قبائلی علاقہ جات ٢

جیسا کہ گذشتہ تحریر میں قبائلی علاقاجات کے بارے میں کچھ عرض کیا گیا ہے۔ کبھی قبائلی علاقہ کو علاقہ غیر کہا جاتا تھا اور اب اس علاقہ سے غیروں کا سا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اسکے لیے زیادہ بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی کاروائی جو کہ اب کی جارہی ہے مہذب دنیا میں جنگل اور جنگلی حیات کے بارے میں بھی روا نہیں رکھی جاتی۔ جنگ اور جنگل میں معمولی فرق ہے۔ اپنے علاقہ میں جنگ کا تو کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا۔

اپنے علاقہ میں فتنہ کو ختم کرنے کے لیے کاروائی کی اجازت ہے۔ لیکن فتنہ بہت سخت لفظ ہے۔ اگر آپ کسی پوری آبادی کو فتنہ پرور اور دہشت گرد قرار دیں جیسا کہ دینی مدارس کے طلباء کو مجموعی طور پر طالبان اور پھر طالبان کو دہشت گرد کہنا۔ دینی مدارس کے طلباء صرف قبائلی علاقہ میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں موجود ہیں۔ خود بعض گروہ طالبان کا اثر و نفوذ کراچی تک پھیلتا ہوا بتا رہے ہیں۔ فتنہ پیدا کرنے کے کئی ایک طریقوں میں سے ایک زبانی فتنہ بھی ہے۔ جو بعض گروہ معاشرہ کے بعض دوسرے گروہوں کو زبانی طور پر دہشت گرد قرار دے کر پیدا کر رہے ہیں۔

ہمیں اپنی پالیسی خود بنانا ہوگی۔ ہمیں تمام عوام کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر تمام پشاور کے امن پسند لوگوں کو منظم کر دیا جائے تو پشاور میں لوگوں کے جان و مال کے خلاف کوئی گروہ دہشت گردی کی کاروائی نہیں کرسکتا۔

قبائلی علاقہ کے لوگ بنیادی طور پر معصوم اور کم وسائل کے ساتھ کم علم اور کم ترقی یافتہ ہیں۔ ان کے بارے میں پالیسی ان باتوں کو مد نظر رکھ کر بنانا ہو گی۔ قبائلی لوگوں کی بنیادی اور علاقائی خصوصیات پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
Muhammad Jaffar Malik
About the Author: Muhammad Jaffar Malik Read More Articles by Muhammad Jaffar Malik: 5 Articles with 4349 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.