قُرآن کی فصیل اور قُرآن کے فیصلے

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالشُورٰی ، اٰیت 10 تا 13 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
وما
اختلفتم فیه
من شئی فحکمهٗ
الی اللہ ذٰلکم اللہ ربی
علیه توکلت والیه انیب 10
فاطرالسمٰوٰت والارض جعل لکم
من انفسکم ازواجا ومن الانعام ازواجا
یذرؤکم فیه لیس کمثله شئی وھو السمیع
البصیر 11 له مقالید السمٰوٰت والارض یبسط
الرزق لمن یشاء ویقدر انه بکل شئی علیم 12 شرع
لکم من الدین ماوصٰی بهٖ نوحا والذی اوحینا الیک وما و
صینا بهٖ ابرٰھیم و موسٰی وعیسٰی ان اقیمواالدین ولا تتفرقوا
فیه کبر علی المشرکین ما تدعوھم الیه اللہ یجتبی الیه من یشاء
و یھدی الیه من ینیب 13
اے ہمارے رسُول ! اہلِ زمین کو آگاہ کردیں کہ تُم میں سے جس فرد یا جماعت کا جس فرد یا جماعت کے ساتھ جو بھی اختلاف ہو تو تُم اُس اختلاف کے فیصلے کے لیۓ اُس اللہ کے قانُون کی طرف رجوع کرو جو اللہ انسانی حیات کو پالتا ہے اور جس اللہ کا قانونِ حیات انسانی حیات کو سنبھالتا ہے ، میں اُس کی ذات پر بھی اعتبار کرتا ہوں اور اُس کے قانُونِ حیات پر بھی اعتماد رکھتا ہوں ، تُمہارے یہ زمین و آسمان اُس کے اسی قانُون سے قائم ہوۓ ہیں اور اُس کے اسی قانون کے لیۓ قائم ہوۓ ہیں ، اِس زمین و آسمان کے درمیان تُمہارے صنفی جوڑوں کی مثال بھی زمین کے دُوسرے جانداروں کے اُن صنفی جوڑوں کی طرح ہے جو اُس کے اسی قانونِ تخلیق کے تحت زمین میں پیدا کر کے بڑھاۓ جاتے اور بڑھانے کے بعد مٹاۓ جاتے ہیں اور تُمہارے اُس خالق کی واحد مثال اُس کا واحد ہونا ہے اور اُس کے واحد ہونے کی جو مثال ہے اِس مثال کی بھی بالکُل اسی طرح کوئی مثال نہیں ہے جس طرح اُس کے سمیع و بصیر ہونے کی کوئی مثال نہیں ہے ، زمین و آسمان کے ہر خزانے کی ہر کلید اُسی خالق کے پاس ہے اور وہ اپنی ہر مخلوق کو اپنے اُن خزانوں سے اُس مخلوق کی محنت و صلاحیت کے مطابق کبھی کُچھ کم اور کبھی کُچھ زیادہ روزی دیتا رہتا ہے ، ہم نے آپ کو اہلِ حیات کے لیۓ اِس وقت جو قانونِ حیات دیا ہے اِس سے پہلے نوح کو بھی یہی قانونِ حیات دیا تھا اور ابراہیم و مُوسٰی اور عیسٰی کو بھی اسی قانون پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت کی تھی کہ وہ اہلِ حیات میں ہمارا یہی قانونِ حیات قائم کریں تاکہ اہلِ حیات فرقوں میں تقسیم نہ ہوں لیکن اُن زمانوں کے مُشرک و مُتکبر لوگوں نے اِس قانون کو بار بار پامال کیا جس قانون کی آپ اہلِ زمین کو دعوت دے رہے ہیں ، اَب جو انسان اِس قانون کو قبول کرنا چاہے گا تو اُس کو اِس کی توفیق دی جاۓ گی اور جو انسان اِس قانون کے ذریعے اللہ کی طرف بڑھنا چاہے گا تو اُس کو بھی اُس کا راستہ دیا جاۓ گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا سے پہلی اٰیات کی آخری اٰیت کے آخری حصے میں یہ قانون بیان کیا گیا تھا ہر زندہ چیز کو اللہ تعالٰی نے زندگی دی ہے اور ہر زندہ چیز کو اللہ تعالٰی ہی موت بھی دیتا ہے ، موت و حیات کے اُس قانون کے بعد اٰیاتِ بالا میں اَب یہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان اللہ تعالٰی کے جس قانونِ قُدرت کے تحت پیدا ہوۓ ہیں اہلِ زمین و آسمان کی زندگی و موت بھی اللہ تعالٰی کے اُسی قانونِ قُدرت کے تحت پیدا ہوئی ہے اور اِسی قانون سے خود بخود ہی یہ قانون بھی وجُود میں آگیا ہے کہ انسانی زندگی و موت کی وسطی مُدت بھی اللہ تعالٰی کے اُسی قانون کے تابع ہونی چاہیۓ جو قانون اللہ تعالٰی نے اُس قُرآن کی صورت میں انسان کو دیا ہوا ہے جس قُرآن کا یہ فرمان قُرآن میں بیان کیا جا رہا ہے ، قُرآنِ کریم نے اِس قانون کی اِس قُرآنی تشریح کے بعد اِس قانون کا یہ تاریخی پس منظر بھی بیان کردیا ہے کہ اِس سے پہلے نے نُوح علیہ السلام کو بھی یہی قانون دیا گیا تھا اور نُوح علیہ السلام کے بعد ابراہیم و مُوسٰی اور عیسی علیھم السلام کو بھی اسی قانونِ حق کی اطاعت کی تلقین کی گئی تھی اور اُن سب نبیوں کے بعد آپ کو بھی وہی قدیم قانونِ دین دیا جا رہا ہے اور اُسی قدیم قانون کی تلقین کی جا رہی ہے جس قانون کی تاریخ یہ ہے کہ مومن و مُسلم خُدا پرست لوگ جو ہمیشہ سے اِس قانون کا اقرار کرتے آرہے ہیں وہ اِس وقت بھی اِس قانون کا بالکُل اسی طرح اقرار کر رہے ہیں جس طرح وہ ہر زمانے میں اِس کا اقرار کرتے رہے ہیں جبکہ مشرک بُت پرست و مُتکبر انا پرست لوگ جو ہمیشہ سے اِس قانون کا انکار کرتے آرہے ہیں وہ اِس وقت بھی اِس قانون کا بالکُل اسی طرح انکار کر رہے ہیں جس طرح وہ ہر وہ زمانے میں اِس کا انکار کرتے رہے ہیں ، تاریخ کے اِس پس منظر سے جو سادہ سا نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جو قوم جس عمل یا جس نظریۓ کا آغازِ کار میں اقرار یا انکار کرتی ہے وہ عمل یا نظریہ اُس قوم کے خون میں شامل ہو کر اُس کی ایک ایسی خصلت بن جاتا ہے جس خصلت کو بڑھے اور بڑھتے ہوۓ وقت کے ساتھ اُس انسان کے خون سے نکالنا ایک مُشکل عمل بن جاتا ہے جس انسان کے دل میں اُس خصلت کا بیج اپنی جڑھیں بنا لیتا ہے ، قُرآنِِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں اِس مُشکل کا یہ حل پیش کیا ہے کہ سب سے پہلے تو انسانی معاشرے میں پیدا ہونے والے اُس مرضِ بیدینی کو ختم کرنے کے لیۓ یہ تشخیص کی جاۓ کہ اُس انسانی معاشرے میں خیر کا مَخرج کیا ہے اور اِس خیر میں شامل ہونے والی خرابی کا مر کز کہاں ہے ، اِس حکیمانہ ہدایت کے بعد قُرآن نے اٰیاتِ بالا میں یہ اَمر واضح کیا ہے کہ خیر کا مرکز ہر زمانے میں اللہ تعالٰی کے قانون کی وہی کتاب ہوتی ہے جو اللہ تعالٰی نے اپنے نبی پر نازل کی ہوتی ہے اور خرابی کا مخرج وہ انسانی خیالات ہوتے ہیں جو انسانی خیالات انسان اللہ تعالٰی کے اُس قانونِ نازلہ سے بچنے کے لیۓ وضع کرتا ہے ، خرابی کے اِس خبیث مخرج کا قلعہ قمع کرنے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی سے یہ اعلان کرایا ہے کہ میں اللہ کی ذات پر پُورا پُورا اعتبار کرتا ہوں اور اُس کے قانونِ حیات پر بھی پُورا پُورا یقین رکھتا ہوں ، نبی کے اپنے زبانِ رساں سے سناۓ ہوۓ اور افردِ اُمت کے کانوں سے سنے اور دل کی آمادگی سے عمل میں لاۓ ہوۓ اسی اعلان و اعتقاد کا نام ایمان ہے اور بندہِ مومن کا یہی وہ ایمان و اعتقاد ہے جو اُس کی جان و رُوح کو انسانی نظریات سے آزاد کر کے قُرآنی اٰیات کا تابع بناتا ہے کیونکہ انسان جب بھی گم راہ ہوا ہے وہ قُرآن کے قانون کی سچی شرع کے نام پر بنائی ہوئی اُس جھوٹی شرع سے گم راہ ہوا ہے جس جھوٹی شرع کے جھوٹے اہلِ شریعت نے یہ تشریع کی ہے کہ دین شریعت سے ایک الگ حقیقت ہے اور شریعت بھی دین کی حقیقت سے ایک جُدا چیز ہے اور جب بھی انسان نے اپنی اِس خانہ ساز شریعت کا دروازہ کھولا ہے تو اُس کے ساتھ ہی ایک دین دشمن طریقت کا دروازہ بھی کھول دیا ہے جس نے مُسلم معاشرے میں کثرت کے ساتھ وہ قُرآن دشمن اہلِ شریعت و اہلِ طریقت پیدا کیۓ ہیں جن کی شریعت و طریقت میں اور تو سب کُچھ شامل ہوسکتا ہے لیکن قُرآن کا قانونِ دین اُس میں مُطلقا شامل نہیں ہوتا اور شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ اُن کی اُس شریعت و طریقت کا پُورا تاج محل شیطان تیار کرتا ہے اور جو انسان بھی شیطان کے اُس تاج محل سے پڑھ کر نکلتا ہے وہ مُکمل شیطان بن کر نکلتا ہے جب کہ قُرآن نے اٰیاتِ بالا میں انسان کو { شرع لکم من الدین } کی یہ تعلیم دی ہے کہ تُمہاری شریعت وہی ہے جو قانونِ دین سے لی گئی ہے اور جو اپنے ہر رنگ اور اپنی ہر شکل میں قانونِ دین کے تابع ہے ، لفظِ شرع کا مطلب راستہ ہے جس سے شارع عام و شارع دستور وغیرہ جیسے نام نکلے ہیں اور یہ تمام شارع عام اُس ملک کے قانون کے تابع ہوتے ہیں جس ملک میں وہ شارع عام موجُود ہوتے ہیں اور اُن شارع پر چلنے والے لوگوں پر وہی قوانین لاگو ہوتے ہیں جو اُس ملک کے دستور سے لیۓ گۓ ہوتے ہیں ، اسی طرح شریعت بھی وہی برحق شریعت ہوتی ہے جو اللہ کے قانونِ نازلہ کے مطابق ہوتی ہے اور انسان کے جو معاشرتی فیصلے قُرآن کی اِس فصیل میں ہوتے ہیں وہی قُرآن کے فیصلے ہوتے ہیں اور جو فیصلے قُرآن کی اِس فصیل سے باہر ہوتے ہیں وہ دین کے فیصلے نہیں بلکہ خالص بیدینی کے فیصلے ہوتے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458754 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More