ہزارہ کو عزت دو

اس موضوع پر پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اب بھی لکھ رہا ہوں کہ صوبہ ہزارہ کی منزل پہلے سے بھی دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے دانستہ بھی اور نادانستہ بھی سچ تو یہ ہے کہ یہ حث اس وقت ہیکمزوع پر گئی تھی جب بابا حیدر زمان اکیلے رہ گئے تھے سیاسی پرندے اپنی اپنی پسند کی پارٹیوں کے چبوتروں پر جا بیٹھے تھے اور بابا اپنے ڈیرے پر تنہا رہ گئے تھۓ ۔تحریک صوبہ ہزارہ پر کالم لکھتے وقت مجھے وہ لطیفہ یاد آ گیا
ایک سردار صاحب کینیڈہ گئے کافی پیسے کما لئے انہوں نے ایک گھر بنا لیا بڑا خوبصورت گھر کھلے ہوا دار کمرے اور ان کے باہر کشادہ لان
جو بھی آتا سردار صاحب انہیں اپنے اس محل نما۔گھر کی سیر کراتے لان میں انہوں نے تین سویمنگ پول بنا رکھے تھے مہمان نے پوچھا سردار جی یہ تین پول کس لئے کہنے لگے یہ ایک پول ٹھنڈے پانی کا ہے دوسرا گرم پانی کا تیسرے کا بتاتے وقت رک گئے
اصرار پر بتایا بھائی جان یہ تیسرا پول میں نے اس لئے بنایا ہے کہ کبھی کبھی نہانے کو دل نہیں کرتا تو میں یہاں آجاتا ہوں
ہزارہ کی قیادت بھی اس تیسرے پول میں آن بیٹھی ہے جو اقتدار میں ہیں وہ تیسرے پول سے ہٹ کر مزے کے من پسند پولوں میں مزے کر رہے ہیں ۔لیکن سب سے اچھی بات ہے اس قافلے کے سردار ،سردار محمد یوسف اپنے مہذب باوقار ساتھی حافظ سجاد قمر کے ساتھ اس ،،نحیف ونزار،، قافلے کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہیں ۔سینیٹر طلحہ اپنے اچھے تعلقات کو استعمال کر رہے ہیں اور ان کا کردار ایسے ہی ہے جیسے ہی ٹی آئی کے 2018 کے دنوں میں جہانگیر ترین کا تھا ویسے بھی تحریکوں میں اگر جہانگیر ترین جیسے لوگ نہ ہوں تو وہ ٹھس ہو جاتی ہیں ۔
میں نے دیکھا کہ جے یو آئی نون لیگ کی بڑی تگڑی نمائیندگی موجود ہے اور مزے کی بات ہے احباب اپنے دل کے اندر عمران مخالف جذبات کا گاہے گاہے ذکر بھی کر جاتے ہیں ۔
پی ٹی آئی کا کوئی حکومتی نمائیندگی یہاں موجود نہیں ہے ۔نہ سپیکر نہ وزیر اک میں فقیر چلا جاتا ہوں جس کا ہزارہ اپنے گائوں میں بھی شادی بیاہ یا کوئی خاص موت مرگ ہو جانا پڑتا ہے
ان حالات میں سردار محمد یوسف کا کمال ہے وہ اس تحریک کو لے کر چل پڑے ہیں اور اپنی بردباری اور نیک نیتی کی وجہ سے وہ ہر مکتبہ ء فکر کے لوگوں کو لے کر چل رہے ہیں صادق سنجرانی کی خوبصورت باتوں میں مجھے سب سے اچھی بات یہ لگی کہ اس پاکستان کے ہر ضلعے اور ہر صوبے کو اللہ نے نواز رکھا ہے کوہستان کے ہاس اگر پانی بجلی ہے تو چاغی کے پاس معدنیات لہذہ ہمیں اسے پاکستان کی دولت سمجھ کر سوچنا ہو گا
کوہستان اے ایک بڑی دانشور آواز ایک سابق ایم پی اے کی ہے جن کا۔نام عبدالستار ہے وہ اپنے ضلعے کے ڈوبنے کا ذکر کر رہے تھے اور آباء و اجداد کی قبروں کی فکر کر رہے تھے
میں نے اپنی مختصر گفتگو میں کہا سنگی آپ تو ابھی ڈوبے نہیں ہم ہری پور والے ڈوب چکے ہیں اور تربیلا کے متاثرین آج بھی در بدر ہیں ۔
قارئین ہزارہ تباہ دے
وہ اس لئے کہ فاٹا کے انضمام کے بعد ہزارہ اقلیت بن کے رہ گیا ہے اس بات کا خدشہ ہیر صابر شاہ بھی کر چکے ہیں ۔
میں نے اپنی گفتگو میں کہا تھا کہ یہ نہ سمجھیں کہ پارٹیوں میں ایک جیسی سوچ ہوتی ہے ہزارہ کے بارے میں ہماری اپنی پارٹی میں مختلف سوچ پائی جاتی ہے ۔میرا اپنا خیال ہے کہ سپریم کونسل کے ہر شخص کو اپنی پارٹی کے اندر ر لابنگ کی ضرورت ہے ۔
پروفیسر عنایت علی خان کا وہ یہ شعر میں بار ہا مرتبہ اپنے کالم کی ذہنیت بنا چکا ہوں
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
یعنی ہم نے صوبے نہیں بنانے ملک بنا لینے ہیں
مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا سہرہ مجیب الرحمن کے سر جاتا ہے لیکن سچ ہوچھیں کی چوبیس سالوں میں جو حشر ہم نے بنگالیوں کے ساتھ کیا مجھے کہنے دیجئے خالق بنگلہ دیش ہم خود ہیں اب 16 دسمبر بھی سر ہر ہے اس وقت شور شرابہ کریں گے کہ بھٹو یہ کر گیا مجیب نے یہ کیا اور یحی خان نے ایسا کیا نہیں سر چوبیس برس میں جو کچھ بویا وہ کاٹ لیا
صادق آباد سے لاہور کا سفر اب موٹر وے نے آسان بنا دیا ہے لیکن اگر اسے ملتان یا بہاولپور میں صوبائی دارالحکومت مل جائے تو لوگوں کی زندگیاں آسان بن جائیں ۔وسیب کو اس کا حق دیں پوٹھوہار کو الگ صوبہ بنائیں صادق سنجرانی بھی سچ کہہ رہے تھے کہ ترکی ایران کے کئے صوبے بن چکے ہیں اسی طرح چھوٹے صوبے بننے چاہئیں
محمود خان ہمارے کے ہی کے کے وزیر اعلی ہیں یہ بھی بے وقت کی راگنی الاپتے ہیں اب انہوں نے شانگلہ کو ملا کر کوہستان کے تینوں اضلاع پر مشتمل ایک ڈویژن بنانا چاہتے ہیں گل بادشاہ کو اعتراض اس بات ہر ہے کہ ڈویزنل ہیڈ کوارٹر کوہستان میں بنایا جائے لیکن اکثریت کا خیال ہے کہ پہلے صوبہ بنائو پھر جو مرضی کرو ۔اس سلسے میں اس بار سب سے پہلے تقسیم ہزارہ نامنظور کا نعرہ میں نے لگایا ہے حافظ سجاد قمر ایک متحرک نوجوان ہیں جنہوں نے تحریک ہزارہ کی تازہ ترین جدوجہد کے لیے دلیرانہ قدم اٹھایا ہے
چھوٹے صوبے ہونے کے بڑے فائدے ہیں وہیں تو ایک مدت سے کہہ رہا ہے کہ ،،اساں قیدی تخت لہور دے آں،،۔سچ پوچھیں
کوہستان سے جھاری کس تک کے ساڑھے تین کروڑ لوگ اب اپنے آپ کو ،،تخت پشاور کا قیدی،، سمجھتے ہیں

 

Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry
About the Author: Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry Read More Articles by Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry: 417 Articles with 283834 views I am almost 60 years of old but enrgetic Pakistani who wish to see Pakistan on top Naya Pakistan is my dream for that i am struggling for years with I.. View More