جواب کون دے گا؟

قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے سچ ہی کہا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد ہمارے حکمران ”تخلئے“ میں ہیں اور تمام کی تمام پالیسی جی ایچ کیو ہی کی جانب سے سامنے آرہی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فوج بھی حکومت کا ماتحت ادارہ ہے اور اس کی جانب سے سامنے آنے والی باتیں بڑی حد تک حکومت ہی کی ترجمانی کر رہی ہوتی ہیں لیکن اتوار اور پیر کی رات جو کچھ ہوا اس پر سیاسی قیادت کا نکتہ نظر ضروری تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور جمہوری حکمرانوں کی پر اسرار خاموشی شکوک و شبہات کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ملک کے سپریم کمانڈر ہیں۔ اس نسبت سے آصف علی زرداری کو قوم کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اٹھائے جانے والے سوالوں کا بھی منہ توڑ جواب دینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور انجانی مجبوریوں نے انہیں مسلسل زبان بندی پر مجبور کر رکھا ہے۔ قومی میڈیا پر مکمل خاموشی اور عالمی اخبارات میں مضامین کے ذریعے اپنے خیالات کے اظہار کی صدارتی روش نے ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی امریکی تابعداری کی انتہاء کے تاثر کو بڑی حد تک ثابت کر دیا ہے۔صدر تو دور کی بات ان کے کسی مشیر یا ترجمان کو بھی صورت حال کی وضاحت کی توفیق نہیں ہوئی۔

صدر کے بعد وزیراعظم ملک کی سب سے بڑی شخصیت ہیں لیکن اس سارے ڈرامے کے دوران ان کا کردار بھی خاصا مشکوک اور مبہم رہا ہے۔ آپریشن پر مکمل خاموشی میں وہ تو صدر مملکت کو بھی پیچھے چھوڑ گیئے ہیں جبکہ امریکی کاروائی کے عین بعد فرانس روانگی نے بھی ان کی ”حب الوطنی“ ثابت کر دی ہے۔ بیرونی دورہ زیادہ اہم تھا یا پھر ملکی سلامتی کے تقاضے؟ اس سوال کا جواب ہر حکومتی نمائندے کی جانب سے نہ صرف گول کیا جارہا ہے بلکہ ٹاک شوز میں شرکت کرنے والے حکومتی حامی اس دورے کے ”فضائل“کو ملکی خود مختاری پر بھی ترجیح دیتے دکھائی دیتے ہیں۔اس دورے کا سب سے بڑا جواز پہلے دو مرتبہ التواء کو قرار دیتے ہوئے سفارتی آداب کی پابندی کو قرار دیا جارہا ہے لیکن حقیقت یہی ہے بلی کو آتا دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کرنے کے مصداق یہ دورہ صورتحال سے فرار ہی تھا۔ اور وزیراعظم کے بعد وفاقی کابینہ کے حوالے سے دیکھیں تو معاملے کا بنیادی تعلق وزیر دفاع سے ہے لیکن چودھری احمد مختار دو مئی سے منظر سے ایسے غائب ہیں جیسے”اس“ کے سر سے سینگ۔ معلوم نہیں یہ امریکہ کا خوف ہے یا پھر عوامی رد عمل کا ڈر کہ دفاع کے ذمہ دار وزیر خود دفاعی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہیں۔ احمد مختار کے بعد وزیر اطلاعات تھوڑی سی سرگرم ہیں لیکن ایوان بالا میں امریکی کاروائی کے حوالے سے پالیسی بیان کے دوران ہونے والی ہزیمت کے بعد ان کا ”جوش“ بھی جواب دے چکا ہے۔وزیر داخلہ رحمن ملک جو ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے کے حوالے سے پہنچانے جاتے ہیں بھی اپنی پر اسرار اور انتہائی غیر متوقع خاموشی کے سبب مخالفین کی شدید تنقید کی زد میں ہیں۔

حکومت کے بعد اپوزیشن حب الوطنی کی ٹھیکیدار بنتی ہے لیکن اس سارے رام رولے میں اب تک ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کی جانب سے کوئی باقاعدہ رد عمل سامنے آیا ہے اور نہ ہی حکومت سے اس حوالے سے کوئی مطالبہ، چودھری نثار علی خان شور مچا رہے ہیں لیکن ان کے بیانات کو ن لیگ کی آواز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ جس طرح سربراہ مملکت ہونے کے ناطے صدر اور پھر وزیر اعظم کو اس انتہائی اہم نوعیت کے معاملے میں خود بولنا چاہیے تھا اسی طرح ن لیگ کے سربراہ کی حیثیت سے ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کا باقاعدہ بیان سامنے آنا چاہیے تھا جو تاحال دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ ن لیگ کے بعد ایم کیو ایم بھی اس حوالے سے مکمل خاموش ہے اور ٹریفک حادثات میں ہلاکتوں تک پر اظہار تعزیت کے بیانات جاری کرنے والے الطاف حسین کا ملکی سلامتی کے معاملے پر فون مکمل ”خاموش“ دکھائی دے رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی ارض وطن سے محبت کا اظہار کرتے نہیں تھکتے لیکن ایبٹ آباد آپریشن پر ان کے خون نے جوش مارا اور نہ ہی ہماری سرحدوں میں ہونے والے حملے نے ان کے لیے کوئی تحفظات پیدا کئے۔

حکومت اور اپوزیشن کی خاموشی کے سبب امریکی کاروائی کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات جوں کے توں ہیں۔ان میں سے کچھ سوال ایسے ہیں جن کے جواب تو سامنے آئے ہیں لیکن تشنگی نہیں بجھی، اور کچھ جواب سن کر اگر تشنگی بجھی بھی ہے تو ساتھ ہی مزید سوال پیدا ہوگئے ہیں۔پہلا سوال جو ابھی تک واضح جواب کا متقاضی ہے وہ یہ ہے کہ آیا امریکہ نے پاکستان کی سیاسی اور بالخصوص فوجی قیادت کو اس کمانڈو ایکشن کے بارے میں پہلے سے آگاہ کیا تھا یا نہیں۔امریکہ کہتا ہے کہ اس نے پاکستان کو بتایا تھا لیکن کاروائی مکمل ہونے کے بعد۔پاکستان کا دفترِ خارجہ کہتا ہے کہ یہ پوری کی پوری امریکی کاروائی تھی لیکن پاکستان کے وزیرِ اعظم یوسف رضاگیلانی کہتے ہیں کہ یہ کاروائی لوکل انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہوئی یعنی اس میں پاکستانی شریک تھے جبکہ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ سی آئی اے کے لیے کام کرنے والے پاکستانیوں نے اسامہ کی تلاش کے دوران مدد فراہم کی اور یہی متضاد دعوے ابہام کی سب سے بڑی وجہ ہیں ۔

پاکستان کو اس کاروائی کا علم ہی نہیں تھا تو کیا پاکستان فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ان ہیلی کاپٹرز کے بارے میں پاکستان کو پتہ بھی چلا یا نہیں؟ اگر پتہ چلا تو اسے روکنے کے لیے پاکستان نے کچھ کیا یا نہیں؟ اور اگر کچھ کیا تو کس وقت؟اگر پاکستان کو پہلے سے نہیں بتایا گیا تھا تو کیوں؟اور اگر امریکیوں نے پاکستان کو اس کاروائی کے بارے میں پہلے سے آگاہ کیا گیا تھا تو کس سطح پر؟جیسے سوالات بھی عوام کے ذہنوں میں چبھ رہے ہیں لیکن جواب دینے والے ہیں کہ خود سوال بنے ہوئے ہیں اور یہی صورتحال ایک اور سوال کو جنم دے رہی ہے کہ اگر ایسا ہی رہا تھا قوم کو جواب کون دے گا؟
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54246 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.