تو نشانِ عزمِ عالی شان

ریاستیں اور ممالک عزم کا نشان ہوتے ہیں؟ کیسے ۔۔۔
یہ سوال نجانے کیوں بار بار ذہن میں پلٹ آتا ہے کہ کیسے؟ اک ریاست کا فقط نام ، اس کی جغرافیائی حدود، اس کے قومی نشانات و ترانے کیسے اک ملک یا سیاست کی پہچان ہو سکتے ہیں ، حالانکہ ہونے کو یہ ممکن ہے کہ وہ ملک اور ریاست اپنے تمام ''قولی برتر اعزازات'' سے مختلف اور برعکس ہو۔ پھر وہ کیا بات ہے اور خیال ہے جو اقوامِ عالم میں کسی اک کی برتری کو طے کرتا ہے؟ میرا ناقص ذہن یہ کہتا ہے کہ کچھ معنی نہیں رکھتا جب تک اس قوم کے افراد ۔۔۔اور مزید اختصار سے کہوں وہ فرد معنی رکھتے ہیں جو کسی قوم، ملک اور معاشرے کی راہ نمائی میں کماحقہ اپنی ذات بھلا کر معاشرے کے مفاد میں لگےہوئے ہوں۔ اگر ہم اقوام کی پہچان ان کے افراد سے کرنے لگیں تو مزید سوال پنپتے ہیں کہ۔۔
ان عظیم افراد کی پہچان کیسے ہوگی جو اپنی ذات کے اغراض سے بالاتر انسانیت کو ترجیح دیئے اپنے دن رات صرف کر رہی ہے؟
کس جہت پر کام کرنے والے فرد کو ہم اپنے ملک و قوم کا ترجمان اور نشان مان لیں؟
معاشرت کے اصولوں کی راہنمائی کافی ہے اک فرد کو رہبر مان لینے کے لئے؟
دینی خدمات کےلئے؟ اک ہی مذہب کی محبت دلوں میں جگانے کے لئے؟ یا باقی مذاہب کا اھٹرام سکھانے والا بھی؟
کس طرح اور پہلو کی راہ نمائی پر ان کو اپنا راہبر مان لیا جائے ؟
امن کی دعوت دینے والا؟ کیا ایسے عجیب انسان کو جو آج کے دور میں مختلف نکتہ نظر رکھنے والے کو بھی سراہنے اور اس کی بات سننے اور احترام کرنے کی تلقین کرتا ہو'' راہبر مان لینا چاہیئے؟
کوئی ایسا الگ انسان مل جائے جو کہے کہ میرے بیٹے اور بیٹیو! دین ہر زمانے میں تمہارا ہے اسے اعزاز کی طرح اپنے سروں کا تاج بناؤ شدت پسندوں کی نظر نہ کر دو، ایسے انسان کو اپنا راہبر ماننا کیسا ہے؟
وہ خدمات قوم کے لئے زمانے تک مفید ہیں؟ زمانہ موجود کے لئے ؟ یا مستقبل قریب میں؟ یا مستقبل بعید میں آنے والی نسلیں اور تشکیل پانے والی معاشرے بھی اس سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں؟
کیا ایسا فرد راہبر ہوسکتا ہے جو بیک وقت بہت ساری زبانیں بولتا اور جانتا ہو؟ یا یہ خامی تصور کی جائے گی؟
کیا ایسا فرد نشانِ ملک و قوم ہو سکتا ہے جس کی دوسری اقوام مثالیں دیں اور اس کی موجودگی کو اپنے لئے باعثِ اعزاز سمجھیں؟
اور ہاں کیا ایسا سکالر ہمارا راہبر ہو سکتا ہے جس کی داڑحی کسی مخصوص گروہ کی داڑحی سے چھوٹی ہو؟
اور کیا ایسا راہبر ہمیں قبول کر لینا چاہیئے جو بتائے کہ ظلم اور نا انصافی ہو تو نماز مسجدوں کے بند دروازوں کے پیچھے ادا کرنے کی بجائے سڑکوں پر ادا کرنی چاہیئے؟
کیا میں ایسے شخص کو راہبرِ قوم مان لوں جو تزکیہ و تصوف کی راہوں سے بھی گزارے اور سر پہ کفن باندھے سڑک پہ بٹھا کہ اس معاشرے کے آئین کا سبق بھی پڑھائے؟
جو احسان کرنے کی تلقین کرے اس کی اہمیت بھی بتائے اور چوروں اور لٹیروں سے اپنے حقوق کی حفاظت کا راستہ بھی دکھائے؟
کچھ سوال آپ کو انتہائی بے تکے لگ رہے ہوں گے اور وہ ہیں بھی۔۔۔
مگر یہ سوال ، چنیدہ سوال ہیں اس بھرمار سے جو میری قوم کسی کو راہبر ماننے سے پہلے پوچھتی ہے۔
دو سال قبل اک آرٹیکل '' رہبرِ ترقی و کمال ''لکھا تھا اس کے کچھ مندرجات یہاں دوبارہ لکھنا چاہوں گی کہ
''وہ کیسا رہبر ہوگا جو ترقی اور کمال کا پیکر ہوگا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح اور حضرتِ علامہ اقبال بلاشبہ وہ شخصیات تھیں جنہیں ہم ترقی و کمال کا پیکر کہہ سکتے ہیں
مگر آج کے دور میں یہ نوجوان نسل، جو امتِ مسلمہ کا مستقبل ہے، اس کا وہ رہبر کون ہے؟ جو ترقی و کمال کا منبع ہو۔جب سر زمیں پاک بھی ہے اور کشورِ حسین
بھی، وہ ارضِ پاک جو عالی شان عزم کا نشان ہو، جو یقین کا مرکز بھی ہو جس سر زمیں کا نظام، قوت، اخوت اور عوام ہو اور جس کی قوم، ملک اور سلطنت
زندہ و پائندہ باد ہوں جس کی منزلِ مراد شاد باد ہو اور اس کا پرچم ستارہ و ہلال سے مزین ہو تو رہبر، رہبرِ ترقی و کمال ہی ہوتا ہے۔''
میرے نزدیک ایسا رہبر ہی '' رہبرِ ترقی و کمال '' ہوتا ہے اور جب ایسا ترقی و کمال کا منبع رہبر ہو ، تو وہی رہبر اس قوم کا ''عزمِ عالی شان '' ہوتا ہے۔ اس کامل رہبر کا عزم ہی اس قوم کا عزم ہو سکتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ رہبر تو ترقی و کاملیت کا منبع ہو مگر اس کا عزم قابلِ فخر نہ ہو؟ یہ بات ممکنات میں سے ہے ہی نہیں۔ اور اگر میں غلط نہیں تو راہبر پہ اٹھنے والے تمام سوالات کا ممکنہ جواب اس پیرائے میں موجود ہیں۔ کہ راہبر اک فرد تو ہو سکتا ہے، لیکن اک ایسا انسان جو اپنے افکار اعمال اورمشن و ویژن میں انفرادیت رکھتا ہو راہبرِ کامل نہیں ہوسکتا۔ راہبرِ کامل کے لئے ضروری ہے کہ وہ جامعیت اور ہمہ گیریت رکھتا ہو۔ پھر وہ انسانی زندگی کے اخلاقِ عالیہ ، تزکیہ نفس تصفیہ باطن ، اصلاحِ احوال اور انسانی اجتماعی و انفرادی مسائل ہوں یا اخلاقیات کی الجھنیں ہوں یا بگڑی معاشیات، سیاسیات کے عروج و زوال ہوں یا قانون کی باریک بینیاں ، ملکی و قومی حالات ہوں یا بین الاقوامی تناظر میں اپنا نکتہ نظرکو تشکیل دینا ہو وہ ہر حالت میں، اور اپنی ہر فکر ایسا نظریہ تشکیل دے جو دنیا و آخرت میں اس کی قوم کی نجات کا حامل بھی ہو اور اعزاز کا بھی۔ ایسا اعزاز تبھی ممکن ہے جب وہ راہبر ایسا ہو جو دینِ اسلام میں اتھارٹی ہو، قرآن و حدییث، اجماع، قیاس، اجتہاد اور شورائیت کی روح کی گہرائیوں تک سے واقف ہو، جس فکر و عمل انسانی حقوق، امن جمہوریت، ترقی پسندی، مذہبی رواداری، فرقہ ورانی ہم آہنگی اور قانوں کی حکمرانی پہ یقین رکھتی ہو۔
اک اور سوال پوچھتی ہوں ۔۔۔
یہ سب ٹوٹے الفاظ اور بکھرے جملے پڑھتے کس اک انسان کا خاکہ بنا آپ کے ذہن نے؟ جو آپ کے نذدیک راہبرِ کامل ہے؟
میری عمر نصیحت کرنے کی عمر سے یقینا بہت کم ہے ابھی مگر پھر بھی کہنا چاہتی ہوں کہ ''قیادت '' ایک '' مہارت'' ہے۔ جسے تعلیم، تربیت اور عمل سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ''راہبری'' قدرت کا تحفہ ہوتی ہے اور وہ تحفی اس اک فرد ،کے لئے نہیں بلکہ قدرت یہ تحفہ اس قوم کو عطا کرتی ہے۔ اور پاکستان میں راہبری کا تحفہ اللہ پاک نے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو عطا کیا ہے۔ اور یہ عطا بھی کیا خوب عطا ہے اور عطا کا حوق ادا کرنا کسی بشر کے بس میں کہاں ہوتا ہے مگر اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس انسان نے اس نعمت کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ سوچیں تو اس اک انسان کی 71 سالہ زندگی کا اک اک لمحہ، مستقبل بعید اور اس کے آگے کے مستقبل بعید کے لئے راہ نما ہے۔
علمی و تحقیقی خدمات ۔۔فقط حدیثیں سنانے والا نہیں صدیوں کے بعد حدیث پر کام کرنے والا راوی و محدث ، ہر موضوعات پہ کتابیں ۔۔۔ مختلف زبانوں میں کتابیں ۔۔۔
تجدیدی و احیائی خدمات ۔۔۔ دین کو آج کی پریشان اور الجھی نسل کے لئے آسان کرنے والا مجدد ۔۔ دین کو بہترین اور اصل صورت میں احیاء کرنے والا محی الدین ۔۔۔ انتہاؤں کو چھوتے نظریات اور افکار رکھنے والی قوم کے معتدل راستے پہ چلانے والا ماڈریٹر ۔۔۔
سیاسی و معاشی خدمات ۔۔۔۔ کسی سیاسی جلسہ میں لوگوں کو بٹھا کر آئین کا تعارف کروانے والا اولین سیاسی لیڈر ۔۔۔ ڈاکٹڑ محمد طاہر القادری کے علاوہ کون ہوسکتا ہے؟ یہ جرات اور کس کے ہاں پائی جاتی ہے ؟ میں ضرور جاننا چاہوں گی۔۔۔
تعلیمی و تربیتی خدمات ۔۔۔۔ آپ کو کسی ایسے دینی و سیاسی قیادت کے بارے میں علم ہے جو کسی بھی حکومت سے کسی بھی طرح کی مدد کی بناء پاکستان بھر میں سکولوں کا اک بڑا نیٹ ورک رکھتی ہو اور اک چارٹرڈ یونیورسٹی رکھتی ہو جہاں ہزاروں طلبہ ہوں اور وہ مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہوںَ، میںکم از کم اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے نام کے علاوہ کسی اور سے واقف نہیں ۔۔ اور ایسا سیاست دان، مصلح اور دینی سکالر جو آئین کے سبق بھی پڑھائے، اللہ سے ٹوٹے رشتے کو بحال بھی کروائے اور آقا صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی محبت کے تحفے بھی بانٹے ۔۔
تنظیمی و انتظامی خدمات ۔۔۔۔ سو سے زیادہ ممالک ۔۔۔ مختلف ماحول اور زبانیں کھنے والے افراد کو اک تنظیمی لڑی میں پرو کر خاندان بنا دینی والے تنظیم ۔۔۔ مجھے تو یہ تصور بھی اقبال کے تصورِ ملت سے قریب ترین لگتا ہے ۔
آپ کسی بھی اک جہت کو اٹھا لیں یا اسی فہرست میں اضافہ کرتے جائیں ۔۔ فلاحی و خیر خواہی، دعوتی و اصلاحی، فکری و انقلابی ہر جہت میں اس عظیم انسان کی زندگی کے 71 سال سیرت و کردار ، عادات و اطوار میں اور فضائل و کمالات میں اک نمونہ ہے۔
آج ملکِ پاکستان میں اک ہی شخصیت ہے جو دعوت دین کی وسعت، جامعیت اور ہمہ گیریت کے اعتبار سے نمایاں ہے۔ جن کی زندگی مسلسل محنت، جدوجہد اور عزمِ مصمم کی خوبصورت کڑی ہے اور وہ شخصیت اور کوئی نہیں بلکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہے۔ان کی زندگی کا مشاہدہ سیاستِ خاصہ سے شروع کریں ، پھر سیاستِ حامہ پر بھی نظر ڈورائیے اور سیاستِ عامہ ( جسے ہم کامیابی کا پہلا زینہ مانتے ہیں در حقیقت یہ منزل بہت آخر میں آتی ہے)۔ بالترتیب بات کروں تو کوئی ایسی قیادت نظر نہیں آتی جس کی تعلیم ابتداء ہی سے جدت و قدامت اور دین و دنیا کا حسین مرقع ہو۔ بات سے ہٹ جائیں گے مگر یہ واقعہ ڈاکٹر صاحب کے چاہنے والوں کے لئے تحفہ ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب اک مرتبہ اک میڈیکل کالج میں خطاب کے لئے تشریف لے گئے۔ خطاب کے بعد وہاں سٹیج پہ کہا گیا کہ ہم تو آپ کو آج تک پی ایچ ڈی ڈاکٹر سمجھتے رہے آج معلوم پڑا کہ آپ میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا: میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہی ہوں، یہ سب کتابیں تو میرے زیرِ مطالعہ رہی ہیں۔
آپ سیاستِ حامہ کی بات کریں تو کسی دینی و مذہبی قیادت کے اہل و عیال کی مثال دیں جس کی اولادیں جدید و قدیم علوم و فنون سے بھرے ہوئے ہوں اور نوجوان نسل کے لئے اس درجہ اتم تک مؤثر کردار ادا کر رہے ہوں۔ کوئی ایسا سکالر بتائیے نا جو عورت سے کہے میری بیٹیوں یہ سب (ہمارے معاشرے کے مطابق عورت چاردیواری میں قید اور گھریلو امور پہ پابند ہے)تمہاری ذمہ داریوں میں شامل نہیں آپ سب کا ظرف اور احسان ہے۔ جو بتائیے کہ بہن، بیٹی کو وراثت میں حصہ دے؟ آجائیے سیاستِ عامہ پہ بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے 75 سالوں کی تاریخ میں قائدِ اعظم اور کمپنی کے علاوہ کون سی سیاست قیادت ایسی ملی جو سیاسی جلسوں میں گالی گلوچ نہیں بلکہآپ کو آئین پڑھائے اور اس کی باریکیاں سمجھائے؟ کوئی اک نام۔۔۔ اگر ہو تو ۔۔۔ تو کیا آپ اب اس بات سے متفق ہیں کہ راہبر ۔۔ کامل ہو تو ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے اور ہر پہلو راہبر کی کاملیت سے ہوتا ہوا راہنما ہو جائے تو وہ راہبر ہی کسی بھی قوم کا ''عزمِ عالی شان ''ہوتا ہے۔
میں ۔۔ اور میرے نسلیں ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی احسان مند رہیں گی کہ اس شدت پسندی کی دور میں آپ نے ہم میں برداشت کا بیج بویا۔۔۔
اس اندھی تقلید کے دور میں آپ نے ہمیں عقل کے راستوں پہ چلاتے ہوئے عشق ۔۔ اور پھر عشقِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی منزل تک پہنچایا۔ میں تو کہتی ہوں کہ ساری زندگی مقروض رہنے کو ان کا یہ احسان بھی بہت کہ انہوں نے ہمیں جنت اور حور و قصور کا لالچ نہیں دیا، بلکہ رب کی رضا کا حریص بنا دیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں میں نے حرف کا بے ڈھنگا استعمال کر کے بے ربط جملوں میں صفحوں کو کالا کرنے کی عجب کاوش کیوں کی ہے میں کہنا صرف یہ چاہتی ہوں کہ کم از کم مجھ سے اس عظیم شخصیت کا احاطہ کسی طور ممکن نہیں، میں اپنے عجز کو مانتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کی 71 سالگرہ پر ان کے دعا گو ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کی زندگی کے یہ اکہتر سال ہمارے لئے اکہتر صدیوں سے آگے مشعلِ راہ رہیں گے۔ میں ہمیشہ کہا اور لکھا کرتی ہوں کہ ان کی محبت کا پہلاتقاضا ہی یہ ہے کہ ہمارے احلاق بہترین ہوں۔ کوئی ڈاکٹر طاہر القادری کو جانے اور مانے اور اس کی وجہ سے کسی کا دل دکھے، ایسا ممکن نہیں۔ اللہ پاک ڈاکٹر طاہر القادری مدظلہ العالی کو عمرِ خضر عطا کرے اور ان کے سرسبز مصطفوی انقلاب کے خواب کو ساحلِ مراد تک پہنطائے اور ہمیں اس کا انقلاب کی راہ کا مسافر بنائے۔

 

Iqra Yousaf Jami
About the Author: Iqra Yousaf Jami Read More Articles by Iqra Yousaf Jami: 23 Articles with 21138 views former central president of a well known Students movement, Student Leader, Educationist Public & rational speaker, Reader and writer. student
curr
.. View More