عالمی یوم خواتین اور مسلم معاشرہ

 خواتین کا عالمی دن بین الاقوامی طور پرہرسال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔اس دن کا مسلم معاشرے سے کوئی تعلق بنتاہے یانہیں؟اس کو سمجھنے کے لیے عالمی یوم خواتین کے پس منظر کو دیکھناضروری ہے۔مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس دن کا تعلق اسلام اور مسلمان عورت کے ساتھ کسی طرح بھی نہیں بنتا۔یہ دن اسلام نے خواتین کے حوالے سے جو ضابطہ طے کیاہے اس کے حوالے سے منایا گیا اور نہ ہی مسلم معاشرے میں خواتین کو جو مقام ومرتبہ حاصل ہے اور اپنے دائرۂ کا رمیں اس پر جو ذمے داریاں اور فرائض عائد ہوتے ہیں ان کے حوالے سے منایا گیا،بلکہ سب سے پہلے یہ دن امریکا میں امریکا کی جانب سے اپنی شہری ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق غصب کرنے اور حقوق مانگنے ک ی پاداش میں ان کے احتجاج کو کچل دیے جانے کے ردعمل میں منایا گیا۔

جی ہاں!1908 میں جب نیویارک کی سڑکوں پر پندرہ سو خواتین مختصر اوقاتِ کار، بہتر اجرت اور ووٹنگ کے حق کے مطالبات منوانے کے لیے میدان میں نکلیں تو’’مہذب‘‘اور ’’انسانی حقوق کا سب سے بڑا ٹھیکے دار‘‘کہلانے والے امریکا نے بجائے اِن خواتین کے مسائل حل کرنے کے،اُلٹا ریاستی طاقت کا بدترین استعمال کرتے ہوئے ان کے اس احتجاج کو گھڑسوار دستوں کے ذریعے کچل دیا اورمتعدد خواتین کو گرفتار کرلیا۔اسی کے ردعمل میں امریکا کی اپوزیشن( سوشلسٹ پارٹی )نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے وومن نیشنل کمیشن بنایا اور 28 فروری کو 1909 میں’’ خواتین کے عالمی دن ‘‘کے طور پر منایا ۔یہ سب سے پہلا’’یوم خواتین‘‘تھا،جوامریکا میں منایا گیا۔1910کوپن ہیگن میں ملازمت پیشہ خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس ہوئی جس میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کلارا زیٹکن نے ہر سال دنیا بھر میں خواتین کا دن منانے کی تجویز پیش کی جسے کانفرنس میں شریک 17 ممالک کی شرکا نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ 1911میں 19 مارچ کو پہلی بار خواتین کا عالمی دن منایا گیا اور آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں 10 لاکھ سے زائد خواتین اور مردوں نے اس موقع پر کام، ووٹ، تربیت اور سرکاری عہدوں پر خواتین کے تقرر کے حق اور ان کے خلاف امتیاز کو ختم کرنے کے لیے جلوس نکالے جانے والے جلوسوں میں حصہ لیا۔ اسی سال 25 مارچ کو نیویارک سٹی میں آگ لگنے کا ایک واقعہ پیش آیا۔ ٹرائی اینگل فائر کے نام سے یاد کی جانے والی اس آتش زدگی میں 140 ملازمت پیشہ خواتین جل کر ہلاک ہو گئیں، جس سے نہ صرف امریکا میں کام کرنے والی خواتین کے خراب ترین حالات سامنے آئے، بلکہ ان حالات کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کا سارا زور بھی امریکا کی طرف ہوگیا۔ 1913 میں پہلی بار روس میں خواتین نے عالمی دن منایا تاہم اسی سال اس دن کے لیے 8 مارچ کی تاریخ مخصوص کر دی گئی اور تب ہی سے دنیا بھر میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس دن کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے بھی 8 مارچ کو یوم خواتین مان کر 1975 میں اپنے کیلنڈر میں شامل کرلیا۔1977میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ بل پاس کیا کہ خواتین کا بین الاقوامی دن ہر سال 8 مارچ کو باقاعدہ طورپرمنایا جائے گا،یوں فروری کی آخری تاریخ کے بجائے8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایاجانے لگا،یہی سلسلہ تب سے اب تک جاری ہے اور مغرب ویورپ سے ہوتے ہوئے اب عالم اسلام میں بھی ایک مخصوص طبقہ اس دن ’’عالمی یوم خواتین‘‘مناتاہے۔

عظیم الشان فائیو اسٹارہوٹلوں میں پرتکلف سیمینارز کا انعقاد، اخبارات میں رنگین ضمیموں کی اشاعت، کانفرنسوں اور سمپوزیم میں بے نتیجہ مباحثے اور پھر سے ہر سال نئی قراردادوں کے لیے سفارشات اس عالمی دن کی لاحاصل روایات و رسومات کا حصہ تو شروع سے تھے مگر اب سب سے زیادہ مردوں کو تنقید وتضحیک کا نشانہ بنانے کا افسوس ناک سلسلہ شروع ہوچکاہے۔ اس دن کی مناسبت سے ہونے والے تمام پروگرامز،ٹاک شوز اور سیمینارز میں خواتین کے حقوق کی آڑ میں اسلام پر تنقید اوریہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ خواتین کو حقوق تو مغرب نے دیے ہیں ،اسلام نے عورت کو کیا دیا ہے؟کوئی ان سے یہ توپوچھے کہ یہ دن جس ظلم کے ردعمل میں اور جن خواتین کی یاد میں منایاجاتاہے اُن کا تعلق کس دین ومذہب سے تھا؟اُن پر ظلم کون سے ملک نے کیاتھا؟چند سال سے حکومتی سرپرستی میں یہ دن منائے جانے کی وجہ سے اب مادرپدرآزادسوچ کے جراثیم مخصوص سیکولر طبقے سے آگے بڑھ کر عام مسلمان بہن،بیٹی اور بیوی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔وطن عزیزکی ماں ،بہن، بیٹی کوسمجھ لیناچاہیے کہ اسے حقوق مغرب ویورپ کی اندھی تقلید سے نہیں ،بلکہ اسلام کے عادلانہ نظام ہی سے ملیں گے۔آج اُنھیں جو مقام ملا ہوا ہے وہ اسلام ہی کی دین ہے ۔اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو عزت واحترام کی معراج پر فائزکر کے بلندی ِرتبہ کے اوج ثریاکاہم نشیں بنایا، جس نے پہلی مرتبہ عورت کو اپنی ذاتی ملکیت ،اپنی شادی کا فیصلہ اپنی آزادانہ مرضی سے کرنے، اپنی ذاتی جائیداد رکھنے اور کاروبار کرنے، وراثت کا حق اور اپنے دائرے میں رہتے ہوئے ، مردوں کے شانہ بشانہ ، زندگی کے نشیب وفراز میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ۔

اگرآج مسلم معاشرے میں کہیں عورت کواس کاشرعی حق نہیں مل رہا،توقصوراسلام کانہیں ۔غیر جانب دارای سے تجزیہ کیجیے ،آپ کو معلوم ہوگا کہ خواتین کے حقوق سب سے زیادہ مغرب اور یورپ میں پامال ہورہے ہیں ۔ حقوق نسواں کے دعوے دار ہی ان کا استحصال کررہے ہیں ۔مغربی معاشرے نے اپنی بے لگام شہوت کی تسکین کی خاطر عورت کو گھر کی محفوظ چار دیواری سے آزادی کے نام پر باہر نکالا،وہ جو گھر میں شرافت کا مجسمہ بن کر احترام وتوقیر کی علامت تھی،اس سے اس کی نسوانیت جیسی متاع بے بہا چھین کر ہوس ناک شہوانی نگاہوں کا شکار بنادیا ،اسے عزت وشرافت اور عفت وحیا کے ساتھ والدین ، اولاد، بھائی بہن اور شوہر کی خدمت سے باغی بناکر اجنبی مردوں کی خدمت پر مامور کردیا ۔ ہسپتالوں میں نرس اور تیماردار کے نام سے بھرتی کرکے مریضوں سے زیادہ ڈاکٹر وں کے نخرے برداشت کرنے اور ان کی آؤبھگت کرنے کی ذمے داری اس پر ڈال دی ۔ ائیر ہوسٹس کی حیثیت سے اجنبی مسافروں کے سامنے جسم کی نمائش پر مجبور کردیا ۔

آج حقوق نسواں اورمساوات کی آڑمیں مغربی عورت کی شرم وحیا اور عفت وعصمت سربازار نیلام ہورہی ہے،انجام کارمغرب میں خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے،ناجائزبچوں اورکنواری ماؤں کی تعداد آئے روز بڑھ رہی ہے،جس کی وجہ سے خودکشیاں اور طلاقیں بڑھ رہی ہیں ۔ اس کے بالمقابل الحمدﷲ!تمام ترانحطاط وتنزل کے باوجوداب بھی ہمارے گھر اسلام کے مورچے بنے ہوئے ہیں اور ہمارا دشمن اسلام کے ان مورچوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔’ہم توڈوبے ہیں صنم،تم کوبھی لے ڈوبیں گے ‘کے مصداق مغرب ویورپ کے وظیفہ خور چاہتے ہیں کہ مشرقی معاشرے کابھی وہی حال ہواورہمارامعاشرہ اورخاندانی نظام بھی اسی طرح کی شکست وریخت کاشکارہو،جس طرح ان کا معاشرہ ہوا۔اس نوع کی کوششیں آج سے نہیں ،روزاول سے ہورہی ہیں ،مگراب یہ برگ وباراس لیے لارہی ہیں کہ ہم نے خواتین اسلام کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ نہیں کی، ہم نے انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے میں تغافل برتا،جس سے دشمنانِ اسلام نے بھر پور فائدہ اٹھا یا۔عورت انسانی معاشرہ کے نصف سے زیادہ حصہ پر محیط ہے بلکہ مستقبل میں ایسے دور کی نشاندہی تعلیمات نبوی علی صاحبہاالصلو والسلام میں موجود ہے جب مرد وعورت کی تعداد ایک اور چالیس کے تناسب سے ہوگی، پھر عورت کو اپنی جنسِ مخالف پر اثر انداز ہونے اور اپنی بات منوانے کی فطرت نے جو صلاحیت دی ہے،اسلام دشمن عناصر نے اس راز کو سمجھ کر نسوانی قوتوں کابہت ظالمانہ استعمال کیا اورخواتین کو اسلام کے بالمقابل لا کھڑا کردیا ہے ۔

مانا کہ وطن عزیز میں عورت کو اس کے حقوق حاصل نہیں ،لیکن اس کی راہ میں رکاوٹ اسلام اور علمائے کرام نہیں ،وہ لوگ ہیں جو سماجی جکڑ بندیوں کی وجہ سے عورت سے تعلیم کا حق چھین رہے ہیں ،عورت کو ملازمت اور باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنے سے اسلام نے نہیں روکا، بلکہ اس کی راہ میں وہ جاگیردار طبقہ حائل ہے جو عورت کو محض جنسی تسکین کا ذریعہ یا دوسرے درجے کے شہری سے زیادہ کوئی مقام دینے کے لیے تیار نہیں۔عورت پر تشدد اسلام کی تعلیم نہیں اسلام نے اس کی حوصلہ شکنی کی ہے۔عورت کو ونی کرنے یا غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کی چھان بین کرلیجیے،آپ کو ان میں بھی کوئی اسلام پر عمل کرنے والا نظر نہیں آئے گا۔اسلام تو عورت کے احترام کا درس دیتا ہے چاہے وہ مشرک کی بیٹی ہی کیوں نہ ہو،اسلام حالتِ جنگ میں بھی عورت کے قتل سے روکتا ہے،اسلام غیر مسلم عورت کو قید میں بھی تقدس فراہم کرتا ہے۔

 

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 280017 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More