علامہ فضل حق خیرآبادی اور ١٨٥٧ کا فتوی جہاد

از: ڈاکٹر صابر سنبھلی، سیف خان سرائے، سنبھل مراد آباد
بیسویں صدی کے نصف آخر میں مولانا فضل حق خیر آبادی کو ہندستان کی جنگ آزادی سے الگ کرنے کی ایک علمی کوشش کی گئی ہے۔ ان کوشش کرنے والوں میں دو نام بہت نمایاں ہیں۔ پہلا مولانا امتیاز علی خاں عرشیؔ کا اور دوسرا جناب مالک رام کا۔ بہتر ہے کہ اس کوشش کا ایک علمی جائزہ لے لیا جائے۔
مولانا عرشیؔ کا مندرجہ بالا عنوان سے ایک مضمون پہلے ماہ نامہ ’’تحریک‘‘ نئی دلّی (اگست ۱۹۵۷ئ) میں شائع ہوا تھا۔ دوسری بار یہ ماہ نامہ ’’نیا دور‘‘ لکھنو کے جنوری / فروری ۱۹۸۱ئ کے مشترکہ شمارے میں شاملِ اشاعت ہوا۔ مولانا عرشی ؔنے اس مضمون میں دست یاب ذرائع سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ۱۸۵۷ء کے فتواے جہاد سے علامہ فضل حق خیر آبادی کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ جب کہ اس مضمون کی اشاعت سے قبل اس فتوے کے ذکر کے ساتھ جو سب سے اہم اور مشہور نام جڑا ہوا تھا وہ مولانا فضلِ حق خیر آبادی کا ہی تھا۔ مولانا عرشیؔ کے اس مضمون کی خاصی مخالفت ہوئی۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مولانا عرشیؔ کی اس تحقیقی کاوش پر گہری تنقیدی نظر ڈالی جائے۔
مضمون کے مندرجات سے بحث کرنے سے پہلے یہ لکھ دینا بھی ضروری ہے کہ یہ مضمون مولانا محمد عبدالشاہد خاں شیروانی کی کتاب ’’باغی ٔ ہندستان‘‘ کے چند اندراجات کی تردید میں تھا۔ مولانا شیروانی نے مولانا خیر آبادی کے سوانحی حالات میں اس فتوے اور مقدمے کے بارے میں ’’سیرالعلمائ‘‘ مصنفہ مولانا بہاء الدین گوپاموی کی ایک عبارت نقل کی تھی۔ مولانا عرشی نے اس عبارت کی غلط بیانیوں کا پردہ بھی اس مضمون میں چاک کردیا۔ ’’سیرالعلمائ‘‘ کی عبارت سے، علاوہ فتواے جہاد دینے کے اس مقدمے کے بارے میں مندرجہ ذیل اطلاعات اور ملتی تھیں۔
۱۔ مولانا خیر آبادی نے اپنی صفائی خود پیش کی تھی اور خود بحث کرکے عدالت میں اپنی براء ت ثابت کردی تھی۔ اس کے لیے مولانا خود ہی اپنے اوپر چند الزامات قائم کرتے تھے۔ اور خود ہی بحث میں اُن کو تارِ عنکبوت کے مثل عقلی اور قانونی دلیلوں سے توڑ کر رکھ دیتے تھے۔
۲۔ جیوری کا ایک اسیسر بھی مولانا کی رہائی کا مؤید تھا۔
۳۔ جج نے مولانا سے اُن کے عہد صدرالصدوری میں کچھ دن کام سیکھا تھا اور وہ بھی اُن کو چھوڑنا چاہتا تھا۔
۴۔ گواہ نے بھی کہہ دیا تھا کہ یہ وہ مولانا فضل حق نہیں ہیں، جو سرکار کے مجرم ہیں۔ مجرم دوسرا شخص ہے۔
۵۔ مگر دوسرے دن مولانا نے فتواے جہاد لکھنے کے جرم کا اقبال کرلیا۔
۶۔ جج نے مولانا کو بار بار ٹوکا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، مگر مولانا بلند ہمتی اور شانِ استقلال سے اپنے اقبال پر قائم رہے۔
۷۔ اس پر عدالت نے نہایت رنج کے ساتھ ’’بعبور دریائے شور‘‘ کا حکم دے دیا۔
اتفاق سے یہ ساری اطلاعات غلط اور گمراہ کن تھیں۔ مولانا شیروانی مرحوم کی غیر ذمے داری اتنی تھی کہ انہوں نے مولانا خیر آبادی کے سوانح مرتب کرتے وقت جہاں سے جیسے روایت ملی اُس کو بغیر پرکھے اور جانچے تولے شاملِ کتاب کرلیا۔ مولانا عرشیؔ نے تحقیق کی روشنی میں ان کی تردید کی، یہ نہایت اچھا کیا۔ لیکن نفسِ مضمون یعنی ’’فتواے جہاد‘‘ دیے جانے کے بارے میں مولانا عرشیؔ کی تحقیق سے کافی اختلاف کی گنجایش ہے۔
مولانا عرشیؔ نے مولانا خیر آبادی کے ’’فتواے جہاد‘‘ میں شامل نہ ہونے کے جو دلائل دیے ہیں وہ مندرجہ ذیل معروضات پر مبنی ہیں۔
۱۔ انگریزوں کے خلاف جہاد کا صرف وہی ایک فتویٰ لکھا گیا تھا جس کو انہوں نے ’’سو تنتر دہلی‘‘ سے اپنے مضمون میں نقل کیا ہے۔ (اگرچہ یہ بات انہوں نے واضح الفاظ میں نہیں کہی ہے)
۲۔ جس وقت دلّی میں یہ فتویٰ دیا گیا اُس وقت مولانا خیرآبادی الور میں تھے اور وہ اس فتوے کی اشاعت سے بیس روز بعد واردِ دلّی ہوئے۔
۳۔ مولانا آخر وقت تک اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں لگے رہے اور اس سلسلے میں انہوں نے والی ٔ رام پور نواب یوسف علی خاں بہادر مرحوم و مغفور کو تین خط بھی لکھے جس میں سے آخری خط رضا لائبریری رام پور میں محفوظ ہے۔
مولانا عرشیؔ نے اپنے اس محل کی بنیاد مندرجہ بالا نہایت کمزور پرتوں پر رکھی تھی۔ اس لیے بعد میں محققین نے اس کمزوری کو ظاہر اور ثابت کردیا۔
عرشیؔ صاحب کے ان دلائل پر بحث کرنے سے پہلے اس سلسلے کے ایک دوسرے مضمون کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جناب مالک رام نے ماہ نامہ تحریک نئی دلّی بابت جون ۱۹۶۰ئ؁ میں اپنا ایک مضمون ’’مولانا فضل حق خیر آبادی‘‘ کے عنوان سے شائع کرایا تھا جو بعد میں تحریک کے بیس سالہ انتخاب نمبر بابت اگست ۱۹۷۳ئ میں شائع ہوا۔ ۱ وہی اس وقت میرے پیش نظر ہے۔ اس مضمون میں مالک رام صاحب نے ’’نیشنل آرکائیوز‘‘ سے مولانا خیر آبادی کے مقدمے کی مثل نکلواکر استفادہ کیا، بلکہ اس مثل کے اہم اقتباسات بھی مضمون میں نقل کیے لیکن اس شان کے ساتھ کہ مولانا عرشیؔ نے اُن سے تین برس قبل جو نتائج اخذ کیے تھے صرف اُن کی توثیق اور تائید ہو۔
بعض حضرات کو گمان ہوگا کہ اصل فائل دستیاب ہو جانے کے بعد جو نتائج نکالے جائیں گے اُن سے اختلاف کی کیا گنجایش ہوسکتی ہے۔ لیکن راقم عرض کرتا ہے کہ اس فائل سے اُسی حد تک استدلال کیا جاسکتا ہے جس حد تک مناسب ہو۔ یعنی مقدمے کی تاریخیں اور پیشیاں، گواہان کے نام، شامل مثل کاغذات ملزم اور گواہانِ استغاثہ و صفائی کے بیانات اور عدالت کا فیصلہ وغیرہم ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان شواہد کی روشنی میں ’’سیرالعلمائ‘‘ کے اندراجات بابت مقدمہ (مندرجہ بالا ۱ تا ۷) کی تغلیط بلاشبہہ ہو جاتی ہے۔ البتہ مولانا خیر آبادی کے ’’فتواے جہاد‘‘ کے سلسلے میں اس مثل سے استنباطِ نتائج درست نہیں ہوسکتا۔
یہ سبھی جانتے، دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں کہ ہماری عدالتوں میں انصاف کے حصول کا طریقہ کیا ہے۔ یہاں سب سے زیادہ اہمیت وُکلاء کی ذہانت اور موشگافیوں کی ہوتی ہے۔ یہ طریقۂ انصاف ہم کو انگریزی حکومت نے دیا ہے۔ جو پہلے ہوتا تھا وہ اب بھی ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملزم سے پولس کو کسی دیگر وجہ سے رنجش ہوئی اور اُس نے اُس کو کسی قتل کے کیس میں ماخوذ کر لیا۔ سارا مقدمہ اسی بنیاد پر چلتا ہے۔ کسی سیاسی ملزم کو ڈکیتی میں، قتل کے ملزم کو مصلحتاً قمار بازی یا اشیاے منشیات کے ناجائز کاروبار میں ماخوذ دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک با اثر و با رسوخ سیاسی لیڈر اپنے کم اثر مخالف کو کسی ایسے کیس میں ملزم بنوا دیتا ہے، جس کا جرم اُس سے سرزد نہیں ہوا۔ عدالت کو تحریری اور زبانی ثبوت چاہیے، وہ پولس فراہم کرتی ہے۔ ہر فوج داری کے مقدمے کے گواہان بڑی محنت سے تیار کیے جاتے ہیں۔ پہلے بیانات یاد کرائے جاتے ہیں۔ پھر جرح کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وکیلِ مخالف یہ پوچھے تو یہ جواب دینا، یہ سوال کرے تو یہ کہنا اور اگر گواہ کسی وجہ سے بتائی ہوئی لیک سے ہٹ جاتا ہے تو وہ پولس کا معتوب ہو جاتا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ فوج داری کے مقدمات میں بیان دینے سے پہلے ہر شخص عدالت کے حکم پر پہلے یہ حلف لیتا ہے کہ ’’میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا‘‘ اور اس کے بعد جب وہ بیان دیتا ہے تو بیشتر معاملات میں جو کچھ کہتا ہے وہ ’’سچ‘‘ کے سوا ہی ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ چشم دید گواہوں کے بیانات بھی وُ کلاء کی رنگ آمیزی کے سبب ’’سچ‘‘ نہیں رہتے۔ اگر گواہ کو سکھائے پڑھائے الفاظ یاد نہ رہیں یا عدالت سے مرعوب ہوکر وہ گھبرا جائے یا کوئی مصلحت ہو تو تھوڑا بہت ’’سچ‘‘ بیان میں شامل ہوسکتا ہے ورنہ نہیں اور اسی پر مقدمے کے فیصلے کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔
یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ عہدِ انگلشیہ میں غیر معمولی اور ہنگامی حالات میں کبھی کبھی مقدمات کی نوعیتیں اور عدالت کے فیصلے بھی حکومت کے ایما کے منتظر رہتے تھے تاکہ ملکی انتظام کو جس طرح بھی ممکن ہو کنٹرول میں رکھا جائے خواہ اس کے لیے نا انصافی سے ہی کام لینا پڑے۔
ایسی ہی کچھ نوعیت اس مقدمے کی بھی تھی۔ گواہان کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہسکھائے پڑھائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ استغاثے کے پانچوں گواہوں نے ایک جیسی باتیں کہی ہیں۔ پانچ میں سے چار کا بیان ہے کہ مولانا فضل حق نے اُن کے مرتد ہونے یا واجب القتل ہونے کا فتویٰ اس لیے دیا تھا کہ وہ حکومت انگریزی کے ملازم تھے۔ بلکہ گواہ مرتضیٰ حسین اس جملے کی تشریح اپنی طرف سے کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’مجھے مرتد اس لیے کہا گیا کہ میں حکومت (انگریزی) کا ملازم تھا۔‘‘ اس طرح چار گواہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ وہ فضل حق کو جانتے ہیں (فوج داری مقدمات کی یہ بڑی ضروری لفظیات سے ہے) اسی طرح مولوی احمد اللہ کی جائیداد کی ضبطی کے لیے مولانا فضل حق کا جانا بھی ان بیانات میں مشترک ہے۔
ان بیانات میں ایک بات اور مشترک ہے کہ ’’مولانا فضل حق خیر آبادی نے کوئی فتویٰ نہیں دیا‘‘ ایک گواہ یہ بھی کہتا ہے کہ انہوں نے اُن کے قتل کا یا مرتد ہونے کا فتوی دیا۔ تو گویا جس فتوے کے دیے جانے سے انکار کیا جا رہا ہے ’’وہ فتواے جہاد‘‘ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر گواہوں کو اس پر زور دینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ فردِ جرم پہلے ہی قائم ہو جاتی ہے۔ گواہ واقعات بوندی کے ہیں۔ ’’فتواے جہاد‘‘ کا صدور دلّی میں ہوا۔ پھر اس بے وقت راگنی کی ضرورت کیوں پیش آرہی تھی؟ اس سے تویہی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت مولانا کو قصداً اس شرف سے محروم رکھنا چاہتی تھی تاکہ مجاہدین کی ہمدردیاں اُن کے ساتھ کم ہو جائیں۔
قصہ مختصر یہ کہ دوسرے مقدمات کی طرح اس مقدمے کی بھی ایک موضوعی کہانی تھی۔ جس کا اصلی واقعات سے کوئی تعلق محتاجِ ثبوت ہے۔ ہاں فرد جرم کیا تھی؟ کون گواہانِ استغاثہ، کون گواہانِ صفائی اور کون وُ کلاء تھے یہ معلوم ہوگیا۔ کس تاریخ کو کیا کیا ہوا۔ کس کس نے کیا کیا بیان دیا۔ یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے۔ ان بیانات کی کمک پر فاضل حج نے کیا فیصلہ دیا یہ بھی معلوم ہوگیا۔ طرفین نے کیا کیا درخواستیں گزاریں یا عذر کیے یہ بھی پتہ چل جاتا ہے۔ مگر حقیقتِ حال کیا تھی وہ ہمیں کیا فاضل جج کو بھی معلوم نہیں ہوگی اور آج بھی نہیں معلوم ہوتی ہے۔ ہم شب و روز دیکھتے اور سنتے ہیں کہ کتنے قاتل، ڈکیت، زانی، اسمگلر، چور اور گرہ کٹ وُ کلاء کی موشگافیوں اور ذہانت کے سبب بے داغ اور با عزت بری ہو جاتے ہیں اور مظلو م، بیکس اور بے گناہ سزایاب ہوتے ہیں۔ کیا ان مقدموں کی مثلوں سے ہم حقیقتِ حال کا پتہ لاسکتے ہیں کہ ان میں سے کون واقعی اور کس طرح کا مجرم تھا اور کون بے گناہ تھا۔ جواب ہوگا کہ ہرگز نہیں۔ ۲ پس یہی حال اس مقدمے کی مثل کا ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ ’’سیرالعلمائ‘‘ کی عبارت آرائی بے اصل ہے اور اس کو مولانا عرشیؔ پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں۔ مالک رام صاحب نے اتنی محنت کے بعد اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ انہوں نے اس فائل سے وہی اقتباسات نقل کیے ہیں جن سے اُن کا مدّعا ثابت ہوتا تھا۔ بہت سی ضروری باتوں کو چھوڑ دیا ہے مثلاً فاضل جج کے فیصلے میں دلّی میں مولانا کی باغیانہ سرگرمیوں کے بارے میں دلّی کے کمشنر کی رپورٹ کا ذکر ہے۔ مالک رام صاحب نے اُسرپورٹ کو شاملِ مضمون نہیں کیا۔ شاید اسی خوف سے کہ اس سے اُن کے مدّعا پر آنچ آتی تھی۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اگر کسی شخص پر کسی جرم کی پاداش میں کورٹ میں مقدمہ نہ چلے تو اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ اُس سے اُس جرم کا ارتکاب ہی نہیں ہوا۔ اگر مولانا فضل حق کے خلاف فتواے جہاد دیے جانے کے جرم میں کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا تو اُس سے ا‘ن کے فتویٰ نہ دیے جانے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
یہ ایک ضمنی بات تھی جو زیادہ طویل ہوگئی مگر بات کو صاف کرنے کے لیے یہ طوالت ناگزیر تھی۔ اب مولانا عرشیؔ کی قائم کردہ دلیلوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
مولانا عرشیؔ نے اپنے مضمون میں جو فتویٰ نقل کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے۔
’’کیا فرماتے ہیں علماے دین اس امر میں کہ اب جو انگریز دلّی پر چڑھ آئے اور اہلِ اسلام کی جان و مال کا ارادہ رکھتے ہیں اس صورت میں اب شہر والوں پر جہاد فرض ہے یا نہیں۔ اگر فرض ہے تو وہ فرضِ عین ہے یا نہیں؟ اور لوگ جو شہروں اور بستیوں کے رہنے والے ہیں ان کو بھی جہاد چاہیے یا نہیں؟ بیان کرو اللہ تم کو جزاے خیر دے۔
جواب : در صورت مرقومہ فرضِ عین ہے اوپر تمام شہر کے لوگوں کے اور استطاعت ضرور ہے اس کی فرضیت کے واسطے۔ چنانچہ اب اس شہر والوں کو طاقت مقابلے اور لڑائی کی ہے بسبب کثرتِ اجتماع افواج کے اور مہیا اور موجود ہونے آلاتِ حرب کے تو فرضِ عین ہونے میں کیا شک رہا۔ اور اطراف و حوالی کے لوگوں پر جو دور ہیں باوجود خبر کے فرضِ کفایہ ہے۔ ہاں اگر اس شہر کے لوگ باہر ہو جائیں مقابلے سے یا سُستی کریں اور مقابلہ نہ کریں تو اس صورت میں اُن پر بھی فرض ہو جائے گا اور اسی طرح اسی ترتیب سے سارے اہلِ زمین پر شرقاً اور غرباً فرضِ عین ہوگا اور جو عدوان بستیوں پر ہجوم اور قتل اور غارت کا ارادہ کریں تو اسی بستی والوں پر بھی فرض ہو جائے گا بشرط اُن کی طاقت کے۔
العبدالمجیب احقر نور جمال عفی عنہ
اس جواب کے نیچے حسب ذیل ۳۳ علما کے دستخط ہیں۔
(۱) محترم نذیر حسین (۲) رحمت اللہ (۳) مفتی صدرالدین (۴) منشی اکرام الدین معروف سید رحمت علی (۵) محمد ضیاء الدین (۶) عبدالقادر (۷) احمد سعید احمدی (۸) محمد میر خاں (یامیر محمد خاں) (۹)محمد عبدالکریم (۱۰) سکندر علی (۱۱) محمد کریم اللہ (۱۲) مولوی عبدالغنی (۱۳) محمد علی (۱۴) فریدالدین (۱۵) محمد سرفراز علی (۱۶) سید محبوب علی جعفری (۱۷) محمد حامی الدین (۱۸) سید احمد علی (۱۹) الٰہی بخش (۲۰) محمد مصطفیٰ خاں ولد حیدر شاہ نقش بندی (۲۱) محمد انصار علی (۲۲) مولوی سعید الدین (۲۳) حفیظ اللہخاں (۲۴) محمد نورالحق (۲۵) سراج العلما ضیاء الفقہا مفتی عدالت العالیہ محمد رحمت علی صاحب (۲۶) اللہ الغنی وانتم الفقراء (۲۷) حیدر علی (۲۸) سیف الرحمن (۲۹) سید عبدالحمید (۳۰) محمد ہاشم (۳۱) سید محمد (یاحافظ کو مربع لکھ کر بیچ میں نام لکھا ہے) (۳۲) محمد امداد علی (۳۳) خادم شرع شریف رسول الثقلین قاضی القضات محمد علی حسینی‘‘ (ماہ نامہ ’’نیا دور‘‘ بابت جنوری فروری ۹۸۱ ۱؁ء جلد ۳۵ نمبر ۱۰۔ ۱۱، صفحہ ۶۔۷، مضمون ’’کیا مولانا فضل حق خیر آبادی کا ۱۸۵۷ء کے فتواے جہاد سے تعلق تھا‘‘؟ از مولانا امتیاز علی عرشی)
اگرچہ عرشی ؔ صاحب نے یہ نہیں لکھا ہے کہ اس فتوے پر دستخط کرنے والوں میں مولانا فضل حق خیر آبادی نہیں ہیں اس لیے اُن کا فتواے جہاد سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر ایک عام قاری اس کو پڑھ کر اور اس میں علامہ خیر آبادی کا نام نہ دیکھ کر یہی نتیجہ نکالتا ہے کہ واقعی ۱۸۵۷ء کے فتواے جہاد سے مولانا خیرآبادی کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں (۳۳) اسما کو نقل کیا گیا، ورنہ ان کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔
مولانا عرشی کا پہلا معروضہ یہ ہے کہ ۱۸۵۷؁ء میں دلّی میں جہاد سے متعلق صرف یہی ایک فتویٰ دیا گیا تھا، جس کو انہوں نے اپنے مضمون میں نقل کیا ہے۔ اگرچہ اس بات کی صراحت انہوں نے واضح الفاظ میں نہیں کی ہے مگر چونکہ اس ایک فتوے پر مولانا خیر آبادی کے دستخط نہ موجود ہونے کے سبب انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ مولانا فضل حق خیر آبادی کا ۱۸۵۷؁ء کے فتواے جہاد سے کوئی تعلق نہیں تھا (اگر وہ یہ مانتے کہ اس کے علاوہ بھی کوئی فتویٰ دیا گیا ہے تو وہ اس تنہا فتوے سے یہ استدلال نہ کرتے) اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ عرشیؔ صاحب کی رائے میں صرف یہی ایک فتواے جہاد جاری ہوا۔ لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مولانا عرشیؔ کے اس مفروضے کو حقائق کی کسوٹی پر کسا جائے۔
ماضی کی کتنی تحریریں، کتنی یاد داشتیں، کتنی دستاویزیں دست بُردِ زمانہ سے ضائع ہوگئیں یا ابھی تک ظاہر نہیں ہوئی ہیں اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ عقل تسلیم کرتی ہے کہ جب دلّی میں ہر طرف ’’جہاد جہاد‘‘ کا چرچا تھا تو صرف ایک ہی فتویٰ جاری نہ ہوا ہوگا۔ ثبوت کی عدم دستیابی کے سبب کسی خاص فتوے کی تو نشان دہی نہیں کی جاسکتی البتہ اس موقع پر ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ’’باغی ٔہندوستان‘‘ میں جس فتوے کا ذکر ہے کیا وہ وہی فتویٰ ہے، جس کو مولانا عرشیؔ نے اپنے مضمون میں نقل کیا ہے۔
مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی تاریخ ذکاء اللہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔
’’علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہنچے۔ مشورے کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔ بعد نمازِ جمعہ جامع مسجد میں علما کے سامنے تقریر کی، استفتا پیش کیا۔ مفتی صدرالدین خاں آزردہؔ صدالصدور دہلی، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبر آبادی، سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کر دیے۔ اس فتوے کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔ دلّیمیں نوے ہزار سپاہ جمع ہوگئی تھی۔‘‘ ۳
مولوی ذکاء اللہ کی ’’تاریخِ عروجِ سلطنت انگلشیہ‘‘ سے مولانا عرشیؔ نے بھی اس فتوے کے بارے میں یہ عبارت نقل کی ہے۔
’’مگر جب بخت خاں جس کا نام اہلِ شہر نے کمبخت خاں رکھا تھا دلّی میں آیا تو اُس نے یہ فتویٰ لکھایا کہ مسلمانوں پر جہاد اس لیے فرض ہے کہ اگر کافروں کی فتح ہوگی تو وہ اُن کے بیوی بچوں کو قتل کر ڈالیں گے۔ اُس نے جامع مسجد میں مولویوں کو جمع کرکے جہاد کے فتوے پر دستخط و مہریں اُن کی کرالیں اور مفتی صدرالدین نے بھی اُن کے جبر سے اپنی جعلی مہر کردی۔ لیکن مولوی محبوب علی اور خواجہ ضیاء الدین نے فتوے پر مہریں نہیں کیں اور بے باکا نہ کہہ دیا کہ شرائطِ جہاد موافق مذہب اسلام موجود نہیں‘‘ ۴
ان دو بیانات کی روشنی میں اُس فتوے کا جائزہ لیا جائے، جس کو مولانا عرشیؔ نے اپنے مضمون میں نقل کیا ہے۔ مولانا عرشیؔ کے منقولہ فتوے میں مستفتی کا نام نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا کہ یہی وہ فتویٰ ہے جو جنرل بخت خاں نے حاصل کیا تھا یا کوئی دوسرا۔ فتوے پر مجیب کے علاوہ ۳۳؍ حضرات کے دستخط ہیں۔ جن میں سے ’’باغی ٔہندوستان‘‘ کی روایت کے مطابق قاضی فیض اللہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادی اور سید مبارک شاہ رام پوری کے دستخط اس پر نہیں ہیں۔ ان میں سے صرف مولانا عبدالقادر کے دستخط ہیں اور مولوی ذکاء اللہ نے جن دو عالموں کے دستخط کرنے سے انکار کا تذکرہ کیا ہے اُن میں سے پانچویں نمبر پر مولوی ضیاء الدین اور سو لھویں نمبر پر سید محبوب علی جعفری کے دستخط موجود ہیں۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ مولانا عرشیؔ کا منقولہ فتویٰ وہ نہیں ہے جو جنرل بخت خاں نے حاصل کیا تھا اور جس کا ذکر ’’باغی ٔہندوستان‘‘ اور ’’تاریخ عروجِ سلطنت انگلشیہ‘‘ از ذکاء اللہ میں ہوا ہے۔ اس سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ فتویٰ جنرل بخت خاں کا حاصل کردہ نہیں ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ دلّی میں صرف ایک ہی ’’فتواے جہاد‘‘ جاری نہیں ہوا تھا۔ اس لیے مولانا عرشیؔ کا پہلا مفروضہ یہیں غلط ثابت ہو جاتا ہے۔
عبارت یا سبق میں اُس فتوے کے بارے میں جو جنرل بخت خاں نے حاصل کیا تھا ان الفاظ کا ذکر بھی ملتا ہے۔
’’مسلمانوں پر جہاد اس لیے فرض ہے کہ اگر کافروں کی فتح ہوگی تو وہ اُن کے بیوی بچوں کو قتل کر ڈالیں گے۔‘‘
لیکن مولانا عرشیؔ کے منقولہ فتوے میں نہ یہ الفاظ ہیں نہ ایسا مفہوم رکھنے والے دوسرے الفاظ البتہ یہ الفاظ مولانا فضل حق خیر آبادی کے خیالات کے ترجمان ہیں۔ انہوں نے بہادر شاہ ظفرؔ کو متنبہ کرتے ہوئے ایک بار کہا تھا۔
’’اگر انگریز جیت گئے تو نہ صرف خاندانِ تیموریہ بلکہ سب مسلمان نیست و نابود کر دیے جائیں۔‘‘ ۵
مولانا عرشیؔ نے اپنے مضمون میں مولوی ذکاء اللہ کے حوالے سے لکھا ہے۔
’’جب تک دہلی میں بخت خاں نہیں آیا جہاد کے فتوے کا چرچا شہر میں بہت کم تھا۔ مساجد میں منبروں پر جہاد کا وعظ کمتر ہوتا تھا‘‘ ۶
اس بیان پر حکیم سید محمود احمد برکاتی تبصرہ فرماتے ہیں۔
’’گویا بخت خاں سے پہلے شہر میں جہاد کے فتوے کا چرچا تھا مگر بہت کم تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا فتویٰ تھاجس کا چرچا (بہت کم ہی سہی) مگر تھا؟ ’’جب لوگ جہاد جہاد پکارتے تھے‘‘ اور مساجد میں منبروں پر جہاد کا وعظ (کمتر ہی سہی) ہوتا تھا تو اسی بنیاد پر ہوتا ہوگا نا کہ جہاد کی فرضیت کا فتویٰ ہوچکا تھا؟‘‘ ۷
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایامِ غدر میں وجوبِ جہاد کا صرف وہی ایک فتویٰ نہیں دیا گیا جس کو مولانا عرشیؔ نے اپنے خیال کی سند بنایا ہے اور یہ فتویٰ وہ یقینا نہیں ہے جو بخت خاں نے حاصل کیا تھا۔ اس فتوے پر مولانا ضیاء الدین اور سید محبوب علی کے دستخط دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فتویٰ جنرل بخت خاں کے حاصل کردہ فتوے کے بعد جاری ہوا۔ بعد میں شاید یہ دونوں عالم اس کے لیے تیار ہوگئے ہوں۔ یہ فرق ایک دن سے ایک عشرے تک کا ہوسکتا ہے۔
مولانا عرشیؔ کا دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ فتواے جہاد کے اجرا کے وقت مولانا خیر آبادی الور میں تھے اور وہ اس کے جاری ہونے کے تقریباً بیس دن بعد دلّی میں وارد ہوئے۔
مطبوعہ فتوے پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔ مولانا عرشیؔ مولوی ذکاء اللہ کی تاریخ کے حوالے سے اطلاع دیتے ہیں کہ بخت خاں دلّی میں جولائی کے اوائل میں آیا (نیا دور شمارہ مذکورہ ص۶) اس لیے اس نے فتویٰ بھی اُس کے بعد ہی حاصل کیا ہوگا۔ دوسری طرف مولانا عرشیؔ نے جس فتوے کو زیر نظر مضمون کا جزو بنایا ہے وہ چونکہ ۲۶ جولائی ۱۸۵۷ء کو دلّی کے اخبار الظفر یا صادق الاخبار یا دونوں میں ایک ساتھ چھپا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ یہ فتویٰ اس تاریخ سے پہلے صادر ہو چکا تھا۔ مولانا عرشیؔ نے ’’باغی ٔہندوستان‘‘ کے ایک اندراج سے جو منشی جیون لال کے روز نامچے سے نقل ہوا تھا یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مولانا فضل حق ۱۶ اگست کو واردِ دہلی ہوئے۔ منشی جیون لال کے الفاظ یہ ہیں۔
’’۱۶ اگست ۱۸۵۷ئ
’’مولوی فضل حق شریک دربار ہوئے۔ انہوں نے اشرفی نذر میں پیش کی اور صورتِ حالات کے متعلق بادشاہ سے گفتگو کی۔‘‘ (بحوالہ باغی ٔہندوستان طبع سوم ۱۴۰)
اور مولانا فضل حق خیر آبادی نے مقدمے کی صفائی میں یہ بیان دیا تھا۔
’’میں راجا الور کے یہاں ملازم تھا اور بغاوت شروع ہونے کے زمانے میں اُسی کے پاس تھا۔ راجا بنے سنگھ کی وفات کے بعد ایک مہینے تک میں الور میں رہا۔ میں اگست ۱۸۵۷ء میں الور سے روانہ ہوا اور دہلی آیا۔ وہاں مَیںپندرہ روز رہا پھر الور واپس چلا گیا۔‘‘ (ماہنامہ ’’تحریک‘‘ دلّی بیس سالہ انتخاب نمبر ص ۱۳۵)
لیکن مولانا کا یہ بیان بھی آنکھیں بند کرکے قبول کرنے کے قابل نہیں ہے۔ مقدماتِ فوج داری میں فریقین یعنی استغاثہ اور صفائی اپنے بیانات میں جی بھر کر جھوٹ بولتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مستغیث کی جانب سے ملزم کو پھنسانے کے لیے جھوٹ بولا جاتا ہے اور ملزم کی طرف سے حصولِ نجات کے لیے۔ چشم دید گواہان بھی اگر ہوں تو اُن کے آنکھوںدیکھے واقعات کو وُکلاء قانونی رنگ میں پیش کراتے ہیں۔ بلکہ بیشتر تو چشم دید گواہ ہوتے ہی نہیں۔ جو پیش کیے جاتے ہیں وہ مصنوعی ہوتے ہیں اور اُن کو ظاہر چشم دید کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مولانا خیر آبادی بھی اپنی نجات کے لیے صفائی دے رہے تھے۔ اس کے برعکس ان کا جولائی میں دلّی میں ہونا ثابت ہوتا ہے (جس کا ذکر آگے آئے گا) پھر اس میں چند قباحتیں ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ راجا بنے سنگھ کی وفات کے بعد مولانا ایک ماہ تک الور میں کیا کرتے رہے؟ ان ہنگامی حالات میںشہر دلّی میں اُن کی بیوی امرائو بیگم اور دو بیٹے شمس الحق اور علاء الحق موجود تھے اور وہاں قیامتِ صغریٰ برپا تھی۔ کیا وہ بال بچوں سے بے نیاز ہوگئے تھے؟ کیا عیدالاضحی جیسے مقدس تہوار (یکم اگست ۱۸۵۷ئ) پر بھی اُن کو اپنے اہل و عیال یاد نہیں آئے۔ علاوہ ازیں جب کہ راجا بنے سنگھ کی وفات ۱۵ جولائی ۱۸۵۷ء کو ہونا ثابت ہے (’’تحریک‘‘ ۲۰ سالہ انتخاب نمبر ص ۱۳۶) تو اس کے ایک ماہ بعد ۱۵ اگست کو الور سے چل کر ۱۶ اگست کو کس طرح دلّی پہنچ گئے جب کہ یہ مسافت اسّی ۸۰ میل ہے اور اُس زمانے کے ذرائع کے مطابق کم از کم چار دن کا سفر تھا؟ غرض کہ یہ بیان ہرگز ہرگز قابلِ اعتنا نہیں ہے۔ یہ اُن کے وکیل کا سکھایا ہوا مصلحت پر مبنی بیان ہے۔ مولانا نے اس بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ پندرہ دن دلّی میں رہ کر واپس چلے گئے۔ اس طرح اُن کو اگست میں دلّی کو خیر باد کہہ دینا چاہیے تھا۔ لیکن ’’الثورۃ الہندیہ‘‘ کی ایک عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں کا دلّی پر پورا قبضہ ہو جانے کے پانچ دن بعد انہوں نے دلّی کو چھوڑا (باغی ٔ ہندوستان طبع سوم ص ۲۶۷) یعنی اس بیان کے مطابق انہوں نے ۲۴ ستمبر کو دلّی کو چھوڑا (کیونکہ دلّی پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ۱۹ ستمبر کو ہوا تھا) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا کے کس بیان کو بادر کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ الثورۃ الہندیہ کے اندراجات مبنی بر مصلحت نہ ہونے کے سبب زیادہ وقیع ہیں اور جیون لال کے روز نامچے سے بھی۱۶ اگست تا ۷ ستمبر ان کا دلّی میںموجود ہونا اور چار بار بادشاہ کے روبرو حاضر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (باغی ٔہندوستان طبع سوم ص ۱۴۰، ۱۴۱) اس لیے اس کے مقابلے میں کورٹ میں دیے گئے بیان کو خلافِ واقعہ تسلیم کرنا ہوگا۔
مولانا کے پندرہ دن دلّی میں ٹھہر کر ۲۴ ستمبر کو وہاں سے روانہ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ۹ ستمبر کو دلّی پہنچے ہوں گے۔ یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی نہیں کہ الور سے پندرہ اگست کو چل کر آدمی پچیس، چھبیس دن میں دلّی پہنچے جس کی مسافت ۸۰ میل ہے۔ مالک رام صاحب خود بھی اس بیان سے مطمئن نہیں ہیں جو انہوں نے کورٹ میں دیا۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’میرا اپنا خیال یہ ہے کہ عدالت میں جو کچھ انہوں نے کہا یہ غالباً ٹھیک نہیں‘‘
(’’تحریک‘‘ شمارہ مذکور ص ۱۳۷)
مالک رام صاحب کیا اس کو کوئی ذی فہم درست تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ تحقیق میں عدالت میں دیے گئے بیان کو سچ تسلیم کرنے کی بھی گنجایش بہت کم ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ مولانا عرشیؔ کے سامنے مولانا خیر آبادی کا کورٹ میں دیا ہوا بیان نہیں تھا اس لیے اب یہ غور کرنا چاہیے کہ انہوں نے منشی جیون لال کے الفاظ سے صحیح نتیجہ نکالا ہے یا نہیں۔ مولانا خیر آبادی کا ۱۶ اگست کو شریکِ دربار ہونا اس بات کا حتمی ثبوت نہیں ہوسکتا کہ وہ اسی روز الور سے آئے تھے۔ اس بارے میں حکیم سید محمود احمد برکاتی رقم طراز ہیں۔
’’یہ کیا ضروری ہے کہ مولانا جب بھی دربار میں آئے ہوں جیون لال ضرور لکھے۔ مثلاً ۱۹ اگست کو بھی عبدالطیف کے بیان کے مطابق مولانا بادشاہ سے ملے تھے (غدر کا تاریخی روز نامچہ از خلیق احمد نظامی) مگر جیون لال کا روز نامچہ خالی ہے۔ اگر جیون لال کے ان الفاظ سے کہ ’’مولوی فضل حق شریکِ دربار ہوئے اور انہوں نے ایک اشرفی نذر کی‘‘ یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ یہ پہلی بار شریک دربار ہونے کا ثبوت ہے تو جیون لال نے ۱۰ اگست کے روز نامچے میں جو یہ لکھا ہے کہ ’’حکیم احسن اللہ شریک دربار ہوئے اور ایک اشرفی پیش کی‘‘ (۲۱۳) تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ حکیم صاحب بھی پہلی بار کہیں سے دہلی ۱۰ اگست ۱۸۵۷ء کو آئے تھے اور پہلی بار شریکِ دربار ہوئے تھے۔‘‘ (فضل حق اور سن ستاون ص ۷۵ و ۷۶)
سچ یہ ہے کہ مولانا عرشیؔ کے استدلال کا یہ طریقہ کچھ زیادہ وقیع نہیں ہے۔ کیونکہ ماہِ جولائی میں ہی مولانا کی دلّی میں موجودگی کے بارے میں ایک ثبوت موجود ہے۔ حکیم برکاتی نے مولوی ذکاء اللہ کا یہ بیان ان کی تاریخ سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔
’’انھوں (مولانا فضل حق) نے بادشاہ (بہادر شاہ) کے لیے ایک دستور العمل سلطنت لکھا تھا، جس کی ایک دفعہ یہ مشہور ہوئی تھی کہ گائے کہیں بادشاہی عمل داری میں ذبح نہ ہو‘‘ (ایضاً ص ۷۷)
مولوی ذکاء اللہ کا ہی اس بارے میں دوسرا بیان ہے۔
’’۹ جولائی ۱۸۵۷ء کو اوّل حکم بادشاہ کا صادر ہوا وہ یہ تھا کہ گائے کہیں ذبح نہیں کی جائے گی۔ ۹جولائی کو ڈھنڈورا پٹوایا کہ جو گائے ذبح کروائے گا وہ توپ کے منھ سے اُڑایا جائے گا۔‘‘ (فضل حق اور سن ستاون ص ۷۷، ۷۸)
یہ عیدِ قربان کی انتظامی پیش رفت تھی۔ مولانا خیر آبادی کو یہ دستور بنانے میں یقینا کچھ وقت لگا ہوگا وہ بیچ بیچ میں بادشاہ سے مشورے بھی کرتے رہے ہوں گے۔ اس لیے مولانا کا ۹ جولائی سے پہلے ہی دلّی میں موجود ہونا قرین قیاس ہے۔ دوسری طرف عیدِ قربان (یکم اگست) کو بھی ان کا دلّی سے باہر ہونا ذہن قبول نہیں کرتا۔ عید ہر شخص اپنے اہل و عیال میں ہی مناتا ہے۔ اس کے انتظامات مثلاً جانور کی خریداری، کپڑوں کی تیاری اور مکان کی صفائی جیسے کاموں کے لیے بھی انہیں کم از کم ہفتہ عشرہ پہلے دلّی میں موجود ہونا چاہیے۔ اغلب یہ ہے کہ اس درمیان وہ الور کو گئے ہی نہ ہوں یا ایک دو روز کے لیے چلے گئے ہوں۔ کیونکہ دلّی سے الور کے اسّی ۸۰ میل کے فاصلے کے لیے کم از کم چار دن آنے کے اور چار دن جانے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ ان سب امور کو پیش نظررکھتے ہوئے ان کا ۱۹ اگست کو پہلی بار دلّی آنا عقل تسلیم نہیں کرتی۔
حکیم برکاتی صاحب ڈاکٹر سید معین الحق کی انگریزی تصنیف THE GREAT REVOLUTION OF 1857 کے حوالے سے سید مبارک شاہ (جو دورانِ غدر دلّی کا کوتوال رہا تھا) کا بیان نقل فرماتے ہیں کہ
’’شاہ نے (۱) جنرل بخت خاں (۲) مولوی سرفراز علی اور (۳) مولوی فضل حق پر مشتمل ایک کنگ کونسل تشکیل دی تھی۔ مبارک شاہ ہی نے ایک جگہ اس کو پریوی کونسل بھی لکھا ہے‘‘ (ایضاً ص ۵۲)
اس کونسل کی تشکیل کے بعد مولانا فضل حق اور جنرل بخت خاں کے اکثر صلاح و مشورے ہوتے رہے ہوں گے۔ مولانا فضل حق کا ۹ جولائی سے پہلے سے دلّی میں موجود ہونا ثابت ہے۔ جنرل بخت خاں کا جولائی کے اوائل میں دلّی میں آنا عرشیؔ صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس ماہ میں ۱۰، ۱۷، ۲۴، اور ۳۱ تاریخوں کو یومِ مقدمہ جمعہ پڑا تھا۔ امکان یہی ہے کہ ان چار دنوں میں سے ۱۰ یا ۱۷ جولائی کو جنرل بخت خاں نے مولانا سے فتوے پر دستخط کرالیے ہوں گے اور جب کنگ کونسل میں شمولیت کے سبب دونوں میں قربت تھی تو یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ بخت خاں فتوے پر دوسرے علما سے تو دستخط کراتا مگر مولانا خیر آبادی سے نہ کراتا۔ مولانا کے دستخط کرنے سے انکار کا کوئی ثبوت کہیں نہیں ہے (یہ الگ بات ہے کہ وہ فتویٰ کہیں دستیاب نہیں ہوا ہے) اور وہ انکار کرتے بھی کیوں؟ جب کہ اُن کی مجاہدانہ سر گرمیاں اظہر من الشمس ہیں۔ جو اس بات میں زیادہ معلومات کے خواہاں ہیں وہ سید محمود احمد برکاتی کی کتاب ’’فضل حق اور سن ستاون‘‘ ملاحظہ فرمائیں، جس میں انہوں نے مدلل تحریر فرمایا ہے کہ مولانا نے بہادر شاہ کو انگریزوں سے مقابلے کے لیے مفید مشورے دیے، ہندو مسلم اتحاد کی سعی میں پیش پیش رہے، ترغیبِ جہاد کے لیے وعظکیے، سپاہ کو ترغیبِ جہاد دی، باغی فوج کی کمان کی اور یہاں تک کہ حکیم برکاتی صاحب نے فوجوں کو لڑانے تک کی نشان دہی کی ہے۔
مولانا عرشیؔ کی تیسری دلیل یہ ہے کہ وہ برابر اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں لگے رہے۔ چنانچہ اس سلسلے کے تین خطوط میں سے جو والی ٔ رام پور نواب یوسف علی خاں مرحوم کو لکھے گئے تھے ایک رضا لائبریری میں محفوظ ہے۔ اس میں انہوں نے خود کو ہر طرح بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مولانا فضل حق از اوّل تا آخر اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں لگے رہے۔ وہی کیا ہر مجرم یہی کرتا ہے۔ ۹۹ فی صد قاتل اور وہ بھی جو موقع پر گرفتار کر لیے گئے ہوں اپنے کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ اقبالِ جرم ایک فی صد سے بھی کم ہوتا ہے اور انسانی نفسیات بھی یہی ہے کہ سزا کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ اگر مولانا نے بھی یہ کیا تو یہ اُن کی باغیانہ سر گرمیوں کے منافی نہیں کہا جاسکتا۔ بہادر شاہ ظفرؔ نے بھی یہی کیا۔ خاں بہادر خاں شہید نے بھی ایسا ہی کیا اور انہیں پر کیا موقوف ہے نہ جانے کتنوں نے یہ طریقہ اختیار کیا اور اپنی جان چھڑائی۔ کالی داس گپتا رضاؔ لکھتے ہیں۔
’’مقدمے اور ما بعد کے رویّے سے قطع نظر جو میرے خیال میں مولانا نے اپنی جان بچانے اور رہائی حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا وہ جنگ ِ آزادی سے پوری طور پر متاثر تھے۔‘‘ ۸
اس باب میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولانا نے بعد میں جو رویّہ اختیار کیا وہ ان کی عالمانہ اور مجاہدانہ شان کے سراسر خلاف تھا۔ بے شک ایسا کہنا درست ہے مگر کیا کیا جائے یہ انسانی فطرت ہے اور مولانا بھی انسان تھے۔
مولانا عرشیؔ نے نواب یوسف علی خاں کے نام جس عرضی کا ذکر کیا ہے اگر وہ عرضی واقعی مولانا فضل حق خیر آبادی کی لکھی ہوئی ہو تب بھی اُس کو رہائی کی کوشش سے زیادہ درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ اس عرضی سے زیادہ اظہارِ براء ت جرم تو مقدمے کی مثل کے کاغذات سے ہوتا ہے جو مضمون لکھتے وقت مولانا عرشیؔ کے سامنے نہیں تھے۔ لیکن لطف یہ ہے کہ ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ وہ عرضی مولانا خیر آبادی کی نوشتہ ہے یا اُن کے ایماء سے لکھی گئی ہے۔ جب اس عرضی کا زیادہ چرچا ہوا تو مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی مرحوم نے رام پور آکر خود اس عرضی کو دیکھا۔ اُن کا بیان ہے کہ وہ عرضی مولانا خیر آبادی کے خط (تحریر) میں نہیں ہے۔ اور نہ اُس پر اُن کے دستخط ہیں۔ عرضی کے آخر میں صرف اُن کی مہر لگی ہوئی ہے۔ یہ بیان انہوں نے روز نامہ دعوت دلّی بابت ۲۸ فروری ۱۹۸۲ء میں شائع ہونے والے ایک مراسلے میں دیا تھا۔ اخبار اس وقت میرے پیش نظر نہیں ہے۔
مولانا عرشیؔ کی اطلاع کے مطابق یہ عرضی ۱۸ فروری ۱۸۵۸ء کی نوشتہ ہے یعنی حکم سزا سے دو روز قبل کی۔ اس وقت وہ حوالات میں تھے اس لیے اُن کے پاس مہر ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انگریزیحکومت کی قید و بند میں باغیوں کے ساتھ نہایت سخت برتائو کیا جاتا تھا۔ دوسرے ایسی حالت میں یہ عرضی اُن کی ہی تحریر میں ہونی چاہیے تھی۔ اُس وقت اُن کی خدمت میں منشی یا محرّر کہاں موجود تھے جو وہ ان سے لکھا لیتے اور اگر کسی دوسرے سے لکھا بھی لیتے تو بھلا دستخط کیوں نہ کرتے؟
اس درخواست کے بغور مطالعے کے بعد عرشیؔ صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بقول مولانا خیر آبادی کورٹ میں اُن پر مندرجہ ذیل تین الزام عائد کیے گئے تھے۔
’’(۱) نواب خان بہادر خاں نبیرئہ حافظ رحمت خاں بہادر نے جب انگریزوں کے خلاف بریلی میں بغاوت کی تو مولانا نے اُن کا ساتھ دیا اور اُن کی طرف سے نظامت پیلی بھیت کا کام انجام دیا۔
(۲) جب انگریزوں نے بریلی فتح کرلی تو مولانا یہاں سے بھاگ کر اودھ پہنچے اور خان علی خان کی طرف سے ریاست محمدی کے چکلہ دار مقرر ہوئے۔
(۳) مولانا نے اس کے ایک باغی لشکر کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی۔‘‘
(’’نیا دور ‘‘ لکھنؤ شمارہ مذکور ص ۹)
مالک رام صاحب نے مولانا کے مقدمے کی مثل کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اُن کی فردِ جرم کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے۔
’’اوّل۔ پوری بغاوت کے دوران میں بالعموم لوگوں کو بھڑکانا۔
دوم۔ ۱۸۵۸ء میں بالخصوص اودھ میں بغاوت پر اُکسانا‘‘۔ (تحریک ۲۰ سالہ انتخاب نمبر ص ۱۴۰)
ان دونوں میں سے مالک رام صاحب کی فردِ جرم صحیح ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس کو مقدمے کی مثل سے حاصل کیا ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں فردوں میں کوئی ایک نکتہ بھی مشترک نہیں ہے۔ کیا مولانا خیر آبادی اس بات سے بھی واقف نہ تھے کہ اُن پر کیا کیا الزام لگائے گئے ہیں؟ جب رضا لائبریری میں محفوظ عرضی مولانا کی تحریر میں اور اُن کی دستخطی بھی نہیں ہے اور اُس میں درج فردِ جرم بھی خلافِ حقیقت ہے تو اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اُن کے کسی ہمدرد نے جو حالاتِ مقدمہ سے بھی بخوبی واقف نہ تھا اور مولانا کی مہر اس کی دسترس میں تھی اُن کی جانب سے یہ عرضی بلکہ اس سے پہلی دونوں عرضیاں جو تلف ہوگئیں اور جن کا صرف ذکر اس عرضی میں موجود ہے لکھ کر نواب یوسف علی خاں کو ارسال کردیں کہ شاید نواب صاحب کو کچھ رحم آجائے اور وہ کوشش سفارش کردیں تو مولانا کو اس مصیبت سے نجات ملے۔
مولانا خیر آبادی اگر کسی سفارش کی ضرورت سمجھتے تو وہ نواب رام پور کے بجائے اپنے عزیزوں کو خط لکھتے جو سرکارِ انگریزی میں اچھا اثر رکھتے تھے۔ وہ محبت اور ہمدردی کے ساتھ اس کام کو انجام دینے میں دریغ بھی نہ کرتے۔ چنانچہ ’’باغی ٔہندوستان‘‘ طبع سوم کے ص ۲۸ پر ڈاکٹر محمد ریاض کے ایک مضمون کا ایکپیراگراف چھپا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا خیر آبادی کے چھوٹے بھائی سردار فضل الرحمن ریاست پٹیالہ کے وزیر تھے۔ نواب کرناٹک اُن کے قریبی عزیز تھے۔ نواب سید برکت علی خاں بہادر جو انگریزی سرکار میں بڑے مقتدر تھے اُن کے بھانجے تھے۔ مگر مولانا کے اس قسم کے خطوط اُن کے نام لکھنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لہٰذا مولانا عرشیؔ کی نقل کردہ یہ عرضی اس معاملے میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔
مولانا عرشیؔ نے اپنے مضمون میں ایک بات اور کہی ہے کہ اگر مولانا خیر آبادی نے ’’فتواے جہاد‘‘ دیا ہوتا تو وہ ’’الثورۃ الہندیہ‘‘ میں اس کا ذکر ضرور کرتے۔ ظاہر ہے کہ یہ استدلال کا کوئی طریقہ نہیں ہوا۔
یہ بھی تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر انہوں نے ’’فتواے جہاد‘‘ نہیں دیا تھا اور اُن کے بارے میں غلط شہرت ہوگئی تھی تو وہ اس فتویٰ نہ دینے کاذکر ’’الثورۃ الہندیہ‘‘ میں ضرور کرتے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس لیے یہ دلیل بھی بے وزن ہوکر رہ جاتی ہے۔
لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ مولانا فضل حق کے ’’فتواے جہاد‘‘ نہ دیے جانے کے بارے میں اب تک جو دلائل دیے گئے ہیں وہ بے وزن اور بے حقیقت ہیں۔
حوالہ جات
۱ ماہ نامہ ’’تحریک‘‘ دلّی بابت اگست ۱۹۷۳ئ (بیس سالہ انتخاب نمبر) جلد ۲۰، شمارہ لا معلوم ۱۳۲۔۱۵۱
۲ اگر کسی کا جواب اثبات میں ہو تو میں اس کو ایک ایسے شخص کے بارے میں بتائوں گا جس پر مختلف اوقات میں تین بار قتل کے مقدمے چل چکے ہیں۔ دو بار جھوٹے اور ایک بار سچّا۔ وہ شخص تینوں بار بَری ہوا ہے۔ میں ہر ایسے شخص سے گزارش کروں گا کہ وہ تینوں مقدموں کی مثلیں دیکھ کر یہ بتائے کہ سچا مقدمہ کون سا تھا اور جھوٹے کون سے تھے۔
۳ ’’باغی ٔ ہندوستان‘‘ مرتبہ محمد عبدالشاہد خاں شیروانی طبع سوم ناشر مکتبۂ قادریہ لاہور ۱۹۷۸ء ص ۱۴۱
۴ مضمون کیا مولانا فضل حق خیر آبادی کا ۱۸۵۷ء کے فتواے جہاد سے تعلق تھا؟ مشمولہ ’’نیا دور‘‘ لکھنؤ بابت جنوری / فروری ۱۹۸۱ئ ص ۶۔
۵ حکیم احسن اللہ خاں کی یاد داشتیں (انگریزی) مرتبہ ڈاکٹر معین الحق بحوالہ ’’فضل حق خیر آبادی اور سن ستاون‘‘ مصنفہ حکیم سید محمود احمد برکاتی ناشر برکات اکیڈمی کراچی مئی ۱۹۷۵ء ، ص ۷۱۔
۶ ماہ نامہ ’’نیا دور‘‘ لکھنؤ بابت جنوری / فروری ۱۹۸۱ئ، ص ۵۔
۷ ’’فضل حق اورسن ستّاون‘‘ ص ۷۰۔
۸ مضمون ’’مولانا فضل حق خیر آبادی کا ایک تاریخی قصیدہ‘‘ مشمولہ ’’ہفتہ وار ہماری زبان‘‘ دلّی بابت یکم جنوری ۱۹۸۰ئ جلد ۳۹ شمارہ ۱ ،ص ۱ ، کالم ۴۔٭٭٭٭٭٭٭
 
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 402422 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.