اداکار دلیپ کمار -- چمن میں جب بہار آئے ہمیں یاد کر لینا

میرا اسلامیہ ہائی اسکول کوئٹہ کا زمانہ تھا یعنی میں پانچویں چھٹی کا طالب علم تھا - اسکول میں انٹرول پیریڈ بہت لمبا ہوتا تھا -اس لئے قریب کے بچے اس وقفے کے دوران دوپہر کا کھانا کھانے گھر چلے جاتے تھے- میں اور میرے بڑے بھائی بھی اس میں شامل تھے- کھانا تیار ہی ہوتا تھا اس لئے پانچ دس منٹ میں ہی ہم فارغ ہو جاتے تھے اور کھیل میں لگ جاتے تھے - ایک روز کھیل کے دوران بھائی جان نے مجھے دھکا دیا - دھکا زور دار نہیں تھا لیکن اس سے کھیل میں شکست میرے حصے میں آنی تھی چنانچہ میں نے دھکے کو خود ہی زوردار بنایا اور جا کر جان بوجھ کر باورچی خانے کی دیوار سے ٹکرایا -ابھی اگلا مرحلہ رونے کا شروع کرنے والا ہی تھا کہ اچانک بھائی جان کی آواز سنائی دی --- واہ کیا کہنے --تم نے تو دلیپ کمار کو بھی مات کردیا " مرا رونے والا منہ ویسے کھلا کا کھلا ہی رہ گیا -- دلیپ کمار کون ؟ شاید وہی اداکار جس کے بارے میں لوگ باتیں کرتے رہتے تھے - اس کے ساتھ ہی سینما کی اسکرین بھی سامنے آگئی جس میں کوئی اداکار دھند لے دھندلےعکس کے ساتھ اداکاری کر رہا ہے - میں بچپن ہی سے فلموں کا شیدائی تھا لیکن دلیپ کمار کی کوئی فلم اس وقت تک نہیں دیکھی تھی -

بچپن ہی کی بات ہے -اہل کوئٹہ کے رہن سہن کا انداز سیدھا سادہ تھا - صبح اٹھے چائے کے ساتھ پراٹھا یا سادہ روٹی کھائی اور نوکری یا اسکول کو چل پڑے- یہ ڈبل روٹی کیا شے ہوتی ہے اس سے زیادہ آگاہی نہیں تھی - ایک مرتبہ گھر میں ڈبل روٹی منگوائی گئی - ڈھونڈنے نکل پڑا - راحت سینما کے قریب ایک بورڈ سا نظر آیا جس پر ڈبل روٹی کی تصویر تھی - اس کے ساتھ ہی انگریزی میں کچھ لکھا تھا - - اردو میڈیم کے طالب علم کو اتنی انگریزی کہاں آتی کہ سمجھ سکتا چنانچہ سب کچھ نظر انداز کر کے اندر بیکری میں داخل ہوا اور ڈبل روٹی مانگی - اندر ایک بیس بائیس برس کا نوجوان بیٹھا تھا - اس نے ایک ڈبل روٹی اٹھائی اور اس کے سلائس (پارچے) بنانے لگا - پھر کہا کہ پتہ ہے میں نے اس ڈبل روٹی کا نام کیوں "دلیپ " رکھا ہے ؟ پھر خود ہی جواب دیا دیا کہ اس کاثانی کوئی نہیں اور نہ کوئی ہو گا - پہلی مرتبہ دلیپ کا نام سنا - اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ بھارتی فلموں میں کوئی اداکار ہے - باہر نکل کر بورڈ کی انگریزی سمجھنے کی کوشش کی تو بڑی مشکل سے سمجھ آیا کہ انگریزی میں دلیپ لکھا ہوا ہے

اسی عمر کی یادوں میں یہ بھی محفوظ ہے کہ کوئٹہ میں جب یار دوست اکٹھے ہوتے تو باتیں کرتے کہ یار اداکاری تو بس دلیپ کمار پر ختم ہے- وہ ایسے اداکاری کرتا ہے کہا ایک آنکھ میں آنسو ہوتا ہے ایک میں نہیں - کیا حقیقت میں ایسا تھا ؟ میرا خیال ہے نہیں لیکن اپنی پسند کی شدت کو ظاہر کر نے کے لئے یہ بات اڑائی جاتی تھی -


انہی واقعات کے ساتھ جوان ہوا- اور جب انکے علالت کے بارے میں پتہ چلا تو واقعات کی بجائے وہ رسائل -وہ کتابیں وغیرہ نظروں کے سامنے آجاتیں جن میں ان کا تذکرہ ہوتا تھا - میں سمجھتا ہوں کہ وہ منکسرالمزاج طبیعت کے مالک تھے باقی صحیح بات تو وہی لوگ بتا سکتے ہیں جو ان کے قریب تھے - میں جو ان کی منکسرالمزاجی کی بات کر رہا ہوں وہ ان کے بارے میںلکھے گئے مضامیں اور ان کے مختلف انٹرویوز کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ورنہ ان کی بیگم سائرہ بانو کا کہنا ہے کہ وہ جلد غصہ ہو جاتے تھےلیکن سائرہ بانو کے ساتھ ایسا رویہ نہیں تھا -

حماد ناصر صاحب نے مشرق اخبار کی ایک خبر کا تراشہ فیس بک پر بھیجا تھا جس میں ان کی شادی کی اطلاع دی گئی تھی - اس خبر کے مطابق سائرہ بانو نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ چاہیں گی کہ ان کے آٹھ بچے ہوں-

دلیپ کمار پاکستان میں کتنے مقبول تھے اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ ایک مرتبہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ان کا حوالہ دینا پڑا -بھٹو نے کہا تھا کہ کہ میرے سیاسی مخالفین کتے ہیں کہ لوگ میرے تقریر سننے نہیں آتے بلکہ اداکاری دیکھنے آتے ہیں -کیا میں دلیپ کمار ہوں کہ لوگ میری اداکاری دیکھنے آئیں -

دلیپ کمار کے آخری کئی برس علالت کے سبب تکلیف میں گزرے - ان کی یاد داشت بالکل ختم ہو چکی تھی -
- علالت کے اس دوران میں روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار طاہر سرور میر ان سے ملنے 6 دسمبر 2011 کو بھارت گئے - طاہر سرور میر کہتے ہیں کہ وہ ' دلیپ کمار صاحب کی رہائش گاہ پر گراونڈ فلور سے تیسری منزل پر واقع ان کی خواب گاہ کے سامنے ایک لاونج تک تک ایک لفٹ کے ذریعے پہنچے - دلیپ کمار ایک صوفے پر نیم دراز تھے -انہوں نے سفید رنگ کا تہمند اور کرتا پہنا ہوا تھا - طاہر سرور میر نے جھک کر ان کے قدموں کو چھوا تو دلیپ کمار صاحب کی آنکھیں بھیگ گئیں اور آواز بھرا گئی انہوں نے سر جھکا لیا - میں‌نے سنا وہ کہہ رہے تھے "اللہ -- اللہ جی ---اللہ -- اے اللہ جی " یوسف سرور خان المعروف دلیپ کمار صاحب وقفے وقفے سے یہ ورد کرتے تو ان کی آواز بھر آتی اور آنکھوں میں آنسو موتی کی طرح چمکنے لگتے - ہم کافی دیر تک پنجابی میں باتیں کرتے رہے - دلیپ کمار صاحب کئی زبانیں جانتے تھے --پشتو ، ہندکو، پنجابی، گجراتی ، مراٹھی - طاہر سرور میر نے انہیں بتایا کہ پاکستان میں ان کے بہت زیادہ شیدائی ہیں اور وہ ہمیشہ ان کی صحت کے لئے دعاگو رہتے ہیں- - سائرہ بانو نے شوہر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ دلیپ جیسے انسان سے منسوب ہوئیں - ان جیسا انسان لاکھوں اور کروڑوں میں نہیں ہوتا -

اداکار دلیپ کمار اپنی سوانح حیات میں اپنا ایک ماضی کا قصہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اداکاری کے عروج کے ایام کی بات ہے کہ ایک مرتبہ میں جہاز میں سفر کر رہا تھا - میرے ساتھ والی نشست پر ایک درمیانی عمر والے صاحب بیٹھے ہوئے تھے - انہوں نے سیدھی سادی پتلون قمیض پہنی ہوئی تھی - دلیپ کمار کہتے ہیں چونکہ اس وقت میں چوٹی کے اداکاروں میں شمار ہوتا تھا اس لئے عوام میں خاصا مقبول تھا - چنانچہ جہاز میں لوگ بار بار دیکھ رہے تھے - لیکن میری ساتھ والی نشست کے صاحب ایک الگ روئییے کا اظہار کررہے تھے - وہ خاموشی سے اخبار کا مطالعہ کرتے رہے - کبھی کبھار طبیعت میں اکتاہت محسوس ہوتی تو طیارے کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ جاتے تھے - دلیپ کمار کہتے ہیں کہ آخر میں نے ہی چپ کا روزہ توڑنے کا ارادہ کیا اور انہیں دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا - ان صاحب نے بھی جواباًمسکراہٹ کا اظہار کیا اور مختصر ترین خیر مقدمی کے کلمات کہے - دلیپ کمار کہتے ہیں کہ میں‌نے بات آگے بڑھانے کے لئے فلموں کے بارے میں بات کی اور پھر ان سے سوال کیا کہ وہ فلمیں تو دیکھتے ہی ہوں گے - ان صاحب نے جواب دیا کہ وہ فلمیں کم ہی دیکھتے ہیں - کافی عرصہ ہوا فلم دیکھے ہوئے - دلیپ کمار نے کہا میں فلموں میں کام کرتا ہوں - ان صاحب نے مسرت ظاہر کی اور کہا شاندار - یہ تو خوشی کی بات ہے

اتنے میں جہاز کے زمین پر آراترنے کا وقت آگیا اور انتظامیہ کی طرف سے بیلٹ باندھنے کی ہدایات کی گئیں - خیر جب جہاز زمین پر آیا تو میں نے الوداعی مصافحہ کے طور پر اپنے ہاتھ بڑھائے اور کہا میرا نام دلیپ کمار ہے - ان صاحب نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان کا نام جے -- آر - ڈی ٹاٹا ہے -( یاد رہے کہ جے آر ڈی ٹاٹا بھارت کے سب سے بڑے صنعت کار تھے اور ملک کے تمام معاشی، مالی اور صنعت کاری کے شعبوں میں ان کا طوطی بولتا تھا )
دلیپ کمار کہتے ہیں کہ اس سے میں نے سبق حاصل کیا کہ ہم کتنے ہی بڑے مرتبے کو کیوں نہ نہ پہنچ جائیں‌ پھر بھی کوئی نہ کوئی ہم سے اعلیٰ تر اور بر تر ضرور ہو گا -

ان کے بارے میں ایک کتاب "دلیپ کمار کے رومان " شائع کردہ 1955کہتی ہے دلیپ کو فارسی زبان پر پورا عبور حاصل ہے - ان کی لائبریری میں فارسی کی کتب کثیر تعداد میں ملیں گی - مطالعہ کا شوقین اور موسیقی سے بھی رغبت ہے - 1953 میں میں جب مکان بنانے لگے تو اسمین لائبریری اور میوزک روم خصوصی طور پر بنائے - دلیپ کمار کہتے ہیں کہ میں نے کتابوں کے سبب اپنی عمر سے زیادہ حاصل کیا ہے - - مزید کہتے ہیں کہ خلیل جبران اور سوامی دیو کانند سے متاثر ہوں --قران مجید کی نورانی کرنیں میری زندگی کی شاہراہ منور کرتی ہیں --
فلم فیئر نومبر 1953 میں ایک انٹرویو
what i want in my life
میں کہتے ہیں کہ میری تمنا ہے کہ پنج وقتہ نمازی بن جاؤں -

ویلفئیر ( لوگوں کی فلاح و بہبود ) میرا ایک پسندیدہ موضوع ہے - اگر میں اس سلسلے میں یہاں دلیپ کمار صاحب کے حوالے سے بات کرنا شروع کروں تو یہ اتنی جگہ گھیر لے گا کہ مجھے باقی تمام مضمون کو مختصر کرنا پڑے گا - مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ہوں یا مولانا عبدالوحید خان ہوں انہوں نے بھی اس موضوع پر بہت تحریر کیا ہے - افضل حق اپنی کتاب 'زندگی" شائع کردہ 1936 میں کہتے ہیں کہ خوش قسمت افراد ہی ویلفیئر کے کام سر انجام دیتے ہیں خود غرض افراد سے یہ کام نہیں ہوتا - اس لحاظ سے دلیپ کمار کے سیکرٹری فیصل فاروقی کہتے ہیں کہ دلیپ کمار بڑی خاموشی سے مایوس لوگوں کی زندگیوں میں رنگ بھرتے تھے - پاکستان کے شوکت خانم میمورئیل ہسپتال برائے سرطان کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے - اس کا سنگ بنیاد رکھنے کی رسم میں شامل ہونا اور اس کے لئے لوگوں سے پیسہ حاصل کرنا (جبکہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں تناؤ کا سب کو علم ہے ) آسان کام نہیں تھا اور اسے مرحوم نے بطریق احسن نبھایا یہ قابل تعریف ہے - جب بھی کوئی رعائتی داموں اپنے سرطان کا علاج کرا کے خوشی و شادمانی کے گلدستے تھامے مسکراتے ہوئے اس ہسپتال سے نکلے تو دعائے خیر کے چند الفاظ مرحوم دلیپ کمار کے لئے بھی ادا کردے
ہمیں بھی یاد رکھنا چمن میں جب بہار آئے
 

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 333563 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More