی ۔پیر صاحب علماءکی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ اس تاریخ کو شاہی مسجد لاہور پہنچ گئے ۔لیکن مرزا کو سامنے آنے کی جرات نہ ہو سکی ۔اس خفت کو مٹانے کے لئے مرزا نے15دسمبر1900کو سورہ فاتحہ کی تفسیر ”اعجازالمسیح “ کے نام سے عربی زبان میں شائع کی اور تاثر یہ دیا کہ یہ الہامی تفسیر ہے ،پیر صاحب نے1902ءمیں ”سیف چشتیائی “لکھ کر شائع فرمادی جس میں مرزا کی عربی دانی کے دعووں کی دھجیاں بکھیر دیں ۔اس کتاب کا جواب آج تک مرزائیوں پر قرض ہے۔

پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نے مرزا کے دعووں کی زبردست تردید کی بادشاہی مسجد لاہور میں مرزا کی موت کی پیش گوئی فرمائی جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے پانچ رسائل اور کئی فتاویٰ اس کے رد میں لکھے ۔ایک رسالہ ان کے صاحبزادہ حجة الاسلام مولانا حامد رضا خا ن نے لکھا ،مولانا علامہ غلام دستگیر قصوری نے متعدد کتابیں لکھیں ،علمائے پنجاب میں سے حضرت مولانا غلام قادر بھیروی نے پہلے مرزا کے خلاف فتویٰ دیا ،مولانا پیر غلام رسول قاسمی امر تسری نے عربی میں ایک کتاب لکھی جو اردو ترجمہ کے ساتھ شائع ہوئی ،قاضی فضل احمد لودھیانوی نے متعدد کتابیں لکھی ،حضرت مولاناانوار اللہ خاں ضیاءالدین سیالوی نے ”معیار المسیح“ کے نام سے ایک کتاب لکھی،مولانا حیدر اللہ نقشبندی مجددی نے ”درة الدیانی علی المرتد القادیانی“ کے نام سے کتاب لکھی۔

مولانا محمد کرم الدین دبیر ہفت روزہ سراج الاخبار ،جہلم کے ایڈیٹر تھے انہوں نے مرزائیوں کے خلاف زوردارمضامین لکھے جنہوں نے مرزائیوں میں تہلکہ مچا دیا ،انہوں نے یکے بعد دیگرے مولانا دبیر کے خلاف تین مقدمے دائر کر دئےے جن میں سے دو میں تو وہ باعزت بری ہو گئے البتہ ایک مقدمہ میں انہیں چوّ ن (54)روپے جرمانہ ہو گیا ۔17جنوری1903ءکو مرزائیوں نے ایک کتاب ”مواہب الرحمن“ جہلم میں تقسیم کی ،جس میں مولانا کے خلاف دل کھول کر زہر اُگلا گیا تھا ،مولانا نے مرزا غلام احمد قادیانی اور حکیم نور الدین کے خلاف مقدمہ کر دیا ،مقدمہ دو سال چلتا رہا آخر 8اکتوبر 1904کو گوردا سپور کے جج نے مرزا غلام احمد قادیانی پر پانچ سو روپے اور حکیم فضل دین پر دو سو روپے جرمانہ عائد کر دیا تفصیل کے لئے دیکھئے۔”تازیانہ عبرت “ از مولانا دبیر رحمة اللہ علیہ ۔

مولانا محمد حسن فیضی مرزا کے بلند بانگ دعوے سن کر 13فروری 1899کو بنفس نفیس مسجد حکیم حسام الدین سیالکوٹ میں پہنچ گئے اور اپنا ایک بے نقطہ عربی قصیدہ بغیر ترجمہ کے مرزا قادیانی کو دیا جس میں لکھا تھا کہ اگر آپ کو الہام ہوتا ہے تو اس قصیدہ کا مطلب حاضرین کو سنا دیں ۔مرزا قادیانی نے کچھ دیر دیکھنے کے بعد یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ہمیں تو اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا ۔آپ اس کا ترجمہ کر کے دیں ۔(سبحان اللہ ! کیا میڈان یو کے (Made in U.K)نبوت ہے؟)علامہ فیضی نے 9مئی 1899ءکو یہ تمام واقعہ ”سراج الاخبار“ میں چھپوادیا اور مرزا قادیانی کو چیلنج دیا :

صد ر جہلم میں کسی مقام پر مجھ سے مباحثہ کر لیں ،میں حاضر ہوں ،تحریری کریں یا تقریری ،اگر تحریر ہو تو نثر میں کریں یا نظم میں ،عربی ہو یا فارسی یا اردو، آئیے سنئے اور سنائیے۔“

عبرت ناک بات یہ ہے کہ جب تک علامہ فیضی حیات رہے مرزا قادیانی کو چیلنج قبول کرنے کی جرات نہ ہو سکی کوئی رسوائی سی رسوائی تھی۔

کن کن حضرات کا ذکر کیا جائے؟ مرزا قادیانی پر رد کرنے والے حضرات کااحاطہ کرنا بھی بہت مشکل ہے ،حضرت شاہ سراج الحق گورداسپوری ،مولانا نواب الدین رمداسی ،پروفیسر محمد الیاس برنی ،مولانا سید محمد دیدار علی شاہ الوری، صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی ،محدث اعظم ہند کچھوچھوی۔ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی ،پیر سید ولایت شاہ گجراتی ،مفتی احمد یار خان نعیمی ،حافظ مظہر الدین ،مولانا محمد بخش مسلم، مولانا ابو النور محمد بشیر سیالکوٹی، علامہ ارشد القادری ،سید محمود شاہ گجراتی ،مولانا سید حامد علی شاہ گجراتی۔ رحمہم اللہ تعالیٰ ۔

حضرت شاہ اللہ بخش تونسوی کے حکم پر رد مرزایت میں علمائے اہل سنت کی تصانیف تونسہ شریف کی لائبریری میں جمع کی گئی تھیں جن کی تعداد دو سو تھی ۔

مرزائیوں کے خلاف پہلی دفعہ 1953ءمیں بھرپورتحریک چلائی گئی جس کا مطالبہ یہ تھا کہ ظفر اللہ مرزائی کو وزارت خارجہ کے منصب سے بر طرف کیا جائے اور مرزائیوں کو قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ،اس تحریک میں تمام مکاتب فکر کے علماءشامل تھے اور تحریک کے صدر علامہ ابو الحسنات سید محمد احمد قادری تھے مرکزی قائدین کو گرفتار کر کے سکھر جیل میں نظر بند کر دیا گیا۔وہیں علامہ سید ابو الحسنات قادری کو اطلاع ملی کہ آپ کے اکلوتے فرزند مولانا سید خلیل احمد قادری کو تحریک میں حصہ لینے کی بناء پر سزا ئے موت دے دی گئی ہے ۔آپ کے جیل کے ساتھی علماءنے بچشم حیرت یہ منظر دیکھا کہ علامہ نے تمام تر صبر و سکون کے ساتھ یہ خبر سنی اور فرمایا:الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ نے میرا معمولی ہدیہ قبول فرمالیا ہے ۔“

دوسرے قائدین گرفتار ہوگئے تو مجاہد ملت مولانا محمد عبد الستار خان نیازی نے مسجد وزیر خان میں شعلہ بار تقریروں سے تحریک کو آگے بڑھایا ،انہی دنوں ایک ڈی ایس پی قتل ہو گیا مولانا محمد عبد الستار خان نیازی کو گرفتار کر لیا اور ا ن کے خلاف پھانسی کا فیصلہ صادر کر دیا گیا۔

بعد میں علامہ نیازی کو رہا کر دیا گیا اور مولانا سید خلیل احمد قادری کی سزائے موت کی خبر بھی غلط ثابت ہوئی ۔اس تحریک میں علامہ سید احمد سعیدکاظمی ،مولانا غلام محمد ترنم ،مولانا غلام الدین (انجن شیڈ لاہور) مولانا محمد بخش مسلم، مولانا عبد الحامد بدایونی ،صاحبزادہ سید فیض الحسن آلو مہاروی،علامہ عبد الغفور ہزاروی ، مفتی محمد حسین نعیمی ، مولانا سید افتخار الحسن شاہ، پیر محمد قاسم مشوری،مفتی محمد حسین سکھروی ،مفتی صاحبداد خان (پیر جوگوٹھ سندھ) پیر صاحب سیال شریف ، پیر صاحب گولڑہ شریف، پیر صاحب بھر چونڈی شریف ،پیر صاحب مانکی شریف ،پیر صاحب زکوڑی شریف اور دیگر علماءو مشائخ نے حصہ لیا ،مفتی اعظم پاکستان علامہ ابو البرکت سید احمد قادری اور محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری نے اپنے اسٹیج سے بھر پور انداز میں مسئلہ ختم نبوت بیان کیا اور مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کو طشت ازبام کیا ،محدث اعظم نے ایک رسالہ لکھا تھا جس کا نام ہے ”مرزا مرد ہے یا عورت“ ۔

دوسری دفعہ 1974ءمیں تحریک ختم نبوت چلی ،جس میں حسب سابق تمام مکاتب فکر شامل تھے مجلس عمل کے جنر ل سیکرٹری شارح بخاری علامہ محمود احمد رضوی تھے ،قومی اسمبلی میں تحریک کے روح روا ںقائد اہلست اور قائد حزب اختلاف علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی تھے انہوں نے 30جون 1974کو قرار داد پیش کی کہ مرزا ئیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ،مرزائیوں کی لاہوری پارٹی نے پچاس لاکھ روپے کی پیشکش کی اور کہا قرار داد سے ہمارا نام نکال دیں جسے مولانا نورانی نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا ،قومی اسمبلی میں مرزاناصر پیش ہوا اس نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے مولانا قاسم نانوتوی کی کتاب”تحذیر الناس“ پیش کی جس میں انہوں نے لکھا ہے:”بلکہ اگر ،بالفرض بعد زمانہ نبوی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔“

اس پر بہت سے افراد کے سر جھک گئے ۔البتہ قافلہ سالار تحریک ختم نبوت علامہ شاہ احمد نورانی نے گرج کر کہا:” ہم ایسی عبارت کو نہیں مانتے اور اس کے قائلین کو مسلمان نہیں جانتے ،ناموس رسالت ﷺ کے کسی غدار سے ہماری مصالحت نہیں ہو سکتی۔“

اس قرار داد کی تائید میں22ارکان نے دستخط کئے بعد میں ان کی تعداد 37ہو گئی ،ان میں علامہ عبد المصطفےٰ ازہری (کراچی) سید محمد علی(حیدر آباد)اور مولانا محمد ذاکر (جھنگ) بھی شامل تھے جو جمعیت علماءپاکستان کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے ۔بالآخر 7ستمبر1974ءکو قومی اسمبلی نے مرزائیوں (خواہ وہ قادیانی ہوں یا لاہوری)کو قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ۔اس وقت مسٹر ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے ۔

مختصر یہ کہ علماءو مشائخ اہل سنت نے روز اول سے آج تک مرزائیوں اور مرزائی نوازوں کا تحریری اور تقریری طور پر شدّ و مدّ سے رد کیا ہے اور ان کے عقائد باطلہ اور دجل وفریب کو بے نقاب کیا ہے ۔

قانونی طور پر پاکستا ن میں تو مرزائیت کا مسئلہ نپٹا دیا گیا ۔لیکن چونکہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی طرح انہیں بھی انگریزوں اور دیگر غیر مسلم اقوام کی سر پرستی اور امداد حاصل ہے ،اس لئے ان کی ریشہ دوانیاں بدستور پاکستان اور بیرون پاکستان جاری ہیں ۔جن کا تدارک موجودہ حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہے ۔

اس ”عقیدہ ختم نبوت“ کے تحفظ کےلئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لیکر آج تک فدائیان ختم نبوت اس محاذ پر مصروف جہد ہیں ۔یہودو نصاریٰ کی ہمیشہ سے امت محمدیہ ﷺ کے خلاف”لڑاﺅ اور حکومت کرو۔ “کی حکمت عملی رہی ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت برطانوی ہند میں ”مرزا غلام احمد قادیانی “ نامی سیالکوٹ کچہری کے منشی سے دعویٰ نبوت کروایا ۔جس کی تردید و تکذیب کےلئے علماءاہلسنت و جماعت اول وقت سے میدان عمل میں رہے اور انہوں نے تحریر و تقریر کے میدان میں کار ہا ئے نمایا ں سر انجام دیئے تاوقتیکہ شہدا ختم نبوت کا لہو رنگ لایا اور قائدین و علماءاہلسنت کی شبانہ روز کوششوں کے نتیجے میں پاکستا ن کی قومی اسمبلی نے 7ستمبر 1974ءکو قادیانی امت کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ۔

کچھ ہمارا تساہل کہ ہمارے اکابر کے وہ عظیم کارنامے جو کہ انہوں نے تحفظ ختم نبوت کے میدان میں سر انجام دئے نئی نسل کے سامنے اجاگر نہ ہو سکے ۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 610758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.