واقعہ معراج النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم

تحریر و تحقیق : محمد اسلم لودھی

آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں ام ہانی کے گھر میں مصلیٰ پر عبادت میں مصروف تھا اور نیند کا غلبہ مجھ پر طاری تھا وہ گھر صفا و مروہ کے درمیان واقع ہے اور حرم میں داخل ہے۔ حضرت ابو طالب کی کفالت کے زمانہ میں پیغمبر ﷺ ام ہانی کے گھر میں رہتے تھے جو آپ ﷺ کی چچا زاد بہن تھیں اس لیے اس گھر کو اپنی طرف منسوب فرمایا کہ ”میں اپنے گھر میں تھا۔“

اب ہم واقعہ معراج مشہور روایت ام ہانی کے مطابق بیان کرتے ہیں:
آنحضرت ﷺ نے عشاءکی نماز ادا فرمائی تھی، آپ ﷺ کی چشم مبارک خواب میں تھی اور قلب اطہر بارگاہ رب العزت میں متوجہ تھا اور گوشہ نظر خاکسار ان اُمت پر ڈالے ہوئے تھے۔ جبرائیل علیہ السلام کو خطاب پہنچا کہ اے جبرائیل! آج رات گوشہ اطاعت و بندگی کو چھوڑ دے اور میرے حبیب ﷺکی خدمت کے لیے تیار ہو جاﺅ۔ میکائیل سے کہو کہ رزق کا پیمانہ ہاتھ سے علیحدہ رکھ دے، اسرافیل سے کہو کہ صور کو کچھ عرصہ کے لیے موقوف کر دے ۔ عزرائیل سے کہو کہ کچھ دیر کے لیے روحوں کو قبض کرنے سے ہاتھ اٹھا لے، سمندر طغیانی سے باز رہیں، ہوائیں طوفان نہ اٹھائیں۔اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو آواز دو، حضرت ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور تمام انبیا علہم السلام کو اطلاع دو ۔ان کی ارواح کوقدسی ہواﺅں سے معطر کرو، ستر ہزار مقدس فرشتے اپنے ساتھ جنت میں لے جاﺅ اور جنت میں سے ایک براق منتخب کر کے زمین پر لے جاﺅ، مشرق سے مغرب تک جس قدر اہل قبور ہیں ان سے عذاب اٹھا دیا جائے، تمام دنیا کو عطر محبت سے معطر کر دیا جائے، پھر زمین پر مغرب کی طرف جاﺅ وہاں سے شام اور شام سے یثرب اور یثرب سے کوہ حرا پر جاﺅ، حرا قبیلہ قحطان اور قبیلہ قحطان سے قبیلہ کنانہ کو اختیار کرو، کنانہ سے قبیلہ مضر اور مضر سے قبیلہ قریش اور قریش سے قبیلہ بنی ہاشم، قبیلہ بنی ہاشم سے بنی عبدالمطلب، جو ان کے درمیان ایک وان سر وقد، چاند سا مکھڑا، حسین و جمیل ، آفتاب علم، حشمت و جلال کا پیکر ، خوبرو بلند مرتب، زمانہ کے ہاتھوں محنت و بلا کا جام چکھے ہوئے اندوہ غم میں متغرق ، مودب ان کے سرہانے جا کر کھڑے ہو جاﺅ۔

جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق براق لانے جنت میں آئے، بہشت کے مرغزاروں میں چالیس ہزار براق موجود تھے جن کی پیشانی پر محمد ﷺ کا اسم گرامی روشن تھا، ان چالیس ہزار براق میں سے ایک براق غمگین اور آزردہ ایک کونے میں سر جھکائے آنسوﺅں کے دریا بہا رہا تھا، جبرائیل علیہ السلام اس براق کے پاس گئے اور اس سے اس کا حال پوچھا، اس نے کہا کہ اے جبرائیل (علیہ السلام) ! ہزار سال کا عرصہ گزرا کہ میں نے محمد ﷺ کا نام سنا تھا، اس روز سے آپ ﷺ کی محبت اور عشق میں مبتلا ہوں ، جس روز سے میں نے آپ کا نام نامی اور اسم گرامی سنا ہے کھانے کو جی ہی نہیں چاہتا، جبرائیل علیہ السلام نے چالیس ہزار براق میں سے اس براق کو جو اپنی جان پر اشتیاق محمدی ﷺ کا داغ رکھتا تھا، اختیار فرمایا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا کہ میں ام ہانی کے گھر میں تھا، 27 رجب کی رات تھی، عشاءکی نماز پڑھ کر ابھی لیٹا ہی تھا کہ میں نے جبرائیل علیہ السلام کے پروں کی آواز سنی، میں شب خوابی کے لباس میں ہی اٹھ بیٹھا، جبرائیل علیہ السلام کو اپنے سامنے کھڑے دیکھا اس نے کہا: ان اللہ تعالیٰ یقزئک السلام وھو یدعوک وانا حاملک الی اللّٰہ تعالیٰ این یکومک بکرامات لم یکوم بہا احد من قبلک ولا یکوم بھا احد اغیرک ولا احد لا عد خطر علی قلب بشر قط ۔

ایک روایت میں ہے کہ جب میں نے وضو کرنے کا ارادہ کیا تو جبرائیل علیہ السلام کو حکم پہنچا کہ اس قدسی فطرت کے لیے بہشت کے حوض کوثر سے پانی لاﺅ، ابھی میں نے وضو کے لیے دامن نہیں کھولا تھا کہ رضوان جنت آب کوثر سے بھرے ہوئے یا قوت کے دو لوٹے لے کر پیش خدمت ہوا اور زبر جد کا ایک طشت جس کے چار کونے تھے ہر گوشہ ایک ایسے موتی سے آراستہ تھا جس کی چمک سے آسمان روشن ہو جاتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اس پاکیزہ پانی سے غسل فرمایا۔ اس کے بعد آپ نے نور کا لباس پہنا٬ نور کا عمامہ آپ ﷺکے سر مبارک پر رکھا گیا۔ ایک روایت اس طرح ہے کہ رضوان نے وہ عمامہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے سات ہزار سال پہلے باندھا تھا، چالیس ہزار فرشتے اس کی تعظیم و تکریم کے لیے اس کے گردکھڑے تھے جو ہر وقت تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے، ہر تسبیح کے بعد آنحضرت ﷺ پر درود و بھیجتے یہاں تک کہ اس رات جبرائیل علیہ السلام اس عمامہ کو لائے ، چالیس ہزار فرشتے اس عمامہ کے ساتھ آئے اور آنحضرت ﷺ کی زیارت کی۔

کہتے ہیں اس عمامہ کے چالیس ہزار نقش ونگر تھے اور ہر نقش پر چار لکیریں تھیں پہلی لکیر پر محمد ﷺ ، دوسری پر محمد نبی ﷺ ، تیسری پر محمد خلیل اللہ ﷺ اور چوتھی پر محمد حبیب اللہ ﷺ لکھا تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نے نور کی ایک چادر آنحضرت ﷺ کو پہنائی، زمرد کی نعلین مبارک پاﺅں میں، یا قوت کا کمر بندباندھا اور زمرد کا تازیانہ جو چار سو مروارید سے آراستہ تھا آپ کے ہاتھ میں دیا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام آنحضرت ﷺ کا ہاتھ پکڑے بیت الحرام میں آئے۔ خواجہ عالم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے وہاں اسرافیل اور میکائیل علیہما السلام کو دیکھا ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار فرشتے صف باندھے کھڑے تھے، جب انہوں نے مجھے دیکھا تمام نے سلام کیا اور مناسب عزت و احترام کے آداب بجا لائے، میں نے بھی اسی انداز سے جواب دیا۔ پھر مجھے خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور لامتناہی بشارتوں سے نوازا گیا۔

میں نے ایک سواری گدھے سے بڑی اور خچر سے چھوٹی کھڑی دیکھی جس کا چہرہ انسان کا سا تھا، کان گوش فیل کی مانند، پاﺅں گھوڑے جیسے، گردن شیر جیسی، سینہ خچر جیسا، جس کی دم اونٹ کی دم کے مشابہ تھی، ٹانگیں گائے جیسی اور سم گائے کے سموں کی طرح تھے، اس کی ران پر دو پر تھے جن سے اس کی پنڈلیاں ڈھکی ہوئی تھیں، جب وہ ان پروں کو کھولتا مشرق و مغرب کو ڈھانپ لیتا، جب اکٹھے کرتا تواس کے پہلو میں سمٹ جاتے۔سینہ سرخ یا قوت کی مانند چمک رہا تھا، اس کی پیٹھ سے سفید بجلی کوندتی تھی، ٹانگیں سبز زمرد، دم مرجان، سر اور اس کی گردن سرخ یا قوت سے پیدا کی گئی تھی، بہشتی زین اُس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یا قوت کے دور کاب آویزاں تھے، اس کی پیشانی پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔یہ براق اس قدر تیز رفتار تھا کہ ایک جست میں حد نگاہ تک اس کا قدم پہنچتا تھا۔ جس چیز کو اس براق کی خوشبو پہنچ جاتی ،زندہ ہو جاتی۔ یہ مرتبہ اسے آنحضرت ﷺ کی سواری کے وقت حاصل ہوا۔جبرائیل علیہ السلام نے رکاب تھامی، میکائیل علیہ السلام نے باگ پکڑی اور کہا ، یا رسول اللہ ﷺ ! سواری فرمائیے، تشریف لے چلیے کہ ملاءاعلیٰ اور مقربان عالم بالا آپ ﷺ کی تشریف آوری کے منتظر ہیں۔

براق اورخیال امت
جب آنحضرت ﷺ کی نظر براق پر پڑی، فکر مند ہو کر سر جھکا لیا، جبرائیل علیہ السلام کو خطاب ہوا کہ اے جبرائیل علیہ السلام! میرے حبیب سے پوچھو کیا پریشانی لاحق ہے اور کس وجہ سے توقف ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میں گھر سے نکلا ہوں، مجھے خلعت و اعزازحاصل ہوا ہے، میرے اعزاز و اکرام کے لیے تمام ملائکہ مقربین حاضر ہوئے ہیں اور برق رفتار براق میرے لیے لائے ہوئے ہیں مجھے اندیشہ ہوا کہ کل قیامت کو جب میری امت قبروں سے اُٹھے گی، برہنہً خالی پیٹ، بھوکی پیاسی، گناہوں کا بوجھ گردن پر رکھے، بے شمار مظلوموں کے ہاتھ ان کے دامن پر ہوں گے، پچاس ہزار سالہ راہ ان کے سامنے ہو گا، تیس ہزار سالہ باریک اور تاریک راہ دوزخ پر سے گزرنا ہو گا، وہ بے بضاعت فقرا اس مسافت کو کس طرح اور کن پیروں سے طے کر سکیں گے؟ فرمان آیا: اے میرے حبیب ! غم نہ کیجئے، میں نے جس کسی کو اپنی نظرعنایت کے ساتھ مخصوص کر لیا ہے جس طرح آج رات عزت و بزرگی کابراق آپ کے دروازے پر بھیجا ہے اسی طرح آپ کی بلند ہمت اُمت کی ہر قبر پر ایک براق بھیجوں گا اور تمام کو سوار کر کے سلامتی کے ساتھ ہنستے کھیلتے پل صراط سے گزار دوں گا، قیامت کا پچاس ہزر سالہ راستہ پلک جھپکنے میں طے کروا کر بہشت عنبریں میں پہنچادوں گا۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جب میں نے بیت المقدس کا عزم کیا، جبرائیل علیہ السلام میری رکاب تھامے ہوئے تھا، اسرافیل زین پوش اور پالان کندھے پر رکھے ہوئے تھا، مجھے اس کی بزرگی کی وجہ سے شرم آتی تھی میں معذرت کرتا تھا، اس نے کہا: اے اللہ کے حبیب ﷺ! میں نے آج رات کی غاشیہ برداری کو کئی ہزار سال کی عبادت کے بدلے خریدا ہے اور دونوں جہانوں کے بدلے حاصل کیا ہے۔

القصہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جب میں نے کچھ راستہ طے کر لیا دائیں طرف سے کسی شخص کی آواز سنی جو کہتا تھا: لا تعجل فانک اختاءت الطریق، اے محمد ﷺ ! تیز مت چلیے کیونکہ آپ سیدھے راستہ سے بھٹک گئے ہیں۔ میں ذرہ بھی اس کی طرف متوجہ نہ ہوا کیونکہ جبرائیل علیہ السلام کی نصیحت میرے مد نظر تھی، پھر بائیں طرف سے بعینہ اسی طرح کی آواز سنی، میں نے کوئی توجہ نہ کی، اس کے بعد ایک عورت جس نے مختلف قسم کے زیورات سے خود کو آراستہ کیا ہوا تھا براق کے سامنے کھڑی ہو گئی اور کہا: اے محمد ﷺ ! تھوڑی دیر ٹھہرئیے تا کہ ایک راز آپ کو بتاﺅں۔ میں نے اس کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہ دیکھا، اس کے سامنے سے میں تیزی سے سواری کو بھگا لے گیا۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کون تھے؟ فرمایا: پہلا پکارنے والا یہود تھا، اگر آپ ﷺ اسے جواب دیتے توآپ ﷺ کے بعد آپ کی اُمت یہودیت کی طرف راغب ہو جاتی، دوسرا ندا کرنے والا نصرانی تھا اگر آپ ﷺ اس کی بات قبول کر لیتے تو آپ کی امت عیسائیت قبول کر لیتی۔ ایک اور روایت ہے کہ آگے اور پیچھے سے بھی اسی طرح آواز سنی لیکن جواب نہ دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: اگر سامنے والے منادی کا جواب دیتے تو آپ کی امت مشرک ہو جاتی اور اگر پیچھے مڑ کر دیکھتے تو تمام گبر و آتش پرست ہو جاتے، پھر فرمایا کہ وہ عورت جس نے خود کو آراستہ کیا ہوا تھا دنیا تھی، اگر اس کی طرف دیکھتے آپ ﷺ کی اُمت حریص ہو کر دنیا اختیار کرتی ۔ ان ندا کنند گان کے پکارنے اور آنحضرت ﷺ کے جواب نہ دینے میں یہ حکمت تھی کہ آنحضرتﷺ ہمیشہ آزردہ اور متفکر رہتے کہ میرے بعد امت کس حال میں ہو گی اور دین میں اس کا ثبات و استقلال کس قسم کا ہو گا۔ آنحضرت ﷺ کے قلب اطہر کو اس قسم کے تفکرات سے تسلی دی گئی تا کہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ اپنے کمال سے تمام اُمت کودین اسلام پر قائم رکھے گا۔

ایک روایت میں ہے کہ بعد ازاں میں ایک بڑے پتھر پر پہنچاجس کے درمیان ایک چھوٹا سا سوراخ تھا جس میں سے پانی باہر نکلا، پھر بہت چاہا کہ وہ پانی واپس سوراخ میں داخل ہو، نہ ہو سکا، میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے اس کی حقیقت دریافت کی۔ فرمایا: وہ سوراخ اس پتھر میں منہ کی مانند ہے، یہ ایک تمثیل ہے؟ جو آپ کی تعلیم پر مبنی ہے یعنی جب بات منہ سے باہر نکل جاتی ہے تو پھر واپس منہ میں نہیں آتی۔پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: مجھے تین آدمی بوڑھا، ادھیڑ اور جوان ملے، میں نے بوڑھے اور ادھیڑ کی طرف نہیں دیکھا اور جوان کی طرف متوجہ ہوا۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے دولت اور بخت کی طرف نظر نہیں کی اور عافیت کو اختیار فرمایا، یہ پسندیدہ بات تھی کیونکہ دولت دنیا آنی جانی ہے اور بخت بھی ناپائدار اور گزر جانے والی شے ہے، عافیت فائدہ بخش چیز ہے جو کہ دونوں جہانوں کی نعمت ہے۔ اے محمد ﷺ ! آپ کو خوشخبری ہو کہ آپ اور آپ ﷺکی اُمت کی دونوں جہانوں میں عافیت ساتھی ہے بعد ازاں دو پیالے پیش کیے گئے جو موتی سے ڈھانپے ہوئے تھے، ایک دودھ اور دوسرا خمر (شراب) سے بھرا ہوا تھا۔ میرے دائیں ہاتھ پردودھ اور بائیں پر شراب رکھی گئی، میں نے دودھ کو اختیار کیا اور اس میں سے پیا اور دودھ سے شکم سیر ہو گیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: آ پ ﷺ نے طعام بھی تناول فرمایا اور دودھ بھی۔ یہ جہان بھی حاصل کر لیا اور آخرت بھی۔ اس کے بعد دو پیالے میرے سامنے پیش کیے گئے۔ ایک میں پانی، دوسرے میں شہد تھا، میں نے دونوں میں سے پیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے اچھا کیا کیونکہ شہد قیامت تک آپ کی امت کی بقا ہے اور پانی آپ کی امت کے برے اعمال دھونے کا سبب ہے۔ جب کچھ راستہ طے ہو گیا تو جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے محمد ﷺ ! سواری سے اتر کر نماز ادا کیجئے کیونکہ یہ شہر طیبہ (مدینہ) ہے جو آپ کی ہجرت گاہ اور قیام گاہ ہوگی، آنحضرت ﷺ اترے اور نماز ادا کی۔ پھر براق پر سوار ہو کر روانہ ہوئے۔ جب طور سینا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش پر پہنچے ان دو مقامات پر بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام کے اشارے پر نیچے اترے اور نماز ادا کی۔

بیت المقدس میں تشریف آوری
پیغمبرﷺ نے فرمایا کہ جب میں مسجد اقصیٰ میں پہنچا، میں نے فرشتوں کی ایک جماعت کو دیکھا جو میرے استقبال کے لیے آئی ہوئی تھی، مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بزرگی اور کرامت کی خوشخبری دی اور مجھے اس طرح السلام علیک یا اول ویااخر ویاحاشرکہہ کر سلام کیا۔میں نے کہا: اے جبرائیل علیہ السلام! یہ کس قسم کا سلام ہے اور ان اسماءکا مجھ پر کس طرح اطلاق کرتے ہیں؟ فرمایا: آپ ﷺ سب سے پہلے شخص ہوں گے جو شفاعت کریں گے اور آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی کیونکہ آپ اول شافع اور مشفع ہیں اور یقینا آپ ﷺ سب سے آخری نبی ہیں، قیامت کے روز حشر آپ ہی کے قدموں میں ہو گا۔

امامت انبیاءسابقین
جب میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا، انبیاءمرسل اور پیغمبر اکمل کی ایک جماعت میرے استقبال کے لیے وہاں موجود تھی جو عزت و احترام سے پیش آئی۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کی ارواح کو وہاں جمع کر دیا گیا، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا۔ اس نے کہا : یہ آپ کے بھائی پیغمبر ہیں یا محمد ﷺ۔ آگے بڑھیے اور دو رکعت نماز ادا کیجئے تا کہ تمام بھائی یعنی پیغمبر ان علیہم السلام آپ کی اقتدا کریں، تمام انبیاءنے صفیں باندھ لیں، میں آگے بڑھا ، تمام انبیاءاور فرشتوں نے میری اقتداءکی ، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے گروہ انبیاءکی طرف اشارہ کر کے فرمایا لہذا فضلکم محمدا، اس کے بعد تمام انبیاءمیری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اے محمد ﷺ ! خدا تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اور آپ ﷺکی امت کو ایسے اعزازات سے معزز و مختص فرمایا کہ اولین و آخرین میں سے کسی کو بھی مفتخر نہ فرمایا اور نہ فرمائے گا، اُمت کے لیے جہاں تک ہو سکے تخفیف کاسوال کیجیے۔ واللہ المصیر۔

بیت المقدس سے آسمان تک
اس کے بعد خواجہ عالم ﷺ نے فرمایا نے جبرائیل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور صنحرہ(پتھر) پر لے آئے، جب میں صنحرہ پر آیا، میں نے صنحرہ سے آسمان تک ایسی خوبصورت سیڑھی دیکھی کہ اس سے پہلے ایسی حسین چیز نہیں دیکھی تھی، روایت میں اس سیڑھی کی تعریف یوں بیان ہوئی ہے اس کے دونوں پہلو دو پنجروں کے مانند تھے ایک سرا زمین پر اور دوسرا آسمان پر تھا، ایک یا قوت سرخ کا بنا ہوا تھا اور دوسرا سبز زمرد ہے، اس کے پائیدان ایک سونے اور ایک چاندی کے جو موتیوں اور جواہرات سے آراستہ تھے بعض روایات میں ہے کہ اس کرسی کے زمرد کے دو پر تھے اگر ایک پر کوان میں سے کھولتا تمام دنیا کو گھیر لیتا، اس سیڑھی پر پچاس منزلیں تھیں، ایک منزل سے دوسری منزل تک ستر ہزار سال کا راستہ تھا، تمام نے ایک دوسرے کو خوشخبری دی، میری طرف اشارہ کرتے تھے، یہ زینہ فرشتوں کی گزرگاہ بن گیا جو آسمان سے زمین پر اور زمین سے آسمان پر آتے جاتے تھے کہتے ہیں کہ ملک الموت قبض ارواح کے لیے اس سیڑھی سے نیچے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ موت کے وقت جب آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں تو وہ سیڑھی دکھائی دیتی ہے۔ القصہ آنحضرت ﷺ صحیح ترین روایات کے مطابق براق پر سوار ہوئے اور اس سیڑھی کے ذریعہ آسمان پر پہنچے، ایک روایت یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے فرمایا: آنکھیں بند کیجئے، جب کھولیں تو میں آسمان پر تھا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میں نے پہلے آسمان پر فرشتوں کی ایک جماعت کو دیکھا جو حالت قیام میں تھی انتہائی خشوع و خضوع سے سر جھکائے تسبیح پڑھ رہے تھے۔ سبوح قدوس رب الملئکة والروح۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا: ”ان فرشتوں کی یہی عبادت ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا : جس روز سے آسمان کو پیدا کیا گیا ہے قیام قیامت تک ان کی یہی عبادت ہے۔ حق سبحانہ وتعالیٰ سے درخواست کیجئے کہ وہ اس کا ثواب آپ کی امت کو عطا فرمائے۔ خواجہ عالم ﷺ نے درخواسست فرمائی تو اللہ جل شانہ نے قبول فرما لی، چنانچہ قیام نماز میں فرض ہوا۔

سیدنا آدم علیہ السلام سے ملاقات
جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: یا محمد ﷺ ! یہ آپ کے والد آدم علیہ السلام ہیں، ان کے پاس جا کر سلام کیجئے۔ آنحضور ﷺ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس گئے اور سلام کیا۔ آدم علیہ السلام نے مسکرا کر اور خوش ہو کر آنحضرت ﷺ کے سلام کا جواب دیا اور شکر گزاری کی۔ آدم علیہ السلام کے دائیں طرف ایک دروازہ دکھائی دیا جس میں سے عمدہ خوشبو پھوٹتی تھی اور آپ علیہ السلام کے بائیں طرف ایک دوسرا دروازہ دیکھا جس میں سے بدبو آتی تھی، جب دائیں دروازے کی طرف دیکھتے، مسکراتے اور جب بائیں طرف دیکھتے روتے، آنحضرت ﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے سوال کیا ما ھذا البابان ، فرمایا:وہ دروازہ جو ان کے دائیں طرف ہے، جنت کا دروازہ ہے، سعادت مند نبی آدم کی ارواح اس دروازہ سے جنت میں داخل ہوتی ہیں اور وہ دروازہ جو ان کے بائیں طرف ہے دوزخ کا دروازہ ہے، جو بد بختوں کی روحوں کی گزرگاہ ہے ، جب آدم علیہ السلام اس دروازہ کی طرف دیکھتے ہیں، پاکیزہ ارواح کے مشاہدہ سے خوش و خرم ہوتے ہیں اور اس دوسرے دروازہ کی طرف دیکھتے ہیں تو غمگین ہوتے اور روتے ہیں۔

نماز میں کوتاہی کرنے والے
آنحضرت ﷺ نے فرمایا : میں نے ایک جماعت کو دیکھا کہ فرشتے ان کہ سروں کو پتھرے سے کچلتے ہیں اور وہ پھر اپنی اصلی حالت پر آجاتے ہیں، وہ پھر کچلتے ہیں، میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نماز جمعہ اور باجماعت نماز میں سستی کی ہے اور رکوع اور سجدہ اچھی طرح ادا نہیں کیا اور نمازوں کو وقت پر ادا نہیں کیا۔

زکوٰة نہ دینے والے
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میں ایک جماعت کے پاس پہنچا جو بھوکی، پیاسی اور ننگی تھی، زبانیہ فرشتہ انہیں دوزخ کے طعام و شراب کی طرف ہنکاتاتھا جس طرح چوپایوں کو چراگاہ کی طرف ہنکاتے ہیں، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے ان کے متعلق پوچھا، فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مال کی زکوٰة نہیں دی، اور فقیروں پر رحم نہیں کیا۔

بدکار لوگ
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میں ایک دوسری جماعت کے پاس پہنچا، جس کے سامنے تمام نعمتیں رکھی ہوئی تھیں اور دوسری طرف مردار گوشت رکھا ہوا تھا، وہ لوگ اس مراد گوشت کو کھا رہے تھے اور ان پاکیزہ نعمتوں کی طرف التفات نہیںکرتے تھے، میں نے پوچھا تو فرمایا: یہ وہ مرد اور عورتیں ہیں جو اپنے حلال ساتھی کو چھوڑ کر حرام کی طرف رغبت کرتے ہیں۔

خیانت کار لوگ
فرمایا کہ ایک آدمی کے پاس سے گزرا جس کی پشت پر اس قدر زیادہ بوجھ تھا کہ اس کے نیچے حرکت بھی نہیں کر سکتا تھا، اس کے باوجود لوگوں کو بوجھ کے لیے کہتا جو لا کر اس کی پشت پر رکھ دیتے اور بوجھ بڑھاتے رہتے، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا۔ فرمایا: یہ وہ شخص ہے جس نے امانت میں خیانت کی اس کے باوجود کہ لوگوں کے حقوق کا بوجھ اس گردن پر ہے۔

بادشاہوں کے خوشامدی
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میرا ایک قوم پر گزر ہوا جن کے منہ اور ہونٹ آتشیں قینچی سے کاٹے جا رہے تھے، اُسی وقت پھر اسی طرح ہو جاتے ، دوبارہ کاٹتے پھر اُسی طرح فی الفور ہوجاتے، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا، فرمایا: یہ وہ گروہ ہے جو بادشاہوں کے پاس جاتا، انہیں خوش آمدید کہتا، اُن کی جھوٹی اور محال باتوں کی تصدیق کرتا، ان کو ظلم اور فسق و فجور سے نہیں روکتا تھا اور نہ ہی عدل و انصاف کرنے والوں کو کہتا تھا۔

چغلخور لوگ
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میرا گزر ایک جماعت پر ہوا، جس کے کانوں کا گوشت کاٹ کر اسے دیا جا رہا تھا، جسے وہ کھاتی تھی۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: یا رسول اللہ ﷺ ! یہ چغلخور لوگ ہیں جو لوگوں کو چغلی کھاتے اور غیبت کیا کرتے تھے۔

شراب نوشوں کا حشر
فرمایا میں اسی جماعت کے پاس سے گزرا جن کے چہرے سیاہ، آنکھیں نیلی ہوئی تھیں، ان کے نچلے ہونٹ ان کے پاﺅں کے پنجے روندے جاتے اور اوپر کے ہونٹ سر پر ڈالے ہوئے تھے۔پیپ، خون اور گندگی ان کے منہ سے بہتی تھی، آتشیں پیالوں میں ان کو حمیم، دوزخیوں کا خون اور زرد پانی پینے کو ملتا تھا، وہ گدھوں کی طرح آواز لگاتے تھے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا، فرمایا: یہ آپ ﷺ کی اُمت کے شرابی ہیں۔

جھوٹی گواہی دینے والے
فرمایا: میں ایک گروہ کے پاس سے گزرا جن کی زبانیں گڈی سے کھینچی ہوئی تھیں ان کی شکلیں خنزیر کی مانند مسخ ہو چکی تھیں، جن کو نیچے سے اور اُوپر سے بھی عذاب دیا جارہا تھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو جھوٹی گواہیاں دیا کرتے تھے۔

سود خود عذاب الٰہی میں
میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ پھولے ہوئے تھے، رنگ زرد، ہاتھ پاﺅں میں بیڑیاں اور ا ن کی گردن میں طوق پڑے ہوئے تھے، جب وہ اٹھنا چاہتے تو ان کے پیٹ نیچے کھینچتے جس سے وہ منہ کے بل گرتے ۔ عذاب نے انہیں گھیر رکھا تھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ سود خور لوگ ہیں۔

قاتلوں کی سزا
آنحضرت ﷺ نے فرمایا، میںایک اور گروہ کے پاس سے گزرا جن کو آتشیں چھریوں سے ذبح کیا جا رہا تھا، ان سے سیاہ اور گندا خون بہتا وہ مرتے اور کچھ دیر بعد پھر زندہ ہو جاتے۔ انہیں پھر قتل کر دیا جاتا۔ جبرائیل علیہ ا لسلام نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جوناحق انسانوں کا خون بہاتے تھے اور مومنوں کو ہلاک کرتے تھے۔

نافرمان عورتیں
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میں عورتوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا جن کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی تھیں، آگ کے کپڑے ان کو پہنائے ہوئے تھے، فرشتے ان کو گرزوں سے مار رہے تھے، وہ کتیوں کی مانند آواز نکالتی تھیں، جبرائیل علیہ السلام سے میں نے پوچھا یہ عورتیں کون ہیں اور انہیں اس طرح سزا کیوں دی جارہی ہے انہوں نے فرمایا:یہ وہ چرب زبان عورتیں ہیں جنہوں نے اپنے خاوندوں کو ناراض رکھا۔

منافقین کا مقام
فرمایا: میں ایک ایسی قوم پر گزرا جو دنیا و آخرت کے درمیان محبوس ہوا میں معلق کھڑی تھی، ہر ایک پر دو غضب ناک فرشتے موکل کیے گئے تھے جن کی آنکھوں ، ناک اور کانوں سے آگ نکل رہی تھی ہر ایک فرشتہ کے ہاتھ میں ایک لٹھ تھی، ہر لٹھ کی ستر ہزار شاخیں تھیں، اگرایک شاخ کو وہ ابو قیس پر رکھیں تو وہ پگھل جائے ۔ان لٹھوں سے فرشتے ان کو مارتے اور فرشتے یہ تسبیح پڑھتے تھے: سبحان القادرالمقدر سبحان المنتقم علی اعدائہ سبحان الملک العظیم۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: یہ منافقین ہیں۔

والدین کے نافرمان
آنحضرت ﷺ نے فرمایا، میں نے ایک بہت بڑا گروہ دیکھا جسے آگ کی وادی میں قید کیا گیا تھا ، آگ ا ن کو جلا دیتی وہ پھر ٹھیک ہو جاتے آگ پھرانہیں جلا دیتی، جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: یہ اپنے والدین کے نافرمان ہیں۔

گانے والے فنکار
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میں نے ایک اور جماعت کو دیکھا، جن کے سینوں پر آگ کے طبق رکھے ہوئے تھے ، چہرے سیاہ، آنکھیں نیلی انہوں نے سیاہ لباس پہنا ہوا تھا ، عذاب کے فرشتے انہیں آگ کی لٹھوں سے مارتے تھے، جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: یہ گویے (گلوکار )ہیں۔

رعد اپنے اصلی رُوپ میں
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں نے ایک فرشتہ آدمیوں کی شکل و صورت کا دیکھا جس کا نصف بالائی حصہ آگ اور نصف زیریں حصہ برف کا بنا ہوا تھا، نہ ہی آگ برف کو پگھلاتی تھی اور نہ برف آگ کو بجھاتی تھی، میں نے پوچھا: یہ فرشتہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: اس فرشتہ کو حق سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کمال قدرت سے پیدا فرمایا ہے اور اسے بادلوں پر موکل کیا ہے، جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کا ارادہ بارش برسانے کا ہوتا ہے بادلوں کو وہاں پہنچا دیتا ہے، اس فرشتہ کا نام رعد ہے، بادلوں میں کڑ اور بجلی پیدا کرنے کا وہ سبب ہوتا ہے، جب وہ بادل کو چلاتا ہے تو اس میں سے کڑک کی آواز نکلتی ہے اور جب بادل کی طرف رغبت کرتا ہے بجلی چمکتی ہے۔

بحرالحیوان
فرمایا: جب میں اس جگہ سے گزر گیا ایک دریا پر پہنچا جس کے بے شمار غرائب وعجائب احاطہ توصیف سے باہر ہیں، پانی دودھ سے زیادہ سفید ، پہاڑوں کی مانند موجیں مارتا، میرے دریافت کرنے پر جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: یا رسول اللہ ﷺ! یہ بحرالحیوان ہے، جب مردے اٹھائے جانے کا وقت ہو گا تو اس دریا سے زمین پر بارش برسائیں گے جس کے پانی سے بوسیدہ اور ریزہ ریزہ شدہ اعضاکو ترکیب دے کر پھر زندہ کریں گے۔

دوسرے آسمان پراسرافیل آپ ﷺ کا استقبال کرتے ہیں
دوسرے آسمان پر جب آنحضرت ﷺ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ تشریف لے گئے تو وہاں اس آسمان کے خازن اسرافیل نامی فرشتہ نے آپ ﷺ کااستقبال کیا جس کے تابع دو لاکھ فرشتے تھے

رکوع گزار فرشتے
فرمایا: جب میں ان سے گزر گیا، فرشتوںکی ایک جماعت کے پاس پہنچا، تمام صف باندھے رکوع میں جھکے ہوئے یہ تسبیح پڑھتے ہیں: سبحان الوارث الواسع سبحان الذی لا یدرک ابصار سبحان العظیم العلیم، ان فرشتوں پر رکوع میں اس قدر خشوع و خضوع طاری تھا کہ جب سے پیدا ہوئے ہیں سر نہیں اُٹھایا اور تیسرے آسمان کو نہیں دیکھا، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا: اہل آسمان کی عبادت ایسی ہی ہے؟ اس نے کہا: ہاں ، خدا تعالیٰ سے دُعا کیجئے کہ اس عبادت کو آپ اور آپ کی اُمت کو عطا فرمائے۔ میں نے دُعا کی، مجھ پر اور میری امُت پر نماز میں رکوع فرض ہوا۔

حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہم السلام سے ملاقات
آپ ﷺ نے فرمایا: میں ان فرشتوں سے آگے نکل کر دو جوانوں کے پاس پہنچا، میرے دریافت کرنے پر جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام ہیں، ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: ان کو سلام کیجئے میں نے سلام کیا، تحیت اور اس کے آداب بجا لایا۔ انہوںنے جواب دیا اور فرمایا: مرحبا یا اخ الصالح والنبی الصالح، عیسیٰ علیہ السلام نے میرے
ساتھ مصافحہ کیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: جب میں آسمان سوم میں داخل ہوا تو میں نے بہت سے صف بستہ فرشتے دیکھے یہ تمام فرشتے سجدہ میں تھے، میں نے انہیں سلام کیا، سر اٹھا کر انہوں نے سلام کا جواب دیا اور پھر سجدہ میں چلے گئے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ آسمان سوم کے فرشتوں کی یہ عبادت ہے؟ فرمایا خدا تعالیٰ سے دعاکیجئے یہ عبادت آپ ﷺ اور آپ کی امت کو عطا فرمائے۔ میں نے دعا کی تو مجھے یہ عبادت عطا فرمائی ہر رکعت میں دو سجدے فرض قرار دیے کیونکہ فرشتوں نے سر اٹھا کر میرے سلام کا جواب دیا اور پھر سجدہ کیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے یہاں اپنے بھائی یوسف علیہ السلام حضرت داﺅدعلیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملاقات کی، سلام کیا، انہوں نے سلام کاجواب دیا اور مجھے کرامات کی بشارت دی اور فرمایا کہ آج کی رات اُمت کی شفاعت میں کوتاہی نہ کیجئے۔آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے بعد میں ایک بہت بڑے دریا پر پہنچا جس کی توصیف خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا ۔جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا۔ اس دریا کا نام بحرالنقم ہے۔ اس دریا میں سے پانی کی کچھ مقدار دنیا میں بھیجی تو طوفان نوح ظہور پذیر ہوا۔ یہ دریا دنیا سے سات گنا بڑا ہے یعنی مشرق سے مغرب اور زمین سے آسمان تک، پھر فرمایا: جب میں اس دریا سے گزر گیا، تو چوتھے آسمان پر پہنچا۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی موسیٰ علیہ السلام سے اسی آسمان پر ملا اور ایک روایت کے مطابق چھٹے آسمان پرملاقات کی ، واللہ اعلم ۔ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے ان کو سلام کرنے کے لیے کہا، میں نے بڑھ کر سلام کیا، وہ اٹھے اور میرے ساتھ بغل گیر ہوئے، میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا: الحمدللہ الذی ارانی وجھک، سپاس و ستائش اس خدا کے لیے ہے جس نے مجھے آپ کے دیدار کی سعادت بخشی، مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت سی کرامات کی بشارت دینے کے بعد فرمایا: آ ج وہ رات ہے کہ آپ کو حق سبحانہ وتعالیٰ خاص اپنے سامنے جگہ دیںگے، ایسی خاص مجلس ہو گی کہ کسی مخلوق کی وہاں گنجائش نہیں ہو گی ۔

آپ جانتے ہی ہیں کہ کیا کچھ طلب کرنا ہے، بہر حال ضعفائے امت کو مت بھولیے، اگر ان پر کچھ فرائض عائد ہوں تو اعمال امت میں تخفیف کی درخواست کیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میںآپ کی نصیحتوں پر عمل کروں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: آسمان چہارم کے تمام فرشتوں کو میں نے دوزانو بیٹھے ہوئے دیکھا اور یہ تسبیح پڑھتے تھے: سبحان الرؤف الرحیم سبحان الذی لا یخفیٰ علیہ شی سبحان رب العالمین، میں نے پوچھا: تو بتایا گیا کہ آسمان چہارم کے فرشتوں کی یہ عبادت ہے؟ فرمایا: ہاں خدا تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ یہ عبادت آپ ﷺ اور آپ کی امت کو عطا فرمائے۔ میں نے دُعا کی جو منظور ہوئی، قعدہ اخیر مجھ پر اور میری امت پر فرض ہوا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: مریم خاتون موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو میں نے چوتھے آسمان میں دیکھا، میرے استقبال کے لیے تشریف لائیں، حضرت مریم علیہ السلام کے سفید مروارید کے ستر ہزار محل تھے اور موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے ستر ہزار محل سبز زمرد کے الگ تھے اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ستر ہزار محل سرخ یا قوت اور ستر ہزار محل تازہ مرجان کے تھے۔آپ ﷺ نے فرمایا: ان عجائبات میں سے جو میں نے آسمان چہارم میں دیکھے ایک یہ بھی تھا، میں نے ایک فرشتہ غمگین، منقبض کرسی پر بیٹھا ہوا دیکھا، اس تخت کے چار کونے تھے، ہر کونہ کے سات لاکھ پائے، سرخ سونے، خام چاندی اور مروارید کے بنے ہوئے تھے، اس کے گردا گربے شمار فرشتے تھے جن کی تعداد خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اس کے دائیں طرف نورانی فرشتے تھے اس کے بائیں طرف میں نے فرشتے دیکھے ، تمام سیاہ رو،جن کے لباس بھی سیاہ تھے، ورشت گو، بد خو تسبیح پڑھے تھے تو ان کے منہ سے شعلے نکلتے تھے، کوئی شخص انہیں دیکھ نہیں سکتا تھا، وہ فرشتہ جو تخت پر بیٹھا ہوا تھا، مجسمہ چشم تھا، اس کی آنکھ کے انوار مشتری و مریخ کی مانند آسمان میں چمکتے تھے ، اس کے بہت سے پر تھے، میں نے اس کے سامنے بہت سے پر رکھے ہوئے دیکھے، انتہائی بزرگ ، تختی ہاتھ میں لیے اسے دیکھے جا رہا تھا ایک لمحہ بھی اس سے نظر نہیں اٹھاتا تھا، ایک بڑا درخت اس کے سامنے کھڑا تھا، اس درخت کے اس قدر پتے تھے کہ ان کی تعداد صرف خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے، ہر پتے پر کسی شخص کا نام لکھا ہوا ہے میں نے ایک اور چیز ایک طشت کی مانند اس کے سامنے رکھی ہوئی دیکھی۔ وہ ہر لمحہ ہاتھ بڑھا کر اس میں سے کوئی چیز اٹھا لیتا، کبھی اسے خوبصورت نورانی فرشتوں کو دیتا اور کبھی اسے بدصورت سیاہ فرشتوں کے سپرد کرتا، جب میری نگاہ اس فرشتہ کے چہرہ پر پڑی میرے دل میں اس کا خوف پیدا ہوا اور میں کانپنے لگا، میرے جسم میں ضعف اور سستی پیدا ہو گئی ۔میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا: یہ فرشتہ کون ہے اور اس کا کیا نام ہے۔ فرمایا: یہ عزرائیل علیہ السلام ہے، کوئی شخص بھی اسے دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا پھر جبرائیل علیہ السلام اس کے پاس گئے اورکہا اے عزرائیل علیہ السلام! یہ محمد ﷺ ہیں، پیغمبر آخرالزماں ﷺ ، حق سبحانہ وتعالیٰ کے محبوب۔اس نے سر اٹھایا اور مجھے دیکھا، مسکرایا ، میری تعظیم کے لیے اٹھا اور کہا مرحبا ۔ حق تعالیٰ نے کوئی پیغمبر آپ ﷺسے زیادہ عزیز اور بزرگ نہیں بھیجا اور آپ ﷺ کی اُمت سے زیادہ کوئی امت حق تعالیٰ کے نزدیک بزرگ نہیں، میں آپ کی امت پر ماں باپ سے زیادہ مہربان ہوں، میں نے کہا: اے ملک الموت! تو نے مجھے خوش کر دیااور مجھے غم سے رہائی دی لیکن مجھے ایک خدشہ ہے، میں چاہتا ہوں کہ اُسے آپ دُور کر دیں، پوچھا: وہ کیا ہے،؟ میں نے کہا: آپ بہت غمگین دکھائی دیتے ہیں اس کا کیامطلب ہے؟ اس نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! جب سے خدا تعالیٰ نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے اور ارواح کی امیدیں میرے سپرد کی ہیں میں ہمیشہ ڈرتا رہتا ہوں کہیں مجھ سے کوئی کوتاہی نہ ہو جائے ۔میں اس خدمت کو پورا نہ کر سکوں اور خدا تعالیٰ کی گرفت میں آ جاﺅں۔ میں نے پوچھا: یہ طشت کیاہے؟ فرمایا: یہ تمام دنیا کی مثال ہے، تمام دنیا میرے احاطہ اقتدار میں ہے، اسی طرح ہے جس طرح اب میرا تصرف یہ طشت ہے۔ میں نے پوچھا: یہ لوح کیسی ہے؟فرمایا: اس تختی پر زندوں کی موت کا وقت درج ہے۔ میں نے پوچھا: یہ درخت کیسا ہے؟ فرمایا: یہ نیک بختوں اور بدبختوں کا نشان ہے۔ ہر انسان کا نام ایک پتے پر لکھا ہوا ہے، دوسرے پتہ پر اس کی نیک بختی یا بدبختی لکھی ہوئی ہے، جب وہ انسان دنیا میں بیمار ہو جاتا ہے وہ پتہ جس پر اس کا نام لکھا ہوتا ہے زرد ہوجاتاہے، جب اس کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو وہ پتہ اس سے جدا ہو کر اس تختی پر آ جاتا ہے اور اس کے نام کو لوح سے مٹا دیتا ہے، میں ہاتھ بڑھا کر اس انسان کی رُوح خواہ مشرق میں ہو یا مغرب میں قبض کر لیتا ہوں۔میں نے پوچھا : یہ فرشتے جو آپ کے دائیں بائیں ہیں یہ کس لیے ہیں، انہوںنے کہا : یہ فرشتے جو دائیں طرف ہیں، رحمت کے فرشتے ہیں جب میں نیک بختوں کی جان قبض کرتا ہوں ان کے سپرد کرتاہوں، بائیں طرف عذاب کے فرشتے ہیں، بدبختوں کی جان ان کے سپرد کرتا ہوں، میں نے ان کی تعداد کے متعلق پوچھا تو فرمایا مجھے ان کی تعداد کا علم نہیں لیکن ہر انسان کی رُوح قبض کرتے وقت چھ لاکھ فرشتہ رحمت اور چھ لاکھ فرشتہ عذاب حاضر ہوتے ہیں جو جماعت اس پر مقرر ہوتی ہے دوسری مرتبہ قیامت تک اس کی نوبت نہیں آتی۔ میں نے پوچھا: اے ملک الموت! ہر رُوح کو قبض کرنے کے لیے آپ کو خود تگ و دو کرنا پڑتی ہے یادوسروں کے سپرد بھی یہ کام کر سکتے ہو؟ فرمایا: جس روز سے مجھے اس جگہ بٹھایا گیا ہے، میں اس جگہ سے نہیں اٹھا لیکن میرے تحت ستر ہزار قائد ہیں ہر قائد کے زیر فرمان ستر ہزار فرشتہ ہے۔ جب کسی انسان کی رُوح قبض کرنے کا وقت ہوتا ہے میں ان کو بھیجتا ہوں، وہ اس کی جان قبض کر کے حلق تک پہنچا دیتے ہیں پھر میں ہاتھ بڑھا کر اس کا کام تمام کر دیتا ہوں، آنحضرت ﷺ نے ملک الموت کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: اے مقرب فرشتہ! میری آپ سے ایک درخواست ہے مہربانی فرماکر قبول کیجئے۔ اس نے کہا: آپ جو کچھ فرمائیں، بسر و چشم۔ فرمایا: میری درخواست ہے کہ میری امت کے ساتھ سہولت کے ساتھ معاملہ کریں کیونکہ ان میںکمزور اور نحیف و نزار بھی ہیں۔ ملک الموت نے جواب دیا: آپ خوش ہو جائیں مجھے اس معبود کی قسم ہے جس نے خلعت خاتمیت انبیاءو رسل آپ کو پہنایا، روزانہ ستر ہزار مرتبہ حق سبحانہ و تعالیٰ بذات خود مجھے خطاب فرماتا ہے کہ اے عزرائیل! اُمت محمد ﷺ کے ساتھ نرمی اور سہولت کا سلوک کر ، اور سہولت سے ان کی جان قبض کر۔ اسی لیے میں ان پر ماں باپ سے زیادہ مہربان ہوں۔۔

اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور بیت المعمور میں لے کر داخل ہوئے اور فرمایا: یا رسول اللہ! ساتوں آسمانوں کے فرشتوں کی امامت کیجئے۔ جس طرح زمین پر تمام انبیاءکی امامت کی آسمان پر تمام فرشتوں کے امام بنیے۔ میں نے وہاں دو رکعت نماز ادا کی، ساتویں آسمانوں کے فرشتوں نے میری اقتداءکی۔ خواجہ عالم ﷺ نے فرمایا: جب میں نے یہ جمعیت ملاحظہ کی، میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ خدا تعالیٰ میری امت کو بھی ایسی ہی جمعیت عطا فرمائے۔ اہل تذکیر کی کتابوں میں یوں آیا ہے کہ جب جمعہ کا روز ہوتا ہے ملاءاعلیٰ کے فرشتے اور عالم بالا کے کرو بیاں بیت المعمور میں جمع ہوتے ہیں ، جبرائیل علیہ السلام اس منارہ پر نماز کے لیے اذان کہتے ہیں، اسرافیل علیہ السلام اس منبر پر آ کر خطبہ پڑھتے ہیں، میکائیل علیہ السلام امامت کراتے ہیں، ساتوں آسمانوں کے فرشتے ان کی اقتداءکرتے ہیں۔ جب نماز ختم ہوجاتی ہے جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں : اے فرشتو! گواہ رہو کہ میں نے اپنی اذان کا ثواب امت محمد ﷺ کے موذونوں کو بخشا۔ میکائیل علیہ السلام بھی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی امامت کا ثواب اُمت محمد ﷺ کو بخشا، تمام فرشتے یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ ہم نے اس نماز کے ثواب کو امت محمد ﷺ کے جمعہ پڑھنے والوں کو بخشا، حق سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان پہنچے گا کہ ہماری خدمت میں اپنی سخاوت کو مت پیش کرو، کیونکہ سخاوت کا تو میں خود خالق ہیں، گواہ رہو کہ میں نے محمد ﷺ کی امت کو بخش دیا اور ان کو عذاب آخرت سے محفوظ کر دیا۔

سورج خدا تعالیٰ کو سجدہ کرتا ہے
کہتے ہیں کہ چوتھے آسمان پر سورج کو دیکھا، ایک روایت کے مطابق زمین سے ایک سو ساٹھ گنا بڑا تھا، اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق سورج کا میدان اسی ہزار سالہ راہ ہے۔ جب حق تعالیٰ نے سورج کو پیدا فرمایا تو اس کے لیے ایک کشتی تیار کی، سرخ یا قوت کی، ایک تخت جس کے تیس لاکھ اور ساٹھ پائے ہیں، ہر پایہ کو ایک فرشتہ پکڑے ہوئے ہے، آفتاب سنہری کشتی میں رکھا اور کشتی کو اس تخت پر رکھا، اس تخت کو تیس لاکھ ساٹھ فرشتے پکڑ کر دریائے فلک میں (جو چوتھے آسمان کے نیچے ہے) لے جاتے ہیں ، ہر صبح مشرق سے نکالتے ہیں اور شام کے وقت مغرب کی طرف غروب کرتے ہیں، وہ تمام فرشتے اس آسمان میں عبادت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

صبح کو پھر تیس لاکھ ساتھ دوسرے فرشتے اسے مشرق سے نکالتے ہیں، اسی طرح ہر روز نئے فرشتے آتے رہتے ہیں جو ایک دفعہ آتے ہیں دوبارہ قیامت تک ان کی نوبت نہیں آتی۔ بعض تفاسیر میں سورج کے مستقر کو عرش کے نیچے بیان کیا ہے کہ ہر رات سورج کو ساق عرش میں غروب کرتے ہیں وہاں سورج خدا تعالیٰ جل و علا کو سجدہ کرتا ہے اور پھر وہیں رہتا ہے تا آنکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے صبح کے وقت مشرق سے اسے نکالا جاتاہے اسی طریقہ سے وہ سفر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے مغرب کی طرف سے نکالنے کا حکم ہوتاہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: جب میں پانچویں آسمان پر پہنچا تو حضرت ابراہیم ، اسماعیل، اسحاق ، لوط اور یعقوب علیہم السلام ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے میں اُن کے پاس گیا اور ان کو سلام کیا، انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے میرے ساتھ ساتھ مصافحہ کیا اور فرمایا: اے محمد ﷺ ! آج رات آپ کی حاضری اللہ وحدہ لاشریک کے سامنے ہو گی، جہاں تک ہو سکے اپنی امت کے لیے تخفیف طلب کیجئے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: جب میں آسمان ششم میں داخل ہوا۔ تو اس آسمان کے عبادت گزاروں اور فرمانبرداروں کے پاس سے گزرا تمام کو قومہ میں خشوع و خضوع سے کھڑا پایا ۔ اسی آسمان پر ایک مقام پر ایک دروازہ آپ ﷺ کو دکھائی دیا حضرت جبرائیل علیہ السلام سے جب پوچھاتو انہوںنے بتایاکہ یہ دروازہ دوزخ اور تمام کائنات کے درمیان ہے اسی وجہ سے اسے باب الامان کہتے ہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میں نے جبرائیل علیہ السلام سے درخواست کی کہ وہ اس دروازہ کو کھولیں تاکہ اس کو دیکھوں۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! اس کے آگے دوزخ ہے اور آپ کو دوزخ اور دوزخیو ں سے کیا کام؟ یہ رات کرامت کی رات ہے ، آگے نکلیے تا کہ جلد مقام کرامت پر پہنچیں، میں نے کہا: اے جبرائیل علیہ السلام ! میں اسے ضرور دیکھنا چاہتا ہوں، حکم ہوا کہ میرے حبیب کے ہاتھ کے اشارے سے دروازہ کھل جائے گا، آنحضرت ﷺ نے انگلی سے اشارہ فرمایا: دروازہ کھل گیا، دوزخ کا دُھواں اور شعلے نظر آنے لگے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے دوزخ کے اندر نگاہ ڈالی توایک فرشتہ بہت ہی بارعب اور ہیبت ناک نظر آیا، میں نے اس سے بڑا کوئی فرشتہ نہیں دیکھا تھا، یہ ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کے برابر تھا، سیاہ کپڑے پہنے ہوئے۔ اس کے سامنے ہزاروں درشت اور کرخت، تر شرو سیاہ پوش فرشتے کھڑے تھے، ہر ایک کے ہاتھ میں آگ کا گرز تھا، یہ فرشتہ لوہے کے سیاہ منبر پر بیٹھا ہوا تھا، اس منبر کے آٹھ لاکھ پائے تھے، ہر ایک پایہ زمین سے آسمان تک تھا اور وہ سر جھکائے تسبیح پڑھ رہا تھا اس کے منہ سے آگ برستی تھی، ناک کے دونوں نتھنوں سے بھی آگ کے شعلے لپکتے تھے، یہ فرشتہ بہت ہی ہیبت ناک تھا، اس کی دو آنکھیں تھیں ہر آنکھ دنیا کے برابر بڑی تھی، اُس کی آنکھوں سے آگ کے شعلے بلند ہوتے تھے، میں اس سے بہت ڈرا، اگر خدا میری مدد نہ کرتا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل علیہ السلام ! یہ کون ہے جس کے خوف سے میں بدحواس ہو گیا ہوں اور میرا عضوعضو کانپنے لگا ہے، ہوش و حواس زائل ہو گئے ہیں جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: یہ مالک نامی فرشتہ خازن دوزخ ہے۔ جس روز سے خدا تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے آج تک نہیں ہنسا اور خوشی کا اظہار نہیں کیا، میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا، مصروفیت کی زیادتی کی وجہ سے اس نے سرنہ اٹھایا، جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: اے مالک! یہ محمد ﷺ ہیں جب اس نے میرا نام سنا تو سر اٹھایا اور میرے سلام کا جواب دیا، میری تعظیم کے لیے کھڑا ہوا اور تواضع سے پیش آیا، میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: آپ کو بشارت ہو اے محمد ﷺ ! خدا تعالیٰ نے اپنی خوشنودی کے لیے آ پ کے گوشت پوست کو دوزخ کی آگ پر حرام کر دیا ہے اور جو شخص آپ کی فرمانبرداری کرے گا، آپ کی برکت سے اس پر بھی آتش دوزخ حرام ہو گی۔ مجھے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں ان گنہگارورں پر رحم کروں جو آپ پر ایمان لائے ہیں اور ان سے انتقام لوں جو آپ پر ایمان نہیں لائے اور آپ کی اتباع نہیں کی۔پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: مالک کے ہاتھ میں ایک گرز تھی جس کے سات سو سر تھے۔ تمام مخلوقات مل کر بھی اس کے ایک سر کو ایک طرف سے دوسری طرف نہیں پھیر سکتی۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خواہش پر دوزخ کے تمام طبقے آپ کو دکھائے گئے اور تمام گروہوں کو مختلف عذاب ہوتے دکھایا گیا، ایک روایت میں ہے کہ واپسی کے وقت دوزخیوں کے عذاب کو دکھایا گیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: جب میں حضرت میکائیل علیہ السلام کے پاس پہنچا۔ وہ ایک بہت بڑی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے سامنے ایک بڑا ترازو رکھا ہوا تھا، چنانچہ اس کا ہر ایک پلڑا زمین وآسمان سے بڑا تھا۔ اس کی ڈنڈی مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوئی تھی۔ بے حدو حساب سامان ان کے پاس رکھا ہوا تھا، میں ان کے پاس گیا اور سلام کیا، انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور اٹھ کر بغل گیر ہوئے ۔ مجھے دعا دیتے ہوئے فرمایا: زادک اللہ تعالیٰ کرامة وفرحا۔

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں جب میں ساتویں آسمان میں داخل ہوا میں نے روحائیل نامی فرشتہ کو دیکھا، اسے سلام کیا، اس نے میرے سلام کا جواب دیا اور میری ملاقات پرخوشی و شادمانی کا اظہار کیا، مجھے حسنات کی قبولیت اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی بشارت دی اور بہت سی کرامات کا وعدہ فرمایا۔ اسی آسمان پر میں ایک فرشتہ کے پاس سے گزرا جو کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، اس کا سرعرش کے نیچے اور پاﺅں ساتویں زمین کے نیچے تھے، وہ اس قدر بڑا تھا کہ دنیا و آخرت اس کا ایک لقمہ تھی، اس کے دور پر تھے، ایک پر کا سرا مغرب تک پہنچتا اور دوسرا مشرق تک، اس کے سامنے سات لاکھ فرمانبردار بزرگ فرشتے تھے، ہر فرشتہ کے زیر فرمان سات سات لاکھ فرشتوں کے اور لشکر تھے، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا: یہ اسرافیل علیہ السلام ہیں۔ میںان کے پاس گیا اور سلام کیا، انہوں نے میرے سلام کا جواب دیااور آداب بجا لائے، مجھے بہت سی کرامات و بشارات سے خوش و خرم کیا۔

ایک روایت میں ہے کہ فرمایا: میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ساتویں آسمان پر دیکھا، جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: یہ آپ کے والد ہیں، ان کو سلام کیجئے، میں نے سلام کیا اور آداب بجالایا، آپ نے جواب دیا اور فرمایا: مرحبا بابن الصالح والنبی الصالح ، آپ نے نصیحت فرمائی: اے محمد ﷺ ! اپنی امت سے کہیے کہ بہشت کی زمین پاک اور زراعت کی صلاحیت رکھتی ہے، اس میں بہت درخت بوئیے۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا: بہشت میں درخت کس طرح بوئے جا سکتے ہیں؟ فرمایا: لا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم کہنے سے ، اور ایک روایت یہ ہے سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم، اس کے بعدساتویں آسمان سے گزار کر آنحضرت ﷺ کو سدرة المنتہیٰ پر پہنچا۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام کے محراب کے سامنے آنحضرت ﷺ کے نام کی ایک کرسی رکھی ہوئی تھی، جس روز سے یہ کرسی بنی آج تک کسی کو اس پر بیٹھنے کی جرا ¿ت نہیں ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھے اس پر بٹھایا، اس کرسی کے چاروں طرف میں نے کرسیاں دیکھیں، اس کرسی کے سامنے دس ہزار کرسیاں تھیںجو مروارید سفید سے بنی ہوئی تھیں ان پر تورات لکھی ہوئی تھی، ہر کرسی کے گرد چالیس ہزار فرشتے کھڑے تورات پڑھ رہے تھے، میں نے دوسری طرف دس ہزار کرسیاں رکھی ہوئی دیکھیں ان پر انجیل لکھی ہوئی تھی اور ہر کرسی کے گرد چالیس ہزار فرشتے کھڑے انجیل پڑھ رہے تھے، اور دوسری طرف دس ہزار کرسیاں رکھی ہوئی تھیں ان پر زبور لکھی ہوئی تھی، ہر کرسی کے گرد چالیس ہزار فرشتے کھڑے زبور پڑھ رہے تھے۔ چوتھی طرف دس ہزار کرسیاں سرخ یا قوت کی رکھی ہوئی تھیں ان پر قرآن مجید لکھا گیا تھا اور ہر کرسی کے گرد چالیس ہزار فرشتے قرآن مجید کی تلاوت میںمشغول تھے۔ اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! میری آپ سے ایک درخواست ہے، آنحضرت ﷺ نے ان کی درخواست قبول کر لی اور دو رکعت نماز ادا فرمائی اور سدرة المنتہیٰ کے تمام فرشتوں نے آنحضرت ﷺ کی اقتدا کی جس طرح بیت المقدس میں تمام انبیا کی امامت کی تو انہیں آنحضرت ﷺ کی بزرگی و فضیلت کا علم ہوا فرشتوں کو بھی آپ کی بزرگی معلوم ہوئی۔
میں نے اس کی جڑ سے چار دریا نکلتے دیکھے، دو ظاہر میں اور دو باطن میں۔ میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوںنے بتایا، یہ دونوں پوشیدہ دریا جنت میں بہتے ہیں اور یہ دونوں ظاہر دریا دریائے نیل اور فرات ہیں جو دنیا میں بہتے ہیں۔فرمایا: میں نے وہاں ایک دریا دیکھا جس کے کناروں پر یا قوت ، موتی اور زبر جد کے برتن تھے اور اس کے کناروں پر سبز پرندے دیکھے جن کی گردنیں اُونٹوں کی طرح تھیں، میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ بتایا: یہ نہر کوثر ہے جسے خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے۔ قولہ تعالیٰ انا اعطیناک الکوثر ،یہ نہر یا قوت اور زمرد کے سنگریزوں پر بہتی تھی، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا، میں نے کنارے سے ایک برتن اٹھا کر اس کے پانی سے بھرا اور پیا، شہد سے زیادہ میٹھا تھا اور کستوری سے زیادہ خوشبودار۔

سدرة المنتہیٰ ، جبرائیل علیہ السلام کا مقام
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی جائے قیام سے سدرة المنتہیٰ تک میرے ساتھ آئے اور وہاں سے واپسی کی اجازت چاہی۔ میں نے کہا: اے جبرائیل علیہ السلام! آپ مجھے تنہا چھوڑے جا رہے ہیں، فرمایا: یارسول اللہ ﷺ ! میرے لیے اس سے آگے بڑھنا ممکن نہیں قولہ تعالیٰ ومنا الا لہ مقام معلوم، یا رسول اللہ ﷺ ! میری رفاقت ختم ہو گئی۔ خواجہ عالم ﷺ نے فرمایا: اے جبرائیل علیہ السلام آپ نے خود کہا تھا کہ میں آپ کو وہاں لے جاﺅں گا اگر آپ لے جانے والے تھے تو میں تو جا رہا ہوں اور آپ پیچھے کیوں رہ رہے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے ہاتھ بڑھا کر جبرائیل علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ لیا اور ایک قدم اپنے ساتھ آگے لے گئے مگر وہ ہیبت الٰہی سے تھر تھر کانپنے لگے، آنکھوں سے آنسو بہتے اورآہ زاری کرتے تھے کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے اپنے مقام پر واپس بھیج دیجئے، اگر ایک انگشت برابر بھی آگے بڑھوں گا تو ہیبت الٰہی سے جل جاﺅں گا۔ لیکن جب آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام پگھل رہے ہیں اور ڈر ہے کہ بالکل فنا ہو جائیں گے تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا، پانچ سو سالہ راہ جو انہوں نے ایک قدم میں طے کی تھی اس پر جبرائیل علیہ السلام کو لوٹا دیا۔ آنحضرت ﷺ کو آواز آئی: اے محمد ﷺ ! آپ ﷺ کب تک قیامت کی مسافتوں اور مشکلات کی فکر کریں گے، یہاں آپ نے ہاتھ کے ایک اشارہ سے جبرائیل علیہ السلام کے پانچ سو سالہ کو ایک قدم میں طے کرا دیا ہے کل قیامت کو جب آپ شفاعت کے لیے لب کشائی فرمائیں گے اگر پچاس ہزار سالہ راہ قیامت کو ایک لمحہ میں طے کر لیں توکیا تعجب ہے۔ ایک اور روایت یہ ہے کہ جب میں سدرہ سے گزر گیا مجھے جبرائیل علیہ السلام نے کہا: یا محمد ﷺ ! تقدم ، آگے بڑھیے۔ میں نے کہا: آپ آگے چلیں ، فرمایا: اے محمد ﷺ ! تقدم فانک اکرم علی اللہ منی ، آپ آگے چلیے، خدا تعالیٰ کے نزدیک آپ مجھ سے بزرگ تر ہیں، پس میں چل پڑا اور جبرائیل علیہ السلام میرے پیچھے یہاں تک کہ مجھے زربفت کے ایک پردے تک پہنچا دیا پھر پردے کو حرکت دی، آواز آئی: کون ہے؟ فرمایا: میں جبرائیل علیہ السلام ہوں اور میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں، حجاب کے پیچھے سے فرشتے نے کہا: اللہ اکبر اللہ اکبر، پردے کے پیچھے سے آواز آئی، صدق عبدی انا اکبر انا اکبر، فرشتے نے کہا: اشھد ان لا الہ الا اللہ، پردے کے پیچھے سے آواز آئی: انا اللہ لا الہ الا انا، فرشتے نے کہا: اشھدان محمد رسول اللہ، پردے کے پیچھے سے آواز آئی: انا ارسلت محمدا، فرشتے نے کہا: حی علی الصلوة حی علی الافلاح، آواز آئی: صدق عبدی ودعا الی عبادی انا دعوتھم الی بالی بی افلح من اجاب داعی، فرشتہ نے کہا : لا الہ الا اللہ ، آواز آئی: صدق عبدی لا الہ الا انا، اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے آواز سنی: اے محمد ﷺ ! اکمل اللہ بکل الشرف علی الاولین والآخرین، حق سبحانہ ¾ وتعالیٰ نے آپ کی فضیلت و شرف کو اولین و آخرین پر مکمل کیا۔ جبرائیل علیہ السلام سے میں نے اس فرشتہ کے حالات پوچھے، جبرائیل علیہ السلام نے کہا: خداکی قسم میں تمام مخلوقات میں خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوں، میں نے اس فرشتہ کو کبھی نہیں دیکھا آج جب یہاں پہنچا ہوں تو دیکھا ہے، پھر فرشتے نے پردہ کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر مجھے اٹھا لیا اور جبرائیل علیہ السلام کھڑے رہ گئے، میں نے کہا: ایسی جگہ پر آپ مجھ سے کیوں پیچھے رہتے ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا: اے محمد ﷺ وما منا الا لہ مقام معلوم، ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک مقررہ مقام ہے جس سے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، آج رات آپ کے احترام کی خاطر میں یہاں تک پہنچا ہوں وگرنہ میرا مقام معلوم تو سدرة المنتہیٰ ہی ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اے جبرائیل علیہ السلام ! میرا گمان تھا کہ آپ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہیں، اب آپ خود اپنے مقام سے پیچھے رہ رہے ہیں من رضی بمقام حجب عن امامہ، بعض بزرگوں نے کہا ہے کہ جب جبرائیل علیہ السلام نے کہا: وما منا الا لہ مقام معلوم، معلوم ہواکہ آدمیوں میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کو یہ مقام حاصل نہ ہوتا کہ منا کی تخصیص کا فائدہ ہو اور اگر یہ مقام کسی کوحاصل ہوا تو وہ محمد ﷺ ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میں تنہا چل پڑا، ظلمت و نور کے پردے طے کرتا رہا یہاں تک کہ میں ستر ہزار پردوں میں سے گزرا، ہر پردہ کی موٹیائی پانچ سو سالہ راہ تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ اس جگہ تک براق آنحضرت ﷺ کی سواری میں تھا، جب وہاں پہنچے براق عاجز آ گیا اور سبزرفرف ظاہر ہوا جو سورج سے بھی زیادہ صاف و شفاف تھا، مجھے اس رفرف پر بٹھا دیا گیا میں چلتا رہا-یہاں تک کہ عرش کے نیچے پہنچ گیا۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام ساتھ چھوڑ گئے تومیکائیل علیہ السلام پیش ہوئے۔ سلام کیا اور کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! اب میری ڈیوٹی ہے۔ میں نے میکائیل علیہ السلام کے پَر پر قدم رکھا وہ مجھے اٹھا کر دریائے آتش تک لے گئے، مجھے یوں محسوس ہوتا تھاکہ تمام ملکوت کو آگ نے گھیر رکھا ہے، میکائیل علیہ السلام نے اپنی پرواز سے مجھے اس آگ کے دریا سے گزار دیا اس کے بعد کئی پردے تھے ہر پردہ پانچ سو سالہ راہ کا تھا ان حجابات سے بھی مجھے اپنی پرواز کے ذریعے گزار دیا، اس کے بعد اور حجابات آئے ، میں نے دیکھا کہ میکائیل علیہ السلام تھک گئے ہیں اور اڑ نہیں سکتے، مجھے پہلے پردہ پر بٹھا دیا اور معذرت کر کے واپس چلے گئے۔ میں نے اسرافیل علیہ السلام کو دیکھا وہ سامنے آئے، سلام کیا، عزت و احترام کے آداب بجا لائے، مجھے اپنے پروں پر بٹھا لیا اور ان تمام رحجانات سے جن میں سے ہر ایک کی موٹائی ہزار سالہ راہ تھی گزار دیا، سامنے بہت بڑے بڑے دریا تھے، میں نے سات دریا دیکھے جو دنیا سے ستر گنا بڑے تھے، جن کی گہرائی مشرق سے مغرب تک تھی، ہر ایک زمین سے آسمان تک کے فاصلہ سے ستر گنا بڑا تھا، جب میں اس دریا سے گزر گیا تو پھر میں نے کوئی آواز نہیں سنی اور نہ ہی کسی فرشتہ کی تسبیح ہو تہلبل سے میری سماعت آشنا ہوئی اور میں مخلوق کے سامنے سے اس طرح غائب ہو گیا گویا دونوں جہان عظمت خداوندی کے مقابل مضحمل اور فنا ہو گئے ہیں، اس کے بعد میں ایسے حجابات کے پاس پہنچا کہ اگر میں تمام عمران کی تعریف و ثنا کرتا رہوں تو ختم نہیں ہو گی۔ اسرافیل علیہ السلام جب بھی اپنے پروں کو حرکت دیتے ان حجابات سے گزرتے جاتے ، یہاں تک کہ حجاب قدرت ظاہر ہوا ، یہ وہاں سے بھی گزر گئے، جب یہ حجاب عظمت کے پاس پہنچے تو ان سے بھی ظہور عجز ہوا اور معذرت کی اور مجھے حجاب عظمت کے پاس بٹھا کر واپس ہوئے، اچانک رفرف ظاہر ہوا اور مجھے سلام کیا رفرف نور کا ایک فرش ہے، اور ایک روایت میں سفید مروارید کا ہے، اس کی تسبیح و تہلیل کا غلغلہ ملکوت میں جاری و ساری تھا، میں نے اس پر قدم رکھا اور ایک ہی حرکت میں عرش کے نیچے پہنچ گیا۔

عرش کے زیر سایہ
اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جب میں عرش کے نیچے پہنچا، بے شمار پردے سامنے آئے، ان میں سے ستر ہزار پردے سنہری تھے اور ستر ہزار رو پہلے، ستر ہزار مرواریدی، ستر ہزار زمردی، ستر ہزار یا تو تی اور ستر ہزار نورانی پردے تھے، ستر ہزار پردے تاریکی کے اور ستر ہزار آبی، ستر ہزار آتشی اور ستر ہزار ہوا کے پردے تھے، ہر پردہ ستر لاکھ سالہ راہ کا تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: رفرف نے مجھے ان حجابات سے گزار دیا، پھر میں عرش کے پردہ نشینوں کے پاس پہنچا، میں نے ستر ہزار پردے دیکھے، ہر پردہ کی ستر لاکھ زنجیریں تھیں، ہر زنجیر ستر لاکھ فرشتوں کی گردن پر رکھی ہوئی تھی، ہر فرشتہ اس قدر بڑا تھا کہ اس کے ایک شانہ سے دوسرے شانہ تک ستر لاکھ سالہ راستہ تھا، یہ پردے مرواردی بعض یا وقتی اور بعض دوسرے جواہرات کے بنے ہوئے تھے، ہر پردہ میں ایک فرشتہ متعین تھا جس کے تابع ستر ہزار فرشتے تھے۔ رفرف مجھے ان حجابات سے گزارکر لے گیا یہاں تک کہ میرے اور عرش کے درمیان صرف ایک پردہ رہ گیا، میں نے دیکھا کہ رفرف میرے قدموں کے نیچے سے غائب ہو گیا۔ ایک ہی سفید مروارید سے بنی ہوئی صورت گھوڑے کی شکل میں میرے سامنے آئی، جو تسبیح پڑھ رہی تھی، اس کے منہ سے نور پھوٹا پڑتا تھا، مجھے اٹھا کر چلتی رہی یہاں تک کہ اس پردے سے گزار کر ساق عرش کے ساتھ پہنچا دیا، جب میں حجاب کبریا پر پہنچا وہ غائب ہو گئی، دوسری کوئی سواری مجھے اٹھانے والی نہ رہی، اس فضا میں بغیر کسی سہارے کے رہ گیا، خطاب آیا: اے میرے حبیب! چلے آئیے۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا توحجاب کبریا سے گزر چکا تھا، اس کے بعد میں نے اُدن منی کا خطاب سنا، جب میں اس خطاب سے مخاطب ہوا تو جو قدم بھی میں اٹھاتا اتنا فاصلہ طے کر لیتا جتنا زمین سے یہاں تک طے کیا تھا۔ ہزار مرتبہ ادن منی کاخطب سنا، ہر خطاب پر میں قدم اٹھاتا تھا اور اتنا فاصلہ (جو زمین سے یہاں تک تھا) طے کر لیتا تھا یہاں تک کہ میں قربت کے مقام پر پہنچ گیا، پھر درجہ فتدلی پر ترقی کی وہاں سے خلوت خانہ فکان قاب قوسین اوادنی پر پہنچااور فاوحی الی عبدہ ما اوحی کا محرم اسرار ہوا، حسن رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: دنی من العرش فتدل نزل علی الوحی فکان بینہ وبین العرش قاب قوسین او ادنیٰ۔امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ نے حجاب کو اٹھا دیا اور ان پر دوں سے گزر گئے، پھر پردوں کو گرا دیا یہاں تک کہ پھر کسی نے آپ کو نہ دیکھا یہاں تک کہ ستر لاکھ تاریکی کے پردوں، ستر لاکھ آفتاب ، ستر لاکھ چاند، ستر لاکھ موتیوں، ستر لاکھ یا قوت اور ستر لاکھ دوسرے جواہرات کے پردوں سے گزر گئے حتی کان بین الحبیب والمحبوب قاب قوسین اگر اسی پر اکتفا کرتے مکان کا گمان ہوتا، لامحالہ فرمایا: او ادنی بلک اقرب بلک اقرب بلک اقرب ، تا کہ کسی شخص کو مکان کا وہم نہ رہے، تاج المذکرین ، شرح تعریف میں ہے کہ جب آنحضرت ﷺ جبرائیل علیہ السلام سے جدا ہوئے تو آپ کو سات مقامات سے گزارا گیا، ہر مقام عرش سے ہزار گنا بڑھ کر جبرائیل علیہ السلام جو سید المرسلین کے محرم اسرار تھے انہیں تو مقام اولین کی بھی خبر نہیں تھی اس مقام تک کیسے بڑھتے۔

جب آنحضرت ﷺ اُدن منی کے خطاب سے مشرف ہوئے، ہر قدم پر آواز آتی: اے دوست! میںمکان نہیں ہوں جو میرے قرب تک رسائی ہو سکے۔ خواجہ عالم ﷺ نے عرض کیا: خداوند! میرے اختیار میں تویہی ہے ، ویسے قرب حقیقی کا تعلق آپ سے ہے۔القصہ ، اس قدر نزدیک پہنچ گئے کہ آپ پر ہیبت جلال وجمال ظاہر ہوئی عزت ربوبیت نے آواز دی: ”اور زیادہ نزدیک آئیے۔“ بساط قرب پر اس قدر آگے بڑھ گئے۔

مقام قربت
حاصل کلام یہ کہ آنحضرت ﷺ کے قدم بساط قدم پر پہنچے ہوئے تھے۔ جسم خدمت میں ، دل قرب، جان مشاہدہ اور سر کو وصل حاصل تھا، ظاہر میں احساس اور سماعت بیکار ہو گئی تھی، مہربانی و عنایت سے غیبی کلام سنا اللہ جل ذکرہ کا سلام بغیرکسی واسطہ کے سنا، آنکھوں نے فریاد کی مازاغ البصر وما طغی، یعنی وہ تجاوز جو دوسروں نے کیا ہے ہم نے نہیں کیا، ہم تنہا و بے بہرہ کیوں ہیں یہاں تک کہ او ادنیٰ کے مقام پر علم عین ہو گیا، مسافت اور فاصلہ درمیان سے اُٹھ گیا، نور ربوبیت نے پردوں کو چاک کر دیا، دل نے دیدہ جمال بے زوال کے آئینہ میں دیکھا الم ترالی ربک ، بصیرت و بصارت کا محل ہوا، ید رک الابصار کی خوشخبری سے نظر نے دیکھا۔

بارگاہ رب العزت میں
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس معنی کا مصداق یہ ہے کہ جب حق سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے اسی ہیبت اور دہشت سے نجات دی اس کی حمد و ثنا کرنے کاحکم ہوا، اور ایک روایت میں ہے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا، اور ایک روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے آواز دی: اے محمد ﷺ ! ثناءربک اپنے خدا کی ثناءکہو، مجھے یہ کہنے کا الہام ہوا، التحیات للہ والصلواة والطیبات، تمام زبانی مدح و ثناءبدنی طاعات و عبادات اور خدمات اور مالی خیرات و مبرات اور احسانات کو ان الفاظ میں جمع کر دیا اور آنحضرت ﷺ سے تصدیق کروائی، کہتے ہیں کہ یہ تین کلمات جوامع الکلم میں سے ہیں، اعمال خیر قولی ہوں یا بدنی ان سے خارج نہیں، جب آنحضرت ﷺ نے یہ ثناءاللہ جل شانہ کی خدمت میں پیش کی، حق سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب پر سلام نچھاور کیا، فرمایا: السلام علیک ایھا النبی ورحمة اللہ وبرکاتہ، آنحضرت ﷺ نے سلام کا جواب یوں دیا: السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین، جب ملکوت کے فرشتوں نے آنحضرت ﷺ کا یہ مرتبہ مشاہدہ کیا، سب نے یک زبان ہو کر ملکوت و جبروت میں غلغلہ انداز ہوتے ہوئے کہا: اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔ حق سبحانہ و تعالیٰ کا خطاب آنحضرت ﷺ کو عین مراجعت کے وقت پہنچا کہ اے محمد ﷺ ! جو شخص سفر سے لوٹتا ہے، اپنے دوستوں کے لیے کوئی ہدیہ لے آتا ہے ،آپ معراج کے سفر سے واپس جا رہے ہیں اپنی اُمت کے لیے کیا لے جا رہے ہیں؟ عرض کیا: جو بھی عنایت فرما دیں۔ فرمایا: جو کچھ آپ نے کہا، جو کچھ میں نے کہا اور جو کچھ فرشتوں نے کہا یہ آپ کی اُمت کے لیے ہدیہ ہے تا کہ وہ ہر نماز میں پڑھیں اور سعادت ابدی سے سرفراز ہوں۔

بیان آیت کریمہ امن الرسول
علمائے سیر اور جمہور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب خواجہ عالیماں ﷺ قرب الٰہی جل و علا پہنچے اور حق سبحانہ وتعالیٰ کا کلام سنا علم الیقین کے مرتبہ سے عین الیقین کے درجہ پر پہنچے اور ایمان غیبی ایمان شہودی میں تبدیل ہو گیا چنانچہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ جب خدا تعالیٰ نے جو کچھ خود بھیجا اور اپنے رسول کے ایمان کی گواہی دی، آنحضرت ﷺ نے اُمت کو بھی اپنے ساتھ ایمان میں شریک کیا، فرمایا: والمومنون ، اوریہ وہ مقام ہے جہاں سچی گواہی ہی دی جا سکتی ہے۔ حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف آپ کے متعلق شہادت کسی اور سبب پر محمول نہیں تھی۔ ایک روایت یہ ہے کہ حق سبحانہ ¾ نے سوال کیا امن الرسول یعنی وہ ایمان لے آیا؟ میں نے عرض کیا: والمومون کل آمن باللہ تا والیک المصیر۔ خطاب آیا: قد غفرت لک ولا متک۔ میں نے آپ اور آپ کی امت کو بخش دیا۔

پروردگار اور فرشتوں سے نبی کریم ﷺ کے راز ونیاز
۱۔اس سے مراد پانچوں نمازوں کی فرضیت ان کے فضائل اور ان پر ثواب ہے۔
2۔اس سے مراد سورہ بقر کی آخری آیات ہیں چنانچہ ان کی طرف پہلے اشارہ گزر چکا۔
3۔حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا رایت ربی فی احسن صورة ای صفة فقال یا محمد فبم یختصم الملٰئکة الملاءالاعلیٰ ، یعنی میں نے اپنے پروردگار کو بہترین صورت یعنی صفت میں دیکھا، مجھ سے خدا نے پوچھا: ملاءاعلیٰ اور عالم بالا کے باشندے کس گفتگو میں ہیں، میں نے عرض کیا: بارالٰہا ! تو بہتر جانتا ہے قوضع کفہ بین کتفی فوجدت بردھا بین ثدی، یعنی خدا تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھی اس سے خوشی و شادمانی کا اثر میں نے اپنے سینے میں محسوس کیا ، زمین و آسمان کے تمام مغیبات میرے سامنے منکشف ہو گئے، پھر فرمایا: یا محمد ھل تدری بما یختصم الملاءالاعلیٰ ، آپ کو کچھ علم ہے کہ فرشتے کیا کہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: خداوند ! کفارات کے متعلق باتیں کرتے ہیں یعنی وہ عبارت جو گناہوں کا کفارہ ہیں، پوچھا: کفارات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا : اسباغ الوصضو فی البردات ، والمشی بالاقدام الی الجماعات وانتظار الصلوٰة بعد اصلوٰة۔ فکارات تین چیزیں ہیں، موسم سرما میں اچھی طرح وضو کرنا اور عضو تک اچھی طرح پانی پہنچانا گناہوں کی مغفرت کا سبب ہے۔ دوم باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے پیدل جانا، تیسرا ہر نماز اداکرنے کے بعد دوسری نماز کا انتظارکرنا، ہر وہ شخص جو ان تین باتوں پر عمل کرے گا اس کی زندگی بہترین طریقے سے گزرے گی اور اس دنیا سے نیک نامی حاصل کر کے رخصت ہو گا، اس کے گناہ یوں معاف ہوں گے جیسے وہ آج ہی پیدا ہوا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مغیبات کا علم ہوا، پوچھا: فبم یختصم الملاءالاعلیٰ عرض کیا: فی الکفارات والمنجیات والدرجات والمھلکات، حق سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: صدق عبدی ، پھر حق سبحانہ وتعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا: اے فرشتو تمہیں مشکل کشا مل گیا، جو بھی مشکل سوال ہے آپ سے پوچھو: حضرت اسرافیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور پوچھا: یا محمد مالکفارات ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اسباغ الوضو فی البردات ومشی الاقدام فی الجماعات وانتظار الصلوٰة بعد الصلوٰة ، حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: صدقت یا محمد ﷺ ، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور پوچھا: مالمنجیات یا محمد ﷺ ، جو بندے کو عذاب الٰہی سے نجات دیں کونسی ہیں، خواجہ عالم ﷺ نے فرمایا: خشیة اللہ تعالیٰ فی السروا لعلانیہ والقصد فی الفقرو الغناع والعدل فی الغضب والرضائ۔پوشیدہ اور اعلانیہ خدا تعالیٰ سے ڈرنا، فقیر اور تونگری میں میانہ روی اور ناراضگی اور خوشی میں انصاف کرناحق سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: صدقت یا محمد ﷺ ۔

پھر میکائیل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور پوچھا ماالدرجات، یعنی وہ چیز جس کی بدولت بندے کے اعمال بلند ہوں، کیا ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اطعام الطعام واجہار السلام و الصلوٰة بالیل والناس ینام۔ حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: صدقت یا محمد ﷺ ۔

اس کے بعد حضرت عزرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور پوچھا: یا محمد ﷺ ! ماالمھلکات ؟ بندوں کو ہلاک کرنے والی کیا چیزیں ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: شح مطاع وھوی متبع واعجاب المرع بنفسہ۔ یعنی وہ بخیل جس کی لوگ اطاعت کریں، جو کچھ بخل انہیں کہے اس پر عمل کریں۔ نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا اور خود کو نیک سمجھنا، حق سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: صدقت یا محمد ﷺ ۔

منقول ہے کہ ان چاروں مسائل میں یہ چار فرشتے چار ہزار سال سے بحث کر رہے تھے اور ان کا جواب نہیں مل رہا تھا اس رات آنحضرت ﷺ سے تعلیم حاصل کی اور ان کی حقیقت سے آگاہ ہوئے، کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو معراج پر لے جانے کا یہی سبب تھا۔

راوی کا بیان ہے کہ سات سو مرتبہ سوال ہوا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے عرض کیا، اُمت ۔ فرمایا: کب تک مانگتے رہو گے؟ عرض کیا: خدا وند! مانگنے والا میں ہوں اور ہر چیز اور ہر شخص کو بخشنے والے آپ ہیں۔ خطاب آیا اگر تمام کو آپ کے سپرد کر دوں تو میری رحمت کا اظہار ہو گا اور آپ کی عزت نہیں رہ جائے گی، امت کا ایک حصہ آپ کو بخشتا ہوں اور دو حصے قیامت کے روز جب آپ خواہش کریں گے بخش دوں گا تا کہ میری رحمت بھی ظاہر ہو اور آپ کی عزت بھی معلوم ہو جائے۔

ایجاب نماز و روزہ:
جب فاوحیٰ الی عبدہ ماوحیٰ کے اسرار بیان ہوئے اور بہت سے کلمات اور حالات بیان ہو چکے تو خطاب آیا: اے محمد ﷺ ! آپ اور آپ کی امت پر یہاں ایک خدمتگار مقرر کرتا ہوں، دن رات میں پچاس وقت نماز ادا کریں، ایک سال میں چھ مہینے روزے رکھیں۔ میں نے عرض کیا: خدایا تخفیف فرمائیے۔ ہر درخواست پر پانچ نمازیں کم کی جاتی رہیں یہاں تک کہ پانچ نمازیں اور ایک ماہ کے روزے باقی رہ گئے۔ لیکن ان پانچ نمازوں اور ایک ماہ کے روزوں کاثواب پچاس نمازوں اور چھ ماہ کے روزوں کے برابر ہی دیاجائے گا۔ پھر فرمایا جو شخص میرے لاشریک اور یگانہ ہونے کا اقرار کرے گا اور کسی کو میرا شریک نہیں ٹھہرائے گا، جنت اسی کے لیے ہے اور جو شخص میری وحدانیت کا اقرار نہیں کرے گا اور شرک کرے گا ، دوزخ کی آگ اسی کے لیے ہے اور اس پر جنت حرام کر دوں گا، اے محمد ﷺ ! سبقت رحمتی علی غضبی فی امتک، یعنی میری رحمت میرے غضب پر آپ کی اُمت کے متعلق سبقت لے گئی۔ اے محمد ﷺ ! آپ میرے نزدیک تمام مخلوقات سے زیادہ بزرگ ہیں، قیامت کے روز میں آپ کو ایسے ایسے اعزازات دوں گا کہ تمام مخلوق تعجب کرے گی، کیا آپ جو کچھ میں نے آپ اور آپ کی امت کے لیے تیار کیا ہے دیکھنا چاہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: ہاں یا اللہ۔رب الارباب کا خطاب مستطاب اسرافیل علیہ السلام کو بلایامیرے بندے اور امین سے کہو کہ بہشت میں جو کچھ میں نے محمد ﷺ اور آپ کی امت کے لیے مہیا کیا ہے دکھائے اور آپ کی خاطر مبارک کو غم سے آزاد کرے۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 113689 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.