سعدیہ رئیس کا شاہکار ’’میں انمول ‘‘

آج میں جس ناول پر تبصرہ کرنے جا رہی ہوں وہ ایک ایسی منجھی ہوئی رائٹر کے قلم کا شاخسانہ ہے جو بلاشبہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔۔۔۔

سعدیہ رئیس۔ Sadia Raees ۔خواتین کے نامور ڈائجسٹس کی نامور لکھاری ، جن کی تحریریں ہر معیاری ڈائجسٹ مثلاً شعاع، آنچل، خواتین ، پاکیزہ وغیرہ کی زینت بن چکی ہیں۔

سعدیہ رئیس کے ان گنت افسانے ، ناولٹ " دو روٹیاں" خوابوں کے چاند ڈھل گئے " وہ میری منزل جاں" حقیقتوں کے درمیان " رسوائے محبت " شہرملال میں" بسیرے دل میں ہوئے " جو میرا نصیب تھا" سنجوگ تھے ایسے" کاغذ کا رشتہ " آہٹوں کی تلاش میں " ست رنگ پیا" وغیرہ اپنی مثال آپ ہیں۔

سعدیہ رئیس کے قلم کی روانی بتاتی ہے کہ مصنفہ ہر موضوع کو گرفت میں لینا اچھے سے جانتی ہیں۔
ان کا قلم یکسانیت کا شکار نہیں۔

اس وقت میرے سامنے سعدیہ کا محبتوں سے بھیجا گیا قیمتی تحفہ " میں انمول" موجود ہے۔

یہ ناول مسلسل نو ماہ پاکیزہ کے صفحات کی زینت بنتا رہا اور جنوری 2021 میں اختتام پذیر ہوا۔

یہ سعدیہ کا پہلا مکمل ناول ہے جو کتابی شکل میں دستیاب ہے۔

اس ناول کی بنت میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ جب یہ ناول نو عمر لڑکیاں پڑھیں تو انہیں مثبت پیغام ملے کہ " بیشک محبت خوبصورت ہوتی ہے لیکن عزت انمول ہوتی ہے "

اس ناول کا ہر کردار انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ ہے۔

انمول اور ایمل کا کردار بہنوں کے مابین خوبصورت رشتے کو اجاگر کرتا ہے۔

" زیب" محبت کی مٹی سے گندھا " ماں " کا لازوال کردار۔۔

مہر آنٹی اور شمع جی کا کردار پاکستان میں بسنے والے اڑوس پڑوس کے بیشمار گھرانوں کی نمائندگی کر رہا ہے۔ مہر آنٹی مہر و محبت کا نمونہ اور شمع جی معذوری کے ہاتھوں چڑچڑے پن کا شکار۔

شمع جی کا کردار ضدی ، اور خود سر ہونے کے باوجود بیبسی کا شکار رہا۔

یوسف کا کردار قدرے کمزور رہا جو محبت کا دعویدار ضرور تھا لیکن محبت کے تقاضوں پر پورا نہ اتر پایا۔

یا شاید وقت نے اسے مہلت ہی نہیں دی کہ زیب کے انتقال کے بعد انمول جس طرح پے در پے حالات کا شکار ہوئی وہ اس قدر حقیقی تھے کہ گمان ہوا یہ سب ہماری نظروں کے سامنے ہو رہا ہے۔

میں نے خود زندگی کو اسی طرح پل کے پل بدلتے پایا ہے۔

آپا بیگم کا پاور فل کردار بہت پسند آیا کہ یہ کردار تو ہمارے معاشرے میں تقریباً ہر گھر میں پایا جاتا ہے۔
آپا بیگم کا اپنی بہو " حورعین" کے ساتھ برتاؤ حقیقت پر مبنی تھا اور حور عین کے کردار نے ثابت کیا کہ جن لڑکیوں نے گھر بسانے ہوتے ہیں وہ تلخ کلامی بھی ہنس کر سہتی ہیں اور ان کی چپ ہی آپا بیگم جیسی ساس کے دل میں ان کا رتبہ بڑھا کر انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ " اتنی بری بھی نہیں میری بہو "

آپا بیگم کا کردار کافی حد تک مثبت رہا لیکن اولاد پر بیجا حکمرانی کے منفی اثرات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ماؤں کو سمجھنا چاہئیے ہر بچہ " محب " جوجی" نہیں ہوتا بلکہ بیجا روک ٹوک بغاوت کو جنم دیتی ہے تو اولاد " ظفری" بھی بن جاتی ہے۔

ظفری کا کردار بھی منفی و مثبت کے بیچ رہا کہ جہاں ایک طرف اس نے ماں کی نافرمانی کی ، ان کا دل دکھایا وہیں اس نے اپنے کردار سے سمیرا کی عزت کو داغ دار نہیں ہونے دیا۔۔۔ آپا بیگم دل بڑا کرتیں تو یقیناً اس نافرمانی کی نوبت نہ آتی۔

صائمہ آنٹی کا کردار روایتی سوتیلی ماں سے قدرے ہٹ کر دکھایا گیا جو یقیناً خوش آئند تھا۔ وقار آفندی والد کے کردار میں سو فیصد فٹ تھے بیشک باپ اپنی بیٹیوں سے وقار آفندی کی طرح ہی بیانتہا پیار کرتے ہیں۔
جویریہ کی صورت میں انمول کو بہت اچھی دوست نصیب ہوئی کہ یہی دوستی ہوتی ہے جب اک دوجے کا مان رکھا جائے، اک دوجے کو صحیح، غلط کا فرق سمجھایا جائے اور کبھی کبھی غلط کام میں بھی دوست کا ساتھ دیا جائے ۔

حرمین جیسی نوعمر بچیاں جب بڑوں کو غلط کرتا دیکھتی ہیں تو اکثر راہ سے بھٹک جاتی ہیں۔ اور جب مدمقابل وقاص جیسا گھاگ ، فلرٹ بندہ ہو تو قدم بہکتے دیر نہیں لگتی۔

انمول کا کردار ہر ہر موڑ پر متاثر کن رہا

انمول کی عمر کی لڑکیاں جب محبت کی راہ پر چل پڑتی ہیں تو وہ محبت خوشگماں کا شکار ہو کر خود کو حق پر سمجھتی ہیں۔

والدین جب کسی نامحرم کو اپنے گھر میں اس قدر انوالو کرتے ہیں تو انہیں اپنی آنکھیں بھی کھلی رکھنا چاہئیں۔

وقار صاحب اولاد نرینہ کی کمی کو یوسف کے وجود سے پورا کرنے کی سعء لا حاصل میں یہ کیسے فراموش کر گئے کہ ان کی دو بیٹیاں ہیں جن سے یوسف کا میل جول آگ اور پانی کا کھیل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ جب یوسف کو بیٹے جیسا مان دیتے تھے تو اپنی بیٹی کے حوالے سے خود ہی سوچ لیتے بطور داماد تو شاید انمول اور یوسف منزل پا جاتے۔

مصنفہ نے کمال مہارت سے حالات و واقعات کو سمیٹتے ہوئے انمول کو محرم اور نامحرم کی محبت سے آشنا کروایا

ناول کا اختتام مجھے بالکل اپنے ناول بار وفا کے اختتام جیسا لگا جب انمول نے محبت پر عزت اور خود سے جڑے رشتوں کو فوقیت دیتے ہوئے جنید سے وفا نبھانے کا قصد کرتے یوئے یوسف کی محبت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔

" بیشک محبت خوبصورت ہوتی ہے لیکن عزت انمول ہوتی ہے"

ویلڈن سعدیہ رئیس۔۔۔۔

ایک بھرپور مثبت پیغام دیتے معاشرتی ناول کی اشاعت پر سعدیہ جی کو ڈھیروں مبارکباد۔۔۔

اﷲ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔۔۔ آمین ثم آمین۔ ڈھیروں دعائیں۔

سعدیہ جی اگلی کتاب کا انتظار رہے گا۔۔۔
 

Rehana Parveen
About the Author: Rehana Parveen Read More Articles by Rehana Parveen: 17 Articles with 21069 views میرا نام ریحانہ اعجاز ہے میں ایک شاعرہ ، اور مصنفہ ہوں ، میرا پسندیدہ مشغلہ ہے آرٹیکل لکھنا ، یا معاشرتی کہانیاں لکھنا ، .. View More