احساس کی موت

اس تالابندی میں بھی ہم بے غیرت مرد لوگ گھر میں بیٹھے بیٹھے اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب ہماری ماں، بہن یا بیوی ہمارے لئے کھانا پکائے پھر پیش کرے ،برتن دھوئے ،کپڑے دھوئے اور پھر استری بھی کرے، ہمارے نہانے کا بندوبست کرے، سحری افطاری کا بھی انتظام کرے. اتنا ہی نہیں یہ سب کام کروانے کے بعد بھی اگر کسی کام میں زرا سی کمی رہ گئی ہو ،کھانے میں نمک کم زیادہ ہوگیا ہو تو آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں.ہم پہ یہ سوچنا جیسے حرام ہے کہ وہ کتنی سختیاں جھیلتی ہے، سب کے لئے پکا کر سب کو کھلا کر سب سے آخر میں کھالیتی ہے، سب سے آخر میں سوتی ہے سو کیا جاتی ہے یوں کہو کہ لیٹ جاتی ہے، صبح پھر سب سے پہلے اٹھتی ہے پھر سے کاموں کا انبار سامنے ہوتا ہے اور لگ جاتی ہے بیچاری دل لگا کر اپنے کام پر. کمر دکھ رہا ہے، سر میں درد ہے، طبیعت خراب ہے ،کام پھر بھی چلتا رہتا ہے، اس کے بعد ہم بے غیرتی کے پتلے آن پڑتے ہیں، "لاو بھئی بہت بھوک لگ رہی ہے کچھ پکایا بھی کہ نہیں"، اگر زرا انتظار کرنا پڑے تو ہمارے اندر آگ کی بھٹی دھکنے لگتی ہے، غصہ نکالنے کے لئے حالات اگر مناسب لگیں تو نکال بھی دیتے ہیں_ یہ بیچاری سن کر اگر رونا بھی چاہے تب بھی نہیں روتی. بڑے آرام سے کھانے کا برتن اٹھا کر ہمارے سامنے رکھتی ہے کوئی عکس العمل نہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں. اگر اسی سخت لہجے میں یہ ماں بیوی بہن ہمارے ساتھ بات کرے تو ہماری مردانگی وجد میں آجاتی ہے اور طوفان مچا دیتے ہیں.

خیر ہم نے کھانا کھایا، بڑے اچھے اور لزید غذائیں تھیں. بڑا مزہ آیا. ہاتھ دھو کے ہم دیوار کے ساتھ لمبی تان دیتے ہیں اور ٹیلی ویژن یا موبائل کو تکنے لگتے ہیں.

ہماری بے غیرتی کی انتہا تب ہوجاتی ہے جب ہم کام نہ کرکے بھی ہماری خدمت کرنے والے کو کم سے کم شکریہ کا ایک لفظ تک نہیں کہتے اور ہمت افزائی نہیں کرتے. دراصل ہم چلتی پھرتی لاشیں ہیں. جس شخص کا احساس مرچکا ہو، جس کی حس ختم ہوچکی ہو اسے بھلا کیسے زندہ کہا جا سکتا ہے؟؟؟

اب کرنا کیا ہے اس کی سمجھ ہمیں خوب ہے لیکن پھر بھی نہیں کریں گے. کیوں.؟ کیونکہ ہمارا احساس مر چکا ہے. فقط وہی کر پائے گا جس کا احساس زندہ ہے یا اسے زندہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے _ یہ عورت کوئی رابوٹ نہیں بلکہ انسان ہے بلکہ مرد کے بہ نسبت بہت نحیف و نازک ہے جلدی تھکن محسوس کرتی ہے، جلدی ٹوٹ جاتی ہے، زرا سی بات بھی اس کے دل کو توڑ دیتی ہے_ چہ جائیکہ جب مرد معمولی بات پر جنگلی بھیڑئے کی طرح دھاڑنے لگتا ہے اور ہنگامہ مچاتا ہے تو اس وقت یہ بالکل ہی بکھر جاتی ہے. لیکن خدا نے اسے صبر کی عظیم نعمت دی ہے دوبارہ اپنے بکھرے ہوئے پرزوں کو سمیٹتی ہے اور دوبارہ اٹھ کھڑی ہوکر ہم بے غیرتوں کی خدمت کرتی ہے.
 

Dr. Yawar Abbas Balhami
About the Author: Dr. Yawar Abbas Balhami Read More Articles by Dr. Yawar Abbas Balhami: 11 Articles with 15656 views MIR YAWAR ABBAS (BALHAMI)
(میر یاور عباس بالہامی )
From Balhama Srinagar, Jammu and Kashmir, IND
Ph.D Persian from Aligarh Muslim Universi
.. View More