دستور یہاں بھی گونگے ہیں

کچھ دن پہلے میرے ایک جاننے والے سے ملاقات ہوئی۔ وہ میرے ٹیچر ہیں ۔ کچھ وقت پہلے انہوں نے اپنا ماسٹرپورا کیا گھریلو حالات کی وجہ سے و تعلیم جاری نہیں رکھ سکے لیکن انھوں نے جاب تلاش شروع کردی، لیکن افسوس گورنمنٹ کے لیول پر ایم اے پاس ڈگری ہونے کے باوجود بھی پورا نہیں نوکری نہیں ملی آخر اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے انہوں نے ایک لوکل پرائیویٹ سکول میں پڑھانا شروع کردیا ،لیکن وہاں پر اتنی تنخواہ نہیں تھی کہ وہ اپنے گھرکو چلا سکے لیکن مجبوری تھی اس کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے اور گورنمنٹ تو اس طرح ایم اے پاس لوگوں کو تو جاب دینے سے رہی۔

لیکن اب مجودہ صورتحال میں لاکر ڈاؤن ہونے کی وجہ سے اور تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے ان کا یہ ذریعہ معاش ہاتھ سے نکل گیا جو لوگ گورنمنٹ اداروں کے ملازم اور سکولوں کے ٹیچر ہیں میں انہیں تو چھٹیاں ہونے کے باوجود تنخواہ مل رہی ہے، لیکن ان غریب جوانوں کو جو پرائیویٹ سکولوں اور پرائیویٹ اداروں میں جاب کرکے اپنا گزر بسر کر رہے تھے اب وہ بالکل بے روزگار ہوگئے ہیں۔ کرونا کی پریشانی تو ایک طرف وہ اسی بات پر پریشان ہیں کہ گھر کیسے چلائیں اورپیٹ کیسے بھریں۔ حکومت نے احساس پروگرام کے تحتغریبوں کو بارہ ہزار روپے دینے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ غربت کا مارا جوان جب پیسے لینے جاتا ہے تو یہ کہے کر خالی ہاتھ واپس نے بھیج دیا جاتا ہے کہ تمہارے باپ کا اتنے سال پہلے ایک بینک اکاؤنٹ تھا۔

یہ کونسی نئی بات ہے پتہ نہیں ہمارے ملک میں کتنے نوجوان ڈگریاں لے کر گھوم رہے ہیں جن کو نوکری نہیں ملتی ۔ میرا سوال ہے کہ ان کے ساتھ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ؟جو بڑے بڑے آفیسرز کے سامنے اپنی درخواست اور فائل لے کر کھڑے ہیں ان کی فریادی کیوں نہیں سنی جاتی؟

اس میں ان کی کوئی اتنی اپنی ذاتی وجہ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ناکام ہو رہے ہیں بلکہ خرابی تو ہمارے معاشرے کے سسٹم میں ہے۔ ایک ایسا سسٹم جس میں نوجوان بار بارایک در کو کھٹکھٹا کر اپنی ہی نظروں میں گرتے جارہے ہیں ہم ایسے معاشرے میں کھڑے ہیں جہاں انسان سے زیادہ چیزوں اور پیسوں کی اوقات ہے۔ معاشرے کے اس سسٹم کو سسٹم نہیں چکر کہتے ہیں جو کہ غریب لوگوں کو لگائے جاتے ہیں۔

کبھی کبھی میں بھی سوچتی ہوں کہ میں اور دوسرے نوجوان پڑھنا کیوں نہیں چھوڑ دیتے اور جو لوگ سی ایس ایس کے امتحان دے کر پاس ہو گئے بڑے آفیسرز بنتے ہیں، وہ اتنی بڑی پوسٹ ہونے کے باوجود بھی رشوت لیتے ہیں۔ اتنی بڑی تنخواہ ہونے کے باوجود انہیں مارکیٹوں میں خریداری کرتے وقت اور بل یا کسی بھی معاملے میں ٹیکس نہیں لگایا جاتا۔ ارے بھائی بڑے لوگ ہیں کہیں یہ ہمیں بڑے بڑے ٹیکس نہ لگا دیں ۔آخر اگر پڑھ لکھ کرچور ڈاکو ہی بننا ہے تو ٹائم ضائع کرکے کیوں پڑھتے ہو سیدھے چور بن جاؤ ۔
کیا ڈگریاں لے کر درد پر دھکے کھانے والے نوجوانوں کا سوچنے والا ہمارے معاشرے میں کوئی ادارہ نہیں ؟

یا معاشرے کے سرمایہ دار طبقے کے لوگ حالات دیکھ کر بھی خاموش رہنا چاہتے ہیں۔ کیا ان کے اختیار یا ت ان سے تقاضا نہیں کرتے کہ وہ ان نوجوانوں کے لیے کچھ کریں؟ یا عیش و عشرت اور پیسے نے انہیں اندھا اور بہرہ کر دیا ہے ؟
کیا خوب لکھا ہے کسی نے

دستور یہاں بھی گونگے ہیں
فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے
ایمان یہاں بھی بہرے ہیں
 

zainab Arshad
About the Author: zainab Arshad Read More Articles by zainab Arshad: 5 Articles with 5155 views I am studying at Virtual University of Pakistan. I am student of Msc Zoology at vu... View More