مصائب ، آفات اور پریشانیوں ‎کے اسباب

‎ مصائب ، آفات اور پریشانیوں ‎کے اسباب

‎ دنیامیں بسنے والے انسان زندگی میں مختلف اوقات میں مختلف پریشانیوں اورمصائب کاشکار رہتے ہیں ۔کوئی جسمانی پریشانیوں کاشکار ہے ،تو کوئی مالی اور کوئی جانی اور مالی دونو ں قسم کے مسائل سے دوچار ہے۔کسی کو منصب کی پریشانی لاحق ہے تو کسی کوعزت وآبرو کی، اشرافیہ اپنی کوٹھی میں پریشان تو غرباء جَھونپڑی میں، کوئی نوکری وروزگار اور حالات سے نالاں تو کوئی عزیز واقارب اور دوست واحباب سے شاکی۔ تقریباً ہر آدمی کسی نہ کسی فکر، بے سکونی اور پریشانی میں مبتلاہے۔
دلی سکون،قرار اور اطمینان حاصل کرنے کے لیے ہر ایک اپنے ذہن اوراپنی سوچ کے مطابق اپنی پریشانیوں کی از خود تشخیص کرکے ان کے علاج میں لگتاہے۔ کوئی اقتدار،منصب یا عہدہ میں سکون تلاش کرتاہے، مگر جب اُسے مطلوبہ منصب مل جاتا ہے تو پتہ چلتاہے کہ اس میں تو سکون نام کی کوئی چیز ہی نہیں، بلکہ منصب کی ذمہ داریوں اورمنصب کے زوال کے اندیشوں کی صورت میں اور زیادہ تفکرات ہیں۔
کسی نے سمجھا کہ سکون صرف مال ودولت کی کثرت وفراوانی میں ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ مال ودولت حاصل ہوا، اُن میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ کاروباری تفکرات، ترقی کا شوق،دن بدن بڑھتی ہوئی حرص اور تجارت میں نقصان کے اندیشوں سے اُن کی راتوں کی نیند حرام ہے،الا ماشاء اللہ۔
کسی نے رقص وسرود اور شراب وکباب کو باعثِ سکون جانا، مگروقتی اور عارضی لذت کے بعد پھر بھی بے چینی اور اضطراب برقرار۔ کسی نے منشیات کا سہارا لیا، مگر اس میں بھی صرف دل بہلاوا، عارضی فائدہ اور دائمی نقصان۔ کسی نے نت نئے فیشن اپناکر دل بہلانے کی کوشش کی، مگر سکون وقرار نہ ملا۔
یہ تو ہر ایک کی انفرادی پریشانیو ں اور تکالیف کاحال ہے ۔اسی کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر آفات ومصائب بارش نہ ہونے ،خشک سالی، مہنگائی، بدامنی ودہشت گردی، وبائی امراض، زلزلہ، طوفان، سیلاب وغیرہ،کی صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔
پریشانیاں ومصائب چاہے انفرادی ہو چاہے اجتماعی ہر ایک اس کو اپنی اپنی نظر سے دیکھتا اور اس سے نکلنے کی راہ تلاش کرتاہے۔بعض لوگ حوادث وآفات کو صرف طبعی اورظاہری اسباب سے جوڑتے اورپھراِسی اعتبار سے اُن حوادث سے بچاؤ کی تدابیر کرتے ہیں۔
جبکہ ایک طبقہ(دینی ذہن رکھنے والوں) کا یہ خیال ہے کہ مختلف پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچاؤ کا اصل طریقہ اور اُن کا حقیقی علاج صرف ایک ہی ہے،اور وہ یہ کہ اپنے آپ کو گناہگار،خطاکار، نافرمان اور قصوروار سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے اور گناہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیا جائے، کیونکہ سکون وراحت کے سب خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں،وہی ان کا مالک ہے، جب مالک راضی ہوگا تو خوش ہوکر اپنی مملوکہ چیز(سکون وراحت) اپنے فرمانبردار بندوں کو عطا کرے گا اور وہ مالک راضی ہوتا ہے نافرمانی اور گناہوں کو چھوڑنے اور فرمانبرداری اختیارکرنے سے۔
کیونکہ ہر آدمی جانتا ہے کہ ہراچھے یا بُرے عمل کا رد عمل ضرور ہوتاہے، دنیا میں پیش آنے والے حالات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز انسان کے اچھے یا بُرے اعمال ہیں جن کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے یا اس کی ناراضی سے ہے۔
کسی واقعہ اور حادثہ کے طبعی اسباب جنہیں ہم دیکھتے، سُنتے اور محسوس کرتے ہیں، وہ کسی اچھے یا برے واقعہ کے لیے محض ظاہری سبب ہی کے درجہ میں ہوتے ہیں۔ان تمام باتوں کاظاہری سبب کوئی بھی ہو مگر اسکے باطنی اور خفیہ اسباب بھی ہوتے ہیں ۔جس کاعقل اورحواس خمسہ کے ذریعہ ادراک کرنے سے ہم قاصر ہیں، وحی الٰہی اورانبیاء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جزاء وسزا کا جو نظام سمجھایا ہے، وہ ہمیں اس غیبی نظام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، وہ یہ کہ کسی بھی واقعہ اور حادثہ کا اصل اورحقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی رضا مندی یااس کی ناراضگی ہے۔شرعی تعلیمات کی روشنی میں بحیثیت مسلمان ہمیں یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور امر سے ہوتا ہے۔
اس طرح کے خوفناک اور عبرت انگیز واقعات (خواہ انفرادی ہوں یااجتماعی ) دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’الارم‘‘ اور ’’تنبیہ‘‘ ہوتے ہیں، تاکہ انسان اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور کوئی تنبیہ اس کے غفلت شعار دل کو جُنبش دینے میں کامیاب ہوجائے ۔
دُنیا میں پیش آمدہ اچھے یا بُرے واقعات سے حاصل ہونے والا انسانی تجربہ بھی اسی پر شاہد ہے کہ بہت سارے لوگوں اور قوموں پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے دُنیا میں ہی مختلف قسم کے عذاب آئے ہیں، مثلاً:کوئی مسخ کیاگیا، کوئی زمین میں دھنسایا گیا، کوئی دریا میں غرق کیاگیا،کوئی طوفان کی نذر ہوا۔
ان تباہ شدہ اقوام کی بستیوں کے کھنڈرات آج بھی اس حقیقت پر دال ہیں کہ نافرمانی سببِ عذاب وپریشانی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور حضور نے احادیثِ مبارکہ میں انسانی اعمال کی حسبِ نوعیت تاثیرات کومختلف پیرایوں اور صورتوں میں ذکرفرمایا ہے، امت کوبدعملیوں کے بُرے نتائج سے آگاہ فرماکر اعمال کی اصلاح کا حکم دیا ہے، چنانچہ یہ بات قرآن کریم کی کئی آیات اورنبی کریم کی بہت سی احادیث سے صراحتا ثابت ہے۔
پریشانیوں سے پاک پر سکون زندگی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَة‘‘۔ (النحل:۹۷)
ترجمہ:…’’جو کوئی نیک کام کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو، تو ہم اُسے پاکیزہ (یعنی عمدہ) زندگی دیں گے‘‘۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نیکی پُرسکون زندگی کا سبب ہے،چنانچہ دو چیزوں (ایمان اور اعمال صالحہ) کے موجود ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ’’حیٰوۃ طیبہ‘‘ یعنی بالطف، عمدہ اور پُر سکون زندگی عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے۔
عام آدمی بھی یہ آیت پڑھ کر یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ نہ ہوں یا کوئی ایک نہ ہو تو ’’حیٰوۃ طیّبہ‘‘ یعنی ’’پُرسکون زندگی‘‘ نصیب نہ ہوگی، بلکہ ’’پریشان زندگی‘‘ ہوگی۔
اسی طرح نافرمانی سے انسان کی دنیاوی زندگی اور گذران تنگ ہوجاتا ہے ۔جس طرح ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہٗ مَعِیْشَة ضَنْکاً وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَة أَعْمیٰ۔‘‘ (طہ:۱۲۴)
ترجمہ:…’’اور جو شخص میرے ذکر (نصیحت) سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے (دنیا اور آخرت میں) تنگی کا جینا ہوگا۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہ کی، بلکہ نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ اس پر دنیا کی زندگی تنگ کردیں گے، ظاہری طور پر مال ودولت، منصب وعزت مل بھی جائے تو قلب میں سکون نہیں آنے دیں گے، اس طور پر کہ ہر وقت دنیا کی حرص، ترقی کی فکر او ر کمی کے اندیشہ میں بے آرام رہے گا۔ اس آیت سے بھی یہی ثابت ہوا کہ’’ نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے‘‘۔
دنیاوی مصائب و آفات انسانی اعمال کا نتیجہ ہے:
’’ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ‘‘۔ (الروم:۴۱)
ترجمہ:…’’خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے، تاکہ وہ باز آجائیں‘‘۔
’’وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ‘‘۔ (الشوریٰ:۳۰)
ترجمہ:…’’اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے‘‘۔
ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیے ہوئے بُرے اعمال ہیں، اور یہ بھی بآسانی سمجھ میں آرہاہے کہ:
اگر بُرے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اورفسادات وغیرہ بھی نہ ہوں گے۔
نتیجہ یہی نکلا کہ’’ نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے‘‘۔
تقوی اور اعمال صالحہ برکات اور خوشحالی کاسبب ہے ۔
’’وَلَوْ أَ نَّ أَہْلَ الْقُرَیٰ أٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمآئِ وَالْأَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَأَخَذْنٰہُمْ بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ‘‘۔ (الاعراف:۹۶)
ترجمہ:…’’اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا‘‘۔
یعنی ایمان اور تقویٰ( اعمالِ صالحہ) برکت وخوشحالی کا ذریعہ اور بُرے اعمال عذاب وپکڑ اور پریشانی کا سبب ہیں۔
گناہوں سے توبہ اور استغفارحصول نعمت اور حصول برکات کاذریعہ :
’’وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً إِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاََتتََوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ‘‘۔ (ہود:۵۲)
ترجمہ:…’’اور اے میری قوم! تم اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ اور اس کے سامنے توبہ کرو، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا او رتم کو قوّت دے کر تمہاری قوّت میں زیادتی کرے گا اور مجرم رہ کر اعراض مت کرو‘‘۔
’’فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا، یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا، وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْہٰرًا۔‘‘ (نوح:۱۲)
ترجمہ:…’’تو میں نے کہا کہ: گناہ بخشواؤ اپنے رب سے، بے شک وہ بخشنے والا ہے، تم پر آسمان کی دھاریں (تیز بارشیں) برسائے گا اور بڑھادے گا تم کو مال اور بیٹوں سے اور بنادے گا تمہارے واسطے باغ اور بنادے گا تمہارے لیے نہریں‘‘۔
ان دونوں آیات میں نعمتوں اور برکات کے حصول کا طریقہ گناہوں سے توبہ، استغفار اور تقویٰ کو بیان فرمایا ہے، جب معلوم ہوا کہ گناہوں کا چھوڑنا اور توبہ کرنا مال واولاد کی کثرت اور خوشحالی کا سبب ہے تو اس سے لازمی طور صاحبِ عقل وشعور یہی نتیجہ نکالے گا کہ’’ گناہ اور نافرمانی‘ نعمتوں میں کمی اور بدحالی کا سبب ہے‘‘۔
تقویٰ نجات اور وسعتِ رزق کا سبب :
’’وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا، وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَیَحْتَسِبُ‘‘۔ (الطلاق:۲،۳)
ترجمہ:…’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے، جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا‘‘۔
اس آیت میں تقویٰ کو نجات اور وسعتِ رزق کا سبب بتایا ہے اور اس کا عکس یہی ہے کہ نافرمانی اور گناہ‘ پریشانیوں میں گرفتار ہونے اور قلتِ رزق اورنعمت میں کمی کا سبب ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرکے ہی پریشانیوں سے چھٹکارا اور راحت وسکون مل سکتا ہے۔
ایک شبہ اور اس کاجواب :
ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں بعض اوقات نیک وصالح،دین دار، حتیٰ کہ بزرگ حضرات بھی مصیبت وپریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، حالانکہ وہ گناہوں سے بھی بچ رہے ہوتے ہیں، فرمانبرداری بھی کر رہے ہوتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟
اس کاایک جواب تو یہ ہے کہ یہ قاعدہ اکثریہ ہے یعنی اکثر پریشانیاں گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے آتی ہیں، مگر بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جو بطورِ آزمائش ہوتی ہیں اور نتیجۃً نعمت کے حصول کا سبب بنتی ہیں،وہ اس طرح کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کو کسی خاص اخروی درجہ اور مرتبہ پر فائز کرنا چاہتے ہیں، مگر وہ اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے نیکیوں کی بنیاد پر اُس کا مستحق نہیں بن سکتا تو اللہ تعالیٰ اُس کے مرتبہ کو مزید بڑھانے اور اونچا کرنے کے لیے دنیا کے اندر آزمائش (بیماری، پریشانی وغیرہ) میں مبتلا کردیتے ہیں تو یہ مصیبت درحقیقت مصیبت نہیں ہوتی، بلکہ ایک طرح کی نعمت ہوتی ہے جو نتیجتاً رفعِ درجات کا سبب بنتی ہے، انبیاء علیھم السلام کی تکالیف اور آزمائشیں اسی قبیل سے ہیں۔
ان کی مثال اُس محنت کی طرح ہے جو کسی نعمت کے حصول میں کرنی پڑتی ہے،جیسے شہد کے حصول میں بعض اوقات شہد کی مکھی کے ڈنک سہنے پڑتے ہیں، تو اس طرح کی پریشانیاں دراصل شہد کی مکھی کے اُن ڈنکوں کی طرح ہیں جو بالآخر شہد جیسی نعمت کے حصول پر منتج ہوتے ہیں۔
اس شبہ کا دوسرا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اس نیک بندے سے بشری کمزوری کی بنا پر کبھی کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ جو بڑے رحیم وکریم ہیں، اپنے خاص بندے کے اس گناہ کو دنیا ہی میں دھونے کے لیے اُسے مصیبت میں مبتلا کردیتے ہیں، تاکہ وہ آخرت کی بڑی رُسوائی اور بڑے عذاب سے بچ جائے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ایک صورت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا احاطہ انسان نہیں کرسکتا۔
ان دو جوابات کا حاصل یہ ہے کہ انسان پر آنے والی پریشانی دو قسم کی ہوتی ہے:ایک پریشانی وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کا عذاب ہوتا ہے،جو اخروی عذاب کی ایک جھلک ہوتی ہے۔ اصل دارالجزاء تو آخرت ہے، دنیا دارالعمل ہے، مگر کبھی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے اخروی عذاب کا ایک ادنیٰ سا نمونہ دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے، تاکہ انسان نافرمانی سے باز آجائے، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْا دْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْا کْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ۔‘‘(السجدۃ:۲۱)
’’اور ہم ضرور ان کو قریب کاچھوٹا عذاب چکھائیں گے بڑے عذاب سے پہلے، تاکہ وہ لوٹ آئیں ۔‘‘
اور پریشانی کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں ہوتی، بلکہ اس کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے جو رفع درجات یا گناہوں کے مٹنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اور یہ پریشانی اور تکلیف درحقیقت اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہوتی ہے کہ اس چھوٹی سے تکلیف کے سبب اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندے کو آخرت کے بڑے عذاب سے بچالیتے ہیں یا رفع درجات کی صورت میں آخرت کی بڑی نعمت عطا فرمادیتے ہیں۔
حتیٰ کہ ایک حدیث میں ہے کہ: ’’أشد الناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالا مثل۔‘‘
’’سب سے زیادہ آزمائش انبیاء علیھم السلام پر آتی ہے ، پھر جو اُن کے جس قدر زیادہ مشابہ ہو۔‘‘
یعنی انبیاء علیہم السلام پر زیادہ آزمائشیں آئیں اور پھر جس کا جس قدر اُن سے زیادہ تعلق ہوگا، زیادہ قرب ہوگا، زیادہ اتباع ہوگی، اس پر بھی آزمائشیں زیادہ آئیں گی، مگر خدانخواستہ انبیاء علیہم السلام پر آنے والی یہ تکالیف اور آزمائشیں کوئی سزا نہیں تھیں، بلکہ ان کے درجات کو مزید بلند کرنا مقصد تھا۔
نافرمان ہمیشہ مالدار اورنعمتوں میں کیوں ہوتاہے؟
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ نافرمان لوگ جومال دار ہیں، بظاہر خوش نظر آتے ہیں۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ بات مسلم ہے کہ مالداری ایک نعمت ہے اور خوشی اور آرام کا ظاہری سبب ہے، مگر ضروری نہیں کہ جو مال دار ہو، وہ خوشحال اور پرسکون بھی ہو، کیونکہ بعض لوگوں کے پاس بظاہر مال ودولت اور سامانِ عیش وعشرت تو ہوتا ہے، مگر ان کا دل قناعت وتوکل سے خالی ہونے کی بنا پر ہروقت دنیا کی مزید حرص، ترقی کی فکر، اور کمی کے اندیشہ میں بے آرام رہتا ہے، ذرا اُن سے پوچھ کر تو دیکھئے کہ وہ راحت وآرام کے سارے اسباب اپنے پاس رکھنے کے باوجود سکونِ دل کی دولت سے کتنے محروم ہیں؟
ہاں! اگر کوئی ایک آدھ فرد ا یسامل جائے جو نافرمان ہونے کے باوجودبھی خوش ہو تو وہ شاذ ونادر مثال ہوگی اور شاذ ونادر کا اعتبار نہیں ہوتا، حکم اکثریت پر لگتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ نافرمانوں کی اکثریت پریشان ہی رہتی ہے۔
دراصل قلبی سکون اور حقیقی اطمینان مال سے حاصل ہونے والی چیز ہی نہیں ہے، اس کا تعلّق اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اوراس کے ذکر سے ہے، جیساکہ ارشاد خداوندی ہے:
’’أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘
یعنی ’’خبر دار اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ہوتا ہے‘‘۔
مگر ہم میں سے اکثر لوگ چونکہ ذکر اللہ کی لذت سے بالکل کورے ہیں، اس لیے ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا،دراصل ہم نے اس وادی میں قدم ہی نہیں رکھا، بقولِ شاعر:
ذوقِ ایں بادہ ندانی بخدا تانہ چشی
مذکورہ اعتراض کا یہ جواب بھی ہے کہ جو نافرمان بظاہر خوشحال ہیں، انہیں دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہے، جو چند روزہ ہے، یہ چند روزہ خوشحالی لمبی پریشانی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ جس خوشحالی کا انجام چند روز کے بعد دائمی تباہی ہو، اسے خوشحالی کہنا کہاں زیبا ہے؟ جیسے چوہا زہر ملی ہوئی چیز کھاکر خوش ہوتا ہے، مگر اس میں اس کی تباہی پوشیدہ ہوتی ہے۔
اصل نکتہ کی بات یہ ہے کہ سکون وراحت کا تعلّق صرف جسم سے نہیں ہے، بلکہ جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی ان کا تقاضہ کرتی ہے، مادی وسائل اور راحت وسکون کے ظاہری اسباب جسم کو تو آرام دے سکتے ہیں، مگر روح کو قرار اور دل کو سکون بخشنا اُن کے بس کی بات نہیں۔
روح کی تسکین اور اس کی غذا عبادت اور ذکر اللہ ہیں :
کیونکہ انسان کی فطری خواہش ہے کہ وہ کسی لافانی ذات کی بندگی کرے، اس فطری خواہش کی تسکین مادہ پرست زندگی کے اسباب ووسائل سے پوری نہیں ہوسکتی،روح کی تسکین کے لیے روحانی اسباب (اعمال صالحہ جیسے ذکر اللہ اور عبادت وغیرہ) کا اختیار کرنا ضروری ہے۔
ایک بزرگ نے یہی بات کیا ہی خوب صورت انداز میں بیان فرمائی ہے کہ: ’’یہ خدا نا آشنا زندگی کا لازمی خاصّہ ہے کہ اس کے شیدائی ایک انجانی سی بے قراری کا شکار رہتے ہیں، اس بے قراری کا ایک کرب انگیز پہلو یہ ہے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بے قرار کیوں ہیں؟
وہ ہمہ وقت اپنے دل میں ایک نامعلوم اضطرار اور پراسرار کسک محسوس کرتے ہیں، لیکن یہ اضطراب کیوں ہے؟ کس لیے ہے؟ وہ نہیں جانتے‘‘۔
خلاصہ یہ کہ ہم پر جو پریشانیاں اور مصیبتیں آتی ہیں، وہ ہمارے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہیں، لہٰذا پُرسکون اورپُراطمینان زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی گزشتہ کوتاہیوں پر نادم ہوکر اللہ تعالیٰ سے ان پر معافی مانگیں،فی الفور نافرمانی چھوڑ کر آئندہ اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔
ہمیشہ عذاب غریبوں پہ کیوں آتاہے ؟
سیلاب وغیرہ جیسےآفات پر اکثریہ اعتراض ہوتاہے کہ ہمیشہ عذاب غریبوں پہ کیوں آتاہے ؟اور مقتدر طبقات اور ذمہ دار سرکاری اہل کار جن کی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ واقعات رونماہوتے ہیں کو کیوں بچایاجاتاہے ؟
دوسرے سادہ لوح مگر دین پسند لوگوں کی بات تو نہیں کررہا مگر اکثر اس قسم کے اعتراضات ملحدانہ سوچ اور باغیانہ فکر کا عکاس ہوتے ہیں جس میں استھزاءکارنگ نمایاں ہوتاہے ۔اسلامی نقطہ نظر تو یہ ہیکہ ذرہ ذرہ پر اللہ کوتصرف حاصل ہے اور پتہ پتہ اس سے پوچھ پوچھ کر حرکت کرتاہے ماتقسط من ورقة ولا حبة في ظلمات الارض ولا رطب ولايابس الا في كتاب مبين اور اسی طرح مومن باللہ مطرنابفضل اللہ اور مومن بالکواکب مطرنابنوءکذا کا عقیدہ رکھتا ہے ۔
زلزلہ آنے پر پلیٹیں سرکنے اور مرکز واسکیل رینج پہ نظر کرکے فاعل حقیقی اور قدیر علی کل شیئ ذات سے توجہ ہٹادی جاتی ہے۔
ہر بات کو گناہ وعذاب سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟
اسی طرح کہاجاتاہے کہ ہر بات کو دینی زاویے سے کیوں دیکھا جاتا ہے اور ہر جگہ ہر چیز کوگناہ و عذاب سے کیوں جوڑا جاتا ہے تو بات یہ جی کہ یہ بھی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔
اگر غور کیا جائے تویہ بات ہر آدمی جانتا ہے کہ ہراچھے یا بُرے عمل کا رد عمل ضرور ہوتاہے، دنیا میں پیش آنے والے حالات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز انسان کے اچھے یا بُرے اعمال ہیں جن کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور ناراضی سے ہے۔
نااہلی ، کوتاہی اور ناقص منصوبہ بندی بھی قابل گرفت ہے :
بے شک نااہلی ، کوتاہی اور ناقص منصوبہ بندی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی بھی کسی بڑے گناہ سے کم نہیں اور ایسے لوگوں کوقرار واقعی سزادینابھی ضروری ہے جو انسانی جان ومال سے کھیلتے ہیں ۔
اس قسم کے لوگ اور ان کاناقص عمل کسی قسم کی رورعایت کامستحق نہیں۔ایسے لوگوں کی سخت تنبیہ اور سزاجزاء کی ضرورت ہےتاکہ اس کے بعد دوسرے لوگ بھی عبرت حاصل کریں۔ مگر یہ بھی سارے کسی حادثے کے ظاہری اسباب ہیں جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا مگر اس کی آڑ میں مذھب اور اسکی تعلیمات کے انکار یااس پر اعتراض کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔اور اس کی وجہ سے باطنی اسباب سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا۔

 

Mufti Muhammad Ikram Safi
About the Author: Mufti Muhammad Ikram Safi Read More Articles by Mufti Muhammad Ikram Safi: 3 Articles with 1251 views Follow me on
https://www.facebook.com/hafizikram.ikramsafi
https://www.facebook.com/MuftiIkramSafi
albseerah.com
I am a Sharia advisor, motivation
.. View More