کیا یہ اُردو زبان کی ترقی ہے؟

جی ہاں! یہ سچ ہے کہ خیالی پلاﺅ سے پیٹ نہیں بھرتا اور خیالی کھچڑی سے ترقی نہیں ہوتی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جھوٹ ناقابل یقین ہوتی ہے لیکن سچائی جھوٹ سے بھی زیادہ ناقابل یقین ہوتی ہے۔

اردو زبان کے تعلق سے ابھی تک خوش کن جملے زباں زد عام ہے۔ انہی جملوں کے ذریعہ چاہے ہندوستان میں اردو کا بدلتا ہوا منظر نامہ پیش کیا جائے یا ذرائع ابلاغ کی وسعت کے گن گائے جائیں۔ دیگر زبانوں کی طرح اردو اخبارات کے بھی کئی ایڈیشن شائع ہو رہے ہیں۔ کتابیں دھڑا دھڑ شائع ہو رہی ہیں۔ اردو صحافت اور اخبارات بھی اب مقابلہ آرائی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سب چیزیں اطلاعاتی تکنیک میں بہتری کی وجہ سے ہوئی ہیں نہ کہ صحافتی سوچ میں بہتری کا نتیجہ ہیں۔کمپیوٹر تکنیک اور اطلاعاتی تکنیک کی وجہ سے آج صرف پیش کش (Presentation)بہتر ہوئی ہے جس کی وجہ سے اخبارات و رسائل اور کتابیں خوبصورت دکھائی دے رہی ہیں۔ معیاری اعتبار سے ہندوستانی فلموں سے زیادہ دیرپا نہیں ہیں۔ ہمارے بچپن کے زمانے میں کئی فلمیں ایسی ہوتی تھیں جو مہینوں سنیما ہالوں میں ٹکی رہتی تھی۔ آج ہفتہ دو ہفتہ میں اُتر جاتی ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ اب نہ کہانیوں میں دم ہوتا ہے نہ گانوں میں کشش، نہ تفریح کے برجستہ و پرظرافت جملے۔ دکھائی دیتا ہے تو زیادہ ننگے جسم کی نمائش۔ یہی حالت اردو زبان کی ہے۔ اخبارات رنگین چھپنے لگے۔ کتابوں کے ٹائٹل رنگین امیج کے ساتھ شائع ہونے لگے۔ علم اور اطلاع پہنچانے کے نام پر غلطیوں سے پُر کتابیں، بے ربط الفاظ و جملوں سے پُر اخبارات ہم اردو والوں کو وافر مقدار میں مل رہیں ہیں اور چند ہی مہینوں میں ردی کا ڈھیر بن جارہی ہیں۔ ہاں یہاں خوشی کی بات ہے کہ کم از کم اس معاملے میں تو مسلم قوم کو شکایت نہیں۔ ورنہ وہ تو ہر میدان میں شاکی نظر آتی ہے۔ کبھی حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔ کبھی مسلم لیڈروں کو بکاہوا سرکاری پٹھو قرار دیتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

گرچہ پرانی کتابوں کا کمپیوٹرائزیشن کا عمل بہت تیزی میں ہو رہا ہے لیکن دو بنیادی خامیوں پر اب بھی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ وہ اردو کی ابتدائی درس و تدریس اور خط کی توسیع و تشریح۔ خط ہے کیا؟ طرزِ تحریر کیا ہوتی ہے؟ یہ کتابیں یہ اخبارات ہم تک کیسے آتی ہیں۔ مشینی کتابت اور دستی کتابت میں موافقت کیوں نہیں ہے؟ کیا یہ موافقت ممکن ہے؟ وغیرہ۔ املا کے بارے میں بالکل بے توجہی برتی جارہی ہے خاص طور پر بچوں کی کتابوں میں، جس کی وجہ سے موجودہ نسل اردو لکھنے میں زیادہ غلطیاں کر رہی ہیں۔ اکثر بڑے ادارے اپنا ایک الگ املا استعمال کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مسئلوں کا کیا حل ہے؟ ان مسئلوں کا حل تو سرکاری و غیر سرکاری طور پر ان اداروں کو پیش کرنا چاہئے جو اردو کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بلکہ انہیں ہی عملی اقدام بھی کرنا چاہئے۔ اب وہ زمانہ آچکا ہے کہ اردو اشاعت بھی 99فیصد کمپیوٹر تکنیک کا مرہون منت ہے۔اور دستی کتابت مفقود ہو چکا ہے۔ لہٰذا ان حالات میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کمپیوٹر تکنیک کو بہتر بنایا جائے تاکہ اردو زبان بہتر طریقے سے فروغ پائے۔

ہمارے ملک میں جو کمپیوٹر تکنیک کے ذریعے اردو کا کام ہوا ہے اور جن لوگوں نے کیا ہے، اُن کی نہ تو سرکاری سطح پر پذیرائی کی گئی اور نہ یہ غیر سرکاری سطح پر۔ یہاں پر بھی کیوں اور کیسے کا سوال پیدا ہو رہا ہے۔ تو اب جو باتیں میں بتاتے جارہا ہوں اُسے ہمارے ملک کے بیشتر دانشور ”اپنے منھ میاں مٹھو“ بننے والا محاورہ بتائیں گے یا یہ کہ اُس شخص کی کیا بساط کہ اُردو کا اتنا بڑا کام کر سکے؟ ؟ ؟

اِن پیج اُردو بن جانے اور بازار میں آنے کے بعد راقم الحروف نے کئی بار اُس کا تعارف اردو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ روز بروز اِن پیج فروغ پاتا رہا یہاں تک کہ اب وہ ہر اردو ادارے کے کمپیوٹر میں موجود ہے۔ خواہ اصلی ہو یا نقلی (Pirated)۔ اب تک کا یہ واحد اُردو کا پیکیج ہے جو سب سے لمبے عرصہ سے اردو دنیا کی کمپیوٹر کا زینت بنا ہوا ہے۔ (گذشتہ بنے ہوئے سافٹ ویئر کیوں دیرپا ثابت نہیں ہوئے وہ عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے اور اس کا جواب میں پہلے کے مضامین میں دے چکا ہوں) لیکن اب پھر سے سوال اٹھنے لگا ہے کہ کسی ان پیج میں Find کام نہیں کر رہا ہے تو کہیں حروف گڈ مڈ آرہے ہیں، ڈاکومنٹ کرپٹ ہو رہے ہیں۔ PDFنہیں بن رہی ہے اور سب سے بڑی دشواری یہ کہ موجود ہارڈویئر اور پلیٹ فارم سے موافقت نہیں کر رہا ہے۔ موجودہ نیا ورزن 3.0جو بازار میں آیا اس کے بارے میں بیشتر لوگوں کی یہ شکایت ہے کہ ہمارے ڈاکومنٹ اس میں خراب ہو جارہے ہیں۔ جتنا پہلے ہو جاتا تھا اتنا بھی صحیح طریقے سے نہیں ہو پارہا ہے۔ بہت سے خطوط جو پہلے تھے وہ اب نہیں ہیں۔ عربی کا کام مناسب طریقے سے نہیں ہو پارہا ہے۔ ان کا حل کیا ہو؟ ان سوالوں کا جواب یا تو کمپنی کو دینا چاہئے یا پھر اردو کے ان اداروں کو جنہوں نے اردو زبان کے فروغ دینے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ میں یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ اب تک ان پیج اردو کیسے فروغ پاتا رہا ہے؟

بات اُن دنوں کی ہے جب خطاطی اور کمپیوٹر میں زور آزمائی چل رہی تھی۔ یعنی خطالوں کے کام پر کمپیوٹر سے بنی تحریر کو فوقیت دی جارہی تھی۔ جبکہ اس وقت شاہکار اور پیج کمپوزر جیسے کمپیوٹرپروگرام کے ذریعہ اردو زبان کی آبیاری کی کوشش جاری تھی۔ سیکھے ہوئے فن کے بیکار ہونے کا غم اور روزگار کی تنگی نے مجھے دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا۔ غالب اکیڈمی نئی دہلی سے ٹائپنگ اور مختصرنویسی سیکھ چکا تھا اور کام کی تلاش بھی جاری تھی اور مختلف دفاتر کے چکر کاٹ رہا تھا کہ ایک شخص نے تھوڑا سا ٹائپنگ کا کام بتا کر پتا اور فون نمبر دیا۔ میں نے رابطہ کرکے ان سے ملاقات کی۔ ان کے حوالے سے ہی میں نے PCکو قریب سے دیکھا۔ پندرہ روز کام کرنے کے بعد وہ اس پروجیکٹ کو لے کر یوکے (UK) چلے گئے۔ پھر چار ماہ کے بعد ان سے ملاقات ہوئی اور باضابطہ کام چلنے لگا اور کمپیوٹر کی تکنیک بھی مجھے سمجھ میں آنے لگی۔ وہ دو سافٹ ویئر انجینئر تھے جناب آر پی سنگھ اور جناب وی کے گپتا۔ ان کی مہربانیوں سے اور اپنی محنت سے ہم نے ان پیج اردو کی شکل میں ایک سافٹ ویئر اگست 1995ءمیں بازار میں پیش کیا۔ اُس وقت اس میں اردو لکھنے کے لئے یا اخبار بنانے کے لئے صرف ایک نستعلیق خط ”نوری نستعلیق“ موجود تھا۔ یہ خط احمد مرزا جمیل کی محنت کا ثمرہ ہے جسے انہوں نے جامعہ ہمدرد، نئی دہلی، ہندوستان میں 1982ءمیں تعارف کرایا تھا۔ لیکن اسے مقبولیت ان پیج اردو کے ذریعہ حاصل ہوئی۔ واضح ہو کہ ان پیج اردو سافٹ ویئر کا لے آﺅٹ ڈیزائن مکمل طورسے نئی دہلی ہندوستان میں ہی ہوا۔ ان پیج اردو کے ذریعہ ہی آج خواہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا سب اسی کی بدولت اپنی چمک و دمک دکھا رہے ہیں۔

نوری نستعلیق کے متعلق پاکستان میں خوب تشہیر ہوئی۔ احمد مرزا جمیل کے کاموں کے بدلے حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ رسالوں نے ان کے کاموں پر خصوصی نمبر شائع کئے ایک انٹرویر میں آنجناب نے فرمایا تھا ”آج کی ضرورت کے پیش نظر مجھ سے جو ہو سکا میں نے کر دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مکمل ہو گیا، اس میں مزید ترسیمے بڑھائے جاسکتے ہیں اور آئندہ جو بھی اور جیسی بھی ضرورت ہوگی، لوگ اس پر کام کریں گے۔“ مجھے بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ انہوں نے فن کی توسیع کے لئے وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا۔ میں نے بھرپور طریقے سے اردو کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پیج اردو کے لئے محنت کی اور دوسری زبانوں کے ہم پلہ کھڑا کیا۔ میں نے گذشتہ چودہ سالوں میں ان پیج کے لئے کیا کیا؟ اس کی وضاحت میں قطعی طور پر یہاں نہیں کروں گا۔ بس مختصراً یہ بات ضرور بتاﺅں گا کہ ان پیج اردو ورزن 1.0سے ورزن2.96تک اردو کے کام کی جو بھی ضرورت ہوئی وہ ہم نے پوری کی ہے۔ نوری نستعلیق کے علاوہ نسخ طرز تحریر کے 75خطوط اس میں موجود ہیں، جس میں بیالیس خط میرے ڈیزائن کئے ہوئے ہیں۔ نوری نستعلیق میں کشش، بولڈ اور بولڈ کشش میرے ذریعہ بنائے گئے۔ اصل خط نوری نستعلیق میں ضرورت کے تحت دو ہزار سے زائد ترسیمے میں نے ہی بڑھائے۔ اس کو بنانے میں سب سے بڑی خوبی یہ رہی کہ میں نے احمد مرزا جمیل کی طرز تحریر کو ہی ذہن میں رکھ کر ترسیمے تیار کئے یا بولڈ اور کشش بنانے کا کام کیا۔ ان پیج اردو سیکھنے کے لئے اردو میں مینوول میری محنت کا نتیجہ ہے۔ اب تک اس کے جتنے بھی ایڈیشن شائع ہوئے سب میری محنت کا حصہ ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اپنے کمپیوٹر مراکز میں ان پیج اردو سکھانے کے لئے جو کتاب طلباءکو دیتی ہے وہ اصل مینول کی کاپی ہے۔ ان سب سے علاوہ بہت سارے کام جو یہاں بیان کرنا بے کار ہے کیوں کہ عام آدمی کی سمجھ سے الگ ہے اور جس کو سمجھ میں آجائے اس کے نزدیک وہ کام ہی نہیں رہ جاتا۔ وہ ایسے کہ ابھی چند ماہ قبل ایک ریٹائرڈ پروفیسر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اردو کے تعلق سے ان کی کئی کتابیں میں پڑھ چکا تھا۔ جب میں نے ان سے اردو سافٹ ویئر کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اپنی قابلیت سے مجھے مرعوب کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ان پیج کے بارے میں انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ لندن کی ایک کمپنی کی تخریج ہے۔ ہندوستان یا پاکستان کا بنا ہوا نہیں ہے۔ جب میں نے بتایا کہ یہ سافٹ ویئر ہندوستان میں بنا ہے اور اس کے بنانے والے یہیں دہلی میں موجود ہیں۔اور ان پیج بنانے والوں میں سے ایک میں بھی ہوں۔ بقول پروفیسر موصوف اردو حروف کو سب سے پہلے کمپیوٹر میں میں نے (انہوں نے) 1985میں ڈالا، C-Dacکے تعاون سے۔ مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے ان پیج میں کیا کیا؟ تو میں نے اوپر ذکر کردہ باتوں میں سے یہ کہا کہ فونٹ اور ترسیمے میں نے بنائے ۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ کام تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ فونٹ کو چلتے پھرتے گھر میں بھی بن سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ جب فونٹ اتنی آسانی سے بن سکتا ہے تو آپ نے کیوں نہیں تیار کیا یا کرایا؟ اور آپ نے سب سے پہلے کمپیوٹر میں اردو داخل کیا تھا وہ کیا ہوا؟ وہ تو میں نے C-Dacکو دے دیا تھا ”ناشر‘ ‘ بنابھی اس کے بعد گول مول جواب دیتے ہوئے اس موضوع سے ہٹے اور مجھے زبانی امریکہ کے کئی شہروں کا دورہ کرایا۔ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے Cafeمیں بیٹھ کر صبح کا ناشتہ کیا۔ اس کے بعد ان کو بھی سیمینار میں شامل ہونا تھا تو ہم دونوں اپنی ذمہ داری میں لگ گئے۔

اب تک ہم نے صرف دس فیصد ہی کا ذکر کیا ہے جو ان پیج کے لئے کیا۔ باقی باتیں دیوانے کی بڑ معلوم ہوں گی۔ لہٰذا غیر واضح امور کو میں اردو کو فروغ دینے والی تنظیموں اور گھر بیٹھے بنانے والے افراد کے لئے چھوڑ رہا ہوں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ آسان کام جو کوئی بھی گھر پر بیٹھ کر کرسکتا ہے یا کوئی بھی پروفیسر یا اردو داں کر سکتا ہو تو کتنے عرصہ میں پھر یوزر فرینڈلی بنا کر پیش کریں گے؟؟؟

مضمون نگار: اردو آئی ٹی ماہنامہ ”نئی شناخت“ کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
Feroz Hashmi
About the Author: Feroz Hashmi Read More Articles by Feroz Hashmi: 3 Articles with 2773 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.