بھارت کی غنڈہ گردی اور مظلوم کشمیری عوام

ہم جانتے ہیں بھارت گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیر پر قابض ہے،اپنی طاقت کے نشے میں چوریہ ظالم ملک مظلوم عوام کو بے دردی سے روندتے جارہا ہے،دنیا کی حسین وادی جسے جنت کا ٹکڑا بھی کہا جاتا ہے، بد قسمتی سے وہاں کی فضائیں مظلوموں کی آہیں،سسکیاں خود میں جذب کرتے کرتے ٹھنڈی پڑھ گئی ہیں۔اکثر اوقات وہاں کی سڑکیں، باغ، پھول مظلوموں کے خون سے رنگین ہوجاتے ہیں، طالبعلم اپنی پڑھائی جاری رکھتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں، ہرلمحے وہ اگلے پل کا سوچتے ہیں، اگلے وقت کی سوچ کے باعث ان میں ڈر اور ہیبت طاری رہتی ہے۔اسی باعث کشمیری نوجوانوں میں ڈیپریشن کی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔

بھارت نے مظلوم کشمیری عوام کی آواز بڑی بے رحمی سے دبائی ہوئی ہے تاکہ دنیا کوبھارت کی غنڈہ گردی اور مظلوموں پر ہونے والے ظلم و جبر کے بارے میں علم نہ ہوسکے۔ہم بخوبی جانتے ہیں یہ ہمارے ازلی دشمن کی فطرت ہے، وہ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں پر اپنی طاقت کا دھونس جماتا ہے ان پر ظلم و جبر کرنے کے بعد بڑی بے رحمی سے ان کی آواز دبا کر معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر دنیا بھر میں معصوم بننے کی کوشش کرتا ہے۔

دیکھا جائے تو اقوامِ متحدہ سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بے شمار قرادادیں منظور کی، جن پر عمل دآمد کرنا پاکستان اور انڈیا پر لازم تھا۔ پاکستان نے تمام قرادادوں پر عمل کیا۔ مگر بھارت یہاں بھی اپنی طاقت کا دھونس جمانے سے باز نہ آیا۔ بھارت اپنی ناپاک سازشیں اور چالیں چلتا رہا۔ تمام قرادادوں کو بڑی ہٹ دھرمی سے ایسے نظر انداز کرتا رہاجیسے نظر انداز کرنے کا اسے حق حاصل ہو۔
اگر اقوام ِ متحدہ کی منظورکردہ کشمیر سے متعلق چند قرادادوں پر نظر ڈالیں تو۔

ٌٌٌٌٌاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 39، جو 20 جنوری 1948 کو منظور کی گئی تھی، اس قراداد میں تین ارکان پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد تنازعہ جموں کشمیر کے پرامن حل میں مدد کی پیشکش تھی۔ ایک کا انتخاب بھارت کرے گا، ایک کا انتخاب پاکستان کرے گا اور تیسرا کمیشن دیگر دو ارکان کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔ کمیشن کو ایک مشترکہ خط لکھنا تھا جس میں سلامتی کونسل کو مشورہ دیا گیا تھا کہ خطے میں مزید امن کے لیے کون سا اقدام بہتر ہوگا۔ کمیشن کا مقصد حقیقت کی چھان بین کرنا تھا اور سلامتی کونسل کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل کرنا تھا۔مگر یہ عمل میں نہ لایا جاسکا اس پر بہتر پیش رفت نہ ہوسکی، جس پر اقوامِ متحدہ کے سفارت کار جوزب کوربل سمیت دیگر صحافیوں نے کمیشن کی تشکیل پر تاخیر پر تنقید بھی کی۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراداد ۴۷، جسے ۲۱ اپریل ۱۹۴۸ کو منظور کیا گیا تھا۔بھارت اور پاکستان کے دلائل سننے کے بعد سلامتی کونسل نے سابق قرادا د ۳۹ کے تحت تشکیل دیے گئے تین ارکان سے بڑھا کر پانچ ارکان پر مشتمل کردیا۔اور کمیشن کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ کشمیر جاکر امن و آمان کو بحال کرنے میں مدد کریں۔

اس میں ہندوستان کو کشمیر پر قابض فوجیوں کی تعداد کم کرنے کا کہا گیا تھا۔ مزید برآں جموں کشمیر کا دونوں ممالک سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ یعنی جمہوری طریقے سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس پر بھارت کی طرف سے اعتراضات کیے گئے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراداد(51) ۳ جون۱۹۴۸ کو منظور کی گئی۔اس قراداد کا مقصد امن و آمان کو بحال کرنے اور مسئلے کو جلد از جلد حل کرنا تھا۔اقوامِ متحدہ کی طرف سے بار بار امن و آمان کو بحال کرنے پر زور دیا جاتا رہا اور دنوں ممالک کوباہمی تنازعات دور کرنے کی تاکید بھی کی جاتی رہی۔ مگر دنوں ممالک کی کشیدگی کی بنیادی وجہ ہی کشمیر ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد (90)جو 30مارچ 1951کو منظور ہوئی اس قراداد میں بھی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے حل کرنے کا فیصلہ کیا گیاتھا،واضح رہے کہ متعلقہ حکومتوں اور حکام کو 21 اپریل 1948 کی قرارداد 47۔۔، 3 جون 1948 کی قرارداد 51) اور 14 مارچ 1950 کی قرارداد 80 (1950) اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان کی قراردادوں میں شامل اصولوں کی یاد دلاتا ہے ان اصولوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ عوام کی مرضی کے مطابق کیا جانا تھا جس کا اظہار جمہوری طریقہ کار کے ذریعے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کرئے جانے کا فیصلہ ہوا تھا۔

مگر سچ تو یہ ہے کہ آج تک اس پر عمل د آمدہوتا دکھائی نہیں دیا۔ کیونکہ کشمیری عوام کو یہ حق دیا ہی نہیں گیا کہ وہ اپنا فیصلہ کرسکیں۔بھارت اسی وجہ سے کشمیریوں کی آواز دباتا آرہا ہے اور ظلم و جبر کے پہاڑ گراتا آرہا ہے۔تاکہ اس کی دھشت طاری رہے اور کشمیری عوام اپنے حق سے اور فیصلہ کرنے سے محروم رہ سکیں۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد ۹۸ کے مطابق علاقے میں ہتھیاروں کے خاتمے پر زور دیا گیا اور پاکستان اور بھارت کو مقررہ تعداد میں فوجی رکھنے کی اجازت دی گئی۔
اقوام ِ متحدہ کی جانب سے مقررہ فوجی تعداد؛
پاکستان؛ 3000 سے 6,000 کے درمیان مسلح افواج
ہندوستان؛ 12000سے 18000کے درمیان مسلح افواج رکھنے کی اجازت دی گئی۔

مگربھارت نے ان پر بھی عمل درآمد نہیں کیا آج کشمیر دنیا کا سب سے گنجان علاقہ ہے، جہاں بھارتی 900,000 غیر قانونی طور پر قابض ہے۔اور بھارت کی طرف سے ہتھیار کے خاتمے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بلکہ بھارت نے ہتھیار مزید تعداد میں بڑھا کر ظلم و جبر جاری رکھا۔
 

Shafaq kazmi
About the Author: Shafaq kazmi Read More Articles by Shafaq kazmi: 108 Articles with 134254 views Follow me on Instagram
Shafaqkazmiofficial1
Fb page
Shafaq kazmi-The writer
Email I'd
[email protected]
.. View More